سیرت النبی ﷺ کے جلسے اور جلوس
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الحمدﷲ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باﷲ من شرور انفسنا و من سیآت اعمالنا من یہدہ اﷲ فلامضل لہ و من یضللہ فلاہادی لہٗ۔ ونشہد ان لا الہ الا اﷲ وحدہٗ لاشریک لا لہ و نشہد ان سیّدنا و سندنا و نبینا و مولانا محمداً عبدہ ورسولہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و علی آلہٖ واصحابہ و بارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا۔ امابعد
فاعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ط
لقد کانا لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ لمن کانا یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
اٰمنت باﷲ صدق اﷲ مولانا العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم و نحن علی ذالک من الشاہدین و الشاکرین والحمدﷲ ربّ العالمین۔
آپ ﷺ کا ذکر مبارک
بزرگانِ محترم و برادران عزیز! نبی کریمﷺ کا ذکر مبارک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس روئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعث اجر و ثواب اتنا باعث خیر و برکت نہیں ہوسکتا جتنا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن تذکرہ کے ساتھ ساتھ ان سیرتِ طیبہ کی محفلوں میں ہم نے بہت سی ایسی غلط باتیں شروع کردی ہیں جن کی وجہ سے ذکر مبارک کا صحیح فائدہ اور صحیح ثمرہ ہمیں حاصل نہیں ہورہا ہے۔
سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرامؓ
ان غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہے کہ ہم نے سرکارِ دو عالمﷺ کا ذکر مبارک صرف ایک مہینے یعنی ربیع الاوّل کے ساتھ خاص کردیا ہے اور ربیع الاوّل کے بھی صرف ایک دن اور ایک دن میں بھی صرف چند گھنٹے نبی کریم ﷺ کا ذکر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کاحق ادا کردیا ہے، یہ حضورِ اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم سیرتِ طیبہ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری زندگی میں یہ بات آپ کو نظر نہیں آئے گی اور نہ آپ کو اس کی ایک مثال ملے گی کہ انہوں نے ۱۲؍ ربیع الاوّل کو خاص جشن منایا ہو۔ عید میلادالنبی کا اہتمام کیا ہو یا اس خاص مہینے کے اندر سیرتِ طیبہ کی محفلیں منعقد کی ہوں۔ اس کے بجائے صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکارِ دوعالمﷺ کے تذکرہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جہاں دو صحابہ ملے انہوں نے آپﷺ کی حدیث اور آپ ﷺ کے ارشادت آپ کی دی ہوئی تعلیمات کا، آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف واقعات کا تذکرہ شروع کردیا۔ اس لئے ان کی ہر محفل سیرتِ طیبہ کی محفل تھی۔ ان کی ہر نشست سیرتِ طیبہ کی نشست تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کو نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت اور تعلق کے اظہار کیلئے رسمی مظاہروں کی ضرورت نہ تھی کہ عید میلادالنبی منائی جارہی ہے اور جلوس نکالے جارہے ہیں، جلسے جلوس ہورہے ہیں، چراغاں کیا جارہا ہے۔ اس قسم کے کاموں کی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسلام رسمی مظاہروں کا دین نہیں
بات درحقیقت یہ تھی کہ رسمی مظاہرہ کرنا صحابہ کرام کی عادت نہ تھی وہ اس کی روح کو اپنائے ہوئے تھے۔ حضورِ اقدس ﷺ اس دنیا میں کیوں تشریف لائے تھے؟ آپ ﷺ کا پیغام کیا تھا؟ آپﷺ کی کیا تعلیم تھی؟ آپ ﷺ دنیا میں سے کیا چاہتے تھے؟ اس کام کیلئے انہوں نے اپنی ساری زندگی کو وقف کردیا۔ لیکن اس قسم کے رسمی مظاہرے نہیں کئے اور یہ طریقہ ہم نے غیر مسلموں سے لیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ غیر مسلم اقوام اپنے بڑے بڑے لیڈروں کے دن منایا کرتی ہیں اور ان دنوں میں خاص جشن اور خاص محفل منعقد کرتی ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہم نے سوچا کہ ہم بھی نبی کریمﷺ کے تذکرہ کیلئے عید میلاد النبی منائیں گے اور یہ نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کے نام پر کوئی دن منایا جاتا ہے درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کے تمام لمحات کو قابل اقتداء اور قابل تقلید نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ یا تو وہ سیاسی لیڈر ہوتا ہے یا کسی اور دنیاوی معاملے میں لوگوں کا قائد ہوتا ہے، تو صرف اس کی یاد تازہ کرنے کیلئے اس کا دن منایا گیا، لیکن اس قائد کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قابل تقلید ہے اور اس نے دنیا میں جو کچھ کیا، وہ صحیح کیا ہے، وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک تھا لہٰذا اس کی ہر چیز کو اپنایا جائے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے
لیکن یہاں توسرکارِ دوعالمﷺ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بھیجا ہی اس مقصد کیلئے تھا کہ آپ انسانیت کے سامنے ایک مکمل اور بہترین نمونہ پیش کریں، ایسا نمونہ بن جائیں جس کو دیکھ کر لوگ نقل کریں۔ اس کی تقلید کریں، اس پر عمل پیرا ہوں اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس غرض کیلئے نبی کریمﷺ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ ایک نمونہ ہے اور ایک قابل تقلید عمل ہے اور ہمیں آپﷺ کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی نقل اُتارنی ہے۔ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یہ فریضہ ہے لہٰذا ہم نبی کریمﷺ کو دنیا کے دوسرے لیڈروں پر قیاس نہیں کرسکتے کہ ان کا ایک دن منایا اور بات ختم ہوگئی بلکہ سرکارِ دوعالمﷺ کی حیاتِ طیبہ کو ہماری زندگی کے ایک ایک شعبے کیلئے اﷲ تعالیٰ نے نمونہ بنایا ہے اور سب چیزوں میں ہمیں ان کی اقتدا کرنی ہے ہمارا زندگی کا ہر دن ان کی یاد منانے کا دن ہے۔
ہماری نیت درست نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ سیرت کی محفلیں اور جلسے جگہ جگہ منعقد ہوتے ہیں اور ان میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کو بیان کیا جاتا ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ کام کتنا ہی اچھے سے اچھا کیوں نہ ہو۔ مگرجب تک کام کرنے والے کی نیت صحیح نہیں ہوگی جب تک اس کے دل میں داعیہ او رجذبہ صحیح نہیں ہوگا۔ اس وقت تک وہ کام بے کار، بے فائدہ ، اس کے دل میں بعض اوقات مضر، نقصان دہ اور باعث گناہ بن جاتا ہے۔ دیکھئے! نماز کتنا اچھا عمل ہے اور اﷲتعالیٰ کی عبادت ہے اور قرآن وحدیث نماز کے فضائل سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص نماز اس لیے پڑھ رہا ہے تاکہ لوگ مجھے نیک، متقی اور پارسا سمجھیں، ظاہر ہے کہ وہ ساری نماز اکارت ہے، بے فائدہ ہے، بلکہ ایسی نماز پڑھنے سے ثواب کے بجائے اُلٹا گناہ ہوگا۔ حدیث شریف میں حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
من صلی یرائی فقد اشرک باﷲ۔ (مسند احمد۔ ج۔۴، ص۔۱۲۶)
’’جو شخص لوگوں کودکھانے کیلئے نماز پڑھے تو گویا کہ اس نے اﷲ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہرایا ہے۔‘‘
اس لئے کہ نماز اﷲ کو راضی کرنے کیلئے نہیں پڑھ رہا ہے۔ بلکہ مخلوق کو راضی کرنے کیلئے اور مخلوق میں اپنا تقویٰ اور نیکی کا رعب جمانے کیلئے پڑھ رہا ہے، اس لئے وہ ایسا ہے جیسے اس نے اﷲ کے ساتھ مخلوق کو شریک ٹھہرایا۔ اتنا اچھا کام تھا، لیکن صرف نیت کی خرابی کی وجہ سے بے کار ہوگیا اور اُلٹا باعث گناہ بن گیا۔
یہی معاملہ سیرتِ طیبہ کے سننے اور سنانے کا ہے۔ اگر کوئی شخص سیرتِ طیبہ کو صحیح مقصد، صحیح نیت اور صحیح جذبے سے سنتا اور سناتا ہے تو یہ کام بلاشبہ عظیم الشان ثواب کا کام ہے اور باعث خیر و برکت ہے اور زندگی میں انقلاب لانے کا موجب ہے، لیکن اگر کوئی شخص سیرتِ طیبہ کو صحیح نیت سے نہیں سنتا اور صحیح نیت سے نہیں سناتا ہے بلکہ اس کے ذریعے کچھ اور اغراض و مقاصد دل میں چھپے ہوئے ہیں اور جن کے تحت سیرتِ طیبہ کے جلسے اور محفلیں منعقد کی جارہی ہیں۔ توبھائیو! یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے، اس لئے کہ ظاہر میں تو نظر آرہا ہے کہ آپ بہت نیک کام کررہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اُلٹا گناہ کا سبب بن رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے عذاب اور عتاب کا سبب بن رہا ہے۔
نیت کچھ اور ہے
اس نقطہ نظر سے اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں اور سچے دل سے نیک نیتی کے ساتھ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان تمام محفلوں میں جو کراچی سے پشاور تک منعقد ہورہی ہیں، کیا ان کے منتظمین اس بناء پر محفل منعقد کررہے ہیں کہ ہمارا مقصد اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے؟ اور اﷲ کے رسولﷺ کی پیروی مقصود ہے؟ کیا اس لئے محفل منعقد کررہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی جوتعلیمات ان محفلوں میں سنیں گے اس کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے؟ بعض اﷲ کے نیک بندے ایسے بھی ہوں گے جن کی یہ نیت ہوگی۔ لیکن ایک عام طرزِ عمل دیکھئے تو یہ نظر آئے گا محفل منعقد کرنے کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔ نیتیں ہی کچھ اور ہیں، یہ نیت نہیں ہے کہ اس جلسے میں شرکت کے بعد ہم نبی کریمﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے، بلکہ نیت یہ ہے کہ محلے کی کوئی انجمن ہے، جو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے جلسہ منعقدکررہی ہے اور یہ خیال ہے کہ جلسہ سیرت النبی کرنے سے ہماری انجمن کی شہرت ہوجائے گی، کوئی جماعت اس لئے جلسہ سیرت النبی منعقد کررہی ہے کہ اس جلسہ کے ذریعے ہماری تعریف ہوگی کہ بڑا شاندار جلسہ کیا، بڑے اعلیٰ درجے کے مقررین بلائے اور بڑے مجمع نے اس میں شرکت کی اور مجمع نے ان کی بڑی تحسین کی۔ کہیں جلسے اس لئے منعقد ہورہے ہیں کہ اپنی بات کہنے کا کوئی اور موقع تو ملتا نہیں ہے کوئی سیاسی بات ہے یا کوئی فرقہ وارانہ بات ہے جس کو کسی اورپلیٹ فارم پر ظاہر نہیں کیا جاسکتا، اس لئے سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کرلیں اور اس میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں، چنانچہ اس جلسے میں پہلے حضورِ اقدسﷺ کی تعریف اور توصیف کے دوچار جملے بیان ہوگئے اور اس کے بعد پوری تقریر میں اپنے مقاصد بیان ہورہے ہیں اور فریق مخالف پر بمباری ہورہی ہے۔ اس غرض کیلئے جلسے منعقد ہورہے ہیں۔
دوست کی ناراضگی کے ڈر سے شرکت
پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر واقعتہً سچے سے سرکار دوعالمﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی نیت سے ہم نے یہ محفلیں منعقد کی ہوتیں تو پھر ہمارا طرزِ عمل کچھ اور ہوتا ایک گھر میں ایک محفل میلاد منعقد ہورہی ہے، اب اگر اس محفل میں اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار شریک نہیں ہو اتو اس کو مطعون کیا جارہا ہے اور اس پر ملامت کی جارہی ہے اور اس سے شکایتیں ہورہی ہیں اس محفل میں شرکت کرنے والوں کی نیت یہ نہیں کہ سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرت سننی ہے اور اس پر عمل کرنا ہے بلکہ نیت یہ ہے کہ کہیں محفل منعقد کرنے والے ہم سے ناراض نہ ہوجائیں اور ان کے دل میں شکایت پیدا نہ ہوجائے اﷲ کو راضی کرنے کی فکر نہیں ہے، محفل منعقد کرنے والوں کو راضی کرنے کی فکر ہے۔
مقرر کا جوش دیکھنا مقصود ہے
کوئی شخص اس لئے جلسے میں شرکت کررہا ہے کہ اس میں فلاں مقرر صاحب تقریر کریں گے۔ ذراجاکر دیکھیں کہ وہ کیسی تقریر کرتے ہیں، سنا ہے کہ بڑے جوشیلے اور شاندار مقرر ہیں۔ بڑی دھواں دھار تقریر کرتے ہیں۔ گویا کہ تقریر کا مزہ لینے کے لئے جارہے ہیں تقریر کے جوش و خروش کا اندازہ کرنے کیلئے جارہے ہیں اور یہ دیکھنے کیلئے جارہے ہیں کہ فلاں مقرر کیسے گاگا کر شعر پڑھتا ہے کتنے واقعات سناتا ہے۔
وقت گزاری کی نیت ہے
کچھ لوگ اس لئے سیرت النبی کے جلسے میں شرکت کررہے ہیں کہ چلو، آج کوئی اور کام نہیں ہے اور وقت گزاری کرنی ہے، چلو کسی جلسے میں جاکر بیٹھ جاؤ تو وقت گزر جائے گا اور بے شمار افراد اس لئے شریک ہورہے ہیں کہ گھر میں تو دل نہیں لگ رہا ہے اور محلے میں ایک جلسہ ہورہا ہے چلو اس میں تھوڑی دیر جاکر بیٹھ جائیں اور جتنی دیر دل لگے گا وہاں بیٹھے رہیں گے اور جب دل گھبرائے گا اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ لہٰذا مقصد یہ نہیں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کی سیرت طیبہ کو حاصل کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ کچھ وقت گزاری کا سامان ہوجائے اگرچہ بعض اوقات اس طرح وقت گزاری کیلئے جانا بھی فائدہ مند ہوجاتا ہے اﷲ رسول کی کوئی بات کان میں پڑجاتی ہے اور اس سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ لیکن میں نیت کی بات کررہا ہوں کہ جاتے وقت نیت درست نہیں ہوتی۔ یہ نیت نہیں ہوتی کہ میں جاکر رسول اﷲﷺ کی سیرت سن کر اس پر عمل پیرا ہوں گا۔
ہر شخص سیرتِ طیبہ سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتا
قرآنِ کریم یہ کہتا ہے کہ:
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃٌ حسنۃٌ
تمہارے لئے اﷲ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے اور آپ کی حیات طیبہ مشعل راہ ہے، یہ ایک پیغامِ ہدایت ہے اور یہ ایک اسوۂ حسنہ ہے، ایک مکمل نمونہ ہے، لیکن ہر شخص کیلئے نمونہ نہیں ہے، بلکہ اس شخص کیلئے جو اﷲ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتاہو اور اس شخص کیلئے جو یومِ آخرت کو سنوارنا چاہتا ہو اور یومِ آخرت پر اس کا پورا ایمان اور یقین اور بھروسہ ہو اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔ لہٰذا جس شخص میں یہ اوصاف پائے جائیں گے اس کیلئے سیرتِ طیبہ ایک پیغامِ ہدایت ہے۔
لیکن جس شخص کے اندر یہ اوصاف موجود نہیں اور جو اﷲ کو راضی کرنا نہیں چاہتا اور جو یومِ آخرت پر بھروسہ نہیں رکھتا اور یومِ آخرت کو سنوارنے کیلئے یہ کام نہیں کرتا اور وہ اﷲ کو کثرت سے یاد نہیں کرتا اس کے لئے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی سیرت طیبہ اس کیلئے ہدایت کا پیغام بن جائے گی۔ سیرتِ طیبہ توابوجہل کے سامنے بھی تھی اور ابو لہب کے سامنے بھی تھی، اُمیہ بن خلف کے سامنے بھی تھی۔ لیکن وہ سیرت طیبہ سے فائدہ نہیں اُٹھاسکے۔
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
یعنی وہ زمین ہی بنجر تھی اور اس بنجر زمین میں ہدایت کا بیج ڈالا نہیں جاسکتا تھا۔ وہ بار آور نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا اگر کسی شخص کے دل میں اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر نہیں اور آخر ت کو سنوارنے کی فکر نہیں اور اﷲکی یاد اس کے دل میں نہیں ہے تو پھر کسی صورت میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے وہ شخص اپنی زندگی میں فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔
لہٰذا یہ سارے مناظر جو ہم دیکھ رہے ہیں اس میں بسا اوقات ہماری نیتیں درست نہیں ہوتیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں، تقریریں سن لیں اور ہزاروں محفلوں میں شرکت کرلی۔ لیکن زندگی جیسے پہلے تھی ویسی آج بھی ہے، جس طرح پہلے ہمارے دلوں میں گناہوں کا شوق اور گناہوں کی طرف رغبت تھی وہ آج بھی موجود ہے اس کے اند رکوئی فرق نہیں آیا۔
آپ ﷺ کی سنتوں کا مذاق اُڑایا جارہا ہے
تیسری بات یہ ہے کہ انہی سیرتِ طیبہ کے نام پر منعقد ہونے والی محفلوں میں عین محفل کے دوران ہم ایسے کام کرتے ہیں جوسرکارِ دوعالم محمد مصطفےٰﷺ کے ارشادات کے قطعی خلاف ہیں، آپ ﷺ کی سنتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، لیکن عملاً ہم ان تعلیمات کا، ان سنتوں کا، ان ہدایات کا مذاق اُڑا رہے ہین جو نبی کریمﷺ لے کر آئے تھے۔
سیرت کے جلسے اور بے پردگی
چنانچہ ہمارے معاشرے میں اب ایسی محفلیں کثرت سے ہونے لگی ہیں، جن میں مخلوط اجتماع ہے اور عورتیں اور مرد ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور سیرتِ طیبہ کا بیان ہورہا ہے، نبی کریمﷺ نے تو عورتوں کو فرمایا کہ اگر تمہیں نماز پڑھنی ہو تو مسجد کے بجائے گھر میں پڑھو اور گھر میں صحن کی بجائے کمرے میں پڑھو اور کمرے میں بہتری یہ ہے کہ کوٹھڑی میں پڑھو۔ عورت کے بارے میں آپﷺ یہ حکم دے رہے ہیں۔ لیکن انہی سرکارِ دوعالمﷺ کا ذکر مبارک ہورہا ہے جس میں عورتیں اور مرد مخلوط اجتماعات میں شریک ہیں اور کسی اﷲ کے بندے کو یہ خیال نہیںآتا کہ سیرتِ طیبہ کے ساتھ کیا مذاق ہورہا ہے، پوری آزمائش اور زیبائش کے ساتھ سج دھج کر بے پردہ ہوکر خواتین شریک ہورہی ہیں اور مرد بھی ساتھ موجود ہیں۔
سیرت کے جلسے میں موسیقی
نبی کریم سرکارِ دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے جس کام کیلئے بھیجا گیا ہے اس میں سے ایک اہم کام یہ ہے کہ میں ان باجوں بانسریوں کو اور ساز و سرور کو اور آلات موسیقی کو اس دنیا سے مٹادوں۔ لیکن آج انہی سرکار دو عالم ﷺ کے نام پر محفل منعقد ہورہی ہیں۔ جلسہ ہورہا ہے اور اس میں ساز و سرور کے ساتھ نعت پڑھی جارہی ہے اور اس میں قوالی شریف ہورہی ہے قوالی کے ساتھ لفظ ’’شریف‘‘ بھی لگ گیا ہے اور اس میں پورے آب و تاب کے ساتھ ہارمونیم بج رہا ہے، ساز و سرور ہورہا ہے۔ عام گانوں میں اور نبی کریم ﷺ کی نعت میں کوئی فرق نہیں رکھا جارہا ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر عورتیں اور مرد مل کر نعتیں پڑھ رہے ہیں، ٹیلیویژن دیکھنے والوں نے بتایا کہ پورے آرائش اور زیبائش کے ساتھ ٹیلیویژن پر آرہی ہیں۔ یہ کیا مذاق ہے جو آپ کی سیرتِ طیبہ اور آپ کی تعلیمات کے ساتھ ہورہا ہے۔ عورت جس کے بارے میں قرآنِ کریم نے فرمایا کہ:
ولاتبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ۔ (سورۂ الاحزاب۔ ۳۳)
یعنی زمانۂ جاہلیت کی طرح تم بناؤ سنگھار کرکے مردوں کے سامنے مت آؤ، آج وہی عورت پورے میک اَپ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ مردوں کے سامنے آرہی ہے اور نبی کریمﷺ کی شان میں نعت پڑھ رہی ہے۔ نبی کریمﷺ کی نعت اور سیرت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی وجہ سے اﷲ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوگی تو پھر آپ سے زیادہ دھوکے میں کوئی اور نہیں ہے۔ نبی کریم سرورِ دوعالمﷺ کی سنتوں کو مٹاکر، آپﷺ کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے، آپ کی سیرتِ طیبہ کی مخالفت کرکے اور اس کا مذاق اُڑاکر بھی اگر آپ اس کے متمنی ہیں کہ اﷲ کی رحمتیں آپ پر نچھاور ہوں تو اس سے بڑا مغالطہ اور اس سے بڑا دھوکہ اس روئے زمین پر کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ معاذ اﷲ۔۔۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ کا عذاب اور اس کے عتاب کو دعوت دینے والی باتیں ہیں، وہ کام جو حضورﷺ کی نافرمانی کے کام ہیں وہ ہم عین سیرتِ طیبہ کو بیان کرتے وقت کرتے ہیں۔
سیرت کے جلسے میں نمازیں قضاء
پہلے بات صرف جلسوں کی حد تک محدود تھی کہ سیرتِ طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے، اس میں شریعت کی چاہے جتنی خلاف ورزی ہورہی ہو، کسی کو پرواہ نہیں، لیکن اب تو بات اور آگے بڑھ گئی ہے چنانچہ دیکھنے اور سننے میں آیاہے کہ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کے جلسے کے انتظامات ہورہے ہیں اور ان انتظامات میں نمازیں قضا ہورہی ہیں کسی شخص کو نماز کا ہوش نہیں، پھر رات کے دو دو بجے تک تقریریں ہورہی ہیں اور صبح فجر کی نماز جارہی ہے۔ جبکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد تو یہ تھاکہ جس شخص کی ایک عصر کی نماز فوت ہوجائے تو وہ شخص ایسا ہے جیسے اس کے تمام مال اور تمام اہل و عیال کو کوئی شخص لوٹ کر لے گیا۔ اتنا عظیم نقصان ہے۔ لیکن سیرت طیبہ کے جلسے کے انتظامات میں نمازیں قضا ہورہی ہیں او رکوئی فکر نہیں اس لئے کہ ہم تو ایک مقدس کام میں لگے ہوئے ہیں اور نبی کریمﷺ نے نماز کی جو تاکید بیان فرمائی تھی وہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔
سیرت کے جلسے اور ایذاء مسلم
اور سنئے! سیرتِ طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے۔ جس میں کل پچّیس تیس سامعین بیٹھے ہیں۔ لیکن لاؤڈ اسپیکر اتنا بڑا لگانا ضروری ہے کہ اس کی آوا زپورے محلے میں گونجے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک جلسہ ختم نہ ہوجائے اس وقت تک محلے کا کوئی بیمار، کوئی ضعیف، کوئی بوڑھا اور معذور آدمی سو نہ سکے۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کا عمل تو یہ تھا کہ آپ تہجد کی نماز کیلئے بیدار ہورہے ہیں لیکن کس طرح بیدار ہورہے ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’فقام رویداً‘‘ آپ دھیرے سے اُٹھے کہیں ایسا نہ ہو کہ عائشہ (رضی اﷲ عنہا) کی آنکھ کھل جائے۔ ’’فتح الباب رویداً‘‘ آہستہ سے دروزاہ کھولا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عائشہ (رضی اﷲ عنہا) کی آنکھ کھل جائے اور نماز جیسے فریضے کے اندر حضورﷺ کا یہ عمل تھا کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بچے کی آواز سن کر اس کی ماں کسی شفقت میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن یہاں بلاضرورت، بغیر کسی وجہ کے، صرف ۲۵،۳۰ سامعین کو سنانے کیلئے اتنا بڑا لاؤڈ اسپیکر نصب ہے کہ کوئی ضعیف، بیمار آدمی اپنے گھر میں سو نہیں سکتا اور انتظام کرنے والے اس سے بے خبر ہیں کہ کتنے بڑے کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے۔ اس لئے (نسائی، کتراب عشرہ النساء، باب الغیرۃ۔ حدیث نمبر ۳۹۶۳) کہ ایذاء مسلم کبیرہ گناہ ہے اس کا کسی کو احسان نہیں۔
دوسروں کی نقالی میں جلوس
ہمارا یہ سارا طرزِ عمل اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ درحقیقت نیت درست نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی نیت نہیں ہے بلکہ مقاصد کچھ اور ہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا پہلے صرف جلسوں کی حد تک بات تھی اب تو جلسوں سے آگے بڑھ کر جلوس نکلنا شروع ہوگئے اور اس کیلئے استدلال کیا جاتا ہے کہ فلاں فرقہ فلاں مہینے میں اپنے امام کی یاد میں جلوس نکالتا ہے تو پھر ہم اپنے نبی کے نام پر ربیع الاوّل میں جلوس کیوں نہ نکالیں۔ گویا کہ ان کی نقل اُتاری جارہی ہے کہ جب محرم کا جلوس نکلتا ہے تو ربیع الاوّل کا بھی نکلنا چاہئے۔ بزعم خود یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے احکام کے مطابق عمل کررہے ہیں اور آپ کی عظمت اور محبت کا حق ادا کررہے ہیں۔
لیکن اس پر ذرا غور کریں کہ اگر نبی کریمﷺ خود اس جلوس کو دیکھ لیں جو آپ کے نام پر نکالا جارہا ہے تو کیا آپ ﷺ اس کوگوارا او رپسند فرمائیں گے؟ نبی کریمﷺ نے تو ہمیشہ اس اُمت کو ان رسمی مظاہروں سے اجتناب کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ ظاہری اور رسمی چیزوں کی طرف جانے کی بجائے میری تعلیمات کی روح کو دیکھو اور میری تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرو۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری حیاتِ طیبہ میں کوئی شخص ایک نظیر یا ایک مثال اس بات پر پیش کرسکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی سیرت کے نام پر ربیع الاوّل میں یا کسی مہینے میں کوئی جلوس نکالا گیا ہو؟ بلکہ پورے چودہ سو سال کی تاریخ میں کوئی ایک مثال کم از کم مجھے تو نہیں ملی کہ کسی نے آپ کے نام پر جلوس نکالا ہو۔ ہاں! شیعہ حضرات محرم میں اپنے امام کے نام پر جلوس نکالا کرتے تھے ہم نے سوچا کہ ان کی نقالی میں ہم بھی جلوس نکالیں گے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
من تشبہ بقوم فہومنہم۔)ابوداؤد، کتاب اللباس۔ باب فی لبس الشھرۃ۔ حدیث نمبر ۴۰۳۱(
جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہوجاتا ہے اور صرف جلوس نکالنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہورہا ہے کہ کعبہ شریف کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں، روضۂ اقدس کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں۔ گنبد خضراء کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں۔ پورا لالو کھیت ان چیزوں سے بھرا ہوا ہے اور دنیا بھر کی عورتیں بچے بوڑھے اس کو متبرک سمجھ کر برکت حاصل کرنے کیلئے اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کررہے ہیں وہاں جاکر دعائیں مانگی جارہی ہیں، منتیں مانی جارہی ہیں۔ حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیبہ کے نام پر کیا ہورہا ہے؟نبی کریمﷺ شرک کو، بدعات کو، اور جاہلیت کو مٹانے کیلئے دنیا میں تشریف لائے اور آج آپ نے نبی کریمﷺ ہی کے نام یہ ساری بدعات شروع کردیں۔ روضۂ اقدس ﷺ کو اس گنبد سے کوئی مناسبت نہیں جو آپ نے اپنے ہاتھوں بناکر کھڑا کردیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مقدس سمجھ کر تبرک کے لئے کوئی اس کو چوم رہا ہے، کوئی اس کو ہاتھ لگارہا ہے۔
حضرت عمر اور حجر اسود
حضرت عمر رضی اﷲ عنہٗ تو حجر اسود کو چومتے وقت فرماتے ہیں کہ اے حجر اسود! میں جانتا ہوں توایک پتھر کے سوا کچھ نہیں ہے، خدا کی قسم! اگر محمد مصطفےٰ ﷺ کو میں نے تجھے چومتا ہوا نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا، لیکن میں نے نبی کریمﷺ کو چومتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کی یہ سنت ہے اس واسطے میں تجھے چومتا ہوں۔
)صحیح بخاری۔ کتاب الحج۔ باب ماذکر فی الحجر الاسود۔ حدیث نمبر ۱۵۹۷(
وہاں تو حجر اسود کو یہ کہا جارہا ہے اور اپنے ہاتھ سے ایک گنبد بناکر کھڑا کردیا، اپنے ہاتھ سے ایک کعبہ بناکر کھڑا کردیا اور اس کو متبرک سمجھا جارہا ہے اور اس کو چوما جارہا ہے، یہ تو نبی کریمﷺ جس چیز کو مٹانے کیلئے تشریف لائے تھے اسی کو زندہ کیا جارہا ہے، چراغاں ہورہا ہے، ریکارڈنگ ہورہی ہے، گانے بجانے ہورہے ہیں، تفریح بازی ہورہی ہے۔ نبی کریمﷺ کے نام پر میلہ منعقد کیا ہوا ہے۔ یہ دین کو کھیل کود بنانے کا ایک بہانہ ہے، جو شیطان نے ہمیں سکھادیا ہے، خدا کیلئے ہم اپنی جانوں پر رحم کریں اور سرکارِ دوعالم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی عظمت اور محبت کا حق ادا کریں اور ان کی عظمت اور محبت کا حق یہ ہے کہ اپنی زندگی کو ان کے راستے پر ڈھالنے کی کوشش کریں۔
خدا کیلئے اس طرزِ عمل کو بدلیں:
سیرتِ طیبہ کے جلسے میں کوئی آدمی اس نیت سے نہیں آتا کہ ہم اس محفل میں اس بات کا عہد کریں گے کہ اگر ہم نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے خلاف پہلے پچاس کام کیا کرتے تھے تو اب کم از کم اس میں سے دس چھوڑ دیں گے، کسی نے اس طرح عہد کیا؟ کسی شخص نے اس طرح عید میلاد النبی منائی؟ کوئی ایک شخص بھی اس کام کیلئے تیار نہیں، لیکن جلوس نکالنے کیلئے، میلے سجانے کیلئے، محرابیں کھڑی کرنے کیلئے، چراغاں کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں، ان کاموں پر جتنا چاہو، روپیہ خرچ کروالو اور جتنا چاہو وقت لگوالو، اس لئے کہ ان کاموں میں نفس کو حظ ملتا ہے لذت آتی ہے اور نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کا جو اصل راستہ ہے اس میں نفس و شیطان کو لذت نہیں ملتی۔ خدا کیلئے ہم اپنے اس طرزِ عمل کو ختم کریں اور نبی کریمﷺ کی عظمت، محبت کا حق پہچانیں، اﷲتعالیٰ ہم سب کو سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العٰلمین