اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں۔۔۔
اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ضرورت مطالعہ کی ہوتی ہے اور علم و ذہانت کی ترقی کے لئے مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسانی زندگی کی بقاء کیلئے ہوا ، پانی اور دانہ ضروری ہوتا ہے ، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی آگے بڑھانا بہت مشکل ہے ۔
قلم کے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے اور مطالعہ کے بغیر علم کا حصول ممکن نہیں ہے ، اور علم ہی انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں امتیاز عطا کرتا ہے اور علم ہی انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، اور جس کے حصول کا واحد ذریعہ مطالعہ ہے ۔
ایک پڑھے لکھے شخص کے لئے معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار انجام دینا بھی ہوتا ہے ، اور اس لئے اچھی اور معیاری کتابوں کا مطالعہ انتہائی ضروری ہوتا ہے ۔
اگرایک شخص اپنے اسکول ، مدرسہ ، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے ، اور مطالعہ و کتب بینی سے بھی غفلت و لا تعلقی اختیار کرے تو پھر اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا ، کیونکہ مطالعہ استعداد بڑھانے کی کنجی ہوتی ہے اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہوتا ہے، اور یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ ایک شخص ہر لمحہ اپنی معلومات میں اضافہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور اپنے فکر ونظر کو وسعت دیتا رہتا ہے ۔
مطالعہ ایک ایسا دوربین آلہ ہے ، جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشہ گوشہ کو دیکھتا رہتا ہے ، اور عالمی صورت حال سے آگاہی حاصل کرتا ہے ، مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پرسوار ہوکر مطالعہ کرنے والا دنیا کے چپہ چپہ کی سیر کرتا رہتا ہے، اور ہر قوم و ملت کی تہذیبی ، ثقافتی ، سیاسی ، تمدنی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں شورش کاشمیری کی یہ چند سطریں قابل غور ہیں ۔
”کسی مقرر کا بلامطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی
ہے ، جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا، یالو
میں پتنگ اڑانا“
یہ تو ایک مقرر کے سلسلے میں بات تھی ، لیکن ٹھیک یہی صورت ایک قلم کار کی بھی ہے ، مولانا نورعالم خلیل امینی لکھتے ہیں:
”آج لوگ لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم
ہوگئے ، جس کے نتیجے میں تحریر کی اثر
آفرینی ختم ہوگئی ، اس لئے تحریر کو موثر
بنانے کیلئے ضرورت ہے کہ ایک صفحہ کو لکھنے
کیلئے سو صفحات کا مطالعہ ہو "
اسی طرح جب ایک قلمکار کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے تو اس کی تحریر میں قوت اور اثر ہوتا ہے ، ورنہ تحریر کمزور ہوتی ہے ۔
اسی طرح ایک اہل دانش کا قول ہے:
” معیاری کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت
کو ارتقاء کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ
ذریعہ حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی و
تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک
منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے
کا معروف اور واحد ذریعہ ہے “
کتابوں کے مطالعہ سے جہاں آدمی کے معلومات میں اضافہ اور اس کے اندر راہ عمل کی جستجو پیدا ہوجاتی ہے تو وہاں اس کے ذوق میں بالیدگی ، طبیعت میں نشاط ، نگاہوں میں تیزی ، فکر ونظر میں وسعت اور قلب و ذہن کو تازگی ملتی ہے ۔
واضح رہے موجودہ دور انتہائی ترقی پذیر اور مسابقہ کا دور ہے ، ذرائع ابلاغ و ترسیل کی بہتات ہے ۔اور طرح طرح کے اخبارات و رسائل اور کتابوں کی فراوانیاں بھی ہیں۔ اب اس صورت حال میں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کتابوں کے اس جنگل میں کن کا مطالعہ کیاجائے ، اور کن کا مطالعہ نہ کیا جائے ؟ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر کتاب قابل مطالعہ ہو ، اور نہ ہی تمام کتابوں کا مطالعہ کرنا کسی انسان کے لئے ممکن ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ مطالعہ کے لئے معیاری یا اہل علم سے مشورہ کرکے ہی کتابوں کا صحیح انتخاب کرنا چاہئے ، اور اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کسی بھی ایسی کتاب کی خریداری نہ کی جائے کہ جو ایمان سوز اوراخلاق سوز ہو ، جس کے پڑھنے سے آدمی علم حاصل کرنے کے بجائے کسی گمراہی میں پڑ جائے ، جیسا کہ غلط کتابوں کے مطالعہ کے انتخاب ہی نے مولانا عبدالماجد دریابادی کو ارتداد کے گھڑے میں دکھیل دیا تھا ، لیکن بعد میں ان کو مطالعہ کی صحیح سمت ملنے اور اللہ تعالی کی توفیق شامل حال رہنے سے پھر سے ہدایت اور ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور پھر وہ بڑے مفسر قرآن بن گئے ۔
اس لئے معیاری کتابوں کے انتخاب کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اس نصیحت آموز قول کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔
”جب تم کسی کتاب کے مطالعہ کا ارادہ کرو ،
تو پہلے اس کے نام کو دیکھو ، اگر اس کا نام
ہی مناسب نہ ہو تو پھر اس کو چھوڑ دو ، پھر
مقدمہ کو دیکھو ، اگر وہ کتاب کے مضمون کے
مناسب نہیں ہے تو پھر اس کے مطالعہ میں اپنا
وقت ضائع نہ کرو ، کیونکہ جب کتاب کا نام اور
مقدمہ میں مناسبت نہیں ، پھراس کتاب کو تم
چھور دو اور پھر کسی دوسری معیاری کتاب کو
لیکرآگے بڑھو "