غرض حضرت فاروق اعظم کو ان شرائط صلح سے سخت رنج و غم پہنچا ، خود انہوں نے فرمایا کہ واللہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے کبھی شک پیش نہیں آیا بجز اس واقعہ کے (رواہ البخاری)
ایک صاحب علم دوست نے یہ روایت بھیج کر سوال کیا کہ
معارف القرآن میں بخاری شریف کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ قول منقول ھے اس کا یہ حوالہ بخاری میں نہیں مل رہا، راہنمائی کی درخواست ھے.
الجواب حامدا ومصليا
یہ روایت بخاری شریف باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط میں ہے، لیکن اس میں شک والے الفاظ نہیں.
البتہ امام عبد الرزاق صنعانی نے مصنف (5/332،رقم الحدیث : 9720 ) میں زہری کے طریق سے، جبکہ طبرانی نے المعجم الکبیر( 9/20، رقم : 13) میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح (11/216، رقم الحدیث : 4872) میں امام عبدالرزاق سے ایک طویل روایت نقل کی ہے، اس میں زہری سے منقول ہے :
قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ....
قال الزهري قال عمر : فعملت لذلك أعمالا.
شک والے الفاظ کے اضافہ ساتھ یہ روایت ابن المنذر نے الأوسط میں، بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عبد الرزاق صنعانی ہی کے واسطہ سے نقل کی ہے.
اس کے علاوہ بعض مفسرین (طبری اور خازن، سیوطی، بغوی اور مظہری غیرہ ) نے بھی یہ روایت شک والے الفاظ کے اضافہ کے ساتھ نقل کی ہے.
غالبا حضرت مفتی شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے یہ روایت تفسیر مظہری سے لی ہے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے واقعات بیان کرتے ہوئے اس کی تصریح بھی کی ہے کہ ان واقعات کو تفسیر ابن کثیر ومظہری سے نقل کیا ہے.
چوں کہ اصل روایت اور اضافہ والی روایت کی سند ایک ہے، اس لیے نفس روایت کی نسبت بخاری شریف کی طرف درست ہے. لیکن اضافہ والے الفاظ بخاری شریف میں نہیں، اس لیے اس پہ متنبہ رہنا چاہیے.
جہاں تک بات ہے شک کے اضافہ والی روایت کی تو بخاری اور ان حضرات کی سند ایک ہے، غالبا اسی وجہ سے شیخ شعیب الاناؤوط نے صحیح ابن حبان میں اس روایت کی تصحیح کی ہے.
بظاہر یہ لگتا ہے کہ شک کے الفاظ والا اضافہ زہری کا ادارج ہے، جسے امام بخاری نے نقل نہیں کیا، امام عبد الرزاق نے نقل کیا ہے. جب تک مکمل تتبع نہ کیا جائے اس اضافہ کی صحت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے.
بفرض صحت اس اضافہ کو مجاز پہ محمول کیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ اس سے آیت
حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله
میں بیان کی گئی کیفیت مراد ہے ۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں نکلے تو انہیں فتح مکہ میں کوئی شک نہیں تھا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواب میں اس کی بشارت دی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کو اس کی خوش خبری بھی سنائی تھی، لیکن راستے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا واقعہ، پھر دب کر مشرکین مکہ کی شرائط پہ صلح حدیبیہ اور حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ نے مسلمانوں کو بھت غم زدہ کردیا تھا، قریب تھا کہ یہ غم انہیں ہلاک کر ڈالتا، ( کذا فی تفسير البغوي ).
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کو بھی بفرض صحت اسی پس منظر میں لیا جائے گا کہ ایک طرف فتح و نصرت کی بشارت اور اس میں کسی شک کا نہ تھا کہ مکہ فتح ہونے والا ہے اور دوسری طرف ان بڑے واقعات کا ہونا جن میں بظاہر مسلمان مغلوب ہوتے نظر آرہے تھے تو ایسی صورت حال میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایمانی جذبات سے مغلوب ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کی اور عرض کیا کہ کیا ہم حق پہ نہیں اور ہمارا دشمن باطل پہ نہیں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہے، اسپر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ پھر ہم اتنا دب کر (ذلت کو کیوں قبول کریں )... الخ
گویا اس طرح دب کر صلح کرنے اور ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ نے متى نصر الله والی کیفیت پیدا کردی تھی، اسی کیفیت پہ حضرت عمر رضی اللہ کے مذکورہ قول کو محمول کیا جائے گا.
اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
فعملت لذك أعمالا أي أعمالا صالحا.
یعنی اس دن ایمانی جذبات سے مغلوب ہوکر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو گفتگو کی تھی اس پہ نادم ہوکر ایک عرصہ تک اعمال (صدقہ، روزہ اور غلاموں کو آزاد ) کرتا رہا.
(اعمال سے مراد صدقہ، روزہ اور غلام کا آزاد کرنا ہے اس کی صراحت دیگر روایات میں آئی ہے.) تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے امر میں توقف اور ابتدا ہی سے امتثال نہ کرنے کا جو معاملہ ہوا اس کی معافی ہوجائے.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اس دن کی گفتگو کے خوف سے مسلسل نیک اعمال صدقہ، روزہ، نماز اور غلاموں کو آزاد کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے امید ہوگئی کہ اب خیر کا معاملہ ہوگا. (سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد ).
ظاہر سی بات ہے صرف نیک اعمال سے شک فی الایمان یا شک فی الاسلام کی تلافی تو ہو نہیں سکتی، اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضرت عمر اس کی تلافی کے لیے صرف اعمال صالحہ پہ کبھی اکتفا نہ فرماتے، لہذا واضح ہوا کہ یہ قول اس مخصوص کیفیت اور اس کے نتیجہ میں جو امتثال أمر میں توقف کیا تھا اس پہ محمول ہے.
اسی سفر میں سورہ فتح نازل ہوئی، اور وہ ارشاد بھی جس میں اللہ نے فتح مکہ کی بشارت نازل فرمائی، ارشاد فرمایا :
{ إنا فتحنا لك فتحا مبينا ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر }.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ بشارت تو آپ کے لیے ہے، ہمارے لیے کیا ہے؟.
اس پہ اللہ تعالیٰ نے
{ هو الذي أنزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم } سے لیکر { فوزا عظيما } تک آیات نازل فرمائی.
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تسلی دینا مقصود تھی تاکہ دب کر صلح کرنے کی صورت میں ان کو جو غم وتکلیف پہنچی ہے اس کا مداوا ہوسکے، اور ساتھ یہ بھی بتلایا کہ اس سے اہل ایمان کی ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوگا.
اس نص قرآنی کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف شك في الایمان یا شك في الإسلام کی نسبت کرنا کسی بھی طرح درست نہیں.
اللہ تعالی خود اپنے کلام میں صحابہ کرام (حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے میں سرفہرست شامل ہیں ) کے بارے میں نہ صرف ایمان والے ہونے کا اعلان فرمارہے ہیں بلکہ یہ بھی بتلا رہے ہیں کہ اس آزمائش کا مقصد اور اس کے بعد ان کے دلوں سے اس غم کو دور کرنے کے لیے سکینہ کا نزول فرمایا تاکہ ان کے ایمانی کیفیت میں مزید اضافہ ہو.
رضي الله عنهم وأرضاهم.
واللہ اعلم بالصواب.
ابو الخیر عارف محمود گلگتی
دار التصنيف مدرسہ فاروقیہ کشروٹ گلگت
9 محرام الحرام 1440 ھ.