طہ حسین کی کتاب "في الأدب الجاھلي"۔ ایک جائزہ

طہ حسین کی کتاب "في الأدب الجاھلي"۔ ایک جائزہ:
ڈاکٹر خورشید رضوی

"یہ کتاب ان مباحث کا خلاصہ ہے جو جامعہ مصریہ کے کلیۃ الآداب میں سالِ اول ودوم کے طلبہ کو دیے جانے والے لیکچروں کا موضوع رہے،"فی الادب الجاھلی" کو سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور اس کے جواب میں متعدد کتابیں اور بے شمار مضامین اور تبصرے شائع ہوئے، چنانچہ اس اعتبار سے یہ کتاب بہر حال عربی تنقید کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کہ اس کے ردِ عمل کے طور پر جاھلی ادب کا ایک باقاعدہ اور گہرا تجزیہ ہوگیا اور بہت سے ایسے نکات سامنے آگئے جو اس سے قبل نگاہوں سے اوجھل تھے۔ 
کتاب کے اندر جابجا فکرانگیز مواد بھی موجود ہے، تاہم اس کے مرکزی مباحث مبالغے پر مبنی ہیں۔ طہ حسین، ڈیکارٹ(Descartes ) کے منہجِ فکر کے دلدادہ ہیں اور تلاشِ یقین کا آغاز شک سے کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس رَو میں وہ بے بنیاد اور بے جواز شبہات میں الجھتے اور الجھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے دلکش اسلوب اور زورِ قلم کے بَل پر علمی تحقیق کے ساتھ کچھ ویسا ہی سلوک کرجاتے ہیں جس کا شکوہ محمد حسین آزاد سے کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں طرزِ قدیم کے ادب شناسوں کے بارے میں ان کا لہجہ جابجا پھبتی اور زہرِخند کا انداز اختیار کرجاتا ہے، جس سے بسااوقات ایک ناگور تکبر کی بُو آنے لگتی ہے، مانوس ومقبول تصورات کو توڑنے، قارئین کو چونکانے اور اختلاف کو مناظرانہ رنگ دینے کی روِش آغاز سے ہی طہ حسین کے مزاج کا حصہ رہی ہے، چنانچہ عنفوانِ شباب میں انہوں نے ناموری کی دھن میں منفلوطی کے خلاف خُردہ گیری کی، جس پر بعد میں ندامت بھی محسوس کرتے رہے۔۔۔۔۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔مجموعی اعتبار سےطہ حسین کی اس تصنیف میں تحقیقی ترتیب وتنسیق کے بجائے خطباتی پھیلاؤ زیادہ پایا جاتا ہے اور بحث کو موضوعِ کتاب یعنی جاہلی ادب پر مرتکز رکھنے کے بجائے بعض غیر متعلق مباحث کو طول دینے کا رجحان ملتا ہے، تکرار بھی طہ حسین کے اسلوب کا ایک بنیادی عنصر ہے، ان کے اسلوب میں ادبی چاشنی مسلم لیکن اس کا تکراری واستطرادی (Digressive) مزاج بسااوقات سنجیدہ تحقیقی موضوعات کے حسبِ حال نظر نہیں آتا، ان کے استدلال میں جابجا داخلی تضاد کا بھی احساس ہوتا ہے اور کتاب کا بنظرِ غائر تجزیہ کرنے پر یہ سامنے آتا ہے کہ
1) کارتیسی منہج (Cartesian method) کے شیدائی ہونے کے باوجود طہ حسین کے ہاں قطعیت کا رجحان بہت زیادہ ہے اور وہ اپنے قیاسات کو مسلمات کا درجہ دینے پر امادہ نظر آتے ہیں۔
2) انہوں نے جاہلی ادب کے مستند یا غیر مستند ہونے کے مسئلے پر عربی ادب کے سنجیدہ قارئین کے علم میں بحیثیت مجموعی کوئی اضافہ نہیں کیا، یہ پہلے ہی سے جانا اور مانا جاتا ہے کہ جاہلی ادب میں وضع ونحل کو دخل رہاہے، چنانچہ اصل کے ساتھ نقل بھی اس میں شریک ہے۔ طہ حسین کے تمام دلائل کے بعد بھی نتیجہ بس اتنا ہی رہتا ہے، جہاں جہاں انہوں نے جوشِ قطعیت میں اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے، وہیں ان کا استدلال بھی کمزور ہوگیا ہے اور کارتیسی منہج کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ ان کی بحث کا نسبتاََ مضبوط حصہ وہ ہے جس میں جاہلی ادب کی صحت وسقم سے نہیں بلکہ اسبابِ وضع ونحل سے بحث کی گئی ہے، یعنی پہلے سے تسلیم شدہ ایک مسئلے کی تحقیق وتجزیہ میں طہ حسین سے ژرف نگاہی کا ثبوت دیا ہے اور ان کے ہاں جابجا بعض افکار کے فروزاں ذرات اور تاریخِ ادب کے مطالعے کے سلسلے میں بعض قابلِ قدر مشورے پائے جاتے ہیں"۔

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024