وہ رتبہ بلند پاگئے۔۔۔۔۔!!
۲ نومبر ۲۰۱۸ء کا سورج وقتِ غروب اپنے ساتھ ایک اور سورج بھی لے ڈوبا۔جسے دنیا مولانا سمیع الحق ؒ کے نام سے جانتی تھی۔ وہ اپنی زندگی کی اَسّی بھاریں دیکھ چکے تھے۔اب وہ اپنے ضعف کی بنا پر قرآن مجید کی خدمت میں مصروف تھے۔اسی کے ساتھ وہ شہادت کی تمنا لیے اپنے مشن اور نظریہ کو دو ٹوک انداز میں پیش کر رہا تھا۔لوگ سوچتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دارالخلافہ میں کیسے شہید کیا گیا، وہاں تو سیکورٹی سخت ہوتی ہے۔ مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کی شہادت نے یہ عقدہ بھی کھول دیا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کے بغلی شہر، راولپنڈی میں ایک حساس علاقے بحریہ ٹاؤن، جہاں کیمروں اور سیکورٹی کا ہمہ وقت ایک جھرمٹ رہتا ہے۔جہاں پرندہ بھی پَر مارے تو خبر ہوجاتی ہے۔ ایسے پہرے والے علاقہ میں آپ کو گولیوں اور بموں کے دور میں خنجر کے واروں سے بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ اس بے ضرر شخصیت سے کسی کا ذاتی کیا نقصان ہو رہا تھا کہ اس نے اتنا غصہ نکالا، اس سے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی عالمی اور طاغوتی سازش تھی۔
وہ تو اپنے علم و عمل کی کرنیں اطراف عالم میں مختلف شکل و صورت میں پھیلا رہے تھے۔کہیں کتب کی صورت میں، کہیں بیانات کی شکل میں اور کہیں رجال کے ضمن میں۔ان کی اَسّی سالہ جہد مسلسل اور صبر پیہم زندگی نے بھی انہیں ناتواں نہ کیا تھا۔ وہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات کے گرم و سرد تھپیڑوں سے بھی نہ گھبرائے تھے۔ان کا حوصلہ پرانا سالی میں بھی جواں تھا۔ وہ جہاں ایک کام یاب قائد تھے، وہاں ایک اچھے اورعمدہ مدرس اور شیخ الحدیث بھی تھے۔وہ اگر تحریر کے میدان میں ادیب تھے، تو جہاد کے میدان میں ایک سپہ سالار بھی تھے۔اس سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم والد کے فرماں بردار بیٹا بھی تھا کہ والد کے قائم کر دہ ادارہ کو ایسا چمکایا کہ اس کو ’’دیوبند ثانی‘‘ کا لقب ملا۔ جہاں صرف ایک درسگاہ دورہ حدیث کی تعداد ۱۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
یہ سب صفات اپنی جگہ، مگر جو صفت سب سے نمایاں تھی وہ تواضع تھی۔ مجھے وہ وقت کبھی نہیں بھولتا جب وہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد جامعہ فاروقیہ میں داخل ہوئے تو طلبہ کے ایک جھرمٹ نے انہیں گھیر لیا۔ ایک دوسرے سے سبقت لیتے طلبہ بڑھ بڑھ کر سلام کر رہے تھے۔اسی اثناء گیٹ سے ایک وفد داخل ہوا۔ سیکٹری نے اطلاع دی: ’’ ملاقات کے لیے مہمان آئے ہیں۔‘‘ آپ نے بڑا خوب صورت جواب دیا کہ ’’انہیں کہیں ایک طرف کھڑے ہوجائیں، میں پہلے اللہ کے مہمانوں سے مل لوں۔‘‘ اتنی بڑی شخصیت جو جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا مہتمم اور شیخ الحدیث ہوکر، دفاع پاکستان کونسل کا صدر ہوکر، مجاہدین کے سپہ سالار جن کو اپنا قائد مانتے ہوں، وہ طلبہ کے جھرمٹ میں یوں کھڑا ہو جیسے اسے کوئی خوف اور خطرہ بھی دامن گیر نہیں، یہ کم از کم آج کے دور میں بعید از قیاس ہے۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جس میں تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔
اللہ تعالی کے پاک پیغمبر اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’من توضع للہ رفعہ اللہ‘‘(حدیث) جو اللہ کے لیے توضع کرتا ہے، اللہ اسے بلند کرتا ہے۔مولانا کی شہادت نے ان کو ایسے بلند رتبے پر پہنچا دیا کہ وہ کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔لوگوں کی عمریں میدانِ جہاد میں گزر جاتی ہیں، شہادت کی تمنا اور دعاؤں میں عمر کٹ جاتی ہے، مگر شہادت نصیب نہیں ہوتی۔اللہ تعالی نے آپ سے دین کے بہت سے شعبوں میں کام لیا۔آپ کی پیدائش۱۸ دسمبر۱۹۳۷ء کو اکوڑہ خٹک میں ہوئی ۔ آپ نے۱۳۶۶ھ بمطابق۱۹۴۶ء میں دار العلوم حقانیہ میں تعلیم کی ابتداء کی جس کی بنیاد آپ کے والد محترم مولانا عبد الحق رحمہ اللہ نے رکھی تھی۔۷ستمبر ۱۹۸۸ء میں ایشیا کی اسی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ حقانیہ کے مہتمم بنائے گئے۔۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۷ء تک آپ پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن رہے ۔آپ ان راہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے افغانستان پر سابق سوویت یونین کی چڑھائی کی نہ صرف مخالفت کی تھی، بلکہ اس کے خلاف ہونے والے جہاد کی کھل کر حمایت بھی کی تھی۔افغان جہاد کے دوران آپ نے افغان طالبان کے تمام گروپس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے ۔امارت اسلامی افغانستان کے قیام کے بعد مولانا سمیع الحق کو ’’فادر آف طالبان‘‘ کا لقب ملا۔آپ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء تک بھی ایوان بالا کے رکن رہے ۔ آپ۲۰۰۱ء میں وجود میں آنے والی ’’افغانستان دفاع کونسل‘‘ کے چیئرمین رہے اور بعد میں ۲۰۱۲ء میں وجود میں آنے والی ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے چیئرمین بھی بنے ، جو پاکستان کے راستے افغانستان میں امریکی فوج کے لیے سامان لے جانے والے کنٹینرز اور پاکستان کے اندر امریکی ہوائی اڈے کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی۔ آپ’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ کے بانی رکن تھے اور۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۶ء تک سینیر نائب صدر رہے۔ماہنامہ ' الحق ' کے مدیر کی حیثیت سے ایک پرجوش زندگی گذاری۔ماہنامہ 'الحق' ان کے اعلی ادبی ذوق اور علمی دلچسپیوں کا آئینہ تھا اور ایک زمانہ میں پاک وہند کے ادبی حلقوں میں اسکا طوطی بولتا تھا۔ آپ کے رواں دواں قلم نے لاکھوں صفحات سیاہ کئے ۔یوں وہ لازوال تصنیفات چھوڑ گئے ۔
’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘(قرآن) موت کا ذائقہ ہر نفس نے چکھنا ہے،مگر اس طرح بے دردی سے شہید کردینا کہ سُن کر بھی روح کانپ جائے کہاں کیا انصاف ہے۔اس پر ہم پر زور الفاظ میں احتجاج کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے مجرموں کو کیف و کردار تک پہنچائیں۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
وہ تو شہادت کا رتبہ پاکر اپنی منزل تک کام یابی سے پہنچ گئے، مگر ان کا مشن اور نظریہ ، سوچ اور فکر آج میں زندہ تابندہ ہے۔ان کے جنازے نے امام احمد رحمہ اللہ کے جنازے کی یاد تازہ کر دی۔آج ان کے متعلقین اور متوسلین کا حق بنتا ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت سنواریں۔