یہ بڑے نصیب کی بات ہے!
اس بات کا جواب میرے پاس نہیں تھا، اور میری اس بات کا کہ ایک گھنٹے سے یہاں کھڑا ہوں، جواب اس کے پاس نہیں تھا۔
حرم شریف میں پہلی صف میں کھڑے ہوکر فرض نماز پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔
اذان کا وقت ہونے سے کوئی آدھ پون گھنٹہ قبل، جس جگہ پہلی صف بننی ہوتی ہے، اسی جگہ کچھ لوگ بازو میں بازو ڈال کر ایک زنجیر بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ طواف کے ازدحام میں ان کو خوب دھکے لگتے ہیں لیکن اگر وہ صبر و سکون سے یونہی زنجیر باندھے اذان تک دھکے کھاتے، پسینہ بہاتے رہیں تو اذان ہوتے ہی شرطے ان سے آگے والوں کو پیچھے نکال کر صفیں بنوا دیتے ہیں اور صف اول ہونے کا شرف انہی زنجیر والوں کو ملتا ہے۔
جب پہلی بار عمرہ کے سفر پر جانا ہوا تو بندہ کو اسی طریقہ سے صف اول میں نماز پڑھنے کا بڑا شوق تھا، زنجیر بننے کے وقت پر جاپہنچتا، رش، دھکوں اور گرمی کے مزے لیتا اور بیت اللہ العظیم کی دیوار کے سامنے باجماعت نماز کی سعادتیں لوٹتا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ زنجیر میں بروقت کھڑے ہونے اور مسلسل کھڑے رہنے کے باوجود جب صف بنی تو جگہ تنگ پڑ گئی اور یہ فقیر صف سے صاف باہر ہوگیا، دوبارہ صف میں گھسنے کو بڑا زور لگایا، دائیں بائیں والوں نے بھی حق جوار کا لحاظ کرتے ہوئے جگہ دینے کی پوری کوشش کی، لیکن وہاں ایک انگلی جتنی جگہ بھی نہ تھی، بندے کی جگہ کیا نکلتی۔
خیر، صف کے لوگ صف میں بیٹھ گئے اور یہ مسکین حزین صورت بنا کر صف کے ساتھ ہی اس طرح جڑ کر بیٹھ گیا کہ اگلی صف میں بھی نہیں تھا اور پچھلی صف میں بھی قطعا نہیں تھا۔
شرطے نے جب دیکھا کہ یہ خراب صورت ملّا دو صفوں کے درمیان ناجائز تجاوزات بنا بیٹھا ہے تو مجھے مخاطب کرکے ایک للکارا مارا: "ارجع"
ہم نے مسمی سی صورت بنا کر کہا: "انا فی الصف"
اس پر اس نے لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا: "ما فی الصف٬ ارجع خلف"
ہم نے بھی صفائی سے عرض کیا کہ: "انا قائم ھنا منذ ساعۃ، انا لن ارجع"
خیر، ہم نے اس کو سمجھایا کہ بھیا، ایک گھنٹے سے یہاں دھکے کھا رہے ہیں، اب یوں پیچھے لوٹنے کو جی نہیں مانتا۔
تو پھر جب نماز کھڑی ہوگی تو تو کیا لوگوں کے اوپر چڑھ کر نماز پڑھے گا؟
اس بات کا جواب میرے پاس نہیں تھا، اور میری اس بات کا کہ ایک گھنٹے سے یہاں کھڑا ہوں، جواب اس کے پاس نہیں تھا۔
صف اول سے آگے بیت اللہ تک صفائی ہوچکی تھی، بندہ نے موقع دیکھ کر اسے کہا کہ اگر مجھے حجر اسود کا بوسہ لینے کی اجازت دو تو لے کر پیچھے چلا جاؤں گا۔
پہلے تو اس نے انکار کیا، مگر کچھ دیر بعد اشارہ کرکے بلا لیا، بس پھر کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے، مابدولت نے تسلی سے تن تنہا جی بھر کر بوسہ دیا اور پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پچھلی صفوں میں لوٹ گئے۔