اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش(۲)

اس زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ بعض اوقات جنگی قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ نہیں ہوپاتا تھا اور قیدیوں کو یوں ہی یا فدیہ لے کر رہا کردینے میں مسلمانوں کا دفاع خطرہ میں پڑ سکتا تھا ؛ چنانچہ غزوۂ بدر میں جن قیدیوں کو رہا کیا گیا ، انھوںنے بھی آئندہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں اہم رول ادا کیا ؛ اس لئے اب ایک ہی صورت تھی کہ ان کو قید کرکے سماج کا حصہ بنالیا جائے اور ان کو تمام انسانی حقوق دیئے جائیں ، یہ بات اس لئے بھی ضروری تھی کہ بعض اوقات جنگ میں پوری پوری آبادی اُجڑ جاتی تھی ، مردوں کی اکثریت یا تمام مرد مارے جاتے تھے ، اب ان بچوں اور عورتوں کے لئے بجائے اس کے کہ جیل بنائی جائے اور ان کو آزاد فضا سے محروم کرکے جانوروں کی طرح پالا جائے ، یا عورتوں کو یوں ہی بغیر کسی کفیل کے چھوڑ دیا جائے ، اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ ان کو خاندان کا حصہ بنالیا جائے ؛ اسی لئے غلام اور باندی اسی خاندان کی طرف منسوب ہوتے تھے ، جس کی ملکیت میں وہ ہوا کرتے تھے ، غرض کہ اس وقت اس کو باقی رکھنا اور بتدریج ختم کرنا ایک ضرورت تھی اور کسی کے غلام اور باندی ہونے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ جنگ میں قید ہوکر آئیں ،یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ باندی سے استفادہ کے جائز ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مفتوحہ قوموں میں جو عورت جس کے ہاتھ آجائے ، وہ اس کو اپنے تصرف میں لے آئے ؛ بلکہ اس کے لئے بھی قاعدہ و قانون مقرر تھا ، غلام ہوں یا باندی ، یہ حکومت کی ملکیت ہوتے تھے ، پھر انھیں مجاہدین میں تقسیم کرکے انھیں مالک بنایا جاتا تھا ، مالک بنائے جانے کے بعد بھی ان سے عدت گذروائی جاتی تھی ؛ تاکہ نسب میں اختلاط کا اندیشہ نہ رہے ۔ 
افسوس کہ ذرائع ابلاغ قرآن مجید کے ارشاد : ’’ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ‘‘ ( تمہارے داہنے ہاتھ جس کے مالک ہوجائے) کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اس کا مطلب بیان کررہے ہیں کہ جو جس کے ہاتھ آجائے ، وہ اس کو اپنے تصرف میں لے لے ، یہ بالکل غلط ہے ، عربی زبان کا ایک محاورہ یہ ہے کہ مالک ہونے کو ’ ملک ید ‘ یا ’ ملک یمین ‘ سے تعبیر کرتے ہیں ؛ کیوںکہ آمی جس چیز کا مالک ہوتا ہے ، عام طورپر اس کو قبضہ میں لینے کے لئے اپنے ہاتھوں اور خاص کر داہنے ہاتھ کا استعمال کرتا ہے ، اسی لئے ید کے معنی تو ہاتھ کے ہیں ؛ لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ’ قبضہ ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ؛ کیوںکہ قبضہ حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہاتھ ہی ہے ، اسی طرح اعمال تو انجام دیئے جاتے ہیں جسم کے تمام اعضاء سے ، چاہے عمل اچھا ہو یا برا ؛ لیکن عربی زبان میں اس کو ’ کسب ید ‘ یعنی ہاتھوں کی کمائی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا : ’’بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ‘‘ ( الشوریٰ : ۳۰) تو ملک یمین یا ملک ید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس عورت تک جس کا ہاتھ پہنچ جائے ، وہ اس کی ملک ہے اور اس سے اس کے لئے جنسی استفادہ کرنا جائز ہے ؛ بلکہ ’’ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جو عورت قید ہوکر آئے ، قیدیوں کے تبادلہ کی صورت نہ بن پائے اور حکومت ان قیدیوں کو اپنی ملکیت میں لے کر فوجیوں کو اس کا مالک بنادے اور پھر وہ فوجی عدت گذرواکر ایک بیوی کی طرح اس کو اپنے حرم میں داخل کرلے تو اب اس کے لئے اس عورت سے استفادہ کی گنجائش ہے ، گویا جیسے نکاح کے ذریعہ قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ ایک مرد و عورت کا باہمی تعلق استوار ہوتا ہے ، اسی طرح ’ ملک یمین ‘ کے ذریعہ بھی قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ مرد و عورت کا تعلق قائم ہوتا ہے ، نہ یہ کہ جنگ ہو تو جو عورت جس کو بھا جائے ، وہ اس کو اپنے قبضہ میں لے لے اور اس کے ساتھ بیوی جیسا عمل کرے ، یہ زنا ہے اوراس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ۔
پھر گذشتہ قوموں میں ان کی غلامی دائمی ہوتی تھی ، ان کے آزاد ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی ؛ چنانچہ منوجی نے جو تعلیم دی ہے ، وہ یہ ہے :
شودر کو اگر اس کا آقا آزاد کرے تب بھی وہ آزاد نہیں ہوسکتا ؛ کیوںکہ جو حالت اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے ، اس سے کون اس کو نکال سکتا ہے ۔ ( ۸: ۴۱۴)
لیکن اسلام نے غلامی کا راستہ تو ایک ہی رکھا اور وہ ہے جنگی قیدیوں کا راستہ ؛ لیکن اس کی آزادی کے لئے بہت سے راستے رکھے ، اگر کوئی شخص جھوٹی قسم کھالے تو کفارہ کے طورپر غلام یا باندی آزاد کرے ، ( المائدۃ : ۸۹) اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے ، یعنی کہے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے تو غلام یا باندی کو آزاد کرنا اس کے لئے کفارہ ہے ، ( المجادلۃ : ۳) اگر کسی سے قتل کا ارتکاب ہوجائے تو اس کا کفارہ بھی غلام کو آزاد کرنا ہے ، ( النساء : ۹۲) — غرض کہ مختلف گناہوں کے لئے غلام و باندی کے آزاد کرنے کو کفارہ قرار دیا گیا ۔
اس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے آپ کا ارشاد مروی ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو اس کے ہر عضو کو آزاد کردہ غلام کے اس عضو کے بدلہ دوزخ سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا ، ( بخاری ، باب فی العتق وفضلہ ، حدیث نمبر : ۲۵۱۷) ایک صورت وہ رکھی گئی جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’ تدبیر ‘ کہتے ہیں ، یعنی آقا کہہ دیتا کہ میرے بعد یہ باندی آزاد ہوجائے گی ، بہت سے لوگ کار خیر کے طورپر اس طرح آزاد کیا کرتے تھے ، جیساکہ لوگ ایصالِ ثواب کے لئے وصیت کیا کرتے ہیں ، غلام و باندی کو آزاد کرنے کی ایک صورت یہ رکھی گئی کہ ان پر ایک رقم باندھ دی جاتی کہ جب بھی تم اتنی رقم ادا کردوگے ، آزاد ہوجاؤگے ، ان کو ’ مکاتب ‘ کہتے تھے ، پھر اس کے ساتھ ساتھ ایسے غلاموں کی مدد کرنے کی ترغیب بھی دی گئی اور خود قرآن مجید میں اس کا ذکر فرمایا گیا ، ( البلد : ۱۳) باندی کے لئے آزادی کا مزید ایک راستہ رکھا گیا ، وہ یہ کہ باندی کو بیوی کا درجہ دیتے ہوئے اس سے جنسی حظ اُٹھانے کی اجازت دی گئی ، اب اگر ان کو اپنے آقا سے اولاد ہوجائے تو یہ گنجائش ختم کردی گئی کہ وہ اس کو ہبہ کے ذریعہ یا فروخت کرکے کسی اور کو منتقل کردے ، نیز اس سے پیدا ہونے والی اولاد کو وہی درجہ دیا گیا ، جو بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کا ہوتا ہے ، ایسی باندی کو ’ اُم ولد ‘ کہا جاتا تھا اور عملاً وہ آزاد کے درجہ میں آجاتی تھی ۔
غرض کہ ایک طرف تو آزادی کی مختلف تدبیریں اختیار کی گئیں ، دوسرے عمومی طورپر بھی غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ، جس کا اثر تھا کہ مسلمان اس کو سب سے بڑا کار ثواب تصور کرنے لگے ، انھوںنے نہ صرف اپنے غلاموں اور باندیوں کو آزاد کیا ؛ بلکہ بڑی تعداد میں غلاموں اور باندیوں کو خرید خرید کر بھی ان کو پروانۂ آزادی عطا کیا ، مثلاً عہد صحابہ میں حضرت عبد الرحمن بن عوف نے تیس ہزار ، ذوالکلاع حمیری نے آٹھ ہزار اور حضرت عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار غلام آزاد کئے ، مولانا عبد السلام ندوی نے حدیث کی معروف کتاب بلوغ المرام کی شرح ’ نجم الوہاج ‘ کے حوالہ سے صحابہ کرام کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد انتالیس ہزار دو سو سینتیس نقل کی ہے ، ( اُسوۂ صحابہ : ۲؍۲۱۱) ظاہر ہے کہ اس میں مکمل احاطہ نہیں ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت سے غلام ہوں گے ، جنھیں صحابہ نے آزاد کیا ہوگا ، اسلام کی ان ہی تعلیمات کا اثر ہے کہ رفتہ رفتہ غلام و باندی کا رواج ختم ہوگیا اور انسانیت کو اس سے نجات مل گئی ۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی غلام اور باندی بنائے جاسکتے ہیں ؟ کیا شریعت اسلامی میں اس کی گنجائش ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اول تو موجودہ دور میں اقوام متحدہ کے واسطے سے تمام قوموں کے درمیان معاہدہ ہوچکا ہے کہ سیویلین آبادی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی ، ان کی آزادیاں سلب نہیں کی جائیں گی اور قید ہونے والے فوجیوں کا آپس میں تبادلہ کیا جائے گا ، پوری دنیا میں اُصولی طورپر یہی معمول ہے ، اگر کوئی حکومت اس کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کو زیادتی باور کیا جاتا ہے اور اس پر بین الاقوامی دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے ، ظاہر ہے کہ زیادتی کے ایسے واقعات کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ، عالمی معاہدہ کی رُو سے مسلمانوں پر بھی اس کی رعایت کرنا واجب ہے ، دوسرے : ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو ۳۰؍ دفعات پر مشتمل بنیادی انسانی حقوق کا منشور اقوام متحدہ نے پاس کیا ، جس کی دفعہ : ۴ غلامی کے خاتمہ سے متعلق ہے ، اور مسلم ملکوں نے بھی اس پر دستخط کیا ہے ، یہ بھی ایک معاہدہ ہے اور شریعت میں عہد کو پورا کرنے کا حکم ہے ، خواہ وہ افراد کے درمیان ہو یا دو قوموں کے درمیان ، رسول اللہ ا کو بین قومی معاہدات کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ صلح حدیبیہ کے مطابق مسلمانوں پر یہ بات لازم قرار دی گئی تھی کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ چلا آئے تو مسلمان اس کو واپس کردیں اور اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ چلا جائے تو اہل مکہ اس کو واپس نہ کریں ، یہ دفعہ سراسر نا انصافی پر مبنی تھی ، ابھی یہ معاہدہ مکمل ہی ہوا تھا کہ مکہ سے ایک صحابی اس حال میں آپ اکے پاس پہنچے کہ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں ، آپ ابھی حدیبیہ ہی میں مقیم تھے ، آپ کی بہت کوشش کے باوجود اہل مکہ ان کے معاملہ میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوئے ، اور مسلمانوں نے دُکھے دلوں کے ساتھ اپنے ایک بھائی کو ان کے دشمنوں کے حوالہ کردیا ؛ لیکن آپ انے عہد کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کیا ، اسی طرح مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ نے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ؛ حالاںکہ یہودیوں کی طرف سے سازشوں کے اور وعدہ خلافی کے متعدد واقعات کا ارتکاب ہوچکا تھا ؛ لیکن آپ نے معاہدہ کی پاسداری فرمائی ؛ اس لئے مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں ، اگر جائز اسباب کی بناپر جنگ کی نوبت آگئی اور کچھ غیر مسلم مرد و عورت قید ہوگئے تو ان کو غلام و باندی بنانا جائز نہ ہوگا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ غلاموں اور باندیوں کو اسلام سے پہلے کوئی حق حاصل نہیں تھا ، انھیں اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں ، باندیوں کو ایک مشترکہ ملِک سمجھا جاتا تھا اور ان کو بے آبرو کرنے کی کھلے عام اجازت ہوتی تھی ، جانوروں کی طرح ان کے لئے اصطبل ہوتا تھا ، اسی میں انھیں رکھا جاتا تھا ، انھیں معمولی معمولی باتوں پر کوڑوں کی سخت سزائیں دی جاتی تھیں ، رومیوں میں سیافی کا کھیل بہت مقبول تھا ، جس کے لئے بڑے بڑے اسٹیڈیم ہوتے تھے ، اس میں غلاموں کو آپس میں لڑایا جاتا تھا ، جو غالب آتا ، وہ مغلوب کی بوٹی بوٹی کردیتا تھا ، بعض اوقات انھیں درندوں سے لڑایا جاتا تھا اور قتل و خون کے اس ہولناک منظر پر تالیاں بجاکر داد دی جاتی تھی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت قبطیوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا ، صرف نجومی کے اس بیان پر کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے ، جو فرعون کی حکومت کو ختم کردے گا ، بنو اسرائیل کے ہر نومولود کو قتل کردیا جاتا تھا ، خود عربوں میں غلاموں اور باندیوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی روا رکھی جاتی تھی ، یہاں تک کہ باندیوں سے قحبہ گری کا کام بھی لیا جاتا تھا ، وہ محفلوں میں ناچتی گاتی اور لوگوں کو شراب پلاتی تھیں ۔
اسلام نے اگرچہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے غلام اور باندی کے نظام کو کلی طورپر ختم نہیں کیا ؛ لیکن ایک طرف آزادی کے ایسے راستے نکالے کہ بلا آخر غلامی کا رواج ختم ہوگیا ، دوسری طرف غلاموں کو تمام بنیادی انسانی حقوق عطا کئے اور مالک کے حقوق قریب قریب اس حد تک محدود کردیئے ، جو ولی کو اپنے زیر ولایت شخص پر حاصل ہوتی ہے ، غلام اپنے آقا کو رب کہا کرتے تھے اور آقا اپنے غلام کو عبد ، آپ انے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے غلام کو عبد ( بندہ ) کہے ، یا کوئی غلام اپنے آقا کو رب ؛ بلکہ آپ انے غلاموں کے بارے میں فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی ہیں ، (بخاری ، کتاب الادب ، حدیث نمبر : ۵۷۰۳) آپ انے فرمایا کہ غلام اور باندی کو خادم اور خادمہ کہنا چاہئے ، (کشف الخفاء : ۱؍۶۹) اسی طرح اسلام نے آزاد مرد کے باندی سے نکاح کو اور غلام مرد کے آزاد عورت سے نکاح کرنے کو جائز قرار دیا ، حضرت ابوہریرہؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہے اور اس کا غلام اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے تو فرمایا کہ اس کو اپنے گھوڑے پر اپنے پیچھے بیٹھالو ؛ کیوںکہ وہ تمہارا بھائی ہے اور جیسی روح تمہارے اندر ہے ، ویسی ہی روح اس کے اندر بھی ہے ، ( الزہد لابن المبارک : ۱؍۱۳۳) مدینہ ہجرت کرنے کے بعد جب آپ انے مختلف صحابہ کے درمیان مواخاۃ اور بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت بلال ؓکو خالد بن رواحہ خثعمیؓ کا ، حضرت زیدؓ کو حضرت حمزہؓ کا اورخالد بن زید ؓکو حضرت ابوبکرؓ کا بھائی قرار دیا ، غلاموں اور باندیوں کو ان کے جان و مال اور ان کی عزت و آبرو ، تعلیم اور نکاح میں وہی حقوق دیئے گئے ، جو عام لوگوں کے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ غلاموں میں بڑے بڑے علماء ، حکومت کے اعلیٰ عہدہ داران ؛ یہاں تک کہ سلاطین بھی پیدا ہوئے ۔
حیرت اہل مغرب پر ہے کہ یورپ میں تو اٹھارہویں صدی کے انقلاب فرانس تک غلاموں اور باندیوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی ، غلاموں سے کاشتکاری کی پُرمشقت خدمت لی جاتی تھی ، اگر کوئی غلام تنگ آکر بھاگ جاتا تو قانون کی نظر میں وہ بھگوڑا قرار دیا جاتا تھا ، پھر جب وہ گرفتار ہوجاتا تو اس کے جسم کو داغا جاتا اور اسے پابہ زنجیر اس کے مالک کے حوالہ کیا جاتا ، امریکہ میں ابراہیم لنکن کے عہد تک غلامی کی رواج باقی تھا ؛ لیکن انفرادی غلامی سے بدتر وہ غلامی ہے ، جس کو مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرقی ملکوں میں اختیار کیا ، اس سلسلہ میں مردوں سے بے گاڑ لینے ، عورتوں کی بے آبروئی کرنے اور فوجیوں سے ان کی مشترک طورپر عصمت ریزی کرانے کے اتنے زیادہ اور ایسے ایسے سنگین واقعات پیش آتے رہے ہیں ، جو شیطانوں کو بھی شرمسار کردیں ، الجزائر ، افریقی ممالک ، ملیشیاء ، چین اور ابھی ماضی قریب میں بوسنیا وغیرہ میں پوری پوری قوم کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا رہا ہے ، وہ کسی قوم کے چند افراد کو غلام اور باندی بنانے سے لاکھ درجہ بدتر ہے ، افسوس ہے کہ لوگوں کو اپنے آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آتا اور دوسرے کی آنکھوں کا بال بھی چبھنے لگتا ہے !
یہ تو مغرب کا حال ہے ، ہندوؤں کے یہاں غلاموں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا ؟ اس کے لئے منوسمرتی کا مطالعہ کرنا چاہئے ، چنانچہ یہاں منوسمرتی کی چند دفعات نقل کی جاتی ہیں :
٭ شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک میں جاتا ہے ۔ (۳:۱۷)
٭ جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گا ، وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم ورت نامی جہنم میں جائے گا ۔ ( ۴: ۸۱)
٭ اگر کسی برہمن کی اپنی ذات کا آدمی موجود نہ ہو تو اس کی میت کو شودر کے ہاتھ سے نہ اُٹھوانا چاہئے ؛ کیوںکہ جو مراسم تجہیز ایک شودر کا ہاتھ لگنے سے آلودہ ہوجائیں ، وہ بہشت کی طرف نہیں جاسکتے ۔ (۵: ۱۰۴)
٭ اگر کوئی برہمن شودر کا جھوٹا کھانا کھالے تو وہ سات دن تک آشِ جو کے سوا کچھ نہ کھائے پیئے ۔ (۱۱: ۲۴)
٭ ایک برہمن بلا تامل اپنے شودر غلام کا مال لے سکتا ہے ؛ کیوںکہ کوئی مال بھی شودر کی ذاتی ملک نہیں ہے ، وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی جائداد اس کا آقا لے سکتا ہے ۔ ( ۸: ۴۱۷)
٭ شودر اگر مال و دولت حاصل کرنے کی قوت رکھتا ہو تب بھی اسے حاصل نہ کرنا چاہئے ؛ کیوںکہ جو غلام دولت جمع کرلیتا ہے وہ برہمن کو اذیت دیتا ہے ۔ ( ۱۰: ۱۲۹)
٭ شودر عورت کے پیٹ سے برہمن ، کشتری یا ویش مرد کا لڑکا باپ کے ترکہ میں سے کوئی حصہ نہ پاسکے گا ، اس کا باپ جو کچھ اسے دے دے ، وہی اس کی ملک ہے ، دویج ذات کے مردوں کی جو ادلاد خود اپنی ذات کی عورت سے پیدا ہوئی ہو ، وہ باہم ترکہ کی مساویانہ تقسیم کرے ۔ ( ۹: ۱۴۹ – ۱۵۶)
٭ اگر وہ ( شودر ) غرور کی راہ سے برہمن کو اس کے فرائض کے متعلق ہدایت دے تو راجا اس کے منھ اور کان میں جلتا ہوا تیل ڈالنے کا حکم دے ۔ (۸ : ۲۷۲)
اس کے برخلاف اسلام نے غلامی کا سد باب کرنے اور غلام و باندی کو عام انسانوں کے درجہ میں لانے کے لئے سہ رُخی کوششیں کیں ، ایک طرف غلام اور باندی کو آزاد کرنے کی بہت سی صورتیں نکالیں ، دوسری طرف آزاد کرنے اور اس میں تعاون کرنے کو بہت ہی قابل تحسین عمل قرار دیا ، تیسرے : غلاموں اور باندیوں کے لئے ایسے حقوق متعین کئے کہ وہ عام لوگوں کے ہم پلہ ہوجائیں ، ان تدبیروں نے آہستہ آہستہ غلامی کے سلسلہ کو ختم کردیا ۔
نوٹ:- اس تحریر میں منو شاستر کے جو حوالے دیئے گئے ہیں ، وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ’ الجہاد فی الاسلام ‘ سے ماخوذ ہے ، اور خود مولانا نے منوشاستر کے دو انگریزی ترجمے سامنے رکھے ہیں ، جن میں ایک سرولیم جونز کا ہے ، دوسرے برنل کا ترجمہ مع شرح ہے ، جسے ۱۸۹۴ء میں پروفیسر ہاپکنس نے ایڈٹ کرکے شائع کیا ہے ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024