بدلتی نفسیات اور بنت حوا ماں کے روپ میں۔۔
بدلتی نفسیات اور بنت حوا
وقت کے بدلتے تقاضوں کے تحت انسانیت مشت خاک سے پتھر ،پتھر سے پتے،پتے سے کپڑے اور پھر چاند کی سطح یہاں تک کے خلا کی تسخیر تک کے انسانی تہذیب و تمدن کے سفر میں جس صنف آ ہن نے انسانیت کو تھامے رکھا وہ بنت حوا تھی ۔زمانے کی تند و تیز ہواؤں میں پہلی صفوں میں نظر آئےبغیر جس نے انسانیت کو تھامے رکھا اور انسان کو انسانیت کی بنیادوں پر مضبوط نہج پر استوار کیا اور معاشرے کی تشکیل کے لئے جس نئی نسل کی ضرورت تھی اور پھراس نئی نسل کی پرورش و تربیت اور اس کو آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنے کے لیے جس نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں وہ حیا کی چادر میں لپٹی بنت حوا تھی۔
پھر وقت بدلا تو ضروریات بھی بدل گئیں اور اس کو اس کی اصل اور بنیاد سے ہٹا کر دیگر معاملات میں الجھا دیا گیا ان کڑھتے ہوئے حالات میں جو نئی نسل کی تربیت کی ضرورت تھی اس فریضہ میں کوتاہی نظر آنے لگی ۔
ایک مضبوط معاشرتی اقداروں سے بھرپور معاشرہ اس کی بنیاد ایک مضبوط خاندانی نظام پہ ہے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک یہ صنف اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے بجا آور ہوتی رہی تب تک وہ معاشرہ اور وہ گھرانہ اس قدر ترقی پر جا پہنچا کہ مقام ثریا نے اس صنف آہن کے قدموں کو چوم لیا۔
بڑے بڑے تاریخ دان اور فلاسفر بطور خاص نپولین کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا
تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں ایک مضبوط قوم دے دوں گا ۔
یہ لازمی امر ہے کہ ایک بچے کی تربیت میں ایک ماں کا ہی کردار ہوتا ہے اور ایک بچے کی تربیت کے لئے ایک ماں کو نفسیاتی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ایک عورت جب تک بچے کی نفسیات کو نہیں سمجھتی تب تک وہ بچے کی تربیت میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتی کہ وہ بچہ کل کو ایک لیڈر کے طور پر پیش کر سکے۔
جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بچے کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے بچے کی ماں کو خاصے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور جو اس پر عبور حاصل کرلےاس کے لیے پھر بچہ کی تربیت زیادہ مشکل امر نہیں ہوتا۔ایک سمجھدار ماں اپنے بچے کی ہر ایک حرکت کو نوٹ کر رہی ہوتی ہے
بچہ گھر سے نکل کس طرح رہا ہے؟
بچہ بات کس انداز سے کر رہا ہے؟
بچے کے اشارے کس طرز کے ہیں ؟
بچہ بول کی طرح سے ر ہا ہے؟
بچہ ری ایکشن کس انداز میں دے رہا ہے؟
بچہ کس چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہے؟
بچہ کس انداز میں چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہے ؟
ان تمام تر سوالات میں اگر ایک عورت بچے کی نفسیات کو نہ سمجھ سکے تو وہ بچے کی ضرورت یا بچے کی مجبوری یا بچے پر آنے والی مشکلات سے بے خبر رہتی ہے۔ اس طرح بچہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بسا اوقات تو احساس کمتری کے اس قسم کے شدید حملے سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ خودکشی تک کے اقدام کو پہنچ جاتا ہے ۔جب یہ بنیاد اور ماں اور بچے کا آپس کا تعلق کمزور ہونے لگتا ہے ہے تو دیگر کئی ایک عوامل بچے کے ساتھ اپنا ربط قائم کرتے ہیں اور بچے کو اپنی طرز پر تیار کرتے ہیں ۔بچے کو توجہ نہ ملنا اس کی نفسیات پہ اس قدر شدید ہو سکتا ہے کہ بچہ یہ توجہ طلب کرنے کے لیے اسلحہ تک کا استعمال کر لیتا ہے اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے آئے روز مغربی معاشرے میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
ایک ماں اور بچے کے درمیان صرف ایک محبت کا رشتہ استوار نہیں ہوتا بلکہ ایک بچہ اپنی ماں کو اپنا کل جہاں سمجھتا ہے اور اس کے لیے وہ سبھی کچھ ہوتی ہے
۔مشکل میں اس کے لیے آسانی ۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت کے وقت اس کی ضرورت پوری کرنے والی۔۔۔۔۔
عسر میں یسر کی چھاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ میں خوشی کی گود ۔۔۔۔۔۔۔
ان سب چیزوں کی ایک بچہ اپنی ماں سے توقع رکھتا ہے لیکن پیار میں شدت یہ بھی بنت حوا کا مزاج رہا ہے اور اس کی اگلی اولاد کا بگڑ جانا یہ بھی لازمی امر رہا ہے ۔
تو ایسے حالات میں کہ پیار بھی ہو لیکن اولا بھی نہ بگڑے اس کے لئے ایک ماں کو اپنے بچے کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہئے آئے تاکہ حالات بدلیں یا معاشرے کے تقاضے بدل جائیں لیکن معاشرہ ان ہی مضبوط اقداروں پر قائم رہے۔