کچھ تذکرہ عید اور اعمال عید
کا تفصیلی بیان ہے۔
کچھ تذکرہ عیداور اعمالِ عید کا
رمضان المبارک کی ابتدا ہو چکی ہے،یقینااس بابرکت مہینہ کی رحمتوں ،برکتوں اور مغفرتوں سے ہر ہر مسلمان اپنے اپنے ظرف کے مطابق حصہ لے رہا ہوگا،ایسے میں چند ایسی گذارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا خیال پیدا ہوا، جن کا تذکرہ اسی ماہِ مبارک میں کیا جانا ضروری تھا، اگرچہ ان کا تعلق اس ماہِ مبارک سے نہیں بلکہ آنے والے مہینے ”شوّال “سے ہے،لیکن اس مضمون کا آئند ہ شمارہ میں آنا سود مند نہیں تھا اس لیے کہ جب تک شوال کا شمارہ منظر ِعام پر آئے گا،اس وقت تک بہت سے ایسے اعمال کا وقت گذر چکا ہو گا، جو ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں،چناں چہ اس مضمون میں ”چاند رات، عید الفطر کے مسنون اعمال ،نمازِعید کا طریقہ اور اگر کوئی شخص عید کی نماز میں مسبوق ہو تو وہ اپنی نمازِعید کی رہ جانے والی رکعتوں کوکیسے پورا کرے گا؟“جیسے اُمور کو بیان کرنا ہے۔اللہ رب العزت حق بات کو احسن انداز میں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
چاند رات
احادیث ِ مبارکہ میں اس رات کو”لیلة الجائزہ“(انعام کی رات ) کا نام دیا گیا ہے،چوں کہ اس رات میں حق تعالی شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے،اس لیے اس رات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے،پورا مہینہ اللہ کے بندے اللہ کو راضی کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں،ایک عجیب تبدیلی کااحساس ہر بندہ محسوس کرتا ہے، عبادات میں ترقی ہو جاتی ہے۔نماز ، تلاوت کلام ِپاک،ذکر واذکار،رب عزوجل سے مناجات ،الغرض ہر ہر بندہ اپنے رب کی بندگی میں آگے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگا ہوتا ہے، یہ تو عام لوگوں کاحال ہوتاہے ،خواص کا تو پوچھنا ہی کیا؟! ان کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ ایک الگ ہی منظرپیش کررہا ہوتا ہے،دنیاوی معاملات و مصروفیات کو تو گویابالکلیہ ہی خیر باد کہہ دیا جاتا ہے اوردن، رات رب عزوجل کے تعلق وخوش نودی کے حصول کے لیے کوششوں میں ایک کر دیے جاتے ہیں۔
ایسے میں جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتاہے توپھر پہلی رات سے ہی پورے ماہ کی محنت کے بدلے ملنے والے انعامات کا اعلان شروع ہو جاتا ہے،مذکورہ تفصیل کے بعد جب اپنے اوپر اور اردگرد کے ماحول میں نظر ڈالتے ہیں تو پھر عام لوگ تو درکنا ر کچھ خواص قسم کے افراد بھی رمَضان کے تھکے ہارے اس رات بے فکر میٹھی نیند سوتے نظر پڑتے ہیں،حالانکہ یہ رات بھی بہت زیادہ خصوصیت کی حامل ہے۔
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی کئی روایات سند کے اعتبار سے اگرچہ کچھ کمزور ہیں، لیکن ایک تو فضائل کے معاملہ میں ضعیف روایات قابلِ قبول ہوتی ہیں(بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو)دوسرے ان روایات کے مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہونے کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور بھی ہو جاتا ہے ، لہٰذا اس موقعہ پر روایات کی سندوں کے ضعف کو بنیاد بنا کر عیدین کی راتوں کی فضیلت کا یکسر انکار کر دینا جمہور کے موٴقف کے خلاف ہے،جیسا کہ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اور بعض دیگر محدثین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
چناں چہ امام نووی رحمہ اللہ” شرح مسلم “میں لکھتے ہیں:
”اتفقوا علی استحباب إحیاء لیلتي العیدین وغیر ذلک“․
(شرح النووي علی صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف، باب الاجتھاد في العشر الأواخر من شھر رمَضان:1/372،قدیمي)
اور اسی طرح اپنی کتاب”الأذکار“میں لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ ینبغي لمن بلغہ شيء في فضائل الأعمال أن یعمل بہ، ولو مرة واحدة، لیکون من أھلہ، ولا ینبغي لہ أن یترکہ مطلقاً، بل یأتي بما تیسر منہ، لقول النبي صلی الله علیہ وسلم فيالحدیث المتفق علی صحتہ((إذا أمرتکم بشيء فأتوا منہ ما استطعتم))․(الأذکار للنووي، المشروعة في العیدین، ص:8، دارالبیان، دِمَشق)․
نیزایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ یستحب إحیاء لیلتي العیدین بذکر اللہ تعالیٰ والصلاة و غیرھما من الطاعات، للحدیث الوارد في ذلک: ((من أحیا لیلتي العید لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب))․․․․․․وہو حدیث ضعیف رویناہ من روایة أبي أمامة مرفوعاً وموقوفاً، وکلاھما ضعیف، لکن أحادیث الفضائل یتسامح فیھا کما قدمناہ في أول الکتاب، واختلف العلماء فيالقدر الذي یحصل بہ الإحیاء، فالأظھر أنہ لایحصل إلا بمعظم اللیل وقیل یحصل بساعة“․ (الأذکار للنووي،المشروعة في العیدین،ص:224، دارالبیان، دِمَشق)․
چناں چہ بہت سی کتب ِاحادیث مثلاً:ابن ماجہ،الترغیب والترہیب،شعب الإیمان للبیہقی،الجامع الصغیر،کنزالعمال،مصنف عبد الرزاق،سنن الکبری للبیہقی وغیرہ میں مذکور ہے :
”من قام لیلتي العیدین محتسباً لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب“․
(السنن الکبری للبیہقي،باب عبادة لیلة العیدین،رقم :6518، 3/319،مجلس دائرة المعارف)․
ترجمہ:جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچا رہا)تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک )دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل (خوف وہراس اور دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
اتنی بڑی فضیلت اوراس سے ہماری غفلت! ! ڈر ہے کہ کہیں ہماری اس ناشکری کا وبال ہمیں اس منعم کے عتاب میں ہی نہ مبتلا کر دے۔
عیدالفطر
عید الفطر مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ خوشی کا دن ہے،اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس دن مسلمان اللہ جل شانہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اپنے ذمہ عائد ایک بہت بڑے فریضے کی تکمیل کر چکے ہوتے ہیں،پورا مہینہ دن کو روزہ اور شب میں تراویح کی ادائیگی اور اس میں کلامِ الہی کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اس محنت کا بدلہ یا مزدوری اس عید الفطر کے دن دیا جاتا ہے ،اسی لیے اس دن کو آسمانوں میں ”یوم الجائزة“(انعام کا دن) اور اس کی رات کو”لیلة الجائزة“(انعام کی رات) کہہ کر پکارا جاتا ہے، جیسا کہ آگے حدیث شریف میں آ رہا ہے،الغرض عید کے دن اور اس کی رات کی اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،جس سے اس دن اور رات میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
”پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إنيقد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“ فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔
اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں:”یا عبادي!سلُوني، فوعزّتي وجلاليلا تسئَلونِي الیومَ شیئاً في جَمْعِکم لِاٰخِرَتِکم إلا أعطیتُکم، ولا لِدُنیاکم إلا نَظرتُ لکم، فوَعِزّتِيْ، لأستُرنَّ علیکم عَثَراتِکُم ما راقَبتُموني، وعزّتي وجلالي، لَا أُخْزیکم ولا أفضَحُکم بین أصحاب الحدود، وانْصَرِفُوا مَغْفُوْراً لکم، قد أرضَیتموني ورضیتُ عنکم، فتَفرَحُ الملائکةُ وتَستبشِرُ بما یُعطِي اللهُ عزَّوجلّ ھٰذہ الأمةَ، إذا أفطروا مِن شھرِ رمَضَان“․
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم!میرے جلال کی قسم!آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گااوردنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر غور کروں گا،میری عزت کی قسم!جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چُھپاتا رہوں گا)۔میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں(اور کافروں) کے سامنے رُسوا نہیں کروں گا، بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاوٴ،تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر، جو اس امت کوافطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔(اللھم اجعلنا منھم،آمین)․
لہٰذا ! اللہ رب العزت کی (عطایاکی)طرف دیکھتے ہوئے ہمیں بھی چاہیے کہ اس دن کو بھی اور اس بعد کے ایام کو بھی اس کی منشا کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں کہ یہی اس کی عطایا کی قدردانی ہے ،چناں چہ ذیل میں عید الفطر کے دن کے مسنون اور مستحب اعمال تحریر کیے جاتے ہیں:
عید کے دن کے اعمال
* عید کے دن صبح سویرے اٹھنا۔”ویستحب التبکیر وہو سرعة الانتباہ“․(العالمگیریة:1/149،رشیدیة)
* نمازِ فجر اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنا۔”ومن المندوبات صلاة الصبح في مسجد حیہ“․(ردالمحتار:3/56،دارالمعرفة)
* جسم کے زائد بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا۔”ویتطیب بإزالة الشعر وقلم الأظفار“․(حلبي کبیر،ص:566،سھیل اکیڈمي)
* غسل کرنا۔
* مسواک کرنا(یہ اس مسواک کرنے کے علاوہ ہے جو وضو میں کی جاتی ہے،نیز مسواک کرنا خواتین کے لیے بھی مسنون ہے)۔
* جو کپڑے پاس ہوں اُن میں سے اچھے عمدہ کپڑے پہننا،نئے ہوں تو نئے پہن لیے جائیں، ورنہ دُھلے ہوئے پہنے جائیں۔
* خوشبو لگانا(لیکن خواتین تیز خوشبو نہ لگائیں)۔”ثم یستحب لصلاة العید ما یستحب لصلاة الجمعة مِنَ الِاغتسال، والاِستیاک، والتطیُّب، ولُبس أحسنِ الثیابِ، والتبکیرِ إلی المُصلّیٰ لأنہ یوم اجتماع للعبادة کالجُمعة فیستحبُ التَنظِیف وإِظھار النِعْمة والمُسَارعة“ (حلبي کبیر،ص:566،سھیل اکیڈمي)
* انگوٹھی پہننا(مَرد وں کے لیے زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے ،اس سے زیادہ یا کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں)۔
”في النَھْر عن الدِرایة: أَنَّ مَنْ کان لا یختم مِنَ الصحابةِ کان یختم یومَ العید“․(ردالمحتار:3/56،دارالمعرفة)․
* اگر صدقہ فطر ابھی تک ادا نہ کیا ہو تو عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کرنا۔”ویوٴدّي صدقة الفطرإِغناءً لِلفقیرِ لِیَتَفَرَّغ قلبُہ للصلاة“․ (فتح القدیر:2/70،دارالکتب العلمیة)
* عید گاہ کی طرف جلدی جانا۔”ویَستحِب․․الِابتکارُ وہو المُسارعة إلیٰ المُصَلّیٰ“․ (العالمگیریة:1 /149،رشیدیة)
* پیدل چل کر عید گا ہ جانا،البتہ اگر کوئی عذر ہو تو سواری پر جانے میں مضائقہ نہیں۔”ثُمّ خُروجُہ ماشیاً إلیٰ الجَبَانةِ“․ (ردالمحتار: 3/56،دارالمعرفة)․
* نمازِعید ،عید گاہ میں ادا کرنا،البتہ اگر کوئی عذر ہو(مثلاً:بارش ہو ،دشمن کا خوف ہویاعید گاہ میں امام صحیح العقیدہ نہ ہو) تو مسجدِمحلہ میں ہی نمازِ عید ادا کر لی جائے۔(کذا فی امداد الاحکام:1/733)
* عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے آہستہ آوازمیں تکبیرات تشریق کہتے ہوئے جانااور عید گاہ پہنچ کر تکبیرات بند کر دینا،تکبیرات تشریق یہ ہیں”اَللّٰہُ أَکبَر، اَللّٰہُ أکبر،لآإلٰہ إلا اللّٰہُ واللّٰہُ أکبر،اللّٰہُ أکبر ولِلّٰہِ الحمد“۔
”ویُستَحبُّ التکبیرُ جھراً في طَریق المُصلّیٰ یومَ الأضحیٰ إِتّفاقاً للإِجماع، وأَمّا یوم الفطر فقال أبو حنِیفة: لایُجھَرُ بِہ“․(حلبي کبیر،ص:566،سھیل اکیڈمي)
* عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا،اگر کوئی میٹھی چیز ہو(کھجور،چھوہارے یا کوئی اور چیز )تو طاق عدد میں کھانا بہتر ہے اور اگر میٹھی چیز نہ ہو تو کوئی بھی چیز کھا لی جائے۔”ویستحب في یوم الفطر اَٴنْ یطعم قبل أن یَخْرُجَ إلی المُصَلّیٰ“․(فتح القدیر:2/69، دارالکتب العلمیة)
* نمازِ عید ادا کرنے کے بعد واپسی پر راستہ بدل کر آنا۔(مرقاة:3/290،رشیدیہ)
* ہر کسی سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، بشاشت کا اظہار کرنا اور غیض و غضب سے پرہیز کرنا۔ ”وندُب․․․․․․إِظھارُ البَشاشَة“․ (ردالمحتار: 3/56،دارالمعرفة)
* اپنی وسعت کے مطابق مستحقین اور مساکین کی مدد کرنا۔”وندُب․․․․إِکثارُ الصَّدَقَة“․ (ردالمحتار:3/56، دارالمعرفة)․
* اپنی حیثیت کے مطابق اپنے گھر والوں پر کھانے وغیرہ کے اعتبار سے کشادگی کرنا۔
* اگر ممکن ہو تو عید کے دن جبہ پہننا۔”ویندُب للرّجال وکان للنبياجُبَّةُ فَنَکٍ یلبَسُھا في الجُمَع والأعیاد“․(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح:289،دارالکتب العلمیة)۔
* ایک دوسرے کو مبارک باد دینا(بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے)۔”وندُب․․․․․التَھنِئَةبتقبَّل اللّٰہُ منَّا ومِنْکُم“․ (ردالمحتار: 3/56، دارالمعرفة)․ (عمدة الفقہ:2/259،260 ملخصاً)۔
نمازِ عید کا طریقہ
عیدکی نماز دو رکعت ہے ،اس کا طریقہ عام نمازوں کی ہی طرح ہے ،البتہ اس نماز میں چھ تکبیریں زائد ہوتی ہیں(تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے)یہ تکبیرات واجب ہیں، اور ان کا ثبوت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کئی تابعین کرام سے ہے۔(مسند احمد، شرح معانی الآثار،مصنف ابن ابی شیبہ،مصنف عبد الرزاق، مبسوط سرخسی ،کتاب الآثار،اوجز المسالک وغیرہ)
نماز کا طریقہ یہ ہے،سب سے پہلے دل میں یا زبان سے نیت کر لے کہ ”دو رکعت عید کی واجب نماز ،چھ واجب تکبیروں کے ساتھ اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں “اس کے بعد تکبیر تحریمہ یعنی”اللّٰہ أکبر“کہہ کر ہاتھ باندھ لے،پھر ثناء ، یعنی:”سبحٰنک اللہم․․․الخ“پڑھ کے تین بار ”اللّٰہ أکبر“ کہے،پہلی اور دوسری بار کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر نیچے لٹکا دے ،البتہ تیسری بار ہاتھ نہ لٹکائے،بلکہ باندھ لے،اس کے بعد امام ”أعوذ باللّٰہ“اور ”بسم الله“پڑھ کے قرات کرے اور حسبِ قاعدہ پہلی رکعت پوری کرے، دوسری رکعت میں قرات کرنے کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ ”اللّٰہ أکبر“کہے جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا،البتہ یہاں تینوں مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر چھوڑ دے اور چوتھی بار رکوع کی تکبیر”اللّٰہ أکبر“کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور حسبِ قاعدہ نماز مکمل کرے۔
اگر کچھ رکعتیں چھوٹ جائیں تونمازِعید میں ملنے کا طریقہ
فرائض اسلام میں سب سے بڑا، اہم اور ذی شان فریضہ ”نماز“ہے، لیکن مقام ِافسوس ہے کہ مجموعہ امت ِمسلمہ کا شاید دس فیصد طبقہ ہی اس اہم فریضہ کی طرف متوجہ ہوگااور اس مختصر مجموعہ میں سے اس مقدس فریضہ کے جملہ مسائل سے واقفیت رکھنے والے بھی گنتی کے ہی افراد ہیں،انہی مسائل نماز میں سے ایک اہم مسئلہ”نمازوں کی چھوٹی ہوئی رکعات کی ادائیگی کا طریقہ “ ہے، نمازی حضرات پانچوں نمازوں میں رہ جانے والی رکعات کو ادا کرنے کا طریقہ توشاید جانتے ہی ہوں گے، لیکن”نمازعید“(جو سال میں دو بار ہی آتی ہے) کی کوئی رکعت، یا تکبیراتِ زوائد رہ جائیں تو ان کی ادائیگی کیسے کی جائے گی؟ اس کی وضاحت تو ائمہ مساجد سے بھی بیان کرتے نہیں سناگیا، چہ جائیکہ نمازی حضرات ان مسائل سے کما حقہ واقف ہوں اور اگر کوئی امام صاحب اس مسئلہ کو بیان کرتے سنے بھی گئے تو عید کی نماز سے پہلے بیان کر رہے ہوتے ہیں ،حالانکہ یہ مسئلہ ان افراد سے متعلق ہے جو کسی عذر کی بنا پر تأخیر سے نما ز میں شریک ہو رہے ہوں ،نہ کہ ان افراد کے لیے جو پہلے سے مسجدیا عید گاہ میں موجود ہیں۔
لہٰذا سوچا گیا کہ ”نماز عید“میں مسبوق(یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں)کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں ان کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام وائمہ مساجد انہیں عید المبارک سے چند روز قبل تفصیل سے بیان کر دیں، تاکہ بہت سے صوم وصلوة کے پابند حضرات کی نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔
ذیل میں وہ تمام(متوقع) صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم ذکر کیا جاتا ہے:
اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ چکا تھا، تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(ردالمحتار:3/64،دارالمعرفہ،بیروت)
اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا، تو یہ شخص اندازہ کر ے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا، تو اس آ نے والے کو چاہیے،کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہے، لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں، ہاں!اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں اور اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایاتھا، یازیادہ، یاکچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔(عالمگیریہ: 1/ 151، رشیدیہ)
اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے، یعنی جس طرح امام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے ، یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے “دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے ۔(البحر الرائق:2/282،دارالکتب العلمیہ)
اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچاجب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا، تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟ اگر پا سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جا کر تکبیرات کہے اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں، تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔(تاتارخانیہ:2/73،قدیمی)
اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیرچکا تھا، تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا، اس شخص کو چاہیے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو ،وہاں جا کر نماز ادا کرے اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔(ردالمحتار:3/67،دارالمعرفہ)
الغرض! مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آ سکتی ہیں، اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں” عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کر دیاکریں، تو یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالی تمام مسلما نوں کو اپنی مرضیات کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)