وبا کے وقت اذان دینے کا حکم ۔ اصلاح اغلاط 191

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کرونا وائرس وبا نے متعدد ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس وبا کے خاتمے کے لیے بہت سے لوگ اجتماعی اذان کی ترغیب بھی دے رہے ہیں جس کی صورت یہ ہے کہ رات کے مخصوص وقت میں گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر اجتماعی طور پر یعنی ایک ساتھ اذان دی جائے، اسی طرح مساجد کے عمومی اسپیکر سے بھی اذانیں دی جائیں، جس کی وجہ سے امید ہے کہ یہ وبا ختم ہوجائے۔ اسی تناظر میں بعض حضرات وبا ختم ہونے تک ہر روز ان اذانوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔ ذیل میں اس عمل کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ اس کا شرعی حکم معلوم ہوسکے۔

 

 وبا کے وقت اذان دینے کا حکم:

واضح رہے کہ طاعون یا کسی اور وبا کے وقت اذان دینا شرعی اعتبار سے سنت یا مستحب  نہیں، بلکہ متعدد اہلِ علم کے نزدیک یہ جائز بھی نہیں، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

  1.  قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام سے وبا کے موقع پر اذان دینے کا کوئی ثبوت نہیں۔
  2.  اسی طرح حضرات فقہاء کرام نے نماز کے علاوہ جن مواقع میں اذان دینے کامستحب یا جائز ہونا ذکر کیا ہے ان میں بھی طاعون یا اس جیسے کسی اور وباکے وقت اذان دینے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
  3.  حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی نہایت ہی شدید طاعون آیا لیکن اس وبا کے موقع پر بھی ان سے انفرادی یا اجتماعی طور پر اذان دینے یا اذان کی ترغیب  دینے کا کوئی ثبوت نہیں۔

ان تین باتوں سے اصولی طور پر یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ طاعون یا اس جیسے کسی اور وبا کے موقع پر اذان دینا سنت، مستحب یا دین کا حصہ ہرگز نہیں ہے، اس لیے اس کو سنت یا مستحب سمجھنا ہر گز درست نہیں، بلکہ یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے، کیوں کہ اگر وبا کے موقع پرانفرادی یا  اجتماعی اذان دینے کا عمل سنت یا مستحب ہوتا تو قرآن وسنت اور  حضرات صحابہ کرام سے ضرور ثابت ہوتا۔ یہ اصولی بات ہے جس سے متعدد امور واضح ہوجاتے ہیں۔

 ایک اہم وضاحت:

بعض فتاویٰ سے معلوم ہوتا  ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینا  علاج کے طور پر مباح یعنی جائز  ہے، البتہ اس میں چند باتوں کی رعایت ضروری ہے:

  1.  اس کو سنت، مستحب یا شرعی حکم نہ سمجھا جائے
  2.  یہ اذان نماز کی اذان کی طرح انداز اور آواز میں نہ کہی جائے تاکہ دونوں میں امتیاز ہوسکے۔
  3.  اس کو لازم نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس میں شرعی حدود کی خلاف ورزی کی جائے۔

ان فتاویٰ کی رو سے مذکورہ شرائط کے ساتھ بطورِ علاج وبا کے موقع پر اذان دینے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص انفرادی طور پر شرعی حدود اور شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اذان دے تو اپنی ذات میں اس کی گنجائش ہے، لیکن یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں ان حدود وشرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، عوام اس پر عمل کرتے ہوئے ان حدود وشرائط کی رعایت نہیں کرپاتے، جیسا کہ موجودہ صورتحال میں مشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ اس اذان دینے کو دین ہی کا حصہ سمجھتے ہیں، اس کے لیے احادیث سے دلائل بھی پیش کرتے ہیں، اس کے لیے رات کا مخصوص وقت بھی مقرر  کیا ہوا ہے، اس کا حد سے زیادہ اہتمام بھی ہونے لگا ہے کہ باقاعدہ اس کی عمومی تشہیر اور ترغیب دی جارہی ہے، یہ اذان ایک ساتھ اجتماعی طور پر  دینے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے، نماز کی اذان کی طرح  یہ اذان دی جاتی ہے، مساجد سے بھی عمومی اسپیکر کے ذریعے بیک وقت اذانیں دی جارہی ہیں اور اس کے علاوہ بھی متعدد خرابیاں پائی جارہی ہیں۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی توجہ کے قابل ہے کہ بعض فتاویٰ کی رو سے یہ عمل زیادہ سے زیادہ مباح ہے اور مباح عمل میں جب شرعی حدود کی رعایت نہ رکھی جائے تو اس کو ترک کرنا واجب ہوجاتا ہے، جیسا کہ حضرات فقہاء کرام نے اس کی صراحت فرمائی ہے، اس لیے ایک مباح عمل کا اس قدر اہتمام اور اس میں اپنی طرف سے قابلِ اعتراض امور کا اضافہ بذاتِ خود اس عمل کو ممنوع بنادیتا ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینے سے اجتناب کیا جائے  جیسا کہ آگے جامعہ دار العلوم کراچی کے فتوے میں اس کا ذکر آرہا ہے، اور اس اذان کی جگہ اُن اعمال  کا سہارا لیا جائے جو کہ قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ اسی مسئلہ میں عوام کی اسی بے احتیاطی کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں:

لا یقال: إن لم یعتقد سنیۃ ھذا الأذان مستدلا بالحدیث المذکور؛ لکونہ محمولا علی ظھور الجن بل إذن سنیۃ الرقیۃ ینبغی أن یجوز، قلنا: أن العوام تعتقدہ من الأمور الشرعیۃ الدینیۃ کما ھو شاھد من أحوالھم، ومن لم یعرف حال أھل زمانہ فھو جاھل فافھم۔ (امداد الاحکام: 1/420)

 فتاویٰ جات

ذیل میں اس حوالے سے چند فتاویٰ ذکر کیے جاتے ہیں:

1 فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

طاعون، وبا وغیرہ امراض کے شیوع کے وقت کوئی خاص نماز احادیث سے ثابت نہیں، نہ اس وقت اذانیں کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس لیے اذان کو یا جماعت کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب سمجھنا خلافِ واقع ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم)

2 حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

بعض کو طاعون میں اذان دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے، اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ (اغلاط العوام صفحہ ۳۴)

3 حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

▪ سوال: بیماری کے موسم میں جو اذانیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

▪ فرمایا: بدعت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا جِنّات کے اثر سے ہوتی ہے اور اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں، اس واسطے اس اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیطان کے بھگانے کے لیے ہے، مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے؟ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ دفعہ ہوتی ہے، تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں، مگر پھرآجاتے ہیں، تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک اذان کہی جائے اتنی دیر ہٹ جائیں گے اور پھر آجائیں گے، اور نماز کی اذان سے تو رات دن میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں،  یہ تو صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے، ذرا اوپر بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے، تو شیاطین کے بھاگنے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو،  پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟؟ آج کل بعض علماء کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑگیا ہے، حالاں کہ یہ یقینًا بدعت ہے، اور اس کی کچھ بھی اصلیت نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔ (اشرف العملیات)

4 حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے  ہیں کہ:

▪ سوال: دفعِ وبا (مثلًا طاعون)کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ‘‘حصنِ حصین’’ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دور بھاگتا جاتا ہے جیسے مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے، اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے،  اس کا کیا مطلب ہے؟

▪ الجواب: اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ‘‘حصن حصین’’ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ۔ دوسری حدیث صحیح مسلم کی حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی ہے: إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہ حُصَاصٌ۔اور حصنِ حصین میں مسلم کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ‘‘إِذَا تَغَیَّلَتْ’’ ‘‘وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا’’ کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پائے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔ اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔ اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حیّ علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیر صلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نصّ ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔ الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے، پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ (خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیثِ تغیّل سے استدلال کرنا درست نہیں، اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جائے) اِحداث فی الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمو اس میں (جو صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔  (اشرف العملیات)

 

5 حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

▪ سوال نمبر 93: زمانہ قحط اور وبا میں اور دیگر حوادثات میں اور دفنِ میت کے بعد اذن کہنا کیسا ہے؟

▪ جواب: ان حوادثات میں اذان شارع علیہ السلام سے اور اقوال وافعالِ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہ بدعت ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: 2/ 67، باب الاذان)

 

6 حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

▪ سوال نمبر 111: وبا اور قحط اور خشک سالی طاعون وغیرہ کے موقعہ میں اذان بعد نماز کہنا شرعًا درست ہے یا نہ، اگر جائز ہے تو شرعی دلیل کیا ہے؟ اور اگر ممنوع ہے تو ہم نے جو سنا ہے کہ وبا میں غولِ بیابانی اور جنات کی کثرت ہوتی ہے اور جنات کے دفع کے لیے جو حدیث: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ اور حدیث وإِذا رأی الحریق فلیطفئہ بالتکبیر سے سندِ جواز پکڑنا صحیح ہے یا نہیں؟

▪ جواب: وبا اور قحط میں اذان کہنا منقول نہیں ہے اور تغول ِغیلان کی وقت جو اذان مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر طور سے غیلانِ جِنّ محسوس ہو مثلًا جنگل وغیرہ میں کسی کو جِنّات کا احساس ہو اس وقت اذان کہنے کا حکم ہے۔ امراضِ وبائیہ میں یہ وارد نہیں ہے، نہ اس کو اس پر قیاس کر سکتے ہیں کہ قیاس ِاول تو مجتہد کا معتبر ہے، نہ ہم لوگوں کا، اور علاوہ بریں قیاس مع الفارق ہے، امراضِ وبائیہ میں تغولِ غیلان کو محسوس نہیں کیا جاتا۔

(فتاوی دارالعلوم دیوبند:2/ 73 باب الاذان)

 

7  شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

▪ سوال: مرض ِطاعون میں جو اکثر آدمی مسجدوں میں اذانیں دیتے ہیں، یہ شرع کے خلاف ہے یا موافق ہے؟ ایک مولوی صاحب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے بابت فرماتے ہیں کہ ان کا تو فتویٰ ہے اذانوں کا، کیایہ بات صحیح ہے اور ان کا فتویٰ ہے؟ جواب فرمادیں۔

الجواب: قال الشامی عن حاشیۃ البحر للخیر الرملی: رأیت فی کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیرالصلوٰۃ  کما فی أذان المولود والمھموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقہ من إنسان أو بھیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق وعند تغول الغیلان أی عند تمرد الجن؛ لخبر صحیح فیہ. أقول:  ولا بعد فیہ عندنا اھ  أی لأن ما صح فیہ الخبر بلا معارض فھو مذھب للمجتھد وإن لم ینص علیہ اھ  (ص ۳۹۹)

بعض علماء نے تغولِ غیلان کی حدیث سے طاعون کے لیے اذان کو مشروع کہا ہے، مگر ہم کو اس میں کلام ہے، ہمارے نزدیک تغولِ غیلان سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی صورت نمودار ہو جس میں جِنّات کا سامنے موجود ہونا اور غلبہ وتمرّد کرنا محسوس ہو، جیسا کہ رات کو سفرکرتے ہوئے بعض دفعہ جنگلوں میں جِنات کی آوازیں یا ڈراؤنی شکلیں نظر آیا کرتی ہیں، اس وقت اذان دینا مشروع ہے، اور طاعون میں جنات کا وجود اور غلبہ محسوس نہیں ہوتا، بلکہ محض سمعًا ونقلاً معلوم ہوا ہے، واللہ اعلم، قلت: ویوید قول الشیخ فی القاموس ومجمع البحار من تفسیر التغول بالتلون بصور شتی، وأیضا فإن فی الأذان فی ھذہ الحالۃ تشویشًا وتغلیطًا، وأیضًا فیہ تھویل للناس فإنھم إذا سمعوا الأذانات بکثرۃ یفزعون ویتوھمون أن الوباء شدیدۃ فی البلد حتیٰ سقط حمل بعض الحوامل بذلک، قالہ الشیخ، لا یقال: إن لم یعتقد سنیۃ ھذا الأذان مستدلا بالحدیث المذکور؛ لکونہ محمولا علی ظھور الجن بل إذن سنیۃ الرقیۃ ینبغی أن یجوز، قلنا: أن العوام تعتقدہ من الأمور الشرعیۃ الدینیۃ کما ھو شاھد من أحوالھم، ومن لم یعرف حال أھل زمانہ فھو جاھل فافھم، حررہ الأحقر ظفر أحمد عفا عنہ ۲۱  شوال ۴۴ھ، نعم التحقیق بقبول حقیق، کتبہ اشرف علی، ۲۳ شوال ۴۴ھ ۔ (امداد الاحکام: 1/420)

8 جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ:

قدرتی آفات مثلًا شدید بارش یا زلزلہ وغیرہ کے وقت اذان دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، نیز فقہائے کرام رحمہم اللہ [نے نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع ذکر فرمائے ہیں] ان میں بھی مذکورہ مواقع میں اذان دینے کا ذکر نہیں، لہٰذا سنت یا مستحب سمجھ کر مذکورہ مواقع میں اذان دینا درست نہیں، اور اگر دفعِ مصیبت کے لیے بطورِ علاج مذکورہ، مواقع میں اذان دی جائے تو فی نفسہ اگرچہ مباح ہے لیکن چوں کہ عوام الناس اس کی حدود وقیود کا لحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھتے ہیں اس وجہ سے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اذان دینے سے منع فرمایا ہے۔ (مؤرخہ: 5/6/1422ھ)

 

مروّجہ اذانوں کے لیے پیش کی جانے والی روایات کی حقیقت:

بہت سے حضرات وبا کے موقع پر دی جانے والی مروجہ اذان کے ثبوت کےلیے بعض روایات سے استدلال کرتے ہیں،واضح رہے کہ ان  روایات کی حقیقت یہ ہے کہ:

  1.  یا تو وہ نہایت ہی کمزور ہیں کہ ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
  2. یا ان کا تعلق وبا کے ساتھ ہے ہی نہیں، اس لیے ان سے وبا کے موقع پر اذان دینے سے متعلق استدلال نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ ایسی بعض روایات سے متعلق ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی۔
  3.  جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ اس  دن عذاب سے  اس کی حفاظت فرماتا ہے، تو اگر اس کو قابلِ استدلال تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی اس میں نہ تو وبا کا ذکر ہے اور نہ ہی مروجہ اجتماعی اذانوں کا ذکر ہے، بلکہ اس سے نمازوں کی عام اذان مراد ہے کہ یہ اذان کی فضیلت ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب سے حفاظت فرماتا ہے۔ اس لیے اس پنج وقتہ نمازوں کی اذان مراد ہے۔
  4.  یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ وبا کے موقع پر مروجہ اذانوں کی ترغیب دیتے ہوئے جس قدر اضافی باتوں کی ترغیب دی جارہی ہے کہ یوں اذان دی جائے اور یوں کیا جائے وغیرہ یا ان کا اہتمام کیا جارہا ہے ان کا تو کسی بھی روایت میں ذکر نہیں۔ اس لیے جو روایات اس اذان کے جواز کے لیے پیش کی جارہی ہیں ان سے بھی ان مروّجہ اذانوں کی تائید نہیں ہورہی، بلکہ یوں کہیے کہ ان روایات کا مروجہ اذانوں سے کوئی تعلق ہی ظاہر نہیں ہوتا۔

 خلاصہ:

ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینا سنت یا مستحب نہیں اور نہ ہی کوئی شرعی حکم ہے، اس لیے اس کو سنت یا مستحب سمجھنا ہرگز درست نہیں، بلکہ بدعت ہے، البتہ بعض فتاویٰ میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کچھ شرائط کے ساتھ بطورِ علاج اذان دینے کو مباح یعنی جائز قرار دیا گیا ہے، لیکن چوں کہ عوام ان شرعی حدود اور شرائط کی رعایت نہیں کرتے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینے سے اجتناب کیا جائے۔ باقی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔ 

 

 مبین الرحمٰن

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

29 رجب المرجّب1441ھ/ 25 مارچ 2020


اصلاح اغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح

دینی تعلیمات سے متعلق عوام میں رائج غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی اور اصلاح کے لیے ایک اہم اور مفید سلسلہ ۔ اس مفید سلسلے کے مقاصد یہ ہیں:
1- دینی عقائد، مسائل اور اخلاق سے متعلق مستند دینی تعلیمات سے آگاہی۔
2- دینی تعلیمات سے متعلق مروجہ غلطیوں کا ازالہ۔
3- غیر معتبر اور منگھڑت احادیث اور روایات کی نشاندہی اور تحقیق۔
4- بدعات ورسومات کی نشاندہی اور مدلل تردید۔

بندہ مبین الرحمٰن
17 محرم 1441ھ/ 17 ستمبر 2019

کل مضامین : 2
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی مبین الرحمن صاحب

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
کل مواد : 2
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024