امریکہ کو فضائی اڈے دینے کا معاملہ
امریکہ کو فضائی اڈے دینے کا معاملہ
24مئی 2021 کو بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پنٹاگون کی جانب سے یہ بیان شائع کیا کہ" پاکستان نے امریکی افواج کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے اور انہیں رسائی دے دی ہے تا کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو قائم رکھنے میں امریکہ کی مدد کر سکے"۔ پنٹاگون کی جانب سے یہ بیان امریکی محکمۂ دفاع کے نائب سیکریٹری ڈیوڈ ہیلوی نے ایک امریکی سینیٹر کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں دیا ۔ اس سے پہلے امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی یہ اعتراف کیا جا چکا تھا کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ گفت و شنید میں مصروف ہیں تا کہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ امریکہ 11ستمبر 2021 کو افغانستان سے انخلاء کے بعد اپنی افواج کو کہاں بٹھا سکے گا ۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ 23مئی 2021 کو پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کی امریکہ کے ہم منصب جیک سولیوین کے ساتھ جنیوا میں ملاقات بھی ہوئی جس میں بنیادی طور پر امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء اور اس سلسلہ میں پاکستان کے کردار کا معاملہ زیر بحث آیا۔ پھر اس سے چند ہی روز قبل 10 مئی 2021 کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کا دورہ کیا تھا جس میں ان کی ملاقات افغانستان کے صدر اشرف غنی سے برطانیہ کے آرمی چیف جنرل نکولس کارٹر کی موجودگی میں ہوئی۔ اس اہم ملاقات میں بھی یہی معاملہ زیر بحث آیا۔ اس دورہ میں افغانستان کے عبد اللہ عبداللہ سے بھی خصوصی طور پر ملاقات کی گئی جو قومی مفاہمت کونسل کے سربراہ اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے روح رواں بھی ہیں۔
پنٹاگون کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ بالا بیان پر اسی رات کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "اس سے متعلق کسی قسم کی کوئی قیاس آرائی بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے اور اس سے پرہیز کیا جانا چاہئے "۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001 ءمیں طے پانے والے دو معاہدے ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی) اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کے علاوہ اور کوئی نیا معاہدہ طے نہیں پایا گیا"۔ پھر اگلے ہی دن 25 مئی 2021 کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے اس قسم کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے پاکستان میں ڈرون حملے کرنے کی اجازت دے گا۔
جہاں تک مذکورہ بالا دو معاہدوں کی بات ہے تو یہ تو وہ ہیں جن کی آ ڑ میں امریکہ کو نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں اپنے فضائی اڈے قائم کرنے اور پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کو استعمال کرنے کا موقع ملا تھا تا کہ امریکہ افغانستان پر اپنے حملے جاری رکھ سکے۔ ان معاہدوں کے نتیجہ میں امریکہ نے جیکب آباد میں قائم شہباز ائیر بیس، خضدار کے قریب شمسی ائیر بیس اور ان کے علاوہ پسنی میں اور ضلع چاغی میں دالبندین کے مقام پر موجود فضائی اڈوں کا بھرپور استعمال کیا۔ جیکب آباد میں تو طویل المدتی موجودگی برقرار رکھنے سے متعلق امریکہ کی جانب سے کی گئی درخواست کو منظور کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ کو وہاں پر اپنے 50 بڑے جہازوں کے لیے جگہ بنانے اور امریکی افواج کے لیے ائیر کنڈیشنڈ بیرکیں بنانے کے لیے تعمیراتی کام کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔ پھر جہاں یہ فضائی اڈے افغانستان میں بمباری کے ذریعے مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، وہاں انہیں پاکستان میں موجود قبائل پر ڈرون حملے کر نے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ۔ اس بات کا انکشاف برطانیہ کی نامور اور قدیم خبر رساں ایجنسی "دا ٹائمز" نے 17 فروری 2009 کو کیا جب اس نے یہ خبر شائع کی کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستان میں موجود شمسی ائیر بیس کو پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق امریکہ کے ساتھ 2001ء میں طے پائے جانے والے "اے ایل او سی" اور " جی ایل او سی" کے یہ معاہدے اب بھی موجود ہیں تو پھر امریکہ کو پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ امریکہ پھر ان معاہدوں کی آڑ میں پاکستان کی حدود کو جیسے چاہے گا استعمال کر لے گا۔ لہٰذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان: "کوئی نیا معاہدہ طے نہیں پایا گیا" دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے پنٹاگون کے بیان کی تردید کرنے اور امریکہ کو فوجی اڈے فراہم نہ کرنے کے بیان کا تعلق ہے تو ایسا ماضی میں ہو چکا ہے کہ پاکستان کی حکومت ایک طرف تو کسی بات کی تردید کرے لیکن اس کے باوجود اس پر عمل درآمد جاری ہو ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے 2006ء کے بعد سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب پاکستان میں امریکہ کے مزید کوئی ٖفضائی اڈے موجود نہیں اور امریکہ پاکستان کے فضائی اڈوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے ۔ لیکن 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد آپریشن کے بعد جب امریکہ کی پاکستان میں موجودگی پر سوال اٹھے تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ شمسی ائیربیس ابھی تک امریکہ کے زیر استعمال تھی۔ اس پر اس وقت کےوفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے یہ جواب دیا کہ" ہم امریکہ کو کچھ عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اس ائیربیس کو بھی خالی کریں اور اب 2 مئی کے واقعے کے بعد ہم نے ایک بار پھر امریکہ سے اس ائیربیس کو خالی کرنے کا کہا ہے"۔ لیکن وزیر دفاع نے یہ بات واضح طور پر نہیں بتائی کہ حکومت نے امریکہ سے شمسی ائیر بیس کو خالی کرنے کا مطالبہ آخری بار کب کیا تھا اور یہ کہ امریکہ کی جانب سے اس مطالبے پر عمل نہ کرنے پر حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے؟ جبکہ اس کے برعکس یکم جولائی 2011 کو امریکہ کے مختلف سرکاری اہلکاروں کی جانب سے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ بیان دیا گیا کہ نہ تو ان کی جانب سے شمسی ائیر بیس ابھی تک خالی کی گئی ہے اور نہ ہی اب خالی کی جا رہی ہے اور یہ کہ اس ائیربیس کے آپریشنز امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے خود دیکھ رہی ہے!
تو ایسے میں حکومت کے اس دعویٰ کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ امریکہ کو کوئی ائیر بیس نہیں دی جا رہی؟ کل کو جب یہ نکشاف ہو گا کہ امریکہ پاکستان کی کسی ائیر بیس کو استعمال کر رہا تھا تو حکومت کی جانب سے با آسانی اس بارے میں لا علمی کا اظہار کر کے کہہ دیا جائے گا کہ ہم نے تو امریکہ کو اجازت نہیں دی تھی، امریکہ تو یہ ائیر بیس اجازت کے بغیر استعمال کر رہا تھا۔
اگرچہ امریکہ ہمارے خطےسے زمینی طور پر سات سمندر دور بحرالکاہل کے اس پار بیٹھا ہے اور اس کی معاشی حالت خستہ اور فوجی مورال بھی گر چکا ہے، اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین کے ہاتھوں یہ جنگ ہار چکا ہے ، لیکن پاکستان کی حکومت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی وہاں امریکی موجودگی اور اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب امریکہ خطے کے مسلمانوں کےخلاف مکمل طور پر بھارت کااتحادی بن چکا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان چار بنیادی دفاعی معاہدے طے پا چکے ہیں جن میں سے ایک فوجی سرگرمیوں کیلئےبھارت کےساتھ حساس امریکی معلومات کاتبادلہ ہے۔ پھر ماضی میں امریکی اثاثوں کی ہمارے یہاں موجودگی سے نہ صرف ہماری معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں فوجی جوان اور وہ مسلم عوام شہید ہوئے۔ تو اس سب کے باوجود ہم بھلاکس طرح اپنی سرزمین پرامریکی اثاثوں اور صلاحیتوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ کو مدد تو درکنار، اس کی اجازت بھی دے سکتے ہیں؟
رسول اللہﷺ کی حرمت کی حفاظت کرنے اور کشمیر اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے افواج کو حرکت میں لانے جیسے اہم فرائض سے غفلت برتنے کے بعد، اب پاکستان کی حکومت افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی امریکہ کی خطے میں تباہ کن موجودگی کو محفوظ بنانے میں امریکہ کی مدد کرنے لیے ناصرف تیار ہے بلکہ اس کام میں آگے آگے ہے ۔جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے۔
﴿لاَ يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ﴾
"مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں"۔(آل عمران:28)