حضور اکرم ﷺ کا پھل تناول فرمانا
???? حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ جب کسی نئے پھل کو دیکھتے تو اس کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کر دیتے تو حضور اقدس ﷺ یہ دعا پڑھتے :
اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ قَالَ ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ يَرَاهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِکَ الثَّمَرَ
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما اور ہمارے شہر میں برکت فرما اور ہماری اس چیز سے جو صاع اور مد سے ناپی جاتی ہے اس میں برکت عطا فرما، اے اللہ! واقعی حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، انہوں نے (جن چیزوں کی) دعا (اپنے آباد کردہ) شہر مکہ مکرمہ کے لئے کی ہے (جس کا بیان آیت فاجعل أفئدۃ من الناس تھوی الیہم وارزقہم من الثمرات) میں ہے کہ لوگوں کے قلوب مکہ کی طرف مائل فرمادے اور پھلوں کی روزی ان لوگوں کو میسر فرما، وہی دعا اس سے دوچند مقدار میں مدینہ منورہ کے لئے کرتا ہوں۔
???? مختلف پھل تناول فرمانا ????
حضور اکرم ﷺ سے مختلف پھل کھانا منقول ہے :
1- کھجور : آپ ﷺ کو کھجور میں عجوہ کھجور بہت پسند تھی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح سات عجوہ کھجور کھالے اس دن اسے کوئی جادو یا زہر کا اثر نہ ہوگا۔
???? آپ ﷺ سے کھجور کے ساتھ دوسری چیزیں ملا کر کھانا بھی مروی ہے مثلا :
????کھجور اور مکھن
????کھجور اور خربوزہ
????کھجور اور تربوز
????کھجور اور ککڑی
کھجور پانی اور کھجور دودھ وغیرہ بھی کھانا منقول ہے اور کھجور کی گھٹلی بائیں ہاتھ سے پھینکنا سنت ہے۔
2- کباث (پیلو کا پھل)
3- زیتون
4- انجیر
5- انگور
6- کشمش
7- انار
8- شہتوت
9- سفر جل بہی
???? آپ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ اپنے علاقے کے پھل کو تناول فرماتے جب اس کا موسم ہوتا اور جب موسم کا پہلا پھل آتا تو اسے بوسہ دیتے، آنکھوں سے لگاتے اور یہ دعا پڑھتے :
اللہم کما اطعمتنا أوله فاطعمنا آخرہ ، بعض روایات میں یہ دعا ہے : اللہم کما أریتنا أوله أرنا آخرہ اور پھر پہلا پھل کسی بچے کو دیتے۔
???? حضور اکرم ﷺ کے گفتگو کا انداز ????
????حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی، بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے۔
???? آپ ﷺ (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔
???? آپ ﷺ کی تمام گفتگو ابتداء سے انتہاء تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ(جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے۔
???? آپ ﷺ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کوتاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو، آپ ﷺ سخت مزاج نہ تھے، نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو، اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے، اس کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے، نہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرماتے تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کی نعمت ہے، زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لئے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے البتہ اظہارِرغبت یا کسی دلداری کی وجہ سے کبھی کبھی خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمائی ہے ) دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ ﷺ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چونکہ آپ ﷺ کو ان کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی اس لئے کبھی دنیوی نقصان پر آپ ﷺ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا) البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔
????آپ ﷺ کی عادت شریفہ انگلی سے توحید کی طرف اشارہ فرمانے کی تھی، اس لئے غیر اللہ کی طرف انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے، جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو ملا لیتے (کبھی گفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے) اور کھلی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے(ایک روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو بائیں ہتھیلی پر مارتے) اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیاء کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے، آپ ﷺ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی، اس وقت آپ ﷺ کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔
???? حضور اکرم ﷺ کا مسکرانا ????
????حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا۔
????حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔
???? آپ ﷺ کی ذات مبارک خوش مزاج اور خندہ دھن تھی، ہر ایک کے ساتھ مسکراکر ملتے، جب کوئی آپ کے پاس آتا تو چہرے کی مسکراہٹ پاتا تو آپ کا دست مبارک پکڑ لیتا اور چوم لیتا، کھل کھلا کر ہنسنے کی عادت نہ تھی کہ جس سے دانت ظاہر ہوجائیں، عادت مبارکہ مسکرانے کی تھی اور یہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت شریفہ رہی، اگر کبھی ہنسی آجاتی تو منہ مبارک پر ہاتھ رکھ لیتے تھے، تبسم کے وقت ایک خاص روشنی نکلتی تھی جس کا اثر دیواروں پر ظاہر ہوتا تھا۔
???? خوشی کی بات پر چہرہ مبارک گلنار ہوجاتا تھا اور غصہ کی بات پر چہرہ مبارک سرخ ہوجاتا تھا۔
???? خوشی اور مسرت کے موقع پر یہ دعا پڑھتے:
الحمد للہ الذی بنعمته تتم الصالحات
???? علماء فرماتے ہیں کہ خلوت میں متواصل الاحزان ہوتے اور جلوت میں تبسم کا غلبہ زیادہ ہوتا۔
???? حضور اکرم ﷺ مزاح فرمانا ????
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہم سے مذاق بھی فرمالیتے ہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! مگر میں کبھی غلط بات نہیں کہتا۔
???? خوش طبعی اور دائرہ اخلاق میں رہتے ہوئے مزاح کرنا سنت ہے البتہ کسی کی دل آزاری کرنا یا خلاف واقعہ بات کرنا ناجائز ہے، اہل اللہ و مشائخ کی بھی عادت مزاح کی رہی ہے۔
???? آپ ﷺ کے مزاح کے واقعات ????
???? ایک موقع پر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مزاحاً فرمایا کہ یا ذاالاذنین !(اے دو کان والے)
???? حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی سے بطور مزاح کے فرمایا کہ یا أبا عمیر ما فعل النغیر؟ (اے ابوعمیر! وہ نغیرہ کہاں جاتی رہی؟)
???? ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ کوئی سواری کا جانور مجھے عطا فرما دیا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک اونٹنی کا بچہ تم کو دیں گے، سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔
???? ایک صحابی جن کا نام زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ تھا، جنگل کے رہتے تھے، وہ جب حاضر خدمت ہوتے تو جنگل کے ہدایا سبزی ترکاری وغیرہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور وہ جب مدینہ منورہ سے واپس جانے کا ارادہ کرتے تھے تو آپ ﷺ شہری سامان خورد و نوش کا ان کو عطا فرماتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زاہر ہمارا جنگل ہے اور ہم اس کے شہر ہیں، آپ ﷺ کو ان سے خصوصی تعلق تھا، حضرت زاہر رضی اللہ عنہ شکل و صورت عام سے تھے، ایک مرتبہ کسی جگہ کھڑے تھے کہ آپ ﷺ تشریف لائے اور پیچھے سے ان کی آنکھوں پر ہاتھ مبارک رکھ لئے اور ارشاد فرمایا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اگر آپ مجھے فروخت فرمادیں تو کھوٹا اور بے قیمت پائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں! اللہ کے نزدیک تو تم کھوٹے نہیں ہو یا یہ فرمایا کہ بیش قیمت ہو۔
???? آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرما دیجئے کہ حق تعالی شانہ مجھے جنت میں داخل فرمادے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی !! وہ عورت رونے لگی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔
???? حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ خادم رسول ہیں، ایک مرتبہ زیادہ سامان اٹھائے ہوئے تھے تو فرمایا کہ تم تو سفینہ (کشتی) ہو۔
???? حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے صبح صادق سمجھنے کے لئے دو دھاگے (سفید و سیاہ) تکیے کے نیچے رکھے تو فرمایا کہ تمہارا تکیہ تو بہت لمبا ہے (کہ اس کے نیچے آسمان آگیا)۔