طلاق شدہ خواتین اور سماج کی ذمہ داریاں

نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ذریعہ شوہر و بیوی کو جہاں شریک حیات اور غمگسار میسر آتا ہے ، وہیں عورت او ربچوں کو ایک سہارا حاصل ہوتا ہے ، عورت ذہنی یکسوئی کے ساتھ بچوں کی پرورش کرتی ہے ، بچے اطمینان و سکون کے ساتھ تعلیم و تربیت میں مشغول ہوتے ہیں ، شوہر کسب ِمعاش کی تگ و دو میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے اور گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رہتا ہے ، اگر کسی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو عورت سب سے زیادہ دشواریوں سے دوچار ہوتی ہے ، اس کے لئے خود اپنی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور بچے چوںکہ ماں کی ممتا کے بغیر زندگی کے ناہموار راستوں کا سفر طے نہیں کرسکتے ؛ اس لئے جیسے ایک مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپائے رکھتی ہے ؛ اسی طرح ماں اپنی بے سہارگی کے باوجود بچوں کو اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتی ہے اور بچے بھی ماں کی گود میں جو سکون و راحت محسوس کرتے ہیں ، سونے کی پلنگ بھی انھیں وہ راحت نہیں پہنچاسکتی ؛ اسی لئے اگر رشتہ ٹوٹ جائے اور طلاق کی نوبت آجائے تو خاندان بکھر جاتا ہے اور ماں اور بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں ۔
ایسے مسائل کوحل کرنے کے لئے شریعت نے نفقہ و کفالت کا ایک پورا نظام رکھا ہے اور اس میں عورت اور چھوٹے بچوں کی خصوصی رعایت کی گئی ہے ، افسوس کہ ہمارے سماج میں ایک تو طلاق کے بے جاواقعات پیش آتے ہیں، اور اگر طلاق کا واقعہ پیش آہی گیا تو طلاق کے بعد مطلّقہ عورت اور بچوں سے متعلق جن حضرات کی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ ان کو ادا نہیں کرتے ، اس کی وجہ سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی کوتاہ عملی کی وجہ سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے ۔
اگر کسی عورت کو طلاق دی جائے تو عدت کا نفقہ توواجب ہے ہی ، ( المحیط البرہانی:۳؍۵۵۳) اور بہتر ہے کہ یکمشت کوئی رقم بھی دے دی جائے ؛ تاکہ مستقبل کی زندگی کے لئے کوئی سہارا بن سکے ، اس کو ’’متاع ‘‘کہتے ہیں ، قرآن مجید نے متاع دینے کی ترغیب دی ہے : ’’ وللمطلقات متاع بالمعروف‘‘ ( البقرۃ:۲۴۱) اور متاع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ، یہ طلاق دینے والے مرد کی استطاعت اور اس کے ظرف کے اعتبار سے ہے کہ جس عورت کے ساتھ وہ زندگی گزار چکا ہے اور جس کو زندگی کی راہ میں اس نے تنہا چھوڑ کر بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے ، وہ اس کے ساتھ کیا حسن سلوک کرسکتا ہے ؛ تاکہ اس کی اس حرکت کی کچھ تلافی ہوسکے ۔
لیکن عدت کے خرچ اور متاع کے علاوہ بعض اور ذمہ داریاں ہیں، جو اکثر حالات میں طلاق دینے والے شخص پر عائد ہوتی ہے اور وہ دو ہیں : ایک یہ کہ اگر اس کے بچے بھی ہیں تو وہ ان کا مناسب نفقہ ادا کرے ، جس سے خوراک ،پوشاک ، علاج، تعلیم اور رہائش کی ضرورت پوری ہو، اور وہ جس سماج میں رہتا ہے، اس سماج کے معیار کے مطابق پوری ہو ، اگر اس نے دوسرا نکاح کیا اور دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے بچے اس کے ساتھ ہیں اور مطلّقہ بیوی سے پیدا ہونے والے بچے اپنی ماں کے ساتھ ہیں تو جس معیار کے مطابق اپنے ساتھ رہنے والے بچے کی پرورش کرتا ہے، ضروری ہے کہ اسی معیار کے مطابق اپنی سابقہ بیوی سے ہونے والے بچے کی بھی پرورش کرے ، اگر اس نے ان دونوں بچوں کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی باز پرس ہوگی ، اگر اپنی اولاد کے درمیان برابری کا برتاؤ نہیں کیا جائے ، یا ایک بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں اور دوسری بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کے درمیان برابری کا معاملہ نہ کرے تو رسول اللہ ا نے اس کوجور ( ظلم ) قرار دیا ہے ۔( صحیح مسلم،کتاب الھبات،حدیث نمبر:۱۶۲۳)
صاحب اولاد مطلّقہ عورت کا دوسرا حق یہ ہے کہ جب تک وہ عورت ان بچوں کی پرورش کرتی رہے،اس وقت تک اس عورت کو پرورش اور نگہداشت کے عمل کی اُجرت دی جائے ،جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’ اُجرت حضانت‘‘ کہتے ہیں ،(البنا یہ:۵؍۶۴۴) یہ اُجرت اتنی ہونی چاہئے کہ عورت کے کھانے پینے کی ، لباس و پوشاک کی اور علاج و معالجہ کی ضرورت پوری ہوجائے، اور یہ بھی واجب ہوگا کہ اس کے لئے مناسب رہائش کا انتظام کرے ،(ردالمحتار:۳؍۵۶۱)گویا جب تک عورت طلاق دینے والے سابق شوہر کے بچوں کی پرورش کررہی ہے ، نفقہ کے بقدر اس کی اُجرت ادا کرنا واجب ہے اور حق پرورش لڑکوں کے سات آٹھ سال تک اور لڑکیوں کے بالغ ہونے تک ماں کو حاصل ہوتا ہے ، یہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے پر ہے ،(العنایۃ:۴؍۳۷۱) امام مالکؒ کے نزدیک لڑکی اگر بالغ بھی ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے ، ماں پرورش کی حقدار ہے(البیان والتحصیل:۵؍۱۲۰) اور موجودہ دور میں یہی رائے زیادہ قابل عمل ہے ، جو ان لڑکی کو تنہا باپ کی پرورش میں دے دینا یا ایسی جگہ رکھ دینا جہاں اس کے قریب العمر سوتیلے بھائی بھی رہتے ہوں، فتنہ سے خالی نہیں ہے، ماں جس طرح بیٹی کی عفت و عصمت اور عزت و آبرو کی نگہداشت کرسکتی ہے نہ باپ کرسکتاہے اور نہ سوتیلی ماں سے اس کی امیدکی جاسکتی ہے، اس طرح طلاق پانے والی عورت کو پانچ دس سال کی ایسی مہلت مل جاتی ہے جس میں اس کو اپنے گذران کاسہاراہوجاتا ہے اور یہ ایسی مدت ہوتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی کو ایڈجسٹ کرسکتی ہے ۔
مطلّقہ عورت سے متعلق بڑی ذمہ داری اس کے باپ کی ہے ، اگر طلاق دینے والامرد موجود نہ ہو، یا عورت کو ضروریات زندگی حاصل نہیں ہوپارہی ہو ، خواہ اس لئے کہ کسی بچہ کی پرورش اس کے ذمہ نہیں ہے ،کہ وہ اجرت ِ پرورش کی مقدارہو، یا اس لئے کہ مرد کو دینا چاہئے ؛ لیکن اللہ سے بے خوفی اور اپنی ذمہ داری سے غفلت کی بناپر وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کرتا ، ان تمام صورتوں میں باپ کی ذمہ داری ہے کہ بیٹی کا نفقہ ادا کرے ، اس کے پیدا ہونے کے وقت جس طرح اس نے اس کا استقبال کیا تھا، اسی طرح خدا نخواستہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہوکر واپس آتی ہے تو اس وقت بھی اس کا استقبال کرے اور اسے بوجھ نہ سمجھے ؛ کیوںکہ وہ اسی کے دل کا ٹکڑا اور اسی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔
نفقہ کے معاملہ میں شریعت نے بیٹی کو بیٹے پر مقدم رکھا ہے ، بیٹا اگر بالغ ہوجائے تو باپ پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی (فتاویٰ قاضی خاں علی الھندیۃ:۱؍۲۱۹) اسی طرح اگر بیٹا کسب معاش پر قادر ہے تو باپ اسے مجبور کرسکتا ہے کہ وہ خود محنت کرے اور اپنی روزی روٹی کے مسائل کو حل کرے ؛ لیکن اگر لڑکی بالغ ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے ،باپ پر اس کا نفقہ واجب ہے ، ( فتح القدیر:۴؍۴۱۰) اور اگر وہ کسب ِمعاش پر قادر ہو تب بھی باپ اسے اس پر مجبور نہیں کرسکتا ، ( فتح القدیر:۴؍۴۱۰) اسی طرح اگر بیٹی بیوہ ہوجائے یا اسے طلاق دے دی جائے اور اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہوکہ وہ خود اپنی ضروریات پوری کرسکے تو پھر والد پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری لوٹ آئے گی اور اس پر بیٹی کے اخراجات پورے کرنا ضروری ہوگا ، ( فتح القدیر:۴؍۴۱۰) نیز باپ کایہ نفقہ ادا کرنا بطور احسان کے نہیں ہے ؛ بلکہ یہ اس کا شرعی فریضہ ہے ؛اس لئے اس کے دوسرے بیٹے اور بیٹیوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کواپنی بہن پرخرچ کرنے سے روک دے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جیسے دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا باعث اجر و ثواب ہے ، اسی طرح اپنی اولاد پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے؛ چنانچہ حضرت ابن مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے بال بچوں پر اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ کا ثواب ہوتا ہے : ’’ اذا أنفق المسلم نفقۃ علی أھلہ وھو یحتسبھا کانت لہ صدقۃ‘‘ ( صحیح البخاری،باب فصل النفقہ علی الأھل،حدیث نمبر:۵۳۵۱) اور خاص کر بیوہ عورت کی خدمت و اعانت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ آپ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ بیوہ عورت کی خدمت کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ، یا اس شخص کی طرح ہے، جو رات بھر نماز پڑھتا ہو اور دن میں روزہ رکھتا ہو : ’’ … کالمجاھد فی سبیل اﷲ أو کالقائم اللیل ، الصائم النھار ‘‘ (صحیح البخاری،باب السعی علی الأرملہ،حدیث نمبر:۶۰۰۶) ایک اور موقع پر آپ انے ان لوگوں کا ذکر فرمایا ، جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ دیں گے ، اس میں آپ انے یتیم یا بیوہ کی کفالت کرنے والے کو بھی شمار کیا : ’’ من کلف یتیماً أو أرملۃ أظلہ اﷲ فی ظلہ وأدخلہ جنتہ‘‘ ۔(المعجم الاوسط : ۸؍۱۱۷ ، حدیث نمبر : ۹۲۹۲)نیزحضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے اپنی وفات کے قریب بالکل آخر آخر میں تین باتوں کی نصیحت فرمائی: نماز کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ، غلاموں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ، دو کمزور لوگوں— بیوہ عورت اور یتیم بچہ— کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو ، ( شعب الایمان : ۱۳؍۴۰۴) 
جو حکم بیوہ کا ہے وہی حکم بہ درجۂ اولیٰ اس مطلقہ عورت کا ہے، جس کا کوئی سہارا نہیں ؛ کیوںکہ بیوہ کو لوگ رحم کا مستحق سمجھتے ہیں اور مطلقہ کے بارے میں عام طورپر یہ سوچ ہوتی ہے کہ اس کو اس کی بدزبانی و بد اخلاقی کی وجہ سے طلاق دی گئی ہوگی ؛اس لئے رحم کاجذبہ کم ہوتاہے،اوراس کی مجبوری اوربڑھی ہوئی ہوتی ہے؛ حالاںکہ طلاق کے اکثر واقعات میں مرد کی زیادتی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی ؛ اس لئے وہ زیادہ رحم کی مستحق ہے ، پس جو اجر کسی بیوہ کی پرورش میں ہے، مطلقہ کی پرورش میں بدرجہ اولی ہوگا اور اگر وہ مطلقہ بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو اس میں اجراوربھی بڑھ جائے گا؛ کیوںکہ یہ ایک بے کس اورضرورت مند کی مدد بھی ہے اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ بھی۔

اگر مطلقہ کے پاس خوداپنے نفقہ کاسامان نہ ہو،اور والد بھی نہ ہوں تو پھر ان کے نفقہ کی ذمہ داری دوسرے محرم رشتہ داروں سے متعلق ہوجاتی ہے  :نفقۃ الإخوۃ والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات واجبۃ بشرط العجز مع قیام الحاجۃ ۔ (عمدۃ القاری : ۲۱؍۱۳)بھائیوں بہنوں ، چچاؤں پھوپھیوں ، ماموؤں اور خالاؤں کا نفقہ واجب ہے ؛ بشرطیکہ وہ ضرورت مند ہوں اور خود کسب معاش سے قاصر ہوں ۔ بہت بڑے حنفی فقیہ علامہ سرخسیؒ نے صراحت کی ہے کہ یہ جو مختلف رشتہ داروں پر نفقہ واجب ہوتاہے،یہ صرف مستحب یا مستحسن نہیں ہے؛ بلکہ واجب ہے؛اس لئے محرم رشتہ دار بچوں ، عورتوں اور معذور مردوں کا نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا : ’’ یجبر علی نفقۃ کل ذی رحم محرم منہ الصغار والنساء وأھل الزمانۃ من الرجال‘‘ ۔ (المبسوط للسرخسی : ۵؍۲۲۳) لیکن اللہ سے بے خوفی ، احکام شریعت سے بے اعتنائی ، رشتوں کے معاملہ میں بے مروتی اور خود غرضی کی وجہ سے آج کل والدین اور دادا ، دادی کے علاوہ دوسرے لوگوں سے یہ توقع رکھنا صحراء سے پانی کی اُمید رکھنے کے مترادف ہے کہ وہ احکامِ شریعت کے مطابق مطلقہ خواتین کا نفقہ ادا کریں گے ؛اس لئے والدین کی موجودگی میں بیٹی اگر خدا نخواستہ طلاق یا بیوگی سے دوچار ہوجائے تو اولاً تو اس کے نکاحِ ثانی کی فکر کرنی چاہئے ، قرآن نے ایسے لوگوں کے نکاح کا حکم دیا ہے : ’’ وأنکحوا الا یامی منکم‘‘ ( سورۃ نور۳۲) رسول اللہ اا اور صحابہ کے عہد میں جوں ہی کوئی خاتون بیوہ یا مطلقہ ہوتی تھی ، جلد سے جلد ان کا نکاح کردیا جاتا تھا ،عدت گذرنے سے پہلے ہی ان کے رشتے آنے لگتے تھے؛اس لئے قرآن مجیدنے عدت وفات گذرنے سے پہلے رشتہ طئے کرنے کومنع فرمایا(سورۃبقرہ:۲۳۲) اس طرح نہ صرف ان کی کفالت ہوتی تھی ؛ بلکہ ان کو ایک مکمل خاندان مل جاتا تھا ، افسوس کہ آج کل والدین ایسی خواتین کے نکاح کی طرف توجہ نہیں دیتے ، بعض اوقات ایک نوجوان لڑکی بیوہ ہوتی ہے اور اسے پوری زندگی بیوگی میں گزارنا پڑتا ہے ،وہ خودحیا سے کہہ نہیں پاتی اورماں باپ توجہ نہیں دیتے ہیں، غور کیجئے یہ خواتین کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے ، اگر کوئی شوہر یا بیوی چند دنوں ایک دوسرے سے دور رہیں تو یہ چیز ان کو ذہنی طورپر بے سکون کردیتی ہے ،توایک لڑکی کو زندگی بھر تجرد کی سزا دی جائے ، کیا یہ انصاف کی بات ہے ؛ اس لئے ان کے نکاح کی فکرکرنی چاہئے،اوراگروہ خودحیاکریں توان کوسمجھاناچاہئے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوسکے تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ ان کی کفالت کا مناسب انتظام کیا جائے ، اس انتظام کی ایک شکل یہ ہے کہ والدین اپنی جائیداد کا ایک حصہ ایسی بے سہارا بیٹی کو ہبہ کردیں،جس سے آئندہ اس کی گذرِ اوقات کا انتظام ہوسکے ۔ رسول اللہ ا نے عام حالات میں اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ اولاد کے درمیان نابرابری برتی جائے ، اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز دی جائے اور دوسرے کو نہیں دی جائے ، حضور اکے سامنے اس طرح کا ایک معاملہ آیا ،حضرت بشیربن سعد ؓنے اپنے صاحبزادہ نعمان ابن بشیرؓ کو کوئی خاص چیز خصوصی طورپر ہبہ کرنی چاہی اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر رسول اللہ ا کوگواہ بنایا جائے ؛چنانچہ وہ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ، اور اپنی گزارش پیش کی ، آپ انے دریافت فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو یہ چیز دی ہے ؟ انھوںنے کہا :نہیں ، آپ انے فرمایا: پھر میں ایسے نامنصفانہ اور ظالمانہ عمل پر گواہ نہیں بن سکتا : ’’ لا أشھد علی الجور‘‘( نسائی ،کتاب النحل ،حدیث نمبر:۳۷۱۱)چنانچہ وہ اس سے باز آگئے ؛لیکن یہ حکم عام حالات کے لئے ہے ، اگر خصوصی حالات کی بنیاد پر کسی کو زیادہ دے دیا جائے ، یا اولاد میں سے ایک کو دیا جائے اور دوسرے کو نہ دیا جائے تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ہے،مثلاً ایک شخص کے کئی بچے ہیں ، بعضوں نے تعلیم حاصل نہیں کی،بعض کاروبار میں لگ گئے ؛ لیکن ایک بیٹا تعلیم کی طرف متوجہ ہے اور اس نے میڈیکل انٹرسٹ پاس کرلیا ہے تو اب باپ ایک خطیر رقم اس کی فیس پر ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛ کیوںکہ یہ ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ہے ، اگر ایسا نہ ہو تو ایک بچہ کے جاہل رہنے کی وجہ سے یا اس کی تعلیم کے وقت والد کے تنگ دست ہونے کی وجہ سے تمام ہی بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا پڑے گا ، ظاہر ہے کہ یہ شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگرچہ تمام اولاد کے درمیان مساویانہ سلوک کرنا چاہئے ،اوریہی بہتر ہے ؛ لیکن یہ ہرحال میںواجب نہیں ہے ، اگر اولاد میں سے کسی کی مجبوری یا اس کی کسی خاص ضرورت کی وجہ سے اس کو خصوصی طورپر کچھ زیادہ دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے : ’’ وإن کان بعض أولادہ مشتغلا بالعلم دون الکسب لا بأٔس بأن یفضلہ علی غیرہ‘‘( مجمع الانہر : ۲؍۳۵۸) صحابہ کے دور میں بھی ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ انھوں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو عطیہ دینے میں ترجیح دی ، حضرت ابوبکرصدیقؓ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو کھجور کی پیداوار میں سے بیس وسق ( اس زمانہ کا ایک پیمانہ) اپنے تمام بچوں کے مقابلہ زیادہ دیا کرتے تھے ، حضرت عمرؓکو اپنے صاحبزادہ حضرت عاصمؓ سے خصوصی اُنس تھا ؛ چنانچہ انھوں نے ان کو خصوصی طورپر کچھ چیزیں عطا فرمائی تھیں ، ( شرح السنہ للبغوی : ۸؍۲۹۷) حضرت عبد الرحمن بن عوف کو عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی اُم کلثوم سے ایک صاحبزادی تھی ، انھوںنے ان کو اپنی دوسری اولاد کے مقابلہ چار ہزار درہم زیادہ عنایت فرمائے ، ( عمدۃ القاری : ۱؍۱۴۷) غرض کہ ماں باپ کے لئے گنجائش ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کی خصوصی حالت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کو جائیداد کا کوئی حصہ اضافی طورپر ہبہ کردے ؛ اس لئے اگر والدین کے اندر استطاعت ہو اور خدا نخواستہ کوئی بیٹی ایسی حالت سے دوچارہو اور اس کے اندر ایسی صلاحیت نہیں ہو کہ وہ خود کسب ِمعاش کرسکے توبہترہے کہ اس کے لئے کچھ سرمایہ محفوظ کردے، یا اپنی زمین ومکان کا کوئی حصہ ہبہ کردے ، جو اس کے لئے سہارا بن سکے ۔ اگر والد موجود نہ ہوں یا اس موقف میں نہ ہوں کہ اس کی کفالت کرسکیں تو پھر خاندان کے لوگوں کو اجتماعی طورپر اس ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے ، جیسے اگر مطلقہ عورت کے چار بھائی ہیں تو چاروں مل کر اس کے خرچ کو اپنے اوپر تقسیم کرلیں ، اگر اس کے کئی چچا یا کئی ماموں ہوں تو ان سب کو مل کر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے ، ورنہ عند اللہ سب کے سب جوابدہ ہوں گے ، اور حق تلفی ایسا گناہ ہے کہ انسان کی عبادتیں بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتیں،کیا بہتر ہو کہ مسلم سماج میں خاندان کا ایک اجتماعی نظام تکافل ہو ، جیسے ایک شخص کے تحت آنے والی دو پشتیں ، بیٹا ، باپ اور دادا مل کر ایسا نظام بنائیں کہ اگر خاندان کی کوئی عورت بیوہ ہوجائے یا طلاق کی نوبت آجائے یا اس کا شوہر معذور و مفلوج ہواور اس کے لئے کوئی سہارا نہیں ہو ، تو ہم اجتماعی طورپر ایسی خواتین کی کفالت کریں گے ، اگر خاندان کی دو پشتوں کو سامنے رکھا جائے ،جو دادا سے لے کر پوتوں تک ہو تو عام طورپر اس کی تعداد پچیس تیس تک پہنچ جاتی ہے ، اس میں دس پندرہ افراد کمانے والے ہوتے ہیں اور ان کمانے والوں میں بعض پر زکوٰۃ بھی واجب ہوتی ہے اور خاندان کے اس مختصر ڈھانچہ میں بمشکل ایک آدھ ایسی مطلقہ یا بیوہ عورت ہوسکتی ہے، جن کی اولاد کمانے اور ان کی کفالت کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہو ، اتنے سارے افراد مل کر بآسانی ایسی ایک آدھ بیوہ و مطلقہ عورت کی بے سہارگی کو دُور کرسکتے ہیں ، یہ رسول اللہ اکی سنت بھی ہے ، حضور کے چچاؤں میں حضرت ابو طالب غریب تھے ،دوسرے چچا حضرت عباس ؓصاحب ثروت تھے اور حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد خود آپ اکی مالی حالت بھی بہتر ہوگئی تھی ، آپ انے اس موقع پر حضرت عباسؓ کو تیار کیا اور حضرت ابوطالب سے پیشکش کی کہ ہم دونوں آپ کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتے ہیں ، حضرت ابوطالب حضرت عقیل کو تو اپنے پاس سے ہٹانے پر آمادہ نہیں ہوئے ؛ لیکن حضرت علیؓ کو آپ کی اور حضرت جعفرؓکو حضرت عباسؓ کی کفالت میں دے دیا ، پس اپنے اعزہ کی کفالت کرنا اور ان کا سہارا بننا رسول اللہ ا کی سنت ہے ۔ افسوس کہ اُمت میں ترجیحات کا شعور ختم ہوگیا ہے ، بعض حضرات بار بار عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، حج نفل ادا کرتے ہیں ، مسجد کی تزئین و آرائش پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں ، چھوٹی سی آبادی جہاں سو پچاس مصلی بھی جمع نہیں ہوتے، وہاں لق و دق مسجد تعمیر کرتے ہیں ، پہلے سے اچھی خاصی مسجد موجود ہوتی ہے ؛ لیکن اس کو منہدم کرکے پرشکوہ مسجد بناتے ہیں ؛ حالاںکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی قبولیت بڑھ جائے ؛ لیکن صلہ رحمی کا جو فریضہ شریعت کی طرف سے عائد کیا گیا ہے ، اس سے غافل ہیں ، ایک بے سہارا عورت کی سسکیاں ان کے گوشِ دل تک نہیں پہنچ پاتیں ، اورباپ کی شفقت و محبت سے محروم بچوں کے آنسو انھیں تڑپانے سے عاجز ہیں ، ہماری یہ بے شعوری نہ صرف سماج میں ظلم و ناانصافی کو بڑھاوا دیتی ہے ؛ بلکہ اس سے اخلاقی مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے اور انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملتا ہے ، کاش! ہم سماج کے اس فراموش کردہ طبقہ پر بھی محبت کی نگاہ ڈالیں اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025