میرا علمی اور مطالعاتی سفر

[النخیل کا ”مطالعہ نمبر“شائع کرنے کافیصلہ ہوا تو مطالعہ کے حوالے سے ایک سوالنامہ مرتب کر کے ممتاز اہل علم کےپاس بھیجا گیا،تقریبا سب ہی نے جوابات لکھے، البتہ کئی مضامین تاخیر سے موصول ہونے کے باعث مطالعہ نمبر کی ”پہلی اشاعت“ میں شائع نہیں ہو سکے، ان مضامین کو ”میرا مطالعہ“کے عنوان کے تحت ہر ماہ پیش کیا جارہا ہے۔زیرِنظر مضمون پروفیسر محمد یونس خان میوصاحب کا ہے،آپ کا مختصرسوانحی خاکہ پیشِ خدمت ہے:
تاریخ پیدائش:۵ جنوری۱۹۶۳ء، آبائی وطن: گھڑتل،سیالکوٹ، مادر علمی:پنجاب یونیورسٹی ، لاہور۔ آپ گورنمنٹ کالج آف کامرس ،گجرانوالہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکے عہدے پر فائز ہیں۔آپ نے ”مکالمہ بین المذاہب میں مولانا محمدقاسم نانوتویؒ کا اسلوب“ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ ملک کے ناموراخبارات ومؤقر مجلات میں آپ کےعلمی و تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ادارہ]
جناب شبیر احمد میواتی کی خواہش کے احترام میں آپ کے مؤقر جریدہ ”النخیل“( کراچی) کے ”مطالعہ نمبر “کے لیے اپنی علمی اور قلمی معروضات کا آغاز میر کے اس شعر سے کرتا ہوں:
میر جمع ہیں احباب، حالِ دل کہہ لے       
    پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
راقم الحروف کے اباؤ اجداد تقسیم ہند کے بعد پھرتے پھراتے ضلع سیالکوٹ کے ایک دیہات ”گھڑتل“ میں آٹھہرے، یہیں ۵ جنوری ۱۹۶۳ء کو دنیا میں آنا مقدر ہوا، ہے تو یہ گاؤں ہی لیکن بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کو قصبہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، یہ ذکر اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو یہاں میوات کے حضرت جی مولانا ہارون صاحب قدم رنجا فرما ہوئے، نیز میرا تہذیبی اور علمی سرمایہ (یہ جو بھی ہے) کا اس سے گہرا تعلق ہے، یہ قصبہ وطن عزیز کی نہر” اپر چناب“ کے مغرب میں واقع ہے، اس کا پُستہ سطح زمین سے خاصا اونچا ہے، گویا یہ ایک ٹیلا ہے یا ٹیلے پر واقع ہے۔ یہاں کے باغات، خاص طور پر رام باغ، تالاب (باؤڑی) درجنوں کنوئیں جو اَب بند ہو چکے ہیں، مندر اور حکومتی ادارے، بچوں اور بچیوں کے پرائمری اسکول، لڑکوں کا ہائی سکول، میڈیکل ڈسپنسری، ویٹرنری ہسپتال (اب نہیں ہے)، ڈاک خانہ، تار گھر (اب نہیں ہے) دس کلومیٹر دور ریلوے اسٹیشن اور ہندو تہذیب کے دیگر آثار اس بات کے شاہد رہے ہیں کہ یہاں اپنے عہد کے مؤثر سیاسی رہنما، ہندو دیوان اور ٹھاکر آباد تھے لیکن اس کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ قصبہ کے مختلف محلوں میں چھ مساجد بھی قائم ہیں، جامع مسجد جنوب میں واقع ہے، علاوہ ازیں یہاں تین خانقاہیں بھی تھیں، جن پر چادریں چڑھی رہتیں، جمعرات کو چراغ جلائے جاتے اور گرمیوں (جون، جولائی) میں سہ روزہ میلے منعقد ہوتے تھے۔ مقامی مسلمان، ہندو ساہوکاروں اور زمینداروں کو اب تک یاد کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہندو مسلمان مل جل کر رہتے ہوں گے لیکن اس قصبہ کی خاص بات جو میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگرچہ یہاں مسلمانوں کے سب ہی فِرق آباد ہیں اور آس پاس کے دیہاتوں میں بھی یہ مسلکی اختلاف نمایاں رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس قصبہ کے سب مسلمان جمعہ اور عیدین ہمیشہ سے ایک ساتھ پڑھتے ہیں، ایک جامع مسجد، ایک مدرسہ اور ایک ہی عید گاہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عمدہ اور نادر مثال ہے، جس پر گاؤں کے لوگ بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔
میری بسم اللہ اسی جامع مسجد میں ہوئی، حافظ غلام نبی قریشی اور حافظ حسن خان میواتی میرے ناظرہ کے استاد تھے، مدرسے کی روایتی دینی تعلیم حاصل نہ کر سکا کیونکہ والد ِمحترم مجھے عصری اداروں میں پڑھوانا چاہتے تھے، جبکہ دادا جان چونکہ سید حسین احمد مدنی کے ارادت مند اور مرید تھے اور سیدسلیمان ندوی سے بھی عقیدت رکھتے تھے، اس لیے غالباً وہ مجھے حافظ اور عالم بنانا چاہتے تھے۔ رائے کا یہ اختلاف تقسیم ہند سے قبل ہی اس وقت نمایاں ہوگیا جب دادا مرحوم نے خاندان سے الگ سیاسی راہ اختیار کی اور مسلم لیگ کی بجائے جمعیت العلماء ہند کی حمایت کا اعلان کر دیا، البتہ ایک فکر قبیلہ بھر میں مشترک تھی، وہ مولانا الیاس کاندھلوی ؒ سے عقیدت اور تبلیغ کی محنت سے محبت تھی، یہ ہم میواتیوں کا دینی اور تحریکی ورثہ بھی ہے، جس پر یہ سادہ لوح قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہےلیکن اب تو صورتِ حال بقول اقبال کچھ یوں ہے:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی 
     کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ
فاضل مدیر ”ابن الحسن عباسی“ کے سوال نامے سے ایک بات رہی جاتی ہے کہ کتاب بینی کا آغاز کیسے ہوا؟ حُسنِ اتفاق ہے کہ راقم نے اپنے گھر میں افسانوی اردو ادب اور دینی و اسلامی ادب کو ساتھ ساتھ پایا۔ اباجان فارغ اوقات میں ایک بوسیدہ ضخیم کتاب پڑھتے تھے، جس کے ابتدائی صفحات غائب تھے، یہ دیومالائی، جنوں، پریوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی کوئی کتھا تھی، آپ اسے اُس زمانے کا فکشن (Fiction) کہہ سکتے ہیں۔ میں اس کتاب کو چوری چُھپے پڑھا کرتا، ایک دن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، گویا یہ کوئی بُری چیز تھی، اس کے بعد کتاب ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئی، تاہم میری ادبی حِس کا ادراک کرتے ہوئے ابا جان نے اس کی تسکین کا سامان یوں کیا کہ نسیم حجازی کے تاریخی ناول پڑھنا شروع کیے، میری عادت تھی کہ اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے کمرے کا جائزہ لیتا، ایک دن ان کے سرہانے، عینک کے نیچے ایک کتاب نظر آئی، یہ نسیم حجازی کا ناول ”داستانِ مجاہد“ تھا، ابا جان بڑی سرعت سے مطالعہ کرتے تھے، بعض دفعہ ہفتہ بھر میں دو دو ناول پڑھ جاتے تھے، اس لیے میرے لیے ضروری تھا کہ میں وہ کتاب ان سے پہلے مکمل کر لوں، یوں ایک ایک کرکے نسیم حجازی کے تمام ناول پڑھ دئیے، مطالعہ کی ایک چیز اور بھی تھی گھر میں، وہ ایک رسالہ تھا جہازی سائز کا، جس پر  ”خدام الدین“ لکھا ہوتا تھا، یہ معلوم نہ ہوسکا کہ انجمن خدام دین کا ماہنامہ ہمارے گھر میں کیسے آیا؟
دادا جان تبلیغ کی محنت سے تو مانوس تھے ہی، چار ماہ کے تبلیغی سفر سے واپس آئے تو تبلیغی نصاب  (فضائل اعمال) ہمراہ لائے۔ گھر میں اور پھر عشاء کے بعد مسجد میں تعلیم اب روزانہ کا معمول بن چکا تھا، جس سے کتاب کی اکثر احادیث یاد ہو گئیں۔ خاص طور پر فضائل نماز اور فضائل رمضان کی حدیثیں، آہستہ آہستہ بات بیان اور تقریر تک جا پہنچی، مطالعہ و بیان کی یہ مشق اُس وقت بہت کام آئی، جب مجھے چالیس دن کے لیے جماعت کے ساتھ ارسال کر دیا گیا۔ اب روزانہ کے بیان اور اعمال ناگزیر تھے اور ان کے لیے ہلکا پھلکا مطالعہ بھی، خدا بھلا کرے، بھلے دن تھے:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، دن رات 
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
 
آپ کو یاد ہوگا صدرِ پاکستان جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں یومِ آزادی ۱۴ اگست سرکاری طور پر منایا جانے لگا، صدرضیاء اکابر علماء دیوبند سے عقیدت رکھتے تھے، اُن کے عہدِ حکومت میں لاہور کے چوراہوں میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے بڑے بڑے پوٹریٹ نصب کر دیئے گئے تھے، یہ تحریک تعلیمی اداروں کے ذریعے عوام تک پھیل گئی، خوب یاد ہے،کیپٹن محمد حسین میواتی کی قیادت میں گاؤں بھر میں جلوس نکالا جاتا تھا، جس کے اختتام پر تحریکِ آزادی، دو قومی نظریہ اور اکابرین تحریک ِپاکستان پر تقریریں ہوتی تھیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کے بعد راقم کو مولوی محمد اسحاق میواتی نے کہا کہ ”تم کیا دو قومی نظریہ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کی باتیں کرتے ہو؟ تمہارے دادا تو حسین احمد مدنی کے مرید اور کانگریس کے حامی تھے“، مولوی صاحب کا اندازِ تخاطب ایک نظر نہ بھایا۔ حضرت مدنی، مولانا آزاد اور گاندھی جی کے سیاسی نظریات سے بھی نابلد تھا، خاندان میں بھی دینی و سیاسی مسلک کے بارے بات نہ ہوتی تھی، اس واقعہ نے میرے اندر ایک کُرید،کھوج اور تحقیق کی فضا پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اب میں علماء کے بیانات اور تقاریر کو غور سے سنتا، جو بھی رسالہ یا کتاب ملتی اس میں اپنے سوالات کا جواب تلاش کرتا، نصابی کتب میں بھی علماء دیوبند کی خدمات کے بارے کچھ مثبت اشارے نہ ملتے تھے، اسی دوران ایک دن مولانا محمد یوسف (رفیق مولانا طارق جمیل) اور مولانا سرفراز خان صفدر کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب گھر تشریف لائے، انہوں نے مجھے نقش حیات، کاروانِ احرار، علماء ہند کا شاندار ماضی، اسیرمالٹا، مدنی اقبال نمبر اور ”تاریخ دارالعلوم دیوبند نمبر“ کا مطالعہ تجویز کیا۔ بہت بھاری نسخہ اس وقت صرف دارالعلوم دیوبند نمبر حاصل کر سکا، یہ ماہنامہ ”الرشید“ ساہیوال کی خصوصی اشاعت تھی، جس کا ماخذ سید محبوب رضوی کی کتاب تاریخ دارالعلوم دیوبند تھی، یہ پہلی کتاب تھی جو راقم نے دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے بارے میں پڑھی۔
میں نے ابتدا میں جو مذہبی رواداری اور مسلکی ہم آہنگی کی بات کی تھی،اس کا صلہ یہاں (گھڑتل) کے علما اور خطبا کو جاتا ہے، مولانا جمال الدین صاحب فاضل دیوبند صبح درسِ قرآن اور جمعۃ المبارک کے علاوہ عیدین کے خطبات ارشاد فرماتے تھے، اپنی تیس سال تدریس میں انہوں نے کبھی مسلک اور فرقہ کی بات نہیں کی، نہ ہی کبھی تنخواہ یا وظیفہ کی خواہش کی۔ہائی اسکول میں دینیات کے استاد تھے اور حکمت بھی کیا کرتے تھے، قرآن فہمی کی تحریک مولانا موصوف سے ہی ہوئی۔
 مولانا مسعودالرحمٰن بالاکوٹ یا مانسہرہ سے تعلق رکھتے تھے، ہمارے یہاں خطیب ہوئے پھر یہیں کے ہو رہے، قرآن کا بہت گہرا مطالعہ رکھتے تھے، ہم عصر علما سے رابطے میں رہتے، ماہنامہ ”بینات“ کا تعارف مجھے انہی سے ملا اور ”بینات“ وہ رسالہ ہے، جس میں میرا اولین مضمون ”اسلام کی تعلیم اعتدال“ (شمارہ:۱۲، جون ۱۹۹۲ء) شائع ہوا، پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور محترم مفتی سعید جلال پوری کی وفات تک جاری رہا۔ بینات کے بعد ”الخیر“، ملتان، ”الحق“، اکوڑہ خٹک، ”الحسن“، لاہور، ”القاسم“، نوشہرہ، ”ضیائے حرم“، بھیرہ اور ”الشریعہ“، گوجرانوالہ میں بیسیوں مضامین شائع ہوئے۔ جناب مجید نظامی صاحب اور مجیب الرحمن شامی نے بھی ”نوائے وقت“ اور ”پاکستان“ میں کچھ آرٹیکل نکالے، جس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میرے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ اس دوران دیگر متعدد رسائل و جرائد کا مطالعہ جاری رہا جن میں ”دارالعلوم“، دیوبند، ”معارف“، اعظم گڑھ، ”فکر و نظر“، اسلام آباد، ”محدث“، لاہور ”الفاروق“، کراچی، ”البلاغ“، کراچی اور جماعت اسلامی کا ”ترجمان القرآن“، لاہور قابلِ ذکر ہیں۔  ہفت روزہ ”تکبیر“، "”زندگی“، ”چٹان“، ”الاعتصام “، ”اہلحدیث“، ”ختم نبوت“ بھی زیرِ مطالعہ رہے، خاص طور پر ”تکبیر“ نے بہت متاثر کیا۔
جنوری ۱۹۸۸ء میں لیکچرار اسلامیات ہوا تو مطالعہ کا ایک نیا دور شروع ہوا، ۱۹۹۹/۲۰۰۰ء میں ”علامہ اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی افکار کا تقابلی جائزہ“ کے عنوان سے ایم فل کی ڈگری کے لیے مقالہ تحریر کیا، اس دوران مطالعہ اور تجزیہ کے نئے تجربات سے سرشار ہوا، برصغیر پاک و ہند میں یہ پہلا کام ہے جو حضرت تھانوی اور علامہ اقبال کی فکری مماثلتوں اور علمی اختلاف پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کے نگران پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب تھے۔ یہ ڈاکٹر ہاشمی ہی ہیں جنہوں نے مجھے تحقیق کی خارزار وادی میں دھکیل دیا، یہ مقالہ ۲۰۰۰ء میں پنجاب بھر کی جامعات میں ایم فل اقبالیات کے لیے لکھے جانے والے مقالات میں اول انعام کا حق دار قرار پایا۔ اسی تحقیق سے متعلق ایک مضمون ”علامہ اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی :فکری مماثلتیں“ ماہنامہ الشریعہ (شمارہ:۰۵، مئی ۲۰۰۲ء) نے شائع کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی کو مکتوب لکھا جس میں راقم الحروف کو مبارکباد دیتے ہوئے حوصلہ افزائی فرمائی، غالباً اسی مکتوب کے بعد راقم ماہنامہ کی مجلسِ تحریر میں شامل کیا گیا۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی کہ یہی وہ حالات تھے جن سے راقم الحروف نے تحریک لی اور اپنے مطالعہ کو آگے بڑھانے کی سعی کی۔ آپ جانتے ہیں کہ علم و ادب ایک ایسا سمندر ہے، جس کا دوسرا کنارہ نہیں ہوتا، بقول منیر نیازی:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
 
اب سوچا کے مطالعہ کو پی ایچ ڈی کے حوالے سے آگے بڑھایا جائے، یوں اہلِ علم سے رابطہ اور رہنمائی ملتی رہے گی، موضوع اور خاکہ کی تیاری میں پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر صاحب سابق ڈین شعبہ علومِ اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور نے معاونت فرمائی۔ ”مولانا محمد قاسم نانوتوی کی حفاظتِ دین میں خدمات“ پر کام کرنا طے پایا۔ آخرکار ”مکالمہ بین المذاہب میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کا اسلوب“ کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی صاحب کی رہنمائی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ کام مکمل ہوا، تاہم حصولِ ڈگری کے مراحل طے کرنا ابھی باقی ہیں۔ 
ان مقالات کی تیاری میں جو کتب زیرِ مطالعہ رہیں، وہ ہی میری پسندیدہ ہیں، ان سب کا تذکرہ تو کسی طرح ممکن نہیں چنانچہ چند ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی ”تفسیرعثمانی“ کو بہت متوازن پایا، روایت و درایت کے علاوہ قدیم و جدید علمی و سائنسی نظریات کو ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ فقہی مسائل کے لیے مفتی محمد شفیع کی ”معارف القرآن“ سے استفادہ ناگزیر رہا، کلامی مباحث کے لیے تفسیر ِحقانی، بیان القرآن کے علاوہ معارف القرآن (مولانا محمد ادریس کاندھلوی) نے متاثرکیا۔
تفہیم حدیث کے لیے انوارالباری، فضل الباری اور ترجمان السنہ کو بہت مفید پایا، سیرت نبوی پر ایک بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے لیکن سید سلیمان ندوی/مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی، مولانا محمد ادریس کاندھلوی کی سیرت مصطفی، قاضی منصورپوری کی رحمۃ اللعالمین، مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی سیرت مصطفی، حکیم محمود ظفر کی پیغمبر امن، مناظر احسن گیلانی کی النبی خاتم، نعیم صدیقی کی محسن انسانیت، پیرکرم شاہ الازہری کی ضیاء النبی اور سید امیر علی کی روح اسلام بہت عمدہ کتب نظر آتی ہیں۔ اس باب میں محمد حسین ہیکل کی حیات محمد، حضرت عمر فاروق اور شبلی کی الفاروق بھی ناقابلِ فراموش علمی و ادبی فن پارے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی جملہ کتب بے مثال ہے لیکن خاص طور پر ”حجۃ اللہ البالغہ“ کلام حکمت کی بہت بڑی کتاب ہے، اس ضمن میں امام غزالی، امام رازی کے علاوہ علامہ شبلی کے علم الکلام اور الکلام کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سید ابو الحسن علی ندوی صاحبِ اسلوب مصنف اور ادیب ہیں، ان کی تاریخ دعوت و عزیمت اور شیخ اکرام صاحب کی رود کوثر اور موج کوثر بہت مفید کتب ہیں۔
حضرت مدنی کی نقش حیات، اسیر مالٹا اور تحریکات پر مولانا غلام رسول مہر اور ابو سلمان شاہجہانپوری کی تصنیفات بھی زیرِ مطالعہ رہتی ہیں، تصوف میں مکتوباتِ امام ربانی، مولانا تھانوی کی شریعت و طریقت، التکشف (عرفانِ حافظ)، کلیدِ مثنوی کے علاوہ خطباتِ حکیم الامت، الافاضات الیومیہ سے بھرپور استفادہ کا موقع ملا۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی کی حجۃ الاسلام، انتصارالاسلام، قبلہ نما، تقریر دلپذیر، تحذیرالناس، فوائد قاسمیہ کے علاوہ آپ کے فکر و فن پر تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، نئی دلی کے خصوصی نمبرات، مولانا نانوتوی کا سوانحی ادب، سوانح قاسمی (مناظر احسن گیلانی)، انوار قاسمی (انوار الحسن شیر کوٹی)، ”مولانا محمد قاسم نانوتوی حیات و کارنامے“ (اسیرادروی)، علاوہ ازیں علامہ محمد اقبال کی نظم (مثنوی)، اسرار و رموز اور نثر میں ”تشکیلِ جدید الہیات اسلامیہ“، بہت پسند آئیں۔ دیوبندی علم الکلام میں اس کےٹکر کی کوئی چیز ہے تو وہ مولانا نانوتوی کے مکتوبات ”قاسم العلوم“ ہیں۔جس کی اردو شرح ”انوار النجوم“ (مولانا شیرکوٹی) نے اس کو مزید سہل اور مفید بنا دیا ہے۔
شعراء میں غالب اور اقبال ہی نے متاثر کیا، دارالعلوم دیوبند کے شعری ادب میں مولانا زکی کیفی کا مجموعہ کلام ”کیفیات“ بھی زیرِ مطالعہ رہتا ہے، مولانا تھانوی نے بھی ایک سفرنامہ لکھا تھا لیکن جدید اردو ادب میں مولانا تقی عثمانی کے سفرنامے زیادہ مفید نظر آتے ہیں۔
اب رہی بات مطالعہ کے اوقات وغیرہ کی تو اس میں راقم کا تجربہ تو یہ ہے کہ نمازِ فجر سے دوپہر ۱۲ بجے تک کا وقت دیرپا مطالعہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر تصنیف و تالیف کے لیے یہ اوقات بہت مبارک ثابت ہوئے۔ سہ پہر یا رات کا لکھا ہوا صبح اٹھ کر پڑھا تو ایک بڑے حصہ کا اعادہ ضروری معلوم ہوا، رات کے سناٹے میں مطالعہ ایک پرکیف اور لطف انگیز چیز ضرور ہے لیکن کیف و سرور کوئی مستقل چیز تو نہیں۔ دورِ حاضر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مضر اثرات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے کتاب کا لمس اور حظ کا مزہ ختم کردیا ہے۔ کتاب کو پڑھنا اور بات ہے اور اس کو چُھونا اور بات ہے۔ پھر دو مسوں کا اپنا اپنا مزہ ہے۔ مجھے یاد ہے جب ”بینات“ موصول ہوتا تو پہلے میں اسے سونگتا تھا، اس کے کاغذ اور تحریر کی خوشبو کبھی فراموش نہیں کر سکتا، اب آپ بتائیے یوٹیوب/آن لائن پر یہ ممکن ہے؟ اس سے تو مطالعہ کی کی حرمت ہی اٹھ جاتی ہے۔
ہم کیوں پڑھتے ہیں اور کیوں لکھتے ہیں؟ اگر ڈگریاں، تحقیقی الاؤنس یا کوئی اور مالی منفعت ہی پیشِ نظر ہے تو پھر مشورہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہماری عصری جامعات میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مقصد تلاش حق اور تحقیق تو ہے نہیں، مطالعہ کی سمت متعین کرنے میں اہم بات مقصد اور قاری کا اپنا ذوق ہی ہوتا ہے، ہاں اس کے حصول اور تسکین کے لیے اہلِ علم سے مشورہ اور رہنمائی ناگزیر ہوتی ہے، یوں بعض اوقات تحقیق و تجزیہ کے ایسے در وا ہوتے ہیں جو عام حالات میں ہمارے پیشِ نظر نہیں ہوتے، اکبر الہ آبادی نے درست فرمایا تھا:
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
 آدمی، آدمی بناتے ہیں
امید کی جانی چاہیے کہ حضرت مولانا ابن الحسن عباسی کی یہ علمی کاوش بہت مفید ثابت ہوگی، اس سے برصغیر پاک و ہند کے اہلِ علم رابطے میں ہوں گے، تحقیق و تجزیہ کے نئے زاویے اور اسلوب سامنے آئیں گے اور کام کرنے والے اصحاب کے لیے حوالے اور آسانیاں پیدا ہوں گیں، خاص طور پر ماہنامہ ”النخیل“ کے لیے قلمی تعاون میں اضافہ ہوگا۔
اس نوع کی ایک مثال قبل ازیں موجود ہے، مولانا سمیع الحق مرحوم نے بھی ایک سوالنامہ تصنیف کیا تھا، جو ۸ نِکات پر مشتمل تھا، جوابات بعدازاں ”میری علمی اور مطالعاتی زندگی“ (مرتبہ مولانا عبدالقیوم حقانی) کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کتاب میں اکیس علما اور ممتاز سکالرز کے حالات مرتب کیے گئے ہیں۔ ”مطالعہ نمبر“ میں تو اس سے کہیں زائد اہل علم کا تذکرہ سمٹ آئے گا، جو یقیناً ایک قومی و ملی دستاویز ثابت ہوگی۔
 
دراصل اپنے بارے کچھ بھی لکھنا بہت ہی نازک اور مشکل امر ہے، جس میں لفظ لفظ پر خود ستائی اور خود نمائی کا شائبہ موجود ہوتا ہے، ”میں“، ”میری“، ”میرے“، ”ہم“ اور ”ہمارے“ جیسے الفاظ کا استعمال ہی احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں، گویا: ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام“ نیز یہ جانتے ہوئے بھی کہ ”نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی“
اب اسے سینہ میں مزید تھامے رکھنا مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ تعمیل تو بہرحال کرنا ہی تھی۔
والسلام         
۱۲/۰۵/۲۰۲۰     
٭…٭…٭
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024