صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریاں و ترقیاں ماہنامہ النخیل رمضان 1440
دارالعلوم دیوبند کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں خصوصیات وخوبیوں سے نوازا ہے، ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ صرف صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریاں ہوتی ہیں اور اسی بنیاد پر ترقیاں ملتی ہیں۔ نسب، رشتہ داری اور علاقائیت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس بات کی ایک واضح نشانی یہ ہے کہ اس وقت منصبِ اہتمام پر فائز حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب کا تعلق ضلع ’’بنارس‘‘ سے ہے، ان کے نائب جناب مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی کا تعلق ’’مدراس‘‘ (چینائی) سے ہے، شیخ الحدیث وصدر المدرسین حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کا تعلق ’’گجرات‘‘ سے ہے۔ انتظامی اور علمی اعلیٰ مناصب پر فائز ان تینوں حضرات میں سے کسی کا بھی دارالعلوم کے اکابرین جیسے حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مدنی، حضرت شیخ الادب، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی قدس اللہ اسرارہم وغیرہ کے خاندانوں سے کوئی نسبی تعلق نہیں، جس سے تقرریوں اور ترقیوں سے متعلق دارالعلوم کے مزاج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس سفرمیں دارالعلوم دیوبند کے نظام سے متعلق ایک قابل صدتحسین نیا معمول میرے علم میں آیا جس نے مجھے بے حد متأثر کردیا، اور وہ یہ کہ سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ(متوفی۱۴۳۲ھ) نے اقرباپروری کے سدباب کے لیے اپنے دورِاہتمام کے آخری سالوں میں یہ معمول بنایا تھا کہ دارالعلوم کے کسی استاذمحترم کے کسی فرزند ارجمند کو ،جب تک کہ ان کے والد دارالعلوم میں تدریس سے وابستہ ہوں، دارالعلوم کا مدرس نہیں بنایا جائے گا۔
اس معمول سے متعلق احقر نے اطمینان حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی موجودہ مہتمم دارالعلوم دیوبند سے ان کے دونوں نائبین کی موجودگی میں دفترِ اہتمام کے اندر جب دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ معمول حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے زمانے سے جاری ہے اور چونکہ سب کو اس معمول کے بارے میں علم ہے اور اس کے مطابق تعامل برقرارہے، اس لیے اس کو چیلنج بھی نہیں کیا جاتا، ہاں! اتنی بات ضرور ہے کہ اس تعامل کو باضابطہ اور تحریری طور پر دستور کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔
اس تعامل کا عملی مشاہدہ راقم نے اس طرح بھی کیاکہ موجودہ اساتذۂ دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادگان میں سے کسی کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس پر فائز نہیں دیکھا، حالانکہ ان میں سے کئی صاحبزادگان کو میں بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان میں صلاحیت وصالحیت دونوں موجود اور دارالعلوم کے مایۂ نازفضلاء میں سے ان کو شمار کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جناب مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری صاحب استادحدیث ومفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد جو جناب مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری استادحدیث دارالعلوم دیوبندکے صاحبزادے اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے نواسے ہیں، میں ان سے اس وقت سے واقف ہوں جب وہ دارالعلوم کے طالب علم تھے، احقر کا اس وقت مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوچکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ امتحان میں اکثر پوزیشن لیتے تھے اور اساتذۂ کرام ان کی صلاحیت وصالحیت کے قائل تھے۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد سے لے کر آج تک ایک لائق وفائق مفتی، کامیاب مدرس اور بہترین مصنف کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور صلاحیتوں میں خوب اضافہ بھی ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبندمیں ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے کام کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے والد محترم دارالعلوم کے مدرس ہیں، اس لیے ان کو وہاں پر تدریس کا موقع نہیں دیا جاسکتا، چنانچہ وہ ابتداء سے آج تک جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں مفتی ومدرس کے طور پر کام کررہے ہیں۔
اسی طرح جناب مولاناحسین احمدپالن پوری صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند جوکہ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کے صاحبزادے ہیں، ایک کامیاب مدرس واستاد حدیث، باعمل وباصلاحیت عالم دین اور ’’تحفۃ الألمعي شرح سنن الترمذي‘‘اور’’تحفۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘کے مرتب ہیں، لیکن چونکہ ان کے والدماجددارالعلوم کے مدرس ہیں، اس لیے نہ ان کو اور نہ ہی حضرت الاستاذکے دوسرے صاحبزادوں میں سے کسی کو دارالعلوم میں تدریس کا موقع دیا گیا۔
ان کے علاوہ جناب مولانا سید امجد مدنی صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کے صاحبزادے اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہٗ کے پوتے ہیں، موصوف بھی ایک متقی اور باکمال مدرس اورایک سنجیدہ وعلمی ذوق رکھنے والے عالم ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہکی کتاب’’نخب الأفکارفی تنقیح مبانی الأخبار‘‘کی تحقیق میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زید مجدہم کے معاون بھی رہے ہیں، لیکن ان کو بھی اس لیے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا موقع نہیں مل سکا کہ ان کے والدماجد دارالعلوم کے مدرس ہیں۔ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہنے سب سے پہلے اس معمول کے مطابق خود عمل کیا، چنانچہ اپنے صاحبزادے جناب مولانا انوار الرحمن صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند (جن کی شرافت، تقویٰ، سنجیدگی، معاملہ فہمی اور خوش اخلاقی سے ان کا ہر جاننے والا واقف ہے) کو انہوں نے اپنے تیس سالہ دورِ اہتمام میں نہ نائب مہتمم بنایا اور نہ ہی دارالعلوم کے کسی بھی شعبہ سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امیدہے کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ کا یہ معمول متعارف کرانا ان کی نجات ورفعِ درجات کا سبب بنے گا۔ دارالعلوم دیوبند کے اس تعامل سے اگر کسی کے ذہن میں یہ آتاہے کہ اس سے دارالعلوم کو بعض باصلاحیت اور اس کے مزاج وماحول سے واقف لوگوں کی صلاحیتوںسے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا تو میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ صرف چند متعین اشخاص سے متعلق اور وہ بھی ایک محدود وقت کے لیے دارالعلوم کو اگر استفادہ کا موقع نہ بھی ملے تو یہ اتنا بڑا نقصان نہیں جتنا نقصان اقرباپروری کے راستے کھول دینے کی صورت میں محتمل ہے۔
بہرصورت! دارالعلوم کی بے نظیر ترقی میں احقر کی نظر میں (غور کرنے کے بعد) بنیادی کردار مذکورہ پانچ اسباب نے ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ دارالعلوم اور اس کی دینی خدمات کا سلسلہ تاروزِ قیامت جاری وساری رکھیں، آمین۔
دیگر مدارس کے ذمہ داران کو بھی دارالعلوم دیوبند کی پیروی کرنی چاہیے :دارالعلوم دیوبند کو پوری دنیا میں اور بالخصوص برصغیر میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کے ذمہ داران، اساتذۂ کرام اور طلبہ اپنی مادرِ علمی تصور کرتے ہیں اور اس سے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہیں، لہٰذا ان کو چاہیے کہ دارالعلوم سے ان کی محبت صرف زبان تک محدودنہ ہو، بلکہ اکابرین دارالعلوم کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے طریقۂ کار اور قائم کردہ اصولوں کی پیروی کو اپنا شعار بنالیں، اخلاص وتقویٰ، محنت وسادگی، بااختیار شورائی نظام قائم کرنے اور صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر تقرریوں اور ترقیوں کا اہتمام فرمالیں۔ سہولت پسندی، نام ونمود، غیرضروری مصروفیات اور بالخصوص اقربا پروری سے اجتناب فرمالیں۔ اس لیے کہ اس صورت میں دینی ادارے ترقی کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کرنا شروع کرنے لگتے ہیں اور لوگوں کا اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے، اور ذمہ داران کو یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مدارس کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، بلکہ عام مسلمانوں کی امانت ہیں، جن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کردی ہے، اور قیامت کے دن اس امانت کے ہر ہر پہلو سے متعلق ذمہ داران حضرات کو جواب دینا ہوگا۔