محبتوں کے نادر نمونے ماہنامہ النخیل شعبان 1440

 میری جبینِ نیاز پر سجدے مچل گئے!…کائنات عالم پر پانچ سو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، دنیا سے آسمان کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت گمراہی اور ضلالت کی تاریک شاہراہ پر گامزن ہے، فسق و فجور اور شرک و خرافات کی ایسی گرم بازاری کہ خانہ خدا میں سینکڑوں بتوں کو معبود بنا کر پرستش کی جا رہی ہے، تورات و زبور میں تحریف و ردوبدل کی جاچکی ہے ، دین ابراہیمی کو فراموش اور بھلا کر شیطانی مکر و فریب ،اوہام و خیالات میں جکڑے ہوئے ہیں، جن کے نزدیک انسانی زندگی کا ختم کرنا چراغ کو پھونک مارنے کے مثل ہے ، ہر ایک شراب کا عاشق اور انسانیت سے بیزار ہے، نیکیوں سے متنفر اور برائیوں سے قریب تر ہے، بچیاں باعث عار اور بت ان کے معبود و حاجت روا ہیں، جنگ ان کا محبوب مشغلہ، زناکاری ان کی عادت، ڈاکہ زنی ان کا شعار ہے۔ان کے درمیان چند نفوس ایسے ہیں، جو گوشہ تنہائی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا ئے ہوئے حیّ القیوم سے کسی ایسے معجزے کے متمنی ہیں، جو آسمان اور دنیا کے منقطع ہوئے سلسلے کو جوڑنے والا ہو، جو ایسا ہو کہ ضلالت و گمراہی کے تاریک راستوں پر گامزن انسانیت کو ہدایت اور روشنی کے راستے کی طرف چلائے، جو زبور و تورات کی عظمتوں کو برقرار رکھتے ہوئے، شیطانی مکر و فریب اور اوہام و خیالات سے آزادی دلا کر پھر ان کو دین ِحنیف کے سامنے لا کھڑا کرے۔پھر خدا کی نظر کرم، گوشے میں بیٹھے چند نفوس ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے عالم کے لئے صبح نو کی تمہید بنتی ہے، اللہ تعالی اپنے محبوب رسول کو اس دنیا اور آسمان کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑنے کے لیے اتارتا ہے، جو گمراہی اور ضلالت کے تاریک راستوں پر چلنے والے انسانوں کو شرک و بدعت، فسق و فجور، اوہام و خیالات کی دلدل سے نکال کر، انسا نی معیار کی اس بلندی پر پہنچا تا ہے کہ زمین وآسمان ان کی عظمت و شرافت کے گن گانے لگتے ہیں جن و ملک ان کے مرتبے اور عہدے پر رشک کرنے لگتے ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورم زدہ قدم مبارک کو دیکھ کر پوچھتی ہیں کہ میرے آقا! میرے مالک! جب اللہ تعالی نے آپ کو معصوم، سیئات سے پاک اور گناہوں سے محفوظ بنایا ہے اور انسانیت کے لئے رحمت بنایا ہے، تو پھر آپ اتنی تکلیف اور اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:عائشہ! تمہیں معلوم ہونا چاہیے، میں یتیمی کا داغ لے کر دنیا میں آیا، میں نے پہاڑوں پر بکریوں کی گلہ بانی کی، میں نے تجارت کے لئے شام تک کا سفر کیا اور جب اس رب  نے مجھے فضیلت عطا کی، تو میرے اوپر اونٹ کی اوجھ رکھی گئی، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے۔ اپنی بستی سے جب الگ ہوا تو میرے پیچھے آوارہ بچوں کو لگا دیا گیا، جو مجھے پتھر مارتے اور پاگل اور دیوانہ کہتے، یہاں تک کہ میری جوتیاں خون سے بھر کر پاؤں سے چمٹ گئیں، مجھے خندق میں گرایا گیا، میرے دانتوں کو شہید کیا گیا۔ عائشہ! تم ہی بتاؤ، آج جب اس رب نے ان سب کو میرا ہم نوا بنا دیا، ایک تنہا انسان کے اطراف میں، انھیں انسانوں کو میرا عاشق بناکر ایک بھیڑ جمع کردی، جس خدا نے میرے نام کو اپنے نام کے ساتھ قیامت تک کے لئے ضم کر دیا، جس نے مجھے ذرے سے آفتاب بنا دیا، کیا میں اس خدا کا شکر ادا نہ کروں  ؎

اس آستانہ ناز کا جب تذکرہ ہوا

میری جبین نیاز پر سجدے مچل گئے

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے  :…زید ابن دثنہ ؓ جن کا تعلق قبیلہ خزرج کی بیاضیہ شاخ سے ہے، بدر و احد میں شریک صحابی ہیں، قرآن و فقہ کے جاننے والے ہیں، دجل و فریب سے بئر معونہ کے معرکہ میں قبیلہ عنضل و قارہ کے قیدی بن جاتے ہیں، جنھیں مکہ میں صفوان ابن امیہ کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا ہے، جس کا ارادہ اپنے باپ کے قتل کے بدلہ میں انھیں قتل کرنے کا ہے، مقام تنعیم قتل گاہ قرار پاتی ہے، تماشائی اس عاشق ِ رسولﷺ کے قتل کے انتظار میں ہیں کہ ابو سفیان استفسار کرتا ہے، اے زید! سچ بتانا ، کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تواپنے اہل و عیال کے درمیان میں آرام سے رہے، اور تیری جگہ محمد (ﷺ) ہوں؟ پھر ایک عاشقِ کامل کی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے : ’’مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ محمد ﷺ جہاں ہوں ان کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے۔‘‘ جس نے ابو سفیان سے یہ مشہور، سچااور تاریخی جملہ کہلوایا :ما رأیت من الناس احدا یحب کحب اصحاب محمد محمدا میں نے لوگوںمیں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو دوسروں سے ایسی محبت کرتے ہوں، جیسی محمد ( ﷺ) کے اصحاب محمد (ﷺ)سے کرتے ہیں، پھر اس برگزیدہ انسان کو حیات جاودانی نصیب ہو جاتی ہے، جہاں ان کو ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے  ؎

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

قلب و نگاہ حسن کے سانچے میں ڈھل گئے!:…احد کے میدان میں کفر و اسلام کے ماننے وا لے باہم دست و گریباں ہیں، اسلام کے ماننے والوں کی فتح یقینی بن چکی ہے، بلکہ ہو چکی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :’’ اس مقام سے مت ہٹنا‘‘ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ارشاد مبارک کی تعمیل کرنے والے شہید کر دیئے گئے ہیں۔خالد بن ولید کے حملے سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے او ریقینی فتح شکست میں تبدیل ہونے لگتی ہے، کفار کے حملہ سے حضورﷺ زخمی ہو چکے ہیں ، میدان میں خبر پھیلتی ہے کہ حضور قتل کر دیئے گئے، حیرت و استعجاب کی حالت میں ہتھیار اتار دیئے جاتے ہیں، ہمتیں پست ہو جاتی ہیں، جوش و ولولہ ماند پڑ جاتا ہے، اب حضور ہی نہ رہے تو لڑنا کس کے لئے، پھر رزم گاہ حق و باطل میں حضور کے زندہ ہونے کی خبر مشہور ہوتی ہے، کفر کی پوری قوت اور سارا زور شمع ِنبوت کے گل کرنے کے در پہ ہے ۔چند نفوس ہیں ،جو شمع نبوت کا ہالہ کئے ہوئے ہیں،اور کفر کے ہر زور اور ہر وار کے لئے اپنے کو سینہ سپر کئے ہوئے ہیں۔ زیاد بن السکن پانچ سات انصاری نوجوانوں کو لیکر ایک حصار کی طرح نبی رحمت کی حفاظت میں کھڑے ہوتے ہیںاور اپنے ساتھیوں سمیت اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے راہی جنت ہوتے ہیں۔ ابو دجانہؓ و ابو طلحہؓ اپنے جسم کو حضور ﷺکے لئے ڈھال بنائے ہوئے ہیں، تیر و تفنگ کے زخموں سے بدن چھلنی ہے۔ ابن قمیہ، جو آپ کے قتل کے در پہ ہے، اس کی تلوار کے وار ہاتھوں پر لیکر اپنی انگلیوں کو شہید کرا کر حضور کو محفوظ مقام پر پہنچاتے ہیں۔ بد قسمت او ربد نصیب ہیں وہ انسان، جنہوں نے اپنی طرف بھیجے گئے نبیوں اور رسولوں کو قتل کرنے کی کوشش کی یا قتل کیا، خوش قسمت او ر نصیب والے ہیں وہ پاکیزہ نفوس ،جنھوں نے اپنی جان دے کر نبی اور رسول کی حفاظت فرمائی۔ ( الاصابہ: ج؍ ۳ ص؍ ۴۳۱)

کسی کو بچاتے ہوئے اپنی جان چلی جائے، جب کہ موت کا یقین نہ ہو ایسی مثالیں تو ملتی ہیں، لیکن جب موت سامنے ہو اور اپنی جان دےکر کسی کی حفاظت کرنا ہو، ایسی مثالیں یقینا نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں  ؎

ان کا جمال دیکھ کے دیکھا جو اے نصیر

قلب و نگاہ حسن کے سانچے میں ڈھل گئے

میری جبین شوق میں سجدے مچل گئے!…خدا ئی وحدانیت نے پہلے پہل اپنے توحیدی آشیانے کے لئے جن روشن سینوں کا انتخاب کیا ، نور محمدی نے پہلے پہل جن دل و دماغ کو اپنی ضیاپاشیوں کی آماج گاہ بنایا ، دین ِاسلام نے پہلے پہل جن پر اپنی حقانیت کو ظاہر کیا اور ان کے قلب و جگر کو متأثر کرکے دامن اسلام کا باشی بنایا ان میں ایک نام ابو بکر صدیق ؓ کا بھی ہے۔

یہ وہ مبارک ہستی ہے جو مشہور تاجر او رمعاشیات کے ماہر، اور صائب الرائے ایسے کہ ان کے مشوروں کو تمام کے مشوروں پر فوقیت دی جائے، انسانوں کے انساب کے ساتھ ساتھ جانوروں کے انساب میں فائق،کفر کے ویرانے میں صداقت و امانت ، اخلاق و عظمت کے روشن مینار، جن کی راست بازی اورخدمتِ خلق نے غیر مذہب کو اپنے ہی مذہب والوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔ جو پرندوں کی چہچہاہٹ سن کر او ردرختوں کی ہریالی او رتنکے کی بے سرو سامانی دیکھ کر کہتا کاش میں تمہاری طرح ہوتا ، جن سے قیامت کے دن کوئی استفسار نہ ہوگا، جو اپنے خاص ساتھی کی کسی معمولی گفتگو سے خود کو مجرم گردانتے ہوئے اپنے محبوب کے پاس حاضر ہوتا ہو او رمحبوب کے تیور بد ل جاتے ہوں ، محبوب کی زبان پاک سے الفاظ اس طرح جاری ہوتے ہوں جیسے ایک شخص کے احسان عظیم کو شمار کرایا جا رہا ہو، کیوں نہ کرایا جاتا جب وہ ہستی تھی ہی ا یسی اس کی شخصیت زبانِ نبوت سے اجاگر کی جاتی، اور کیوں نہ اجاگر کرائی جاتی یہ ضروری تھا کہ اس ہستی کی عظمت کو ظاہر کیا جائے اور اس کے مرتبہ کو آشکارا کیا جائے، وہ ا س وجہ سے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو سقیفہ میں اس ہستی کے ہاتھ پر بیعت ہو جانا اور اس ہستی کا امامت نبوی کے لئے قبول کر لینا، مانعینِ زکوۃ سے قتال کے لئے تیار ہو جانا، حضرت عمر ؓ کا وفاتِ نبوی پر رام ہو جانا، قرآن کو مکتوب کی شکل میں جمع کرنے پر اسی ہستی کی رائے پر سب کا متفق ہو جانا ممکنات میں سے نہیں بلکہ نا ممکنات میں سے تھا۔ اس شخص کے متعلق تمہیں شکایت ہے، تمہیں معلوم ہونا چاہئے اور تمہیں معلوم بھی ہوگا، یہ وہ ہستی ہے جب تم نے میری آواز کو نکارا تو اس نے اقرار کیا، جب تم نے میرا ناطقہ بند کر دیا، تو اس نے اپنا مال و دولت مجھ پر نثار کر دیا، یہاں تک کہ جب تم میری دشمنی میں انتہاء تک پہنچ گئے او رمیری جان لینی چاہی، تو یہ میرا رفیق سفر ا و رغار کا ساتھی بنا ، کیا تم مجھ سے میرا یہ ساتھی بھی چھین لینا چاہتے ہو، ایک دوسرے موقع پر زبانِ نبوت اس ہستی کے بارے یوں گویا ہوئی :میں نے تم لوگوں میں سب کے احسان کا بدلہ اتار دیا سوائے ابو بکرؓ کے، جن کے احسان کا بدلہ قیامت میں رب ہی اتارے گا،جس نے ایک معصوم بچی کے اس خوف و فکر کو کہ خلیفہ بننے کے بعد اب اس کی بکریوں کا دودھ کون نکالے گا، یہ کہہ کر دور کر دیا ہو کہ بیٹی! میں اب بھی تیری بکریوں کا دودھ نکال دیا کروں گا، جس کی چار پشتوں کو صحابیت جیسے عظیم مرتبہ نے طرۂ امتیاز بخشا ہو ؎

وہ پہلا مددگار، پہلا صحابی

 نبی نے جسے ہر قدم پر دعا دی

وہ افضل بشر بعد از انبیاء ہے

 وہ جان صداقت وہ جان وفا ہے

شیر خدا حضرت علی ؓ نے سر منبر یہ سوال کیا بتائو سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ بتانے والے نے جوابا کہا ، باب خیبر کو آپ نے اکھاڑا او راس کو فتح کیا، آپ سے جس نے مقابلہ کیا وہ زیر ہوا (اسی طرح کی باتیں جنگ صفین کے موقع پر ہوئیں جب دو بزرگوں کی فوجیں آمنے سامنے مقابلہ کے لئے حکم کے انتظار میں ہیں، کسی نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ آپ بزرگوں نے ہمیں کہاں لا کر کھڑا کر دیاہے، ایسا کیوں نہ کریں دونوں لوگ آپس میں لڑ کر حق و ناحق کا فیصلہ کر لیں او رکسی ایک کی ہاتھ پر ہم بیعت ہو جائیں، حضرت معاویہ ؓ نے جوابا فرمایا کیا تم مجھے قتل کرانا چاہتے ہو، تمہیں معلوم نہیں، جو بھی حضرت علیؓ کے مقابلہ پر آیا او ران کا سامنا کیا، پچھاڑا گیا اور قتل کیا گیا) سب سے زیادہ بہادر تو آپ ہیں،حضرت علی ؓ فرمانے لگے، بخدا کفار حضور کو مار رہے تھے مجھے او رکسی کو دفاع کی جرأت نہ ہوئی میں نے دیکھا ابو بکر آئے کسی کو ادھر چپت رسید کی کسی کو ادھر اورفرمانے لگے کیا تم ایک شخص کو صرف اس لئے قتل کر دینا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ا للہ ایک ہے، بخدا شجاع اور بہادر تو ابو بکر تھےؓ۔( سیرۃ المصطفیٰ)

خدا کی وحدانیت پر ایمان لانے والوں کی تعداد کم سے کم تر ہے، او رسب کمزور و ناتواں ہیں، لیکن دل خدا کی عظمت سے معمور ارادے پتھر کی طرح مضبوط ہیں، جن کی آرزو او رتمنا ہے کہ علی الاعلان دین اسلام کی تبلیغ کی جائے ہزاروں معبودوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں کو کائنات کے خالق کے سامنے جھکایا جائے، اس کی تکمیل کے لئے حضور سے اجازت لی جاتی ہے، کئی مرتبہ کی کوششوں کے بعد اجازت کو قبولیت نصیب ہوتی ہے۔ صحن حرم میں کفار کا مجمع ہے، ابو بکر صدیقؓ کھڑے ہوتے ہیں، اور خدا کی وحدانیت او ررسول کی صداقت او ردین اسلام کی حقانیت پر فصیح و بلیغ پہلا خطبہ پڑھا جاتا ہے، مگر وہ قوم جو قاتل کے نام کا قلادہ سالوں تک گلے میں پہن کر یاد کرتے آ رہے ہوں، وہ اپنے معبودوں کی تکذیب اور اور ان کو بھلانے کی باتوں کو کہاں برداشت کرنے والے تھے،الٹ کر حملہ آور ہوتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ناک چہرے سے اکھڑنے کے قریب ہے، بیہوشی کی حالت میں گھر لائے جاتے ہیں، قبیلہ تمیم کے لوگ عتبہ کے قتل کی قسم کھا چکے ہیں، افاقہ کے بعد ماں آنکھوں میں سمندر لیے ہوئے کھانا کھلانا چاہتی ہیں، تو ا ٓواز آتی ہے حضور کیسے ہیں، کہاں ہیں؟اتنا سننا تھا قبیلہ کے لوگ واپس گھروں کی راہ لیتے ہیں، ماں اور بیٹے میں کھانا کھلانے اور حضور کے متعلق کشمکش جاری ہے، ہر ماں کی طرح یہ ماں بھی بیٹے کی ضد کے آگے اپنے آپ کو ہار جاتی ہے۔ ایک ساتھی عورت کے ساتھ سہارا دے کر ارقم بن ارقم کے گھر پہنچاتی ہیں، حضور دیکھتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں، آنکھوں سے اشک جاری ہو تے ہیں، اسی رندھی ہوئی آواز میں فرماتے ہیں، اے اللہ کے نبی یہ میری ضعیف ماں ہے جو ابھی تک ردائے رحمت اور خدا کی آشنائی سے محروم ہے ، انھیں خدا سے آشنا کرا دیجئے۔

رب کی طرف سے ہجرت جیسے عظیم کام کا حکم ہو چکاہے ، سفر کے لئے جس ساتھی او ررفیقِ راہ پر نظر پڑتی ہے یہی عظیم ہستی ہے، سفر جاری ہے اور کفار کے دیکھ لینے کا خوف بھی ہے، غارِ ثور کو چھپنے اور آرام کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے، وہ ہستی جو انسانیت کی پناہ بن کر دنیا میں بھیجی گئی دنیا کے لوگوں نے اسے ہی پناہ لینے پر مجبور کر دیا ۔ حضو ر کے آرام کا انتظام کیا جا رہا ہے ، غار کے سوراخوں کو اپنے کپڑے کو چاک کر کے بند کیا جار ہا ہے، ایک سوراخ کے بند کرنے کے لئے کپڑا نہیں ہے، اس پر اپنا انگوٹھا رکھ دیا جاتا ہے۔حضور آرام سے سوئے ہوئے ہیں، دفعتاًصدیقِ اکبر انگوٹھے میں کسی موذی جانور کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتے ہیں، حضور کے آرام کا بھی خیال ہے، درد ہے جو بڑھتا جاتا ہے، آنکھیں یہاں بھی اپنی عادت اور فطرت کے مطابق وفا نہ کر سکیں، اور حضور کے رخسار انور پر آنسو ٹپک پڑتے ہیں، حضور بیدار ہوتے ہیں، ابو بکر کیا ہوا سوال کیا جاتا ہے، سوراخ سے انگوٹھا نکالا جاتا ہے ، لعاب دہن لگایا جاتا ہے ، او راس تکلیف سے نجات پائی جاتی ہے۔ ان عظیم انسانوں کے ان کارناموں کو اگر’’ محبت کا نادر نمونہ ‘‘کا عنوان نہ دیا جائے اور نہ لکھا جائے، تو محبت میں اور کیا کیا جائے کہ اسے نادر سمجھا او رلکھا جائے۔

 

٭…٭…٭

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025