وقف کے ارتقاء پر ایک نظر ماہنامہ النخیل شعبان 1440

 نظامِ اوقاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ خاص عنایت ہے جس کی بنیاد پر عصرِ حاضر کے اکثر مادی مسائل کو حل کیاجاسکتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ریاست کے  مسائل میں سے اکثر مسائل  انہیں اوقاف کے ذریعے حل کیے جاتے رہے ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی چند جدید صورتیں ایسی سامنے آئی ہیں جن کی بنیاد پر موجودہ معاشی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے۔اسی سلسلے میں ہماری بھی کوشش ہے کہ  وقف کے ارتقاء سے لیکر عصرِ حاضر میں موجود وقف کی قدیم وجدید صورتوں کے مطابق کچھ لکھا جائے ، عین ممکن ہے کہ یہی ہمارے حصے کی شمع ہو جس کے سبب آخری  و حقیقی منزل تک رسائی میں آسانی میسر ہو سکے۔

’’کسی چیز کواللہ کے راستے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس طور سے دے دینا کہ اس کی  اصل بچا کررکھی جائے  اور اس سے حاصل ہونے والا نفع خرچ کیا جائے‘‘ وقف کہلاتا ہے۔يہ ایک بہت ہی پسندیدہ نیکی ہے، اس  سلسلے کی مختلف احادیث کتابوں میں موجو دہیں ،چنانچہ بخاری و مسلم ميں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حديث مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا، اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم مجھے خیبر كمیںکچھ مال ملا ہے، مجھے اس سے بہتر مال كبھی حاصل نہیں ہوا، آپ اس کے متعلق مجھے ك کيا حکم ديتے ہیں؟تو رسول كکريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

’’اگر تم چاہو تو اس کی اصل روکے رکھو اور اسے صدقہ كکر دو، ليکن يہ ہے کہ اس اصل كکو نہ تو ھبہ کيا جائے گا، اور نہ وہ وراثت بنے گا۔‘‘

اس پرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فقراء و مساکين اور رشتہ داروں،اللہ كکے راستے، اور مسافروں اور مہمانوں كے ليے وقف كکر ديا۔اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحيح مسلم میں روایت کیاکہ رسول كکريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

’’ جب آدم کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اس کے عمل رک جاتے ہيں، صرف تين قسم كکے عمل جاری رہتے ہيں: صدقہ جاريہ،  يا ایسا علم جس سے اس كکے بعد نفع بھی حاصل كکیا جاتا رہے، يا نیک اور صالح اولاد جو اس كکے لیے دعا كکرتی رہے۔‘‘

 اگرچہ اسلام سے پہلے’’وقف‘‘اپنے اس خاص معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا لیکن اموال اور املاک کی متعدد صورتیں موجود تھی جن میں عبادت گاہیں،رفاہی امور یا مختلف افراد کے ساتھ کسی ملک کو خاص کر دینے کی مثالی ملتی ہیں جوکہ  چند جہات سے وقف کے ساتھ مشابہت رکھتی ہیں۔اوقافِ ابراہیم خلیل الرحمن بھی اسی کی ایک کڑی ہے جو آج تک باقی ہیں ۔ یہ اسلام سے پہلے وقف کے وجود پر بہترین دلیل ہے۔اسی طرح کعبہ وہ پہلا مقدس مکان ہے جو عرب اور اسلام سے پہلےسے موجود ہے۔ایسا مکان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے تعمیر ہوا تاکہ لوگوں کی پناہ گاہ رہے،بعد میں عموم ِ عرب کیلیے عبادت گاہ ٹھہرا اور وہ لوگ اپنے قبائلی اختلاف کے باوجود ہر سال کعبہ کی طرف سفر کرتے۔ایک اور مثال وہ سند ہے جو فتحِ شوش کے موقع پر حضرت دانیال پیغمبر علیہ السلام کے بُقعہ میں ملی۔اس سند کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خزانہ ایسا تھا جس سے لوگوں کو بلا سُود قرضے فراہم ہوتے تھے۔خلیفہ کے دستور کے مطابق جو سند میں ذکر ہوا ہے ،خزانہ بیت المال میں منتقل ہوا اور سند میں مذکور دستور کے مطابق اس سے استفادہ ہوتا تھا۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے انواع واقسام کے وقف لوگوں کےلیے موجود تھے البتہ اس فرق کے ساتھ کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں اصل یہ ہے کہ وقف رضاءِ خداوندی  کیلیے ہونا چاہیے جبکہ جاہلیت کے زمانہ میں ایسی نیت و قصد نہیں تھا اسی دلیل کی بناء پر امام شافعی ؒنے جاہلیت کے زمانے میں وقف موجود ہونے کی مطلقاً نفی کی ہے اور ظاہر ہے وہ صرف ایسے وقف کی نفی ہے جس میں قربتِ الٰہی کا قصد کیا گیا ہو۔

ذیل میں اسلام سے پہلے کے چند اوقاف ذکر کیے جاتے ہیں:

قبۃ الہیکل ، یہودیوں کا عبادت خانہ

یہود کے ہاں عاشورہ کا دن جسے کفارے کا دن بھی کہا جاتا ہے رکنے اور کٹنے کا دن ہے ۔ یہ عیدالمظال سے پانچ دن قبل واقع ہوتا ہے یعنی ۱۰ تشری کے دن اور یہی دن یوم الکبور(Kipur)بھی ہے ۔اس دن کا روزہ غروب آفتاب سے لے کر اگلے دن کے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔اس دن کی حرمت ’’سبت‘‘کی حرمت کے مانند ہے ۔ اور اسی دن سب سے بڑا یہودی عالم ( کاہن اعظم ) 'قدس الاقداس ( یہودی عبادت خانہ ’’قُبّۃ الہیکل‘‘کی سب سے زیادہ مقدس جگہ) میں اس دن کے خاص دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے داخل ہوتا ہے۔

یہود کے کنائس:

کنیسہ (انگریزی: shul، یونانی:synagogue) یہودی معبد کو کہتے ہیں ـ عبرانی میں اس کو بیت تفیلہ (عبادت گاہ) یا بیت کنیسیت (جماعت خانہ) بھی کہا جاتا ہےـعموماً ہر شول میں ایک بڑا سا کمرہ ہوتا ہے جس میں جماعت اکٹھی  ہوتی ہے، دو تین چھوٹے کمرے ہوتے ہیں اور اس میں درسِ تورات کے لیے ایک الگ کمرہ ہوتا ہے جس کو بیت مِدراش کہتے ہیں ـ بڑے شولوں میں اکثر مِقواہ بھی موجود ہوتا ہے جو غسل کے لیے ہوتا ہےـ۔

نصارٰی کے کلیساء:

’’کلیسیا‘‘(Christian Church) سے مراد عیسائیوں کا اجتماع یا انجمن ہے۔البتہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی غلطی فہمی کی وجہ سے کبھی کبھی کلیسا لکھا اور بولا جاتا ہے لیکن یہ غلط ہے۔گرجا گھر یا کلیسا، ایک مسیحی عبادت گاہ کے لیے بولا جاتا ہے۔کیتھیڈرل، ایک بڑے گرجا گھر کے لیے بولا جاتا ہے۔کیتھولک کلیسیا ایک کیتھولک مسیحی فرقہ ہے۔ یہ تما م عبادت گاہیں  صرف عبادت اور مقررہ کام کے لئے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔

آتش پرستوں کےعبادت گاہیں :

سورج کی پوجا کرنے والوں نے ا س کا ایک بت بنا رکھا تھا جس کے ہاتھ میں آ گ کے رنگ کا ایک نگینہ تھا۔اس بت کا ایک خاص گھر تھا جو انھوں نے اسی کے نام پر تعمیرکیا ہوا تھا ۔ اس بت کے لیے بہت سی بستیاں اور زرعی زمینیں وقف تھیں۔اس کے بہت سے خدام ،منتظمین اور دربان تھے۔وہ دن میں تین بار اس گھر میں آتے اور سورج کی نماز پڑھتے ۔ وہاں مصیبت زدہ لوگ آتے اور اس بت کے لیے روزہ رکھتے ،نماز پڑھتے ،اسے پکارتے اور اس کی شفاعت کے طالب ہوتے۔یہ سب کے سب سورج کواس وقت سجدہ کرتے جب وہ طلوع ہوتا،غروب ہوتا اورآسمان کے درمیان میں ہوتا۔ اسی لیے ان تینوں اوقات میں شیطان بھی سورج کے ساتھ ہو جاتا ،تاکہ ان کی عبادت اور سجدے اس کے لیے ہو جائیں۔       

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ قبلہ :

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی مذکور ہے۔

مسجد ِ اقصیٰ:

قبلہ اول مسجد اقصیٰ جو دورِ حاضر میں بھی قدیم یعنی قبل الاسلام اوقاف کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بئر ِ زم زم :

آبِ زم زم کا کنواں بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قدموں کا صدقہ ہے اور اسی وقت سے وقف کے احکام کے مطابق اسکو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

قدیم مصری اوقاف:

مصر کی قدیم تہذیب میں بھی عبادت گاہوں اور دیگر سلطنت کے امور کے لئے اوقاف کے قیام کاتذکرہ ملتا ہے۔

قدیم رومی اوقاف:

مصر کی طرح روم میں بھی اہلِ روم نے سوشل ورکنگ کےلئے زمینیں اور عبادت لےلئے عبادت گاہیں قائم کر رکھی تھیں۔

مندروں کے اوقاف:

جیسا کہ آج بھی ہندومذہب میں مندر کے نام پر کئی چیزیں  نذر کی جاتی ہیں ، مثلاً جانور، زمینیں اور غلہ جات وغیرہ ۔

آنحضرت ﷺ کے تعمیر کردہ مساجد :

اسلام کے آغاز میں حضوراکرم ﷺ نے مختلف مساجد ، مدارس اور مکاتب قائم فرمائے اور آپ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اوقاف قائم کیے ۔

 بنی اُمیّہ کے زمانے میں وقف:

اسلام کے ظہور کے بعد اسلام جس قدر پھیل رہا تھا،اسلام کی ثقافت اور تمدن میں بھی اُسی قدر وسعت اور رونق آتی جارہی تھی،وقف جو کہ مسلمانوں کی ثقافت کے منجملہ امور میں سے تھا،ان تبدیلیوں کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ 

شروع میں حکومتیں امورِ وقف چلانے میں مداخلت نہیں کرتی تھیں اور وقف شدہ اشیاء کا انتظام وقف کرنے والوں یا ان کی طرف سے منصوب ہونے والے افراد کے ذریعے چلتا تھا لیکن آہستہ آہستہ موقوفات کے بڑہنے اور اسلامی معاشروں کی اجتماعی زندگی میں تبدیلیوں نے حکومتوں کی دخالت اور اوقاف کے انتظامی اداروں کا قیام لازمی کردیا۔    

بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں تو بن عزبن حومل حضرمی مصر کا قاضی ہوا،ایک دن اُس نے اعلان کیا کہ مصر کے صدقات فقیر و غریب لوگوں کیلیے ہیں اور مجھے مصلحت اسی میں نظر آرہی ہے کہ موقوفات کے امور میں مداخلت کروں تاکہ تملک یا وراثت کے راستے یہ موقوفات ختم نہ ہوجائیں،تو بہ بن نمر کے دنیا سے جانے سے پہلے قاضیِ شہر کی نظامت میں اوقاف کا انتظام چلانے کے لیے ایک مستقل ادارہ بن گیا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے خصوصی طور پر اوقاف کے ثبت کرنے کا حکم جاری کیا۔       

خلافتِ عباسیہ کے زمانے میں وقف:

عباسیوں نے ۱۳۲سے لے کر۶۵۶ھ۔ق تک یعنی تقریباً پانچ سو سال حکومت کی۔یہ ایسا دَور تھا کہ ان کی وسیع اسلامی قلمرو پر حکومت کے دوران اسلامی تہذیب و تمدن نے بہت رواج پایا تھا اور وقف بھی وسعت پاتا گیا۔

جس طرح تاریخی کتابوں اور سفرناموں میں ذکر ہوا ہے کہ اُس زمانے میں اسلامی ممالک میں اکثر شہروں اور دیہاتوں میں موقوفات موجود تھے کہ جن میں بغداد کے اوقاف ،اسی طرح دمشق،مصر اور ایران کے اوقاف زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ڈاکٹر الکبیسی کتاب’’شریعتِ اسلامی میں وقف کے احکام‘‘کے مصنف ،لکھتے ہیں:عباسیوں کے زمانے میں ادارۂ موقوفات ایسے شخص کے اختیار میں تھا جسے صدر الوقوف کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

خلافتِ عثمانیہ کے زمانے میں وقف:

جب غرب کے اکثر ممالک میں آلِ عثمان نے قدرت اپنے ہاتھوں میں لی تو وقف کے باب میں وسیع تشکیلات ایجاد کیں ۔ان کے زمانے میں بہت زیادہ قواعد و ضوابط منظور ہوئے کہ ان میں سے بہت زیادہ قوانین پر ابھی تک اسلامی ممالک میں عمل ہورہا ہے مثال کے طور پر عثمانی عہدمیں صادر ہونے والے قوانین میں’’ادارہ اوقاف کا آئین نامہ‘‘ہے جو ۱۹ جمادی الثانی ۱۲۸۰ھ۔ق میں منظور ہُوا اور اس میں اوقاف کے منتظمین و متولی حضرات کے اختیارات و وظائف بیان ہوئے ہیں۔ایک آئین نامہ۱۹ جمادی الثانی۱۲۸۷ھ۔ق میں سامنے آیا(نشر ہوا ) جس میں عثمانی حکومت میں زمینوں کی اقسام،موقوفات کے معاملات اور وقفی مستغلات بیان ہوئے تھے۔ایک اور قانون بھی رمضان المبارک ۱۲۷۴میں نشر ہوا اور اسی طرح دورِ حاضر تک جاری ہے کہ ان تقسیماتِ اراضی میں سے زیادہ تر تقسیمات پر ابھی بھی عمل ہورہا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر دور اور ہر زمانے میں مذہبی ،ملی، معاشی اور سیاسی سرگرمیوں کے لئے اوقاف قائم کیے جاتے رہے ہیں ۔اور انہیں اوقاف کی بدولت ان کے نظام اپنے اوقات میں کامیاب نظام تھے۔ آئندہ مضامین میں یہ کوشش کی جائے گی کہ ترتیب وار ہمارے مسائل کی نشاندہی کی جائے اور وقف نظام کے تحت ان کا ممکنہ حل بھی پیش کیا جائے۔ (وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم)


مآخذ ومراجع

(۱) تاريخ الوقف عند المسلمين، أحمد بن صالح العبد السلام،

(۲) محمد عبيد الکبيسي، أحکام الوقف في الشرعیۃ الاسلامیۃ، 1977،

(۳) مقدمہ ابن خلدون

(۴) أحکام الأوقاف للخصاف  الطبعۃ الأولیٰ

(۵) تاريخ الأوقاف في مصر في عصر سلاطين المماليک (1250 -1517م)، جامعۃ القاھرہ، کليۃ الآداب، 1972

(۶) تاريخ العمارۃ والفنون الاسلاميۃ، الطبعۃ الثانيۃ 1970

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن

آپ بھی لکھئے

اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

یہاں سے ارسال کیجئے

ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024