اے سمندر!!
اے سمندر!!!
جب بھی گرمی شدت اختیار کر تی ہے اور گرم ہواؤں کے تھپیڑے جسم کو لہولہان کرتے ہیں تو تم اس دنیا کو نئے موسم کا تحفہ دیتے ہو، ایک نئی بہار کی آمد کی نوید سناتے ہو، گھنے باغات کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں تمہاری طرف پرواز کرتی ہیں۔ تمہارا نیلا رنگ دلوں میں رنگینی پیدا کرتا ہے. تمہارے ساحل پر حساس دل، جذبات و احساسات کے سمندر میں تیراکی کر رہا ہوتا ہے. اور شاعر و لکھاری اپنی ہی دنیا میں کھو جاتا ہے جہاں اس کی آنکھ وہ مشاہدہ کرتی ہے جو عام انسان نہیں کرپاتا۔
اے سمندر!! تم صنف نازک کے مانند ہو. جیسے ایک عورت میں ہزار جذبات و معانی پوشیدوہ ہوتے ہیں اسی طرح تم نے بھی ہزاروں ہیرے وجوہرات اندوختہ کیے ہوۓ ہیں لیکن ساحل پر وہی آتے جو دکھانا چاہتے ہو۔
اے سمندر!! عاشقوں کا ٹولہ سرشام تمہارے ساحل پر لنگر انداز ہوجاتا ہے اور اپنے محبوب کی یاد میں ڈوب جاتا ہے۔ تمہاری لہروں کے شور سے, انھیں محبوب کی سریلی آواز یاد آتی ہے. تمہارے اس بہتے پانی سے، محبوب کی جھیل سی آنکھیں یاد آتی ہے. تمہارے ان موجوں کے ٹکراؤ سے، وصل یار میں پیدا ہونے والے جذبات کا ٹکراؤ یاد آتا ہے اور تماری ان لہروں کے زور شور سے، تپ عشق میں مبتلا، بے تابی کی حالت میں دوڑتے ہوۓ آکر قدم بوسی کر کے پھر پلٹ جانے سے محبوب کا اقدام محبت و خفگان یار پر روٹنے کی صورت مترشح ہوتی ہے.
اے سمندر!! تمہارے اس نیلگوں دنیا میں سورج کی کرنیں تمہارے وجود کو اور حسین بنا دیتی ہے. جیسا کے احساس سے عاری جسد میں، محبت بھرا دل ، جسم کی حرارت و فعالیت کو بر قرار رکھے ہوۓ ہوتا ہے.
اے سمندر!! تمہارے اطراف میں سورج کا نیا روپ یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان کا شعور ہی کسی چیز کو جدید یا قدیم بناتا ہے.
اے سمندر!! تمہارے ساتھ سے چاند کی خوبصورتی اور ناز و نخروں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اور انداز ارسال عکس میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے گویا کہ چاند نے تمہارے اس ٹھاٹھیں مارتے پانی میں ڈبکی لگائی ہو اور پھر پورے آب و تاب کے ساتھ تمہارے عین اوپر نمودار ہوا اور اپنی دھیمی دھیمی شعاؤں سے تمہارے وجود کی لہروں میں کشش پیدا کر رہا ہو اور لہریں چاند کی تپش محبت میں کبھی دھیرے دھیرے اور کبھی تیز تیز انداز میں جانب ساحل رواں دواں ہو.
اے سمندر!! چاند کی کرن اور تمہارا یہ رشتہ انسانی رشتوں کی عکاسی کرتا ہے جہاں کبھی تندوتیزی دکھائی دیتی ہے اور کبھی دھیمی سی لو پر امید کے دیے روشن رہتے ہیں.
اے سمندر!! جب کبھی انسان کو اپنے آپ سے، افکار سے، محبت کے خمار سے، تھکن کے غبار سے، دلوں کے شور سے، کسی انفعالی جذبے کے زور سے دور بھاگنا ہوتا ہے تو تو تیرا دیدار اسے مسائل کے حصار، دل کے گردوغبار، اور آنکھوں کے خمار سے چند لمحوں کے لیے کہیں دور کسی خوبصورت سی وادی میں، بہتے چشموں کے سنگ لے جاتا ہے جہاں پانی کی بہتی ہوئی آوازیں، قطب شمالی سے آتی ہوئی اپنی ہی ترنم میں سوں سوں کرتی ہوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، کچھ احساسات کو جگاتے ہوۓ،کچھ دیوں کو بجھاتے ہوۓ، دل کی دھڑکنوں کو بڑھاتے ہوۓ، نئے آرزؤں کو جگاتے ہوۓ بچھڑے ہوؤں کی یاد دلاتے ہوۓ، دل میں نئے امنگ جگاتے ہوۓ، ناامیدی کے شکار انسان کو امید کا دامن تھامنے میں مدد فراہم کرتی ہے.
اے سمندر!!! تیرے دیدار سے دل نے لی انگڑائی... آنکھوں میں پھر سے جینے کی امنگ بھر آئی.