سید البطحاء حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد سمیت اسلام کی ترویج میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ اسلام ہی سے محبت تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس دین کی خاطر غزوہ طائف اور پھر جنگ یرموک میں اپنی دونوں آنکھیں گنوادیں۔اسلام آپ رضی اللہ عنہ میں اور آپﷺ کی اولاد میں کس قدر رچ بس گیا تھا ؟اس کا اندازہ کرنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کافی ہیں۔ جنہوں نے آدھی دنیا پر اسلام کا ڈنکا بجادیا تھا اور اسلامی سرحدوں کے اندر خانہ جنگی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔افسوس کہ بہت سے لوگ آپ رضی اللہ عنہکی سیرت سے واقف نہیں۔اس لئے بندہ یہاں مختصر آپ رضی اللہ عنہ کا تعارف کرانے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا پورا نام: صخر بن حرب بن امی بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن لاب بن مرہ بن کعب بن لوی، ابو سفیان القرشی الاموی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تو ابو سفیان رضی اللہ عنہہے مگر ایک غیر معروف کنیت ابو حنظلہ بھی ہے۔غسیل ملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے بیٹے تھے۔(اسد الغابہ جلد ۲/۲۹۳)
عام الفیل سے دس سال قبل آپ رضی اللہ عنہکی ولادت ہوئی۔یوں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دس برس بڑے تھے۔فتح مکہ کے دن اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین و طائف میں شریک ہوئے۔غزوہ حنین کے دن آپ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ نے مال غنیمت میں سے سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی دی اور اتنا ہی آپ رضی اللہ عنہ کے دونوں نامور بیٹوں حضرت یزیدرضی اللہ عنہ اور معاویہرضی اللہ عنہ کو بھی دیا،آپ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ نے اپنی زندگی ہی میں نجران کا والی بنادیا تھا۔(اسد الغابہ: ۲/۲۹۳، الاستیعاب: ص۵۱۲)
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کاشمار سردارانِ قریش میں اور وہاں کے بڑے تاجروں میں ہوتاتھا ۔شام میں مال تجارت فروخت کرتے۔زمانہ جاہلیت میں جن تین افراد کی رائے کو سب پر ترجیح دی جاتی تھی ان میں ایک آپ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔(اسد الغابہ:۵/۸۴۱)علامہ ابو نعیم رحمہ اللہ جب حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہیں تو بے ساختہ فرماتے ہیں:سَیِّدُ الْبَطْحَاءِ وَأَبُو الْأُمَرَاءِ ( سردارِ بطحاء وصاحب امراء)(معرفة الصحابہ:۹۰۵۱)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف بخشا کہ فتح مکہ کے دن آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کے متعلق یہ اعلان کیا کہ جو ان کے گھر میں داخل ہوگیا اس نے امن پالیا۔اس کی وجہ یہ لکھی گئی ہے کہ جب آپ مکہ میں ہوتے توان کے گھر قیام کرتے۔(المنتظم فی تاریخ الامم:۵/۸۲)غزوہ طائف میں آپ رضی اللہ عنہ کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کون سی آنکھ تمہیں پسند ہے جنت کی یا یہ والی؟ تاکہ میں اللہ سے دعاء مانگو اور تمہاری آنکھ ٹھیک ہوجائے؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس کے بدلے جنت کی آنکھ چاہیے۔(سمط النجوم العوالی:۲/۶۴۲،مختصر تاریخ دمشق: ۳/۸۸۴ ، تہذیب الکمال:۳۱/۰۲۱)
اللہ اکبر! آخرت پر کتنا پختہ ایمان و یقین تھا؟ اسی ایک واقعہ سے اندازہ لگالیں۔زمانہ جاہلیت میں بھی جھوٹ اور غلط بیانی سے پرہیز کرتے۔ چنانچہ ہرقل بادشاہ کا قصہ جوکہ مشہور ہے اور ابن ماجہ کے علاوہ تمام صحاح ستہ کی کتب میں منقول ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرقل کے سوالات پر بالکل سچ سچ کہا اور کسی قسم کی غلط بیانی نہیں کی۔زمانہ جاہلیت میں بھی اخلاق،وقار،اور روایات کے امین تھے۔چنانچہ ایک دفعہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہندہ ?اور بیٹے حضرت امیر معاویہ ? کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ سامنے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے اپنے بیٹے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سواری سے نیچے اترنے کا حکم دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار ہونے کا کہا، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوا ر ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام کی دعوت دی جسے آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے سنتے رہے۔(مختصر تاریخ دمشق:۳/۹۸۴)ایمان داری کا حال یہ تھا کہ تمام مکہ والے اپنا مال آپ کو تجارت کے لئے دیتے تھے۔حتیٰ کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اپنا مال تجارت کی غرض سے دیا۔ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب میرے والدفوت ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضٰ اللہ عنہ نے بیت المال میں ایک ہزار دینا کی تھیلی دیکھی ،جس پر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے لئے مہر تھی۔آپ رضی اللہ عنہنے ان کو پیغام بھیجا کہ بیت المال میں آپ رضی اللہ عنہ کا مال پڑا ہوا ہے آکر لے جائیں۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر اس مال میں میرا کوئی حق ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کبھی مجھے اس سے محروم نہ کرتے اور اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم نہیں لی۔(مختصر تاریخ دمشق:۳/۶۹۴)ان ہی خصائل ستودہ و صفات محمودہ کی وجہ سے آپ کو بھی آپ رضی اللہ عنہ پر بے پناہ اعتماد تھا۔چنانچہ جب غزوہ حنین میں چھ ہزار قیدی ہاتھ لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زیر حراست رکھنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ ہی کا انتخاب فرمایا۔(مختصر تاریخ دمشق،مصنف عبد الرزاق)اسی طرح قدید کے مقام پر مناة بت کو گرانے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ ہی کو بھیجا۔(تہذیب التہذیب:۴/۲۱۴)علامہ ذہبی فرماتے ہیں:” کَانَ عُمَرُ یَحْتَرِمُہ وَ ذٰلِکَ لِأَنَّہ کَانَ کَبِیْرَ بَنِیْ أُمَیَّةَ “(یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کا بے پناہ احترام کرتے کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کا شماربنوامیہ کے بزرگوں میں ہوتاتھا)(سیر اعلام النبلا،ج۳،ص۷۰۴)جنگ یرموک میں آپ رضی اللہ عنہ ”قاص“ کے عہدے پر فائز ہوئے۔یہ عہدہ اس خطیب اور واعظ کو دیا جاتا جو پورے لشکر کے جذبہ جہاد و حریت کو اپنے خطیبانہ جوش و ولولے سے گرماتاتھا۔چنانچہ جنگ یرموک میں آپ رضی اللہ عنہکے ولولہ انگیز خطابات تاریخ میں بکھرے پڑے ہیں چند جملے نقل کررہا ہوں:
”یہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جنت تمہارے سامنے ہے۔اور شیطان تمہارے پیچھے ہے۔اے عرب والو!اللہ سے خوف کرو۔تم اسلام کے امدادی ہو اور روم والے شرک و نصرانیت کے امدادی ہیں۔اے اللہ تیرے ایام میں سے بڑا اہم یوم ہے۔اپنے بندوں پر اپنی خاص رحمت نازل فرما!“اور عورتوں کو برانگیختہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جس مرد کو فوج میں سے بھاگتے دیکھو تو ڈنڈو ں اور پتھروں سے اس کی خاطر مدارت کرو یہاں تک کہ فوج میں وآپس لوٹ جائے“۔(البدایہ،مختصر تاریخ دمشق وغیرہما)
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے صحاح ستہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث ہرقل نقل کی ہے۔جب کہ ابو نعیم رحمہ اللہ ایک اور روایت بھی نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کھانے اور خون پینے سے منع فرمایا۔
حَدَّثَنَا حَبِیْبُ بْنُ الْحَسَنِ ثنا مُوسیٰ بْنُ ھَارُونَ، ثنا أَبُو أَیُّوْبَ ثنا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ بَشِیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّھْرِيِّ عَنْ عُبَیْدِِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيْ سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ قَالَ: '' نَھیٰ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَیْتَةِ وَالدَّمِ “
(یعنی حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار اور خون کے کھانے سے منع فرمایا ہے)(معرفة الصحابہ:ص۱۱۵۱)
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں۔اور یوں آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہوئے۔اور اپنے سسرالی رشتہ داروں اور صحابہ رضی اللہ عنہکے متعلق آپ کا فرمان ہے:
ْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَوْا لِیْ أَصْحَابِیْ وَ أَصْھَارِیْ فَمَنْ سَبَّھُمْ فَعَلَیْہِ لَعْنَةُ اللّٰہِ وَالْمَلائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ “( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری خاطر میرے صحابہرضی اللہ عنہ اور میرے سسرالیوں کو کچھ نہ کہو جوان کو برا بھلا کہتا ہے تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی، اور تمام مخلوق کی لعنت ہے)(الشریعة للآجری:۳/۰۲۵،۱۲۵،رقم ۳۱۰۲)
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا
سَأَلْتُ رَبِّیْ أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ اِلیٰ أَحَدٍ مِّنْ أُمَّتِیْ وَلَا أزَوج أَحَد مِنْ أُمَّتِیْ اِلَّا کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّةِ فَأَعْطَانِیْ ذٰلَکَ “(یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ جس مسلمان گھرانے میں میں اپنا نکاح کروں یا جس مسلمان گھرانے میں اپنی کسی بیٹی کا نکاح کردوں وہ لوگ جنت میں میرے ساتھی ہوں گے۔ اللہ نے میرے اس خواہش کو قبول فرمالیا۔ (بغیة الباحث عن زوائد مسند الحارث :للامام نور الدین علی بن سلیمان ابی بکر الہیثمی الشافعی :2/ 919 رقم 1008،کنز العمال:12/94، رقم 24147،مجمع الزوائد:9/737،رقم 16388 ،فیض القدیر للمناوی :9 / 20، الجامع الصغیر للسیوطی:2/149 حرف السین،دارالکتب العلمیة، المعجم الاوسط:6/50رقم 5762،دارالحرمین،القاہرةالمطالب العالیہ لابن حجر العسقلانی:11/248،رقم 3987، دارالعاصمة،الریاض)
اسی طرح حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی اس آیت میں محبت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے سسرالی رشتہ مراد ہے۔
عَسَی اللہُ أنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّةً “ قال: مصاھرة النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلی أبي سفیان بن حرب “اسی طرح آپ کی نواسی حضرت لیلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت امیر المومنین امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔راقم نے بفضلہ تعالیٰ ان کے فضائل میں چالیس احادیث کا مجموعہ ”الاربعین فی مناقب امیر المومنین“ جمع کیا ہے جو شائع ہوچکا ہے۔یہ فضائل نہ بھی ہوتے تو بھی آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام یہ ہیں:(۱) حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہ(۲) امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان
رضی اللہ عنہما (۳)حضرت ابو خالدیزید بن سفیان رضی اللہ عنہما ۔ آپ رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں طاعون عمواس میں فوت ہوئے۔(۴)والی مصرحضرت عتبہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما (۵) حضرت عمر و بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما (۶) حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما(۷)غسیل ملائکہ حضرت حنظلہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما(۸) حضرت جویریہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما(۹) حضرت حمنة بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما(۱۰) حضرت درة بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما (۱۱) حضرت عزة بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما(۲۱) حضرت ام الحکم بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما۔
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سن ۱۳ ہجری میں اور ایک قول کے مطابق سن ۲۳ ہجری میں ۸۸ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔بعض نے ۴۳ ہجری بھی لکھا اور عمر ۴۹ سال بتائی۔آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کو دفنایاگیا۔(مختصر تاریخ دمشق،اسد الغابہ:۲/۳۹۳)
تحریر :
مولانا ساجد خان نقش بندی
ناظم شعبہٴ نشر و اشاعت جمعیة اہل السنة والجماعة
نگران و نائب مدیر دوماہی ترجمانِ احناف پشاور
مدرس جامعہ دار العلوم مدنیہ کراچی