باہمی اختلاف اور ملت کی ذمہ داری
اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو ایک جیتا جاگتا ، ہنستا ،بولتا اور چلتا پھرتا وجود عطا کیا ہے ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے ، غور و فکر کا ملکہ ودیعت فرمایا ہے اور ارادہ و اختیار کی قوت سے اسے نوازا گیا ہے ، اس لئے کسی بھی انسانی سماج سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ اس میں اختلاف پیدا ہی نہ ہو اور وہ پتھر کی مورت کی طرح خاموش اور بے زبان رہے ، کیوںکہ اﷲ تعالیٰ نے سوچنے کے انداز میں فرق رکھا ہے ، ذوق و نظر کا اختلاف بھی پایا جاتا ہے اور مفادات میں ٹکراؤ بھی ، پس کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف کا وقوع پذیر ہونا فطری بات ہے اور اس سے کوئی مفر نہیں ، اگر یہ اختلاف خلوص اور نیک نیتی پر مبنی نہ ہو بلکہ ضد اور خود غرضی کی وجہ سے ہو ، تو یہ مہذب اور شائستہ اختلافِ رائے کی حدوں سے گذر کر باہمی جنگ و جدال ، تہمت اندازیوں اور الزام تراشیوں کا باعث بن جاتا ہے ، معاشرہ میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور پیش آتے رہیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ ایسی نزاع اور اختلاف کا حل کیا ہے ؟ قرآن مجید اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے ، جو زندگی کے ہر گوشہ میں انسان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے ، اس نے یقینا اس سلسلہ میں بھی رہنمائی کی ہے ، کسی بھی نزاع سے بنیادی طورپر تین طبقے متعلق ہوتے ہیں ، دو فریق تو وہ جو باہم ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوں ، اور تیسرا وہ سماج اور معاشرہ جس میں اس طرح کی نزاع پیش آتی ہو ، قرآن حکیم کی نگاہ میں فریقین کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں دونوں ایک دوسرے سے قریب آنے کو تیار نہ ہوں اور وہ اپنے طوپر اس فاصلہ کوسمیٹنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں تو کسی ایک متفق علیہ شخصیت کو فیصل بنالیں ، یا دونوں فریق اپنی صف سے کسی مخلص ، دین دار ، سمجھ دار اور معاملہ فہم آدمی کا انتخاب کریں اور ان کو اپنا ’’ حَکم ‘‘ مان لیں ، ان دونوں حکم کا فریضہ ہے کہ وہ ان دونوں فریق کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور سعی کریں ، قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر حَکم طرف دار بنے بغیر نیک نیتی اور صدق دلی کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے ، تو اﷲ تعالیٰ ضرور ان کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں گے ، ’’ ان یریدا اصلاحا یوفق اﷲ بینہما ‘‘ ( النساء : ۳۵) ، صلح اور باہمی اختلاف کو دور کرنے کایہ نہایت بہترین طریقہ ہے ؛ بلکہ یہ اختلافات سے باہر آنے کا باعزت راستہ بھی ہے ؛ اس لئے کہ اس میں نہ کسی فریق کی فتح ہے اور نہ کسی فریق کی شکست ، اس سے سماج میں بھی انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی جو دولت حاصل ہوتی ہے ، وہ ان سب سے بڑھ کر ہے ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو حقیر نہ سمجھے ، اس کے اندر حقائق کو قبول کرنے کی جرأت ہو اور اس کی نگاہ نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔
تیسرا طبقہ جو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتا ، وہ ہمارا سماج ہے ، یہ سمجھنا کہ یہ فلاں اور فلاں شخص کا اختلاف ہے ، ہمیں اس میں پڑنے کی کیا ضرورت ؟ —- صحیح فکر اور مثبت سوچ نہیں ، مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ جب وہ دو افراد کے درمیان آویزش اوراختلاف محسوس کریں تو ان میں صلح کرانے اور شکستہ دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرادیا کرو ’’إنما المؤمنون إخوۃ فأصلحوا بین اخویکم واتقوا اﷲ لعلکم ترحمون ‘‘ ( الحجرات : ۱۰ ) ، یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے ، افسوس کہ مسلمانوں کواس کی اہمیت اور سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس ۔
حضرت ابودرداء ص سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو روزہ ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ انے فرمایا : وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ، اصلاحِ ذات البین ، آپ ا نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آپس میں تعلقات کا بگاڑ مونڈ دینے والی چیز ہے ( الادب المفرد ، حدیث نمبر : ۳۹۱) ، ’’ مونڈ دینے والی چیز ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ چیز صفایا کردینے اور تباہ و برباد کردینے والی ہے ، خود رسول اﷲ ا کو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے اور ان کے باہمی اختلافات کو رفع کرنے کا کس قدر پاس و لحاظ تھا ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ باوجود یکہ نماز میں جماعت کا آپ ا کو حد درجہ اہتمام تھا ، عین میدانِ جنگ میں بھی غیر معمولی حالات کے بغیر آپ اکی جماعت نہیں چھوٹتی تھی اور مرضِ وفات میںبھی آپ انے جماعت میں شرکت کا اہتمام فرمایا ، جب خود چلنے کی طاقت باقی نہیں رہی ، تب بھی رفقاء کی مدد سے شریک جماعت ہونے کی کوشش فرمائی ، لیکن اس کے باوجود قبیلۂ بنی عمرو بن عوف میں ایک جھگڑا رفع کرنے اور مصالحت کرانے کے لئے آپ ا اپنے رفقاء کے ساتھ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور اس فریضۂ مصالحت میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت بلال صنے حضرت ابوبکر ص کو امامت کے لئے آگے بڑھا دیا ، نماز شروع ہونے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے ( بخاری شریف : ۲۶۹) ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ اکی نگاہ میں مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی کیا اہمیت تھی ۔
مدینہ منورہ میںانصار کے دو مشہور خاندان اوس اور خزرج آباد تھے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہ ہمیشہ باہم دست و گریباں رہتے تھے ، اسلام ان کے لئے ابرِ رحمت بن کر آیا ، صدیوں سے عداوت کی جو آگ بجھائے نہ بجھتی تھی ، وہ لمحوں میں سرد ہوکر رہ گئی اور دونوں قبیلے اُخوتِ اسلامی کے رشتہ سے شیر و شکر ہوکر رہنے لگے ، یہودیوں کو ان قبائل کا اتحاد اور آپسی محبت ایک آنکھ نہ بھاتا تھا ، ایک بار ایک سن رسیدہ یہودی اوس و خزرج کے لوگوں کے پاس سے گذرا اور ان کی باہمی محبت کو دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوا ؛ چنانچہ اس نے اوس و خزرج کی لڑائی کے پرانے قصے چھیڑ دیئے اور اس زمانے میں دونوں قبیلے کے شعراء نے ایک دوسرے کے خلاف جو اشعار کہے تھے ، ان کا بھی ذکر نکالا، نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں خاندانوں کے نوجوان اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی جاہلی حمیت لوٹ آئی ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی ، بہت تیز تیز تشریف لائے ، لوگوں کو شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے باخبر کیا ، اسی موقع سے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیتیں نازل ہوئیں :
اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو ، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہئے ، سب مل کر اﷲ کی رسی کو تھام لو ، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اﷲ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے ، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے ، نیز تم دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے ، تو اﷲ تعالیٰ نے تم کو اس سے نکالا ، اﷲ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتے رہتے ہیں ، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو ۔( آلِ عمران : ۱۰۲-۱۰۳)
زبانِ مبارک سے ان آیتوں کا سننا تھا کہ دلوں کی کایا پلٹ گئی ، لوگوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر خوب روئے ۔ ( طبرانی : ۴؍۲۰)
غرض ، کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف و نزاع کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے ، جس سے بچنا ممکن نہیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ جہاں آگ لگے ، وہاں پانی ڈالنے والے لوگ بھی موجود ہوں ، جہاں سیلاب آتا ہے تو وہاں ہر شخص پانی کی ظالم موجوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتا ہے ، ورنہ آگ پوری بستی کو اپنا لقمہ بنالے گی اور سیلاب پوری آبادی کو غرقاب کرکے رہے گا ، اس لئے مسلمانوں میں جو ’’ اربابِ حل و عقد ‘‘ ہوں ، — یعنی ذمہ دار ، سمجھ دار ، بااثر ، اہل علم و دانش ، علماء و مشائخ ، مذہبی اور سماجی قائدین — ان کی نیز ملی تنظیموں اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں اُبھرتے ہوئے اختلاف کی بروقت تشخیص کریں ، اس کے اسباب و عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے تدارک کی طرف متوجہ ہوں ، ورنہ یقینا عنداﷲ وہ اس سلسلہ میں جوابدہ ہوں گے ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ کم از کم ہندوستان میں مسلمانوں کے جتنے تعلیمی و اصلاحی اور دعوتی ادارے ہیں یا مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اور اصلاحی تحریکیں ہیں ، وہ سب اکثر اختلاف و انتشار سے دو چار ہیں ، یہ جماعتیں اور تنظیمیں دو لخت بلکہ سہ لخت ہوچکی ہیں ، ایک تنظیم کے دو ٹکڑے اور پھر ان ٹکڑوں کی کئی ٹکڑیاں ، یہ اختلاف و انتشار اور صلاحیتوں کا بٹوارہ بحیثیت مجموعی ملت کی طاقت کو کمزور اور بے اثر کردیتا ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ہر سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی اور زبوں حالی کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کررہے ہیں ۔