شریعت پرنشانہ اور ملاؤں کابہانہ

جب سے سپریم کورٹ میں تین طلاق سے متعلق کچھ نام نہادمسلم خواتین نےدعویٰ دائر کیاہے اورموجودہ حکومت نے اپنی مسلم دشمنی کے ایجنڈے کوآگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں کے موقف کے خلاف کورٹ میں بیان تحریری داخل کیاہے،تب سےپرنٹ میڈیا،الکٹرانک نیشنل میڈیا اورسوشل میڈیاپرایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ قرآنی طریقۂ طلاق کواپناناچاہئے،ملاؤں کے بتلائے ہوئے طریقۂ طلاق کومسترد کردینا چاہئے،یہ دراصل عناداورمخالفت کاایک طریقہ ہے کہ اگربراہ راست اسلام اورمسلمانوں کوبرابھلاکہاجائے تومسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے؛اس لئے جولوگ اسلام کے سچے ترجمان اوراس کی فکرکے محافظ ہیں،ان کوبرابھلاکہاجائے؛اسی لئے مولویوں،ملاؤں اورمدرسہ والوں کوکوساجاتاہے،ان کے بارے میں تحقیرآمیز باتیں کہی جاتی ہیں،اوریہ تصویرپیش کی جاتی ہے کہ گویااسلام ایک اچھا مذہب ہے،اورقرآن توایک بہترکتاب ہے؛لیکن سارافساد مولویوں اورملاؤں نے پیداکیاہے۔
قرآنی طریقۂ طلاق کے بارے میں عام طورپرتین باتیں کہی جاتی ہیں:
(۱) طلاق ارادہ شوہرکی طرف سےحَکَم کے سامنے رکھاجائے،جومسئلہ کوسلجھانےکی کوشش کرے،پھر اگروہ مسئلہ کوسلجھانہ سکے تب طلاق دی جائے،اس کے بغیرجوطلاق دی جائے،وہ معتبرنہیں ہے۔
(۲) طلاق صرف ایک یادوباردی جائے،اگرتین بارطلاق دے دی تویہ واقع نہیں ہوگی؛کیوں کہ یہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے خلاف ہے۔
(۳) حلالہ کامسئلہ مولویوں کاگھڑاہواہے،قرآن مجیدنے ایسا کوئی حکم نہیں دیاہے۔
اب ان تین نکات پرغورکرنے کے لئےسب سے پہلے ہمیں ان آیات کودیکھناچاہئے،جن میں طلاق کاذکرہے——قرآن مجیدکی کل نوآیتوں میں طلاق کاذکرآیاہے،جن میں ایک سورہ طلاق میں ہے،ایک سورہ تحریم میں، اوربقیہ سورہ ٔبقرہ میں،سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۲۲۸؍تا۲۳۱ میں ایک،دواورتین طلاق پرکیااثرات مرتب ہوں گے،اس کاذکرفرمایاگیاہے،(آگے اس کی تفصیل آرہی ہے)سورۂ بقرہ کی آیت نمبر: ۲۳۷؍میں مطلقہ عورت کے مہرکے مسائل کا،اور آیت نمبر۲۴۱؍ میں مطلقہ کے لئےمتاع کاذکرہے،اسی سورہ کی آیت نمبر۲۳۲؍ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مطلقہ عورت خود اپنانکاح کرنے کی مجاز ہے،اوراگروہ سابق شوہرسے نکاح کرناچاہے تواس کوروکانہیں جاسکتا،سورہ تحریم کی آیت کاتعلق خاص طورپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی سے ہے اورسورہ ٔ طلاق کی آیت نمبر:۱؍میں بنیادی طورپردوباتوں کاحکم دیاگیاہے:ایک یہ کہ جب کوئی شوہراپنی بیوی کوطلاق دے توعدت کالحاظ رکھتے ہوئے دے،دوسرے:عدت کے دوران مطلقہ کورہائش کی سہولت فراہم کرے،غورکیاجائے توجن آیات کاذکرکیاگیاہے،ان سب میں زیادہ ترطلاق پرمرتب ہونے والے احکام ذکرکئے گئے ہیں،طلاق دینے کاطریقہ نہیں بتلایاگیاہے،صرف سورۂ طلاق کی آیت نمبر:۱؍میں طریقۂ طلاق کےایک نکتہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ طلاق دیتے ہوئے عدت کالحاظ رکھناچاہئے،یعنی اس طرح طلاق نہ دینی چاہئے کہ عدت طویل ہوجائے،اس کی صورت یہ ہے کہ ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے ،جس میں بیوی کے ساتھ قربت نہیں ہوئی ہو؛کیوں کہ اگرحیض کی حالت میں طلاق دے تواس حیض اور اس کے بعد کےطُہر(پاکی)کے بعد مزیدتین حیض عدت کے طورپرگزارنے ہوں گے،اوراگربیوی سے صحبت کے بعد طلاق دے اورکہیں حمل ٹھہرگیا،توعدت دراز ترہوجائے گی،بس یہی ایک آیت ہے،جس میں طریقۂ طلاق پرگفتگوفرمائی گئی ہے،بقیہ جتنی آیتیں ہیں،ان میں طلاق کے اثرات پرتوروشنی ڈالی گئی ہے؛لیکن طریقۂ طلاق پرکوئی واضح حکم نہیں دیاگیاہے،اس کے باوجود قرآنی طریقۂ طلاق اورغیرقرآنی طریقۂ طلاق کی تقسیم اورایک کوقرآن کابتایاہواطریقہ کہنااورایک کوملاؤں کابتایاہواطریقۂ طلاق کہنا کہاں کاانصاف ہے؟
طریقۂ طلاق کےسلسلہ میں پہلی بات یہ کہی جاتی ہےکہ قرآن مجیدنے طلاق سے پہلے حَکَم کے سامنےمعاملہ پیش کرنے کوضروری قراردیاہے،اورمولویوں نے اس طریقۂ کارکوختم کردیاہے،جن آیات سے اس بات پراستدلال کیاجاتاہے،وہ یہ ہیں:
’’مردعورتوں پرنگراں ہیں؛اس لیے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں،پس نیک 
عورتیں فرماں بردارہوتی ہیں،اورشوہرکی عدم موجودگی میں جیسا کہ اللہ نے محفوظ رکھا
ہے،اپنی(عزت وآبرواورمال) کی حفاظت کرتی ہیں،اورجن عورتوں کی نافرمانی کا
تمہیں اندیشہ ہو،ان کونصیحت کرو، ان سے بسترالگ کرلو، اوران کی سرزنش کرو،اگر
وہ فرمانبرداری کریں توان پر(زیادتی کا) راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ بلندی اور
بڑائی والے ہیں، اوراگرتم کومیاں بیوی کے درمیان اختلاف کااندیشہ ہوتو ایک حَکَم
مردکے خاندان سے اورایک حَکَم عورت کےخاندان سے مقررکرو ، اگریہ دونوں صلح
کراناچاہیں گے تواللہ ان کے درمیان جوڑ پیداکردیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ علم والے
اورباخبرہیں‘‘(النساء:۳۴۔۳۵)
ٍ ان آیات پرغورکیجئے توصاف معلوم ہوگاکہ ان میں بتایاگیاہے کہ مردصدرِ خاندان ہے،اورعورت پرجائزامورمیں اس کی اطاعت واجب ہے؛چونکہ حقوق اورفرائض کے بارے میں اکثرنزاع پیداہوجاتی ہے،اورمیاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کی وجہ سے ان کے درمیان نزاع کاامکان زیادہ ہوتاہے؛اس لئے خاص طورپرمیاں بیوی کے بارے میں بتایاگیاکہ اگربیوی شوہر کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرے،اوراس کی وجہ سے تعلقات میں ناخوشگواری پیداہونے کااندیشہ ہوتوپہلے شوہرذاتی طورپراس کوحل کرنے کی کوشش کرے،اوراس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
(الف) پندونصیحت کے ذریعہ سمجھانا
(ب) عارضی طورپرترک تعلق
(ج) تنبیہ وفہمائش
اوراگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتوسماج کوچاہئے کہ ان کےباہمی جھگڑے طے کرنے کے لئے دونوں خاندان سے ایک ایک حَکم لے کراختلاف کوختم کرانے کی کوشش کرے۔
یہ پورامضمون ان ہی دوآیتوں میں آیاہے،نہ اس سے پہلے دورتک طلاق کاذکرہے نہ اس کے بعد؛بلکہ اس پوری سورہ ہی میں طلاق کاکہیں ذکرنہیں ہے،اگریہ آیت طلاق سے متعلق ہوتی تواس ارشاد کے ساتھ طلاق کا بھی ذکرآتا،یہ توایک عمومی نصیحت ہے؛چونکہ ازدواجی رشتہ خاندان کے استحکام کے لیے خصوصی اہمیت کاحامل ہے؛اس لئے خاص طورپرذکرکیاگیاکہ اس میں دراڑ پیدانہیں ہونی چاہئے،شوہر بھی ذاتی طورپراس کے لئے کوشش کرے،اورسماج بھی اس سلسلہ میں اپناکرداراداکرے،اس کاتعلق خاص طلاق کے مسئلہ سےہے ہی نہیں ؛بلکہ یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ میاں بیوی میںکسی بھی قسم کااختلاف پیداہوتواسے اسی طریقہ پرحل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس آیت کے پس منظرمیں زوجین کو نصیحت کی جاسکتی ہے کہ طلاق میں عجلت نہیں کرنی چاہیے؛بلکہ اگرتعلقات میں ناخوشگواری پیداہوجائے تواس کوحل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے،اورآخری چارۂ کارکے طورپرہی طلاق دی جائے؛لیکن اس کی حیثیت طلاق کے لئے شرط کی نہیں ہے،غورکریں توان دونوں آیتوں میں جن مراحل کاذکرکیاگیاہے،ان میں تین (پندونصیحت،ترک تعلق،تنبیہ وفہمائش)تووہ ہیں،جن کاتعلق شوہراوربیوی کی خلوت سے ہے،ان کوتوعدالت کے سامنے ثابت کرنابھی دشوارہے،اگران دونوں آیتوں میں آنے والے احکام کوطلاق کے مسئلہ سے جوڑاجائے ،اورطلاق واقع ہونے کے لئے طلاق سے پہلے ان امورکوپوراکرناشرط قراردیاجائے توعدالت میں طلاق کے واقع ہونے کی بات کوثابت کرناشایدناممکن ہوجائے۔
پھریہ بات بادی النظرمیں بہترمعلوم ہوتی ہے کہ اگرزوجین آپس میں مسئلہ کوحل نہ کرسکیں توپہلے خاندان کے بزرگوں،یاسماج کے کسی اورذمہ دارشخص کے ذریعہ نزاع کوسلجھانے کی کوشش کی جائے؛لیکن غورکیاجائے تواس کولازم نہ کرنے میں عورتوں ہی کامفادہے؛کیوں کہ طلاق زندگی کابنددروازہ نہیں،جس کے آگے کوئی راستہ نہ ہو؛بلکہ یہ ایک مرحلہ کااختتام ہے اوردوسرے مرحلہ کاآغاز ہے،طلاق کے ذریعہ زندگی کاایک باب بندہوتاہے اوردوسرا کھلتاہے،عورت کاپہلا رشتہ نکاح ختم ہوجاتاہے اوردوسرے نکاح کی راہ ہموارہوتی ہے،اگرشوہرپریہ بات لازم قراردی جائے کہ وہ ان اسباب ووجوہ کی وضاحت کرے،جن کی وجہ سے اس نے طلاق دی ہے توہوسکتاہے کہ بہت سی دفعہ ان کاظاہرکرنا خودعورت کے مفاد میں نہ ہو،ایسے مواقع پرایک شریف اورباعزت میاں بیوی اس بات کوبہترسمجھتے ہیں کہ علیحدگی ہوجائے اورایسے واقعات پردہ ہی میں رہیں؛تاکہ کسی فریق کی بے عزتی اوربے آبروئی نہ ہو،اوراگرطلاق کاسبب عورت کی طرف سے پائی جانے والی کوتاہیاں نہ ہوں،تب بھی اس بات کاقوی اندیشہ ہے کہ خداناترس شوہر جھوٹ بولے اوراپنی بیوی کے کردارپرحملہ کرے؛تاکہ طلاق دینے کے عمل کودرست ثابت کرسکے،ہردوصورت میں عورت کے لئے آئندہ زندگی کاآغاز مشکل ہوجائے گا،جب سماج تک یہ بات پہنچے گی کہ فلاں شخص کی بیوی پربدکردار،بداخلاق،بدزبان اورنافرمان ہونےکاالزام ہے توغورکیجئے کہ کوئی شخص اس کواپنی بیوی یابہوبنانے کوتیارہوگا؟—–ہندوستان کے موجودہ معاشرہ کی صورت حال یہ ہے کہ کنواری لڑکیوں کارشتہ ملنا دشوارہوتاہے،وہاں کیاایسی عورتوں کارشتہ ملناآسان ہوگا،جن کی کمزوریاں طشت ازبام ہوچکی ہوں،یاوہ ہوں توبے قصور؛لیکن انہیں بدنام کردیاگیاہو؟……اس لئے حقیقت یہ ہے کہ طلاق سے پہلے تحکیم کوضروری قراردینانتیجہ کے اعتبارسے عورت کے لئے نقصاندہ ہے نہ کہ فائدہ مند۔
دوسری بات یہ ہےکہی جاتی ہے کہ قرآن میں تین طلاق دینے کی ممانعت کی گئی ہے؛اس لئے اگرتین طلاق دے دے تویاتووہ واقع ہی نہیں ہوگی،یاایک واقع ہوگی ،یہ بھی درست نہیں ہے،قرآن میں یہ حکم صراحتاََ منقول نہیں ہے کہ تم ایک طلاق دو،یادوطلاق دو،یاتین طلاق دو؛بلکہ صرف طلاق کے اثرونتیجہ کوبیان کیاگیاہے کہ اگرایک یادوطلاق دے توکیاحکم ہوگا،اورتین طلاق دی جائے توکیاحکم ہوگا؟اس سلسلہ میں قرآن کی جس آیت سے استدلال کیاجاتاہے،وہ یہ ہے:
دوطلاقیں دی جائیں،یاتوبھلے طریقہ پرروک لیں،یاخوشگوارطریقہ پر چھوڑ دیں،
اورتمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم نے جوکچھ ان کودیاہے، ان میں سے کچھ واپس
لے لو، سوائے اس کے کہ دونوں کواندیشہ ہوکہ وہ اللہ کی حدوں کوقائم نہیں رکھ سکیں
گے، تواگراس بات کا اندیشہ ہوکہ وہ اللہ کی حدوں کوقائم نہیں رکھ پائیں گے توان
دونوں کو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ بیوی کچھ دیدے(تاکہ شوہراس کوطلاق
دیدے)،یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں؛اس لئے ان سے تجاوز نہ کرو،اورجو 
اللہ کی مقررکی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائیں ،وہی لوگ ظالم ہیں۔
پھراگرشوہرنے انہیں طلاق دیدی توبیوی اس کے لئے حلال نہیں ہوں گی جب 
تک وہ دوسرے شوہرسے نکاح نہ کرلے، پھراگردوسراشوہر بھی اسے طلاق 
دیدے تو ان دونوں پرکچھ حرج نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے رجوع کر لیں،
(یعنی دوبارہ نکاح کرلیں) ؛ بشرطیکہ انہیں اطمینان ہوکہ وہ اللہ کی مقررکی ہوئی 
حدوں کوقائم رکھیں گے، اوریہ اللہ کے مقررکئے ہوئے احکام ہیں،جن کواللہ
تعالیٰ سمجھ دارلوگوں کے لئے بیان فرماتے ہیں(بقرہ:۲۲۹۔۲۳۰)
قرآن مجیدکی یہ آیتیں بالکل واضح ہیں،اوران میں تین احکام بیان کئے گئے ہیں:
اول یہ کہ اگرایک یادوطلاق دی جائے توشوہرکے لئے بیوی سے رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے،ایسی صورت میںشوہرکاارادہ رشتہ باقی رکھنےکانہیںہوتوچاہئےکہ عدت گزرجانے دے،اورخوشگوارطریقہ پربیوی کورخصت کردے،اوراگرواقعی بیوی کے ساتھ خوشگوارازدواجی زندگی گزارنے کاعزم ہوتو اس سے رجوع کرلے اوراس کے حقوق اداکرتے ہوئے بہترطریقہ پرزندگی گزارے۔
دوسراحکم خلع کادیاگیاکہ اگرشوہروبیوی محسوس کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مقررکئے ہوئے احکام کے مطابق وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی نہیں گزارسکتے اورآپس میں یہ معاہدہ ہوجائے کہ بیوی مہرواپس کردے اورشوہرطلاق دیدے تویہ بھی درست ہے،مگربہتریہی ہے کہ شوہردی ہوئی چیز واپس نہ لے۔
تیسراحکم یہ معلوم ہواکہ اگردوطلاق کے بعدشوہرنے تیسری طلاق بھی دے ہی دی،تواب عورت مردکے لئے مکمل طورپرحرام ہوگئی،ان کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے نکاح کرنا جائز نہیں؛البتہ اگرعورت کاکسی اورمردسے نکاح ہو، سوء اتفاق کہ اس سے بھی نباہ نہ ہوسکا،اورپھراس سے بھی طلاق ہوگئی،تواب وہ عورت پہلے شوہرسے نکاح کرسکتی ہے۔
غورکیجئے کہ اس آیت میں کہیں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ اگرتیسری طلاق دے دے توطلاق واقع نہیں ہوگی؟اگرچہ کہ بلاوجہ تین طلاق دینا یاایک ساتھ تین طلاق دیدینا گناہ ہے اورایسا نہیں کرناچاہئے؛لیکن اس ممانعت کابھی آیت میں واضح طورپرکوئی ذکرنہیں ہے،حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے؛اسی لئے فقہاء بھی اس کومنع کرتے ہیں،اسی طرح قرآن مجیدمیں کہیں بھی یہ بات نہیں فرمائی گئی کہ اگرتین طلاق دیدی جائے توتین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی؛بلکہ اس کے برخلاف قرآن کہتاہے کہ طلاق واقع ہوجائے گی؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ آیات صرف اس بات کوواضح کرتی ہیں کہ ایک،دواورتین طلاقیں دینے کاکیااثرمرتب ہوگا؟ (جاری)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
متعلقہ الفاظ
  • #شمع فروزاں
  • آپ بھی لکھئے

    اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

    یہاں سے ارسال کیجئے

    ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
    ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
    شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024