گداگری — اُمت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ
۲۹؍ جولائی ۲۰۱۶ء کے اخبار ہندوستان ٹائمس میں یہ سروے شائع ہوا ہے کہ ہندوستان میں جو لوگ گداگری کا کام کرتے ہیں اور بھیک پر اپنی زندگی گذارتے ہیں ، ان میں ۲۵ ؍فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے ، یعنی ہر چار بھکاری میں سے ایک مسلمان ہوتا ہے ، یہ نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے کہ جس اُمت کے پیغمبر نے تعلیم دی ہو کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے ، گداگری کے لئے وہ اُمت مشہور ہوجائے ، یہ بات بہت کڑوی ہے ؛ لیکن سچائی پر مبنی ہے ۔
آج کل ہماری مسجدوں، مذہبی مقامات اور دینی اجتماعات کی ایک پہچان گداگروں کا ازدحام اور ایک خاص لَے اور دھن میں ان کی طرف سے سوالیہ کلمات کی تکرار بھی ہے، ان میں بعض کے اندر الحاح کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے اور آپ کے لئے ان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا دشوار ہوتا ہے ، بعض کی جرأت رندانہ بھی قابل دید ہوتی ہے، اگر آپ نے انھیں بھیک نہیں دی یا بھیک کی مطلوبہ مقدار نہیں دی ، تو ان کی خشمگیں نگاہ کو سہے بغیر چارہ نہیں، کچھ ایسے فرزانے بھی ہیں جو آپ کو دوچار صلواتیں سنانے سے بھی نہیں چوکتے ، وہ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ ناواقف آپ کو ان کا مقروض سمجھ بیٹھے، مذہبی مقامات کے علاوہ سیاحتی مقامات، ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹینڈ اور ٹریفک سگنل کی جگہیں جہاں گاڑیوں کے رکنے کی نوبت آتی رہتی ہے، اس گروہ کے پسندیدہ اور مستجاب مقامات ہیں، اس لئے یہاں ان کی وافر تعداد نہ صرف یہ آموجود ہوتی ہے؛ بلکہ کمالِ اخلاص اور کمالِ استقامت کے ساتھ صبح کی پَوْ پھٹنے سے لے کر رات گئے تک اپنے محاذ پر ڈٹی رہتی ہے ، پولیس والوں کا محصول اورگاہے ڈنڈوں کے ذریعہ ان کی تنبیہ اور دینے والوں کی ڈانٹ ڈپٹ ان کو نہ ملول خاطر کرتی ہے اور نہ ان کے پائے استقامت میں کوئی تزلزل آنے دیتی ہے، اس لحاظ سے ثابت قدمی میں وہ ایک نمونہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔
یہ گداگر بھی انواع و اقسام کے ہیں، کچھ صحت مند و توانا، کچھ واقعی مریض اور زیادہ تر مصنوعی مریض، مریض اور معذور عام طور پر بیکار شمار کئے جاتے ہیں ؛ لیکن اس میدان میں وہ نہایت کار آمد اور مفید ہیں ؛ اسی لئے بہت سے صحت مند بھکاری نابینا اور معذور فقیروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے پتھر دلوں کو موم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں ، ان میں بچے بھی ہیں ، جوان بھی اور بوڑھے بھی ، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، کم سن لڑکیاں بھی جوان لڑکیاں اور سن رسیدہ عورتیں بھی گداگری کے اس پیشہ میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں ، ایسے گروہ بھی پکڑے گئے ہیں جو دیہاتوں اور دور دراز علاقوں سے بچوں کو پکڑ کر لاتے ہیںاور انھیں کسی قدر معذور بناکر ان سے گداگری کراتے ہیں ، زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ گداگری کے لئے بھی جدید ذرائع کا استعمال شروع ہو گیا ہے ؛چنانچہ بعض فقراء انٹر نیٹ کی مدد سے عالمی سطح پر اپنی رسائی کو وسیع کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گداگروں کا یہ گروہ اس کو ایک آسان اور سہولت بخش ذریعہ معاش تصور کرتا ہے، چند ماہ پہلے اخبارات میں یہ خبر آئی تھی کہ حیدرآباد میں گداگروں کی آمدنی کا اوسط تین تا چار ہزار روپے ماہانہ ہے، خاص خاص مواقع جیسے رمضان المبارک اور عید وغیرہ میں اس میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے، اس کانتیجہ یہ ہے کہ یہ اس پیشہ سے دستبرادار ہونے کو کسی طور تیار نہیں ہیں ، اگر آپ انھیں کام کرنے کو کہیں یا خود اپنے یہاں کام کرنے کی دعوت دیں تو وہ ایسا منھ بنائیں گے کہ گویا آپ نے ان کی بے عزتی کی ہے، غرض وہ اپنے پیشہ پر قانع بھی ہیں اور مطمئن بھی اور انھیں اس پر نہ کوئی حجاب ہے اور نہ عار ، اس بات سے مزید دکھ ہوتا ہے کہ ان میں بہت ہی قابل لحاظ تعداد ہمارے مسلمان بھائیوں کی ہے اورجس اُمت کو سب سے بڑھ کر غناء اور استغناء کی تعلیم دی گئی ہے ، وہی اس اخلاقی بیماری میں پیش پیش ہے ۔
اسلام سے پہلے بعض مذاہب میںمذہبی لوگوں کے لئے کسب ِمعاش کی اجازت نہیں تھی اور ان کا گزر اوقات اسی طرح ہوتا تھا، کہ وہ لوگوں کے سامنے دست ِسوال دراز کریں اورلوگوں کی نذر و نیاز پر زندگی گزاریں ، ہندو بھائیوں کے یہاں برہمن کے حقوق میں یہ بات شامل تھی کہ لوگ اسے دان کیا کریں ، بدھشٹوں کے یہاں مذہبی رہنماؤں اور بھگتوؤں کو کسب معاش کی ممانعت ہے اور وہ لوگوں کی دچھنا پر زندگی گزارا کرتے تھے، عیسائیوں کے یہاں جب رہبانیت اور ترکِ دنیا کے فلسفہ نے قبول عام حاصل کیا تو نہ صرف مذہبی رہنما ؛ بلکہ عوام میں بھی زاہد قسم کے لوگوں نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ وہ کسب ِمعاش چھوڑ دیں اور لوگوں کے دیئے ہوئے پر اپنی زندگی گزاریں ؛ لیکن اسلام نے اول روز سے ہی کسب ِمعاش کو ضروری قرار دیا ، قرآن نے کہا کہ اللہ کی بندگی سے فارغ ہونے کے بعد کسب ِمعاش کی کوشش کرنی چاہئے اور مال کو فضل الٰہی سے تعبیر کیا (الجمعہ :۲۸؍۱۰) رسول اللہ انے خود تجارت فرمائی ، حضرت ابو بکر ص، حضرت عمرص، حضرت عثمان ص اور اکابر صحابہ ث نے تجارت کی ، حضرت علی صاور بہت سے صحابہ ث نے محنت ومزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کیں اور تلاشِ رزق کی تحسین فرمائی گئی ۔
اسلام نے توکل کی تعلیم ضرور دی ؛ لیکن لوگوں نے جو بے عملی اور فرائض سے پہلو تہی کو توکل کا نام دے رکھا تھا، اس کی اصلاح بھی فرمائی، اسلام نے بتایا کہ توکل یہ نہیں ہے کہ اسباب دنیا کو ترک کر دیا جائے ؛ بلکہ توکل اسباب کو اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ پر چھوڑ دینے کا نام ہے ، اس لئے کسب ِمعاش توکل کے منافی نہیں ، گداگری پیدا ہی اس لئے ہوتی ہے ، کہ انسان کسب ِمعاش کی تگ و دو سے دل چرانے لگے ، اس کے سدباب کے لئے آپ انے ایک طرف کسب ِمعاش کی اہمیت کو واضح فرماکر گداگری کے اصل سبب کو ختم کرنا چاہا۔
اور دوسری طرف گداگری کی مذمت فرمائی اور اسے سختی سے منع کیا ، ایک صاحب رسول اللہ اکی خدمت میں آئے اور کچھ سوال کیا ، آپ نے ان سے فرمایا کہ : تمہارے پاس کیا کچھ سامان ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس تو محض ٹاٹ اور پیالہ ہے، آ پ نے وہ دونوں چیزیں منگوائیں اور ان کی ڈاک لگائی، ایک صاحب نے ایک درہم قیمت لگائی ، دوسرے شخص نے دودرہم ، آپ نے اسے دو درہم میں فروخت کر دیا، پھر ایک درہم میں کلہاڑی کا پھل منگایا اورکلہاڑی بنا کر اسے حوالہ کر دیا اور ایک درہم اسے دے کر ارشاد ہوا کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کریں اور کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر لائیں اور فروخت کریں اور ایک ماہ تک پھر کہیں بھیک مانگتے ہوئے نظر نہیں آئیں، ان صاحب نے اس ہدایت پر عمل کیا اور ایک ماہ کے بعد اس حال میں تشریف لائے کہ کئی درہم ان کے پاس موجود تھے اور وہ گداگری کو چھوڑ چکے تھے ، ( سنن ابی داؤد : ۱۴۳ ، سنن ابن ماجہ : ۲۱۹۸ ، عن انسؓ ) آپ ا نے فرمایا ’’ یہ بات کہ تم اپنی پیٹھ پر لکڑی کے گٹھے کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو اس سے بہتر ہے کہ تم لوگوں کے سامنے دست ِسوال پھیلاؤ ، وہ چاہیں تو دے دیں ، چاہے تو نہیں دیں ‘‘۔ (بخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب اسعفاف فی المسئلۃ ، حدیث نمبر : ۴۰۲ ، عن الزبیر بن العوامؓ )
اس طرح کے بعض اور واقعات بھی منقول ہیں ، حضرت ابو ہریرۃص راوی ہیں کہ دو شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کچھ طلب کیا ، آپ نے مشورہ دیا کہ جنگل جاؤ لکڑی کاٹو اور اسے فروخت کرو ، انھوں نے ایسا ہی کیا ، پہلے لکڑیاں بیچ کر کھانے کی اشیاء خریدیں ، پھر سونا خرید کیا ، پھر سواری کے لئے گدھے خرید کئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رسول اللہ اکے حکم میں برکت رکھی ہے ۔ (مجمع الزوائد : ۳ ؍ ۹۴)
آپ ا نے سوال کرنے سے صحابہ کو اس درجہ منع فرمایا اور اس کی تعلیم دی کہ وہ معمولی چیزیں مانگنے سے بھی احتراز کرتے تھے، حضرت ابو بکرص کا حال یہ تھا کہ اگر اونٹنی کی لگام نیچے گر جاتی، تو اونٹنی کو بٹھاتے اور خود لگام لیتے، لگام بھی دوسروں سے مانگنے کے روادار نہیں ہوتے ، (حوالہ سابق)یہ رسول اللہ ا کی تربیت کا نتیجہ تھا، حضرت ابو ذر غفاری صاور حضرت ثوبان ص دونوں کا بیان ہے کہ آپ انے ان سے عہد لیا کہ کسی سے سوال نہ کریں ، یہاں تک کہ اگر کوڑا نیچے گر جائے تو وہ بھی دوسرے سے نہ مانگیں ۔ (مجمع الزوائد : ۳ ؍۹۳)
حضرت علیص سے روایت ہے کہ آپ انے فرمایا : جو شخص مستغنی ہونے کے باوجود سوال کرے ، وہ اپنے لئے جہنم کی چنگاریوں میں اضافہ کر رہا ہے ، دریافت کیا گیا: مستغنی ہونے سے کیا مراد ہے؟ ’’ وَمَا ظَہَرَ غَنِیْ‘‘ ارشاد ہوا : جس کے پاس رات کا کھانا موجود ہو، (حوالۂ سابق) گویا جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا موجود ہو اس کے لئے دست ِسوال دراز کرنا روا نہیں ، حضرت عبد اللہ ابن عمرص فرماتے ہیں کہ سوال قیامت کے دن صاحب ِسوال کے چہرے پر خراش کی صورت میں ظاہر ہوگا ، اب جو چاہے اسے اپنے چہرہ پر باقی رکھے ، (حوالۂ سابق: ۹۶) اورحضرت حبشی بن جنادہص کی روایت میں آپ اکا ارشاد منقول ہے کہ جس نے فقر و محتاجی کے بغیر سوال کیا ، گویا وہ چنگاری کو کھاتا ہے، (حوالۂ سابق ) حضرت ثوبان ص کی روایت میں ہے کہ پیسہ رکھنے کے باوجود سوال کرنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر عیب کی صورت اختیار کر لے گا ’’کانت شینا فی وجہہ یوم القیامۃ ‘‘(حوالۂ سابق ) غور کیجئے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اگر چہرے پر بدنما دھبہ آجائے تو انسان اس کو دور کرنے کے لئے کتنا پریشان ہوتا ہے، آخرت کی دائمی زندگی میں جب اہل جنت خوبصورت ترین شباہت میں ہوں گے، انسان کو اپنے عیب دار اور داغ دار چہرے پر کتنی شرمساری ہوگی، خاص کر ایسی صورت میں کہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ رنگ و نور کی اس بستی میں کوئی شخص اتفاقی اورپیدائشی طور پر بدصورت نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بدصورتی اس کی بداعمالیوں کا عکس ہے، کتنا عجیب ہے کہ بننے سنورنے والا انسان اس دائمی بد روئی اور بد صورتی کے بارے میں فکر مند نہ ہو !
گداگری ، فقر و احتیاج کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ اس کا اصل سبب تن آسانی و سہل انگاری اورمفت خوری و بطن پروری کی خو ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے حیاء اور غیرت کی چادر کو تار تار کر دیاہے، اگر انسان میں قوتِ ارادی اور خود داری ہو اور اپنی عزت و آبرو عزیز ہو، تو وہ دوسروں کے سامنے دست ِسوال نہیں پھیلا سکتا، رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو عفیف و آبرو مند رکھنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے عفیف رکھتے ہیںاور جو مستغنی رہنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے استغنا عطا فرماتے ہیں، (مجمع الزوائد : ۳ ؍ ۹۵، بحوالہ مسند احمد) — خود داری کے اسی مزاج کو باقی رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کیا، کہ لوگ بیت المال میں زکوٰۃ جمع کریںاور بیت المال ضرورت مندوں کاحسب ِضرورت تعاون کرے، کیوں کہ سرکاری ادارہ سے کوئی مدد حاصل کرنے کی صورت میں انسان کا جذبۂ خود داری ختم نہیں ہوتا اور حجاب و حیاء کی کیفیت باقی رہتی ہے، جب انسان ایک دوسرے سے سوال کرنے لگتا ہے تو پہلے زبان کھولے نہیں کھلتی، دل پر پتھر رکھ کر اپنامطلب پھیلاتا ہے، تو نہ آنکھوں میں خجالت کی کیفیت ہوتی ہے، نہ زبان کو اظہارِ مدعا میں کوئی جھجھک باقی رہتی ہے اور نہ ہاتھ کو لوگوں کے سامنے دراز ہونے میں کوئی عار ۔
کسی بھی قوم کے لئے یہ بات نہایت شرمناک ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جو قوم کے مستقبل ہوتے ہیں، جو ان مرد و عورت جن میں محنت اور تگ و دو کی صلاحیت ہوتی ہے، جو قوم کا اثاثہ اور اس کے ہاتھ پاؤں ہیں، ان میں بے عملی اور بے ضمیری پیدا ہوجائے، اس سے زیادہ قابل افسوس بات اور کیا ہوسکتی ہے۔
گداگری کے سدباب کے لئے مثبت اور منفی اقدامات کی ضرورت ہے ، مثبت اقدام یہ ہے کہ ایسے بچوں کو تعلیم میں لگایا جائے ، بہت سے سرکاری وغیر سرکاری ادارے ہیں جہاں بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام ہے، انھیں ایسے اداروں میں پہنچایاجائے ، جو خواتین اور مرد کام کرنے کے لائق ہیں انھیں مزدوری پر لگایاجائے ، آج کل مزدوروں کی کھپت بہت زیادہ ہے ، اصل دشواری تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے لئے ہے اورگداگری کے پیشہ میں زیادہ تر ناخواندہ اور ان پڑھ لوگ ہیں ، انھیں محنت مزدوری پر آمادہ کیا جاسکتا ہے ، جو لوگ واقعی جسمانی اعتبار سے معذور ہوں ان کے لئے اقامت گاہیں قائم کی جائیں ، یا گورنمنٹ کی طرف سے بنے ہوئے رفاہی اداروں تک ان کو پہنچایا جائے ۔
منفی اقدام سے مراد یہ ہے کہ گداگری کی حوصلہ شکنی کی جائے ، مسجدوں اور درگاہوں کے ذمہ داران انھیں وہاں بیٹھنے اور بھیک مانگنے سے روکیں ، مذہبی اجتماعات، جمعہ وعیدین کے مواقع پر بھی انھیں بھیک مانگنے سے منع کیاجائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ، ان کو بھیک نہیں دی جائے ، یہ بھیک مانگیں تو کام کرنے کی ترغیب دی جائے ، اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ باعزت طریقہ پر کمانے کے عادی ہوں گے بہت سے لوگ جمعہ وغیرہ میں کھلے پیسے لے کر آتے ہیںاور روپیہ دو روپیہ ہر فقیر کو دیتے چلے آتے ہیں ، بہ ظاہر یہ کارِ خیر ہے ؛ لیکن بالواسطہ یہ اپنی قوم کے ایک گروہ کو گداگری کا عادی بنانا ہے ، اس لئے اس سے اجتناب ہی قوم کے مفاد میں ہے ۔
رسول اللہ ا کااسوہ ہمارے سامنے موجود ہے ، کہ ایک طرف آپ نے بھیک مانگنے والوں کو دینے سے انکارکر دیا اور دوسری طرف انھیں محنت و مزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب بھی دی اور اس کی تدبیر بھی فرمائی ، اگر ہم اپنی قوم کو اس لعنت سے بچاناچاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان میں یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا ، کہ وہ اپنے گاڑھے پسینے بہا کر کمائیں اور آدھے پیٹ کھائیں ؛ لیکن دوسروں کے سامنے سوال کے ہاتھ پھیلاکر بے آبروئی کا راستہ اختیارنہ کریں !!