زکوٰۃ کے مصارف اور موجودہ حالات
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
زکوٰۃ ایک اہم ترین عبادت ہے ، جس کا بنیادی مقصد ہے : غرباء کی ضرورتوں کو پوری کرنا ؛ لیکن زکوٰۃ خرچ کرنے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ جس پر چاہیں ، اس رقم کو خرچ کردیں ؛ بلکہ خود زکوٰۃ کے مصارف متعین فرمادیئے ، سورہ توبہ کی آیت نمبر : ۶۰ میں اس کا ذکر موجود ہے ، رسول اللہ ا سے ایک صاحب زکوٰۃ کے طلب گار ہوئے تو آپ انے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کو زکوٰۃ کے معاملہ یہ بات پسند نہیں آئی کہ پیغمبر یا کوئی اور شخص اس کا مصرف متعین کرے ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی مستحقین زکوٰۃ کی آٹھ مدات متعین فرمادیں ، اگر تم اس میں سے ہوتو میں تمہیں اس میں سے دوں گا : ’’ فإن کنت من اہل تلک الاجزاء أعطیتک‘‘ (ابوداؤد ، عن زیاد بن حارث صداعی ، باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی ، حدیث نمبر : ۱۶۳۲) پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن نے مصارفِ زکوٰۃ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ إنما الصدقات‘‘ عربی گرامر کے رُو سے ’ إنما‘ کا لفظ حصر اور محدودیت کو بتاتا ہے ، یعنی زکوٰۃ صرف ان ہی آٹھ مصارف میں خرچ کی جاسکتی ہے ، کسی اور مصرف میں نہیں ؛ اس لئے مصارف زکوٰۃ کی بڑی اہمیت ہے !
زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں پہلا اور دوسرا مصرف فقراء اور مساکین ہیں ، فقیر و مسکین میں سے ایک کے معنی ضرورت مند کے ہیں اوردوسرے کے بہت زیادہ ضرورت مند کے ؛ لیکن اس غربت کا معیار کیا ہے ، جس کی بنیاد پر کسی کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ؟ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا نقطۂ نظر ہے کہ اس شخص کے پاس نصابِ زکوٰۃ کے بقدر مال موجود نہ ہو ؛ کیوںکہ رسول اللہ ا نے یمن کے والی کو زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے سلسلہ میں حکم دیا کہ زکوٰۃ مسلمان مالداروں سے لی جائے اور ان ہی کے فقراء میں تقسیم کردی جائے : ’’ تؤخذ من اغنیاء ھم وترد فی فقراء ھم‘‘ (بخاری ، عن ابن عباسؓ ، باب وجوب الزکوٰۃ ، حدیث نمبر : ۱۳۹۵) اس سے معلوم ہوا کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے ، وہ شریعت کی نظر میں غنی یعنی مالدار ہے ، اور جس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو وہ فقیر اور مستحق زکوٰۃ ہے ؛ لیکن موجودہ حالات میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ روپیہ ، مالِ تجارت اور سونے یا چاندی کے نامکمل نصاب میں چاندی کے نصاب چھ سو بارہ گرام چاندی کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا سونے کے نصاب ساڑھے ستاسی گرام سونے کا ؟ عام طورپر علماء ہند نے چاندی کے نصاب کو معیار مانا ہے ، اور عرب علماء و فقہاء نے سونے کے نصاب کو ، موجودہ زمانہ میں چاندی کے نصاب کی مقدار بہت کم ہوجاتی ہے ، بہت سی دفعہ نہایت محتاج حضرات بھی اس نصاب کے حامل ہوتے ہیں ؛ اس لئے اس حقیر کا رجحان دوسری رائے کی طرف ہے ، بہر حال جولوگ نصابِ زکوٰۃ کے بہ قدر مال کے مالک نہ ہوں اور اس معیار کے مطابق غریب و محتاج ہوں ، ان ہی کے لئے زکوٰۃ جائز ہے ، افسوس کہ آج کل اچھے خاصے ، کھاتے کماتے لوگ اپنے لئے زکوٰۃ کے طلب گار ہوجاتے ہیں ، کبھی اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے زکوٰۃ کی بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے ہیں ، انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : جس نے اپنی ضرورت پوری ہوجانے کے باوجود سوال کا ہاتھ پھیلایا ، وہ اپنے لئے دوزخ کی آگ میں اضافہ کرتا ہے : ’’ من سأل وعندہ مایغنیہ فإنما یستکثر من النار‘‘ وقال النفیلی فی موضع آخر : ’’ من جمر جہنم‘‘ ۔ (تفسیر قرطبی : ۸؍۱۷۳)
زکوٰۃ دینے والوں کو بھی چاہئے کہ زکوٰۃ چاہے کسی فرد کو دیں یا کسی ادارہ کو ؟ اچھی طرح تحقیق کرلیں کہ کیا واقعی یہ شخص زکوٰۃ کا مستحق ہے ؟ کیا یہ ادارہ عالم واقعہ میں موجود ہے ؟ ان کے یہاں زکوٰۃ کے مدات ہیں یا نہیں ؟ اگر خود تحقیق نہ کرسکیں تو معتبر لوگوں اور اداروں کی تحقیق پر بھروسہ کرنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن بہتر یہی ہے کہ خود تحقیق کرکے مطمئن ہوجائیں ، اگر بلا تحقیق زکوٰۃ دے دی ؛ حالاںکہ وہ شخص یا ادارہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی : ’’ أنہ إذا دفعھا إلیہ وھو شاک ولم یتحر أو تحّر ولم یظہر لہ أنہ مصرف أو غلب علی ظنہ أنہ لیس بمصرف فھو علی الفساد ‘‘ ( تبیین الحقائق : ۱؍۳۰۴) اسی طرح پیشہ ور بھکاریوں کو بھی زکوٰۃ نہیں دینی چاہئے ، یہ وہ لوگ ہیں جو ضرورت کی بناپر نہیں ؛ بلکہ پیشے کے طورپر بھیک مانگتے ہیں ؛ حالاںکہ ان کے پاس بڑی بڑی رقمیں موجود ہوتی ہیں ، ان کو زکوٰۃ دینا گداگری کی خُو کو بڑھانا ہے ، رسول اللہ اسے بڑھ کر کسی کی شفقت و رحمت ہوسکتی ہے ؟ لیکن جب آپ کے سامنے ایک صاحب نے دست سوال پھیلایا تو آپ انے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور ان کو محنت کرکے کھانے کی تدبیر بتائی ؛ (ابن ماجہ ، عن انسؓ ، حدیث نمبر : ۲۱۹۸) اس لئے بھکاریوں کی اس خوکو بڑھاکر ملت کی ذلت و رسوائی میں اضافہ کا سبب نہیں بننا چاہئے ۔
زکوٰۃ کا تیسرا مصرف ’ عاملین ‘ یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے ہیں ، اصل عاملین تو اسلامی حکومت کی طرف سے ہوا کرتے تھے ؛ لیکن نہ صرف ہندوستان بلکہ خود مسلم ممالک میں بھی آج نہ اسلامی حکومت ہے اور نہ بیت المال ؛ اس لئے جو لوگ زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے حساب وکتاب وغیرہ کا کام انجام دیتے ہیں ، ان کو زکوٰۃ میں سے اُجرت ادا کی جاسکتی ہے ، یہ رقم ان کو اعانت اور زکوٰۃ کے طورپر نہیں ؛ بلکہ بطور اُجرت اور حق الخدمت کے دی جائے گی ؛ کیوںکہ وہ مستحقین زکوٰۃ کا کام کرتے ہیں ؛ اس لئے مستحقین زکوٰۃ کے اجیر ہونے کی حیثیت سے انھیں اُجرت دی جاتی ہے ؛ اسی لئے عاملین کا غریب اور مستحق زکوٰۃ ہونا ضروری نہیں ہے ؛ کیوںکہ نتیجہ کے اعتبار سے انھیں یہ رقم بطور زکوٰۃ کے نہیں دی جاتی ، زکوٰۃ کے مالک تو وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ خرچ کی جاتی ہے ؛ لیکن وہ اس مال کے مالک کی حیثیت سے لوگوں کو ان کا محنتانہ ادا کرتے ہیں ۔
اُجرت کے سلسلہ میں اُصول ہے کہ اجیر کا کام متعین ہو اور اس کی اُجرت مقرر ہو ؛ لہٰذا آج کل مدارس اور دوسرے دینی اداروں کے جو سفراء ہیں ، ان کی تنخواہ مقرر ہونی چاہئے نہ کہ کمیشن ، جیساکہ آج کل بعض چھوٹے چھوٹے اداروں کے سلسلہ میں سننے میں آتا ہے ، ہاں ، اس بات کی گنجائش ہے کہ تنخواہ مقرر کرتے ہوئے وصولی کی ایک مقدار مقرر کردی جائے اور کہہ دیا جائے کہ اگر آپ اس سے زیادہ وصول کریں گے تو آپ کو خصوصی انعام بھی دیا جائے گا ، اس طرح ان کو محنت کرنے کی ترغیب ہوگی ، یہ تنخواہ ان کی وصولی کی صلاحیت کے لحاظ سے مقرر ہوسکتی ہے اور جیسے جیسے وصولی بڑھتی جائے ، ان کی تنخواہ بڑھائی جاسکتی ہے ، اس سے کام کرنے والوں میں اخلاص کی کیفیت بھی باقی رہے گی ، شرعی قباحت بھی پیدا نہ ہوگی اور محنت سے کام کرنے کی ترغیب بھی ہوگی؛ چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اپنے پانچویں سیمینار منعقدہ اعظم گڑھ میں بالاتفاق چندہ وصولی پر کمیشن کے ناجائز ہونے کا فیصلہ کرچکا ہے ۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ محصلین اپنی وصول کردہ رقومِ زکوٰۃ پہلے مدرسہ یا ادارہ میں جمع کردیں ، پھر ذمہ دار ادارہ جیسے دوسرے عملہ کو تنخواہ دیتا ہے ، اسی طرح ان کی بھی تنخواہ ادا کرے ؛ تاکہ ان کے حق الخدمت میں اُجرت کی کیفیت برقرار رہے ، رقم ادا کئے بغیر اپنے طورپر وصول شدہ رقم سے محنتانہ وصول کرلینا گویا زکوٰۃ کی رقم لینا ہے ؛ حالاںکہ اس کو جو کچھ دیا جائے گا ، وہ بطور حق المحنت کے ہے نہ کہ بطور زکوٰۃ کے — یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ زکوٰۃ کا اصل مصرف فقراء و مساکین ہیں ، عاملین کی حیثیت ضمنی ہے ؛ کیوںکہ وہ فقراء کے لئے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں تو ان کی ایسی اُجرت مقرر نہیں ہونی چاہئے کہ گویا زکوٰۃ ان ہی کے لئے وصول کی گئی ہے ، زکوٰۃ دینے والے ، مدرسہ یا ادارہ کو زکوٰۃ دیتے ہیں کہ وہ اس کو ضرورت مندوں پر خرچ کریں نہ کہ محصلینِ زکوٰۃ کی ضروریات کے لئے ؛ اس لئے اس کام پر اُجرت کی غیر معمولی مقدار شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کے منشاء کے بھی مغائر ہے ۔
چوتھا مصرف ’ مؤلفۃ القلوب ‘ ہیں ، تالیف قلب سے دل جوئی کرنا مراد ہے ، مفسرین کے یہاں اس سلسلہ میں خاصا اختلاف ہے کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟ فقہاء کے ایک گروہ کے نزدیک اس میں غیر مسلموں کے بھی دو گروہ شامل ہیں ، ایک : وہ جن کے بارے میں اُمید کہ مالی اعانت سے متاثر ہوکر وہ دامن اسلام میں آجائیں گے ، دوسرے : وہ لیڈر اور زور آور قسم کے لوگ ، جن کی اعانت کرکے ان کو خاموش رکھا جاسکتا ہو ، مسلمانوں کے بھی دو گروہوں کا فقہاء نے ذکر کیا ہے ، ایک : مسلم ملک کی سرحد پر آباد لوگ ، کہ وہ اپنی جگہ جمے رہیں ، چھوڑکر شہر کی طرف نہ آجائیں ؛ کیوںکہ اس زمانہ میں ملک کی حفاظت کے لئے تنخواہ دار فوجیوں کا انتظام نہیں تھا ، رضاکارانہ طورپر ہر شخص ملک کے دفاع کی خدمت انجام دیتا تھا ، اس لئے سرحدی آبادیوں کی بڑی اہمیت تھی اور گویا ان کی حیثیت ایک دفاعی لائن کی ہوتی تھی ، ظاہر ہے کہ اب یہ صورت باقی نہیں رہی ، دوسرے : وہ نو مسلم حضرات جن کے بارے میں امکان ہو کہ مالی اعانت کی وجہ سے ان کے ایمان میں پختگی اور ثابت قدمی پیدا ہوگی ، نیز ان کی بہتر صورت حال کو دیکھ کر سابق سماج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی اسلام قبول کرنے کی ترغیب ہوگی ، سیدنا حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اس سلسلہ کو اس لئے بند فرمادیا کہ اس وقت اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہوچکا تھا کہ اس مد کی ضرورت باقی نہیں رہی ؛ لیکن موجودہ حالات میں اس کا حکم باقی ہے یا نہیں ؟ اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے ، تاہم اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو نو مسلم غربت و افلاس سے دوچار ہوں ، اپنے سابق سماج کو چھوڑنے کی وجہ سے بے سہارا ہوگئے ہو ، ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور ان کو ترجیحی طورپر زکوٰۃ دینی چاہئے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں ، انھیں بعض اوقات جسمانی تکلیف بھی پہنچائی جاتی ہے اور ایسا نہ بھی ہو تو کم سے کم انھیں سماج سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے ، گھر سے نکال دیا جاتا ہے ، رشتہ دار ترک تعلق کرلیتے ہیں ، ملازمت سے ہٹا دیا جاتا ہے ، نئی ملازمت بھی نہیں مل پاتی ہے ، اگر ان کا تعلق نیچی ذات سے ہو تو جو خصوصی مراعات حاصل تھیں ، وہ ختم کردی جاتی ہیں ، ان حالات میں اگر مسلمان انھیں سہارا نہ دیں اور اپنے سینے سے نہ لگائیں تو کون ہے جو ان کے لئے سہارا بنے ؟ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ اس کسمپرسی سے تنگ آکر وہ کفر کی طرف واپس ہوجاتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ خاندانی مسلمان نہ تو ان کو اپنی لڑکیاں دیتے ہیں اور نہ ان کی لڑکیاں اپنے یہاں لاتے ہیں ، وہ مسلمان ہوکر ایسا محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ دوسرے درجہ کا مسلمان ہے ؛ اس لئے جو لوگ واقعی نو مسلم ہیں اور وہ بطور پیشے کے ہاتھ نہیں پھیلاتے ؛ بلکہ حقیقت میں ضرورت مند ہیں ، ان کا زکوٰۃ وصدقات کے ذریعہ تعاون کرنا چاہئے ؛ البتہ تحقیق ضروری ہے ؛ کیوںکہ بعض ایسے حضرات بھی ہیں کہ کئی پشت پہلے ان کے آباء واجداد مسلمان ہوئے اور اب وہ بہتر زندگی گذار رہے ہیں ؛ لیکن پھر بھی اپنے آپ کو نو مسلم کہہ کر چندہ وصول کرتے پھرتے ہیں ، اسی طرح بعض نو مسلموں نے اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا ہے ، وہ صحت مند ہونے کے باوجود کام کاج نہیں کرتے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو زکوٰۃ دے کر ان کی ہاتھ پھیلانے کی خو کو بڑھانا نہیں چاہئے ؛ بلکہ ان کی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ محنت مزدوری کرکے حلال روزی کمائیں کہ یہ بھی ایک شرعی فریضہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین فطرت بنایا ہے اور ہمیشہ اس کی اشاعت ، اس کی فطری تعلیمات ، روحانیت اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے ہوئی ہے ، یہ دین اپنی اشاعت میں نہ دولت کا محتاج ہے اور نہ طاقت کا ، پوری اسلامی تاریخ اس پر شاہد ہے ؛ البتہ برادرانِ وطن کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام کی طرف لانے میں مالی اخراجات بھی مطلوب ہوتے ہیں ، اور انھیں غیر مسلم مدعوئین پر بھی خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، اس کے لئے مسلمانوں کو عطیات کی رقم پیش کرنی چاہئے ، مسلمان اصحابِ خیر ، تجار ، اور سرکاری ملازمین تیس فیصد سے ستر فیصد تک انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کیا وہ دین کے اتنے اہم مقصد کے لئے اپنی آمدنی کا ایک دو فیصد خرچ نہیں کرسکتے ؟ یہ بات بڑی ہی افسوسناک ہے کہ ملت میں سارے اجتماعی کاموں کو زکوٰۃ کی رقم سے پورا کرنے کا رجحان پیدا ہورہا ہے ، آخر اس ڈھائی فیصد رقم سے کیا کیا کام ہوسکے گا ؟ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے : ’’ إن فی المال حق سوی الزکوٰۃ ‘‘ ( ترمذی ، عن فاطمۃ بنت قیس ، باب ماجاء أن فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ ، حدیث نمبر : ۶۶۰) اس حق کو بالکل فراموش کردینا اور سارے کام کو اسی ڈھائی فیصد پر منحصر کردینا کیا شریعت کی پیروی اوردین سے حق محبت کی ادائیگی کے لئے کافی ہے ؟
زکوٰۃ کے پانچویں مصرف کو قرآن نے ’’ وفی الرقاب ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ، ’’ رقبہ ‘‘ کے معنی گردن کے ہیں ، یعنی اگر کسی کی گردن پھنسی ہوئی ہو تو اس کو چھڑایا جائے ، یہ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے اور اس سے ’ غلام ‘ مراد ہیں ، مطلب یہ ہے کہ غلام کی مدد کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو آزاد کراسکیں ، یا ان کو خرید کر آزاد کردیا جائے ، اسلام بنیادی طورپر انسانوں کو غلام بنانے یا غلام بنائے رکھنے کا قائل نہیں ہے ؛ لیکن رسول اللہ ا جس دور میں تشریف لائے ، اس وقت بیک جنبشِ قلم غلامی کو ختم کرنا ممکن نہیں تھا ؛ اس لئے آپ انے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ، مختلف ایسی تدبیریں مقرر کیں کہ غلاموں اور باندیوں کی آزادی کا راستہ فراہم ہوجائے ، جن غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں پیسوں کی ضرورت تھی ، ان کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی ، جنگوں میں جو لوگ قید ہوکر آتے تھے ، عام طورپر انھیں غلام بنالیا جاتا تھا ، آپ نے ان کو کبھی یوں ہی رہا کردیا ، کبھی فدیہ لے کر رہا کیا ، کچھ لوگوں کو جنگی قیدیوں کے تبادلہ میں رہا فرمایا اور بہت کم قیدی تھے جن کو غلام اور باندی بنایا گیا ؛ کیوںکہ ان کو آزاد کردینا مصلحت کے خلاف تھا ؛ بہر حال ان بالواسطہ تدابیر کا اثر یہ ہوا کہ غلامی کا جو رواج نامعلوم تاریخ سے موجود تھا ، وہ دنیا سے ختم ہوگیا ؛ البتہ اب بھی مغرب نے غلام بنانے کا نظام باقی رکھا ہے ، پہلے افراد کو غلام بنایا جاتا تھا اور اب وہ پوری پوری قوم کو غلام بناتے ہیں ۔
ہمارے موجودہ معاشرہ میں غلامی سے ملتی جلتی بلکہ اس سے بھی بدترین بعض شکلیں پائی جاتی ہیں ، اور وہ ہیں جیل کی کوٹھریوں میں بند لوگ ، ان میں بہت سے وہ مسلمان نوجوان ہیں جن کو بالکل جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے ، ان کے پسماندگان کا تکفل اور مقدمات کی چارہ جوئی میں ان کا تعاون مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ، اسی طرح بہت سے مسلمان جرمانے کی معمولی مقدار پانچ دس ہزار ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیل کی سلاخوں میں پڑے ہوئے ہیں ، ان غریب و محتاج مسلمان قیدیوں کی زکوٰۃ سے مدد کرنی چاہئے ؛ کیوںکہ وہ بھی ’’ رقاب ‘‘ کے درجہ میں ہیں ؛ بلکہ جو لوگ جیل میں وقت گذار کر اور باعزت طورپر رہا ہوکر باہر آتے ہیں ، ان کا بیان ہے کہ بہت سے غیر مسلم بھائی بھی جرمانہ کی تھوڑی سی رقم نہ ادا کرنے کی وجہ سے جیل میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ عمومی طورپر دَلِت ہیں ؛ کیوںکہ مسلمانوں کے بعد سب سے مظلوم طبقہ ان ہی لوگوں کا ہے ، زکوٰۃ کی رقم تو مسلمانوں پر ہی خرچ کی جاسکتی ہے ؛ لیکن عطیات کی رقم کے ذریعہ ہمیں اُن پریشان حال بھائیوں کی طرف بھی مدد کا ہاتھ بڑھانا چاہئے اور اسلام نے انسانی بنیاد پر حسن سلوک کی جو تعلیم دی ہے ، اس کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے ، خلیجی ملکوں میں بھی بہت سے مسلم نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں ، ان میں اکثر و بیشتر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں یا اکسیڈنٹ کی بنیاد پر ہلاکت کی وجہ سے گرفتار ہوئے ، جومسلمان خلیجی ممالک میں کام کررہے ہوں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کی خبر گیری کریں اور ان کے مسائل حل کرنے میں فراخ دلی سے کام لیں ۔
البتہ قیدی ہندوستان میں ہوں یا بیرونِ ملک میں ، جو لوگ واقعی سنگین جرائم کے مرتکب ہیں اور قتل ، آبرو ریزی ، رہزنی اور ناجائز قبضہ وغیرہ کی وجہ سے گرفتار کئے گئے ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی مظلوموں کے ساتھ ناانصافی ہے ، ان کے قرار واقعی سزاپانے میں ہی سماج کی بھلائی ہے ، اس لئے ان کی رہائی کی کوشش اور اس کے لئے مدد مناسب نہیں ؛ ہاں ، ان کے مجبور و مفلس پسماندگان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے ۔
زکوٰۃ کا چھٹا مصرف ’’ غارمین ‘‘ ہیں ، غار مین سے مراد وہ مقروض ہیں ، جن کے اندر قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہو ، اور قرض دینے والے قرض معاف کرنے کو تیار نہ ہوں ، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اکے زمانہ میں ایک صاحب کے پھلوں کی فصل متاثر ہوگئی اورقرض بہت زیادہ ہوگیا ، آپ انے صحابہ سے فرمایا : انھیں صدقہ دو ؛ چنانچہ صحابہ نے انھیں صدقہ دیا : ’’ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تصدقوا علیہ فتصدق الناس علیہ ‘‘ ۔ (سنن ابن ماجہ ، باب تفلیس المعدوم والبیع علیہ لغرمائہ ، عن ابی سعید الخدریؓ ، حدیث نمبر : ۲۴۴۶)
البتہ اس سلسلہ میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں ، ایک یہ کہ مقروض اس وقت زکوٰۃ کا مستحق ہے کہ اگر اس کی املاک سے اس کا سارا قرض ادا کردیا جائے تو وہ نصاب کے بقدر مال کا مالک باقی نہ رہے ، ایسے شخص کے لئے یہ حکم ہے کہ پہلے تو وہ بنیادی ضرورت کے علاوہ املاک فروخت کرکے قرض ادا کرنے کی کوشش کرے ؛ لیکن اگر وہ کافی نہ ہوسکے اور بقیہ قرض کو قرض دینے والے معاف کرنے کو تیار نہ ہوں تو ان قرضوں کی ادائیگی میں زکوٰۃ کی رقم سے ان کا تعاون کیا جاسکتا ہے ، دوسری بات وہ ہے جو مشہور مفسر علامہ قرطبی نے لکھی ہے کہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے جائز کاموں کے لئے قرض لیا ہو ، اگر ناجائز کام کے لئے قرض لیا ہو تو اس کی مدد نہیں کرنی چاہئے ، سوائے اس کے کہ وہ توبہ کرلے ، توبہ کراکر اور آئندہ اس سے بچنے کا عہد لے کر پھر اس کی مدد کی جاسکتی ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۸؍ ۱۸۳) موجودہ دور میں اس کی ایک مثال بینک سے لئے جانے والے سودی قرض ہیں ، ایسے لوگوں کا اسی وقت تعاون کیا جائے جب ان سے توبہ کرالی جائے ، اور بہتر ہے کہ یہ توبہ تحریری طورپر ہو ، افسوس کہ بعض لوگ اس طرح قرض لیتے ہیں کہ انھوںنے قرض کو آمدنی کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے ، وہ قرض کے ذریعہ اپنی فضول خرچی کے جذبات کی تسکین کرتے ہیں اور غیر ضروری چیزیں خرید خرید کر اپنے اوپر قرض کا بوجھ بڑھاتے جاتے ہیں ، پھر لوگوں کے سامنے دست ِسوال پھیلاتے ہیں ، ایسے لوگ تنبیہ اور اصلاح کے مستحق ہیں نہ کہ تعاون کے ۔
ساتواں مصرف ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ ہے ، فی سبیل اللہ کے معنی ہیں : اللہ کے راستہ میں جدوجہد کرنے والے ، اگرچہ اس کا معنی عام ہے ؛ لیکن اصطلاح میں اس سے مجاہدین مراد ہیں ، جیسے صلوٰۃ کے لغوی معنی دُعا ء کے ہیں ؛ لیکن اصطلاح میں اس سے نماز مراد ہے نہ کہ دُعاء ، اسی طرح فی سبیل اللہ میں یوں تو ہر کارِ خیر شامل ہے ؛ لیکن یہاں اس سے جہاد مراد ہے ؛ کیوںکہ قرآن و حدیث میں عام طورپر یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ؛ اسی لئے جمہور علماء کی رائے یہی ہے اور شروع سے رہی ہے کہ اس سے مجاہدین مراد ہیں ، ظاہر ہے کہ ہندوستان میں اس مصرف کا کوئی محل نہیں ، بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس مد کو ہر طرح کے کارِ خیر میں استعمال کیا جاسکتا ہے ، جیسے : ہاسپیٹل ، کتابوں کی طباعت ، دعوتی کوششیں ، ٹی وی چینل وغیرہ ، یہ نقطۂ نظر جمہور فقہاء و محدثین کی رائے کے خلاف ہے ، اس پر قرآن و حدیث کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ، اور غور کیجئے کہ اگر اس مصرف میں اس درجہ عموم ہوتا تو زکوٰۃ کے آٹھ مصارف کو بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہی ایک صورت ان تمام مصارف کو شامل ہوجاتی ، صرف لغوی معنی کی بنیاد پر اس لفظ کے مفہوم میں اس درجہ کی وسعت ایسے ہی ہوگی کہ جیسے کوئی ’’ صلوٰۃ ‘‘ کے لفظ کی وجہ سے نماز کی ادائیگی کے لئے دُعاء کو کافی سمجھ لے ۔
ہاں ، البتہ مؤلفۃ القلوب اور فی سبیل اللہ کے تذکرہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زکوٰۃ کے دو بنیادی مقاصد ہیں ، ایک : غرباء کی ضرورت کو پورا کرنا ، دوسرے : اسلام کی حفاظت و سربلندی ؛ لہٰذا جو اشخاص یا ادارے دین کی سربلندی کا کام کرتے ہوں ، ان کو اس لئے زکوٰۃ دینا کہ وہ اس کام میں شامل محتاج لوگوں کی اعانت کریں ، زیادہ بہتر ہے ، جیسا کہ آج کل دینی درسگاہیں علم دین حاصل کرنے والے طلباء و طالبات پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرتے ہیں اور انھیں آئندہ اسلام کی اشاعت و حفاظت کی وسیع تر خدمت کے لئے تیار کرتے ہیں ، امام غزالیؒ وغیرہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے ، یا ان دینی تنظیموں کی جو خدمت خلق کا کام کرتی ہیں اور مستحقین زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادیتی ہیں ۔
زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف ’ مسافر ‘ ہیں ، جن کو عربی زبان میں ’’ ابن سبیل ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور قرآن مجید نے بھی مصارفِ زکوٰۃ کے ذیل میں ان کے لئے یہی لفظ استعمال کیا ہے ، انسان چاہے اپنے وطن میں صاحب ثروت ہو ؛ لیکن بعض دفعہ سفر میں پیسے پیسے کا محتاج ہوجاتا ہے ، اگر واقعی کوئی شخص ایسی صورت حال سے دوچار ہو اور اس کے لئے اپنے گھر سے فوری طورپر رقم منگوانی ممکن نہ ہو تو اتنی مقدار ِزکوٰۃ سے اس کا تعاون کیا جاسکتا ہے کہ وہ گھر پہنچ جائے ؛ لیکن آج کل بعض لوگوں نے اس کو پیشہ بنا رکھا ہے ، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں نے دھوکہ کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے روپیہ کے بجائے ٹکٹ بناکر دے دیا ؛ لیکن مصنوعی مسافر نے ٹکٹ واپس کرکے پیسے واپس لے لئے ، موجودہ دور میں اے ، ٹی ، ایم اور بینک کا نظام کچھ ایسا سہولت بخش ہوگیا ہے کہ لمحوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ رقم پہنچ جاتی ہے ، نیز مسافر جو پتہ بتاتا ہو ، فون کے ذریعہ اس کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں ؛ اس لئے مناسب تحقیق کے بغیر ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دینی چاہئے ۔
یہ تو وہ مصارف ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ؛ لیکن بعض ترجیحی مصارف ہیں ، ان میں سے دینی مدارس اور دینی اداروں کا ذکر پہلے آچکا ہے ، دوسرا ترجیحی مصرف اپنے قرابت دار اور رشتہ دار ہیں ، رشتہ داروں کے سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُصول یعنی ماں باپ ، دادا دادی ، نانا نانی اور ان کے اوپر کا سلسلہ ہو تو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، اسی طرح فروع یعنی اولاد ، اولاد کی اولاد اور ان کے نیچے کے سلسلہ کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ، اسی طرح شوہر و بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ، باقی تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ، جیسے : بھائی ، بہن ، چچا ، پھوپھی ، ماموں ، خالہ ، ساس ، سسر ، سالے اور سالی ، ان سبھوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور ان کو زکوٰۃ دینے میں دُہرا اجر ہے ، ایک : زکوٰۃ کی ادائیگی کا ، دوسرے : صلہ رحمی کے تقاضہ کو پورا کرنے کا ، یہ حکم صرف زکوٰۃ ہی کے لئے نہیں ہے ؛ بلکہ تمام صدقات کے لئے ہے ، اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پوری کی پوری زکوٰۃ اپنے رشتہ دار ہی کو دے دی جائے ؛ بلکہ جو مصارف موجود ہیں ، ان سب پر خرچ کرنے کی کوشش کی جائے ؛ البتہ مستحق زکوٰۃ رشتہ داروں کو خصوصی اہمیت دی جائے ۔
تیسری ترجیح پڑوسیوں کی ہوسکتی ہے — ’’ زکوٰۃ پڑوسیوں پر خرچ کی جائے ‘‘ خاص اس سلسلہ میں تو غالباً رسول اللہ ا کی کوئی ہدایت منقول نہیں ہے ؛ لیکن عمومی طورپر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ، اور حسن سلوک کی ایک شکل زکوٰۃ کے ذریعہ اعانت بھی ہے ؛ اس لئے پڑوسی اور قرب و جوار کے لوگوں کو زکوٰۃ میں یاد رکھنا چاہئے ؛ لیکن بعض ناسمجھ لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زکوٰۃ دینی مدارس اوراداروں کو نہ دی جائے ، پڑوسیوں کو ہی دی جائے ، یا ایک شہر کی زکوٰۃ اسی شہر میں خرچ ہو ، دوسری جگہ خرچ نہ ہو ، یہ دین سے ناواقفیت اور اسلام کے آفاقی مزاج سے محرومی کا نتیجہ ہے ، ہمارے ملک میں کتنے ہی مدارس اور دینی و ملی کام ہیں ، جن کی ضروریات کی تکمیل بیرونِ ملک کے تعاون سے ہوتی ہے ، اور یہ تعاون قانونی طورپر آتا ہے ، پھر بعض ایسے شہر ہیں جس میں مسلمان اصحابِ ثروت ، تجار اور صنعت کار بڑے پیمانہ پر زکوٰۃ نکالتے ہیں اور پورے ملک کے دینی کاموں کو وہاں سے غذا حاصل ہوتی ہے ، اس سلسلہ میں خاص طورپر ممبئی کا نام لیا جاسکتا ہے تو اگر ہر علاقہ کے لوگ اپنے تعاون کو اپنے شہر تک محدود کردیں ، تو ملک میں پھیلی ہوئی اتنی بڑی ملت کی دینی اور معاشی ضروریات کیسے پوری ہوسکتی ہیں ؟ رسول اللہ ا کے زمانہ میں یمن اور بعض دور دراز کے علاقوں سے زکوٰۃ وصول کرکے مدینہ لائی جاتی تھی اور اس کا بیشتر حصہ اہل مدینہ پر خرچ ہوتا تھا ، خلفاء راشدین کے عہد میں بھی عالم اسلامی کے چپہ چپہ سے زکوٰۃ وصول کرکے بیت المال پہنچتی تھی اور بیت المال سے ہر جگہ وہا ںکی ضروریات کے لحاظ سے مدد پہنچتی تھی ۔
مسلمان ایک آفاقی اُمت اور عالمی خاندان ہیں ، جس کو رسول اللہ اکی نسبت نے آپس میں جوڑ رکھا ہے ، اسے اس معاملہ میں کنواں نہیں بننا چاہئے ، سمندر بننا چاہئے ، سمندر اپنا سینہ جلاکر اور بھاپ جمع کرکے ہواؤں کے حوالہ کرتا ہے ؛ تاکہ وہ بادل بن کر دُور دُور تک برسے ، مسلمانوں کا مزاج یہی ہونا چاہئے کہ ان کا تعاون دُور دُور تک پہنچے اور دین کے ہر چھوٹے بڑے کام میں ان کی شرکت ہو ، یہ صحیح ہے کہ رسول اللہ انے جب حضرت معاذؓ کو یمن بھیجا تو انھیں نصیحت کی کہ پہلے انھیں ایمان کی دعوت دینا ، جب وہ ایمان لے آئیں تو نماز کا حکم دینا اور نماز پڑھنے لگیں تو زکوٰۃ کا حکم دینا ، ان کے مالداروں سے زکوٰۃ لینا اور ان ہی کے غریبوں میں تقسیم کردینا ، (بخاری ، عن ابن عباسؓ ، حدیث نمبر : ۱۳۹۵) لیکن رسول اللہ اکا یہ ارشاد دعوتی مصلحت کے تحت تھا کہ ان کو یک لخت دین کے تمام احکام کی طرف لانے کے بجائے بتدریج اسلامی تعلیمات کی تلقین کرو ؛ تاکہ وہ بوجھ نہ محسوس کریں اور زکوٰۃ لے کر وہیں تقسیم کردو ؛ تاکہ کہیں ان کو غلط فہمی نہ ہوجائے کہ اس دین کا مقصد ہم سے پیسہ وصول کرنا ہے ؛ تاہم یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ جہاں کی زکوٰۃ ہو ، لازماً وہیں خرچ کردی جائے ۔
بہر حال زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے ، یہ ایک عظیم الشان عبادت ہے اور اس سے خالق اور مخلوق دونوں کا حق متعلق ہے ، اس عبادت کو اہتمام کے ساتھ انجام دینا چاہئے اور تحقیق کے بعد صحیح مصرف تک پہنچانا چاہئے ۔ وباللہ التوفیق