خشک سالی ،طبعی اور غیبی اسباب
موسم کا معتدل اور متوازن ہونا بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے ، عام حالات میں زمین پر پھیلے ہوئے سبزہ زاروں اور فضاء میں شوخی سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی خنک ہواؤں کی قدر وقیمت معلوم نہیں ہوتی ؛ لیکن جب موسم گرما میں سورج آگ برساتا ہے ، گرم و خشک ہوائیں درختوں کو بے روح کر دیتی ہیں ، لو کے جھونکے انسانو ںکے لئے پیامِ موت ثابت ہونے لگتے ہیں اور زمین اور ماحول کی تپش سے کروٹیں بے سکون ہو جاتی ہیں ، اس وقت خوشگوار موسم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے ، کہ یہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے !
اس وقت پورا ملک گرمی کی لپیٹ میں ہے اور بہت سے علاقے ہیں ، جہاں خشک سالی نے زندگی کو دوبھر کر دیا ہے ، مہاراشٹر کا تو بہت ہی بُرا حال ہے ، پینے کے پانی کے لئے لوگوں کو تپتے ہوئے ریگزاروں سے گذر کر میلوں دور جانا پڑتا ہے ، جانوروں کو چارہ میسر نہیں اور ان کی تصویریں دیکھ کر رحم آتا ہے ، پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ، ان حالات میں لوگ گندے پانی بھی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور اس کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلنا فطری بات ہے ، ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی یہاں تک کہ نہایت سرد علاقوں میں بھی خشک سالی اپنے قدم بڑھا رہی ہے ، آسٹریلیا جیسا ہرا بھرا اور درختوں اورجنگلات کی کرامات سے پہچانا جانے والا ملک بھی اس کے اثر سے آزاد نہیں ۔
قحط سالی کی کچھ طبعی وجوہ ہو سکتی ہیں ، طبعی وجوہ کا تعلق بھی انسان کے اپنے افعال ہی سے ہے ، زمین پر جنگلات اور درختوں کا وجود قدرت کا بہت ہی خوبصورت اور انوکھا تحفہ ہے ، اگر قدرت کا ہاتھ ان درختوں کی تخلیق نہ کرے اور زمین کو ان گہنوں سے آراستہ کرنا چھوڑ دے تو کوئی طاقت نہیں ، جو ان کو وجود میںلاسکے ؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زراعت اصل میں ہم کرتے ہیں یا تم کرتے ہو ؟ ’’ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ‘‘( الواقعہ : ۶۴) ان درختوں سے جہاں انسان کو غذائی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور سوکھی لکڑیوں سے وہ اعلیٰ فرنیچر بناتے ہیں اور نوع بہ نوع فائدے اُٹھاتے ہیں ، وہیں زمین کے درجۂ حرارت کو معتدل رکھنے اور بارش کے نظام کو متوازن بنانے میں بھی یہ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ، تیزی سے جنگلات کی کٹائی نے موسم پر نہایت ہی بُرا اثر ڈالا ہے ، دہلی میں درجۂ حرارت معمول سے ۷ تا ۸ ڈگری سلسیس بڑھ گیا ہے اور بہ حیثیت مجموعی ۱۹۷۰ء سے اب تک تین دہوں میں زمین کھلے درجۂ حرارت میں ایک ڈگری فارن ہیٹ کا اضافہ ہو گیا ہے ، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا خاتمہ اس کا بڑا سبب ہے ، اسی لئے اسلام نے شجر کاری اور کاشت کاری کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے ، رسول اللہ انے فرمایا کہ انسان جب کوئی درخت لگاتا ہے ، تو اس درخت سے جو کچھ پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اتنا اجر لکھتے ہیں ، (مسند احمد عن ابی ایوب انصاریؓ ، مجمع الزوائد : ۴ ؍ ۶۷) حضرت ابو درداء ص سے مروی ہے کہ حضور انے فرمایا کہ جس نے درخت لگایا اس میں سے کوئی آدمی یا اللہ کی کوئی مخلوق کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے ، (حوالہ سابق: ۴ ؍ ۶۸) درخت کو آپ انے درخت والوں کے لئے اور ان کے بعد کی نسل کے لئے برکت کا باعث قرار دیا ، ( مجمع الزوائد : ۴ ؍ ۶۸) برکت میں عافیت اُمور حفاظت اورہر طرح کا نفع شامل ہے ۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ انے درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے ، عرب میں عام طور پر بیری اور ببول کے درخت ہوتے تھے ، اس لئے خاص طور سے حدیث میں بیری کے درخت کا ذکر آیا ہے ، حضرت علیصسے مروی ہے کہ رسول اللہ انے ان کو حکم دیا ، کہ لوگوں میں اعلان کر دیں ، کہ بیری کا درخت کاٹنے والے پر اللہ کی لعنت ہو ، ( مجمع الزوائد : ۸؍ ۱۱۵، باب ، فیمن قطع السدر) حضرت عائشہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہا نے ارشاد فرمایا : کہ جو لوگ بیری کا درخت کاٹتے ہیں وہ اوندھے منھ جہنم میں ڈالے جائیں گے ، ( حوالہ سابق بحوالہ طبرانی) اسی مضمون کی روایت عبد اللہ بن حبشی سے بھی مروی ہے عمر و بن اوسصسے روایت ہے ، کہ میں نے رسول اللہ اکو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے بیری کا درخت کاٹا سوائے اس کے کہ کھیتی کے لئے کاٹے ، اللہ تعالیٰ دوزخ میں اس کا گھر بنائیں گے ( مجمع الزوائد : ۴؍ ۶۹ باب فیمن قطع السدر ) اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنگلات کی حفاظت کو اسلام میں کتنی اہمیت حاصل ہے ۔
اس کے علاوہ جدید صنعتوں میںگیس اورکیمیکلس کا بے دریغ استعمال اور اس کے مضر اثرات سے حفاظت کی طرف سے بے توجہی ، نیز زمین کے اندر موجود قدرتی وسائل کوئلے وغیرہ کا مسلسل اخراج اور فضاء میں اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی ، یہ سب وہ اسباب ہیں ، جو خود انسانو ںکے ہاتھوں پیدا ہو رہے ہیں اور انسان خود اپنی تباہی کا سامان بہم پہنچا رہا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ دنیا کو اجتماعی ضرر پہنچانے کا باعث ہے اور رسول اللہا کا ارشاد اور فقہ اسلامی کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ نہ ابتداء اً ضرر پہنچانے کی اجازت ہے اور نہ ردعمل میں ، لاضرر ولاضرار ؛ لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے ان امور میں غیر محتاط رویہ اختیار کرنا قطعاً درست نہیں ۔
یہ بھی انسانیت کی بد قسمتی ہے کہ انسان اپنی تباہی کے اسباب پرہی پوری صلاحیت خرچ کر رہا ہے، ایک سے ایک مہلک نیو کلیر ہتھیار ، میزائل ، ٹینک اور تباہی پھیلانے والے طیارے ہیں ، جو وجود میں آرہے ہیں ؛ لیکن ماحولیاتی عدم توازن جیسے سنگین اور مہیب مسئلہ سے نمٹنے کے لئے سائنس داں ایسی مخلصانہ کوشش نہیں کر رہے ہیں جو ان کا انسانی فریضہ ہے ، حکومتیں بھی مہلک ہتھیاروں کی ایجاد کے معاملہ میں ان کی جس قدر حوصلہ افزائی کرتی ہے ، تعمیری مقاصد کے لے غالباً اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرتیں ، اس سے بڑھ کر افسوس کی بات کیا ہوگی ؟
یہ تو خشک سالی کے طبعی اسباب ہیں اور ان میں بھی انسان ہی کی شامت اعمال کو دخل ہے ؛ لیکن اس کے علاوہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کائنات میں جو بھی واقعات پیش آئیں وہ اتفاقی نہیں ہیں ؛ بلکہ انسان کے اعمال اور احوال کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر مبنی ہیں ، انسان کی اطاعت و فرماں برداری اور معصیت ونافرمانی سے بارش کا غیبی نظام متعلق ہے ، حضرت ابو ہریرہ صسے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا کہ تمہارے پرور دگار فرماتے ہیں کہ اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں رات میں ان پر بارش برساؤں اور دن میں ان پر دھوپ نکلا کرے ، (مسند احمد ، مجمع الزوائد : ۲ ؍ ۲۱۱) اسی لئے رسول اللہ اسے جب جمعہ کے دن بارش کی دُعاء کرنے کی خواہش کی گئی تو بعض روایتوں میں ہے کہ آپ انے دُعاء کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور صحابہ ث سے فرمایا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو کہ وہ بڑا مغفرت کرنے والا ہے ، استغفروا ربکم انہ کان غفارا،( مجمع الزوائد : ۲ ؍ ۲۱۶) غرض ، خشک سالی ، قحط سامانی اور موسم کی غیر معمولی تمازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہے کہ انسان اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرے ، خدا فراموشی سے باز آئے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرے کہ اس میں نہ صرف ان کی آخرت کی بھلائی ہے ؛ بلکہ ان کی دنیوی فلاح بھی اس سے متعلق ہے ، کم سے کم مسلمانوں کے لئے تو یہ حقیقت جزء ایمان ہے ، اگر مصیبتیں اور آفتیں بھی انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرنے سے قاصر رہیں تو اس سے زیادہ بدبختی اور کم نصیبی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟؟