پانی کی تجارت

انسان کی بنیادی ضرورتوں میں ایک پانی ہے ؛ بلکہ یہ ہر جاندار کے وجود اور بقاء کا ذریعہ ہے : ’’ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْیٍٔ حَیٍّ‘‘ (الانبیاء : ۳۰) اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ جو نعمت انسان کے لئے جتنی زیادہ ضروری ہوتی ہے ، وہ اتنی ہی بڑی مقدار میں مہیا بھی ہوتی ہے اور اس میں امیر وغریب ، حاکم و محکوم ، آجر اور مزدور یہاں تک کہ نیک و بد اور مسلمان وغیر مسلم کا بھی فرق نہیں ہوتا ، جب سورج نکلتا ہے تو بلا امتیاز ہرگھر کو اپنی روشنی اور حرارت پہنچاتا ہے ، جب چاند اپنے رُخ روشن سے پردہ اُٹھاتا ہے تو کسی آنکھ پر پابندی نہیں ہوتی کہ اس کی ٹھنڈی روشنی سے محظوظ نہ ہو ، جب ہوائیں چلتی ہیں تو ایک ایک نفس کو شاد کام کرتی ہے ، یہی حال پانی کا ہے ، اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذخیرہ کے تین نہایت ہی حیرت انگیز نظام رکھے ہیں ، ایک نظام ان بادلوں کا ہے جو خود شہر شہر ، گاؤں گاؤں ، کھیت کھیت اور باغ باغ پہنچ کر برستے ہیں اور ہر ایک کو مئے حیات کا پیمانہ بھر بھر کر دیتے ہیں ، گویا اللہ کی طرف سے فضا میں پانی کے یہ بڑے بڑے ذخیرے بنادیئے گئے ہیں ، یہ ایسی ٹنکیاں ہیں ، جو پورب سے پچھم اور اُتّر سے دکھن کا سفر طے کرتی رہتی ہیں ، ان میں لاکھوں لیٹر پانی خالق کائنات کی طرف سے محفوظ کردیا گیا ہے ، اگر انسان اتنا سارا پانی کسی ٹنکی میں محفوظ کردے تو تعفن پیدا ہوجائے اور دوچار مہینے کے بعد قابل استعمال بھی نہیں رہتے اور پھر پانی کی اتنی بڑی مقدار کو ضرورت کے لحاظ سے دور دراز علاقے تک پہنچانا آسان کام نہیں ؛ لیکن یہ قدرت کا نظام ہے کہ پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ فضا میں محفوظ کردیا گیا ہے اور وہ ہوا کے دوش پر اس طرح اپنا سفر طے کرتا ہے کہ گویا روئی کے ہلکے پھلکے ٹکڑے ہوں ، جن کو ہوا کا معمولی سا جھونکا ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑاتا پھرتا ہے ۔
دوسرا نظام ان برفیلی چٹانوں کی شکل میں ہے ، جو ہما لیہ اور اس جیسے بلند و بالا پہاڑوں پر یا بعض سمندروں کی سطح پر جم گئے ہیں ، یہ پانی کا ایک جامد خزانہ ہے جو ہمارے ماحولیات کے توازن کو قائم رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور دوسری طرف سال بھر پگھل پگھل کر اور اپنا خون جگر نچوڑ نچوڑ کر ہم تک پہنچاتا ہے ، یہی پانی ندیوں اور دریاؤں کی شکل میں ہم تک پہنچتا ہے اور اس کا بہت سارا پانی زیر زمیں جذب ہوجاتا ہے ، جس سے زمین میں نمی باقی رہتی ہے ، اس میں پودوں کو بارآور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے زمین کے اندر موجود پانی کے ذخیرہ میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی سطح اونچی ہوتی ہے ۔
تیسرا قدرتی نظام زیر زمین پانی کی موجودگی کا ہے ، بارش کا پانی اور پگھلتی ہوئی برف یہ سب زمین کے اندر پانی کے اس ذخیرے سے جاملتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں پھیلا رکھا ہے ، پہلے اس پانی کو حاصل کرنے کے لئے کنویں کھودے جاتے تھے اور اب مشین کے ذریعہ بور کیا جاتا ہے ، زیر زمین پانی کی سطح کبھی اونچی ہوتی ہے اور کم فاصلہ پر پانی مل جاتا ہے اور کہیں نیچی ہوتی ہے ، یہ پانی کا غیر معمولی ذخیرہ ہے جو انسان کی نگاہوں سے مخفی ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی پوری کائنات میں اس کو پھیلا رکھا ہے ، عام طورپر پانی کی قلت کے وقت یہی ذخیرہ انسان کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پانی کے ان تین بڑے ذخائر کو وجود بخشنے اور باقی رکھنے میں انسان کی صلاحیتوں اور محنتوں کا کوئی حصہ نہیں ، بادل انسان نے نہیں بنائے ہیں ، اللہ نے بنائے ہیں اور بادل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ انسانی طاقت یا انسانی کاریگری منتقل نہیں کرتی ، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت ِخاص سے منتقل کرتے ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان فضائی آلودگی پیدا کرکے اور جنگلات اور درختوں کو کاٹ کر قدرت کے قائم کئے ہوئے فطری نظام کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کی وجہ سے بارش کی قلت پیدا ہوجاتی ہے ، اسی طرح آسمان کو چھوتی ہوئی برفیلی چٹانوں کو پیدا کرنے میں انسان کا کوئی حصہ نہیں ہے ، ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گلیشیر کو نقصان پہنچارہا ہے اور اس سے سائنسداں زبردست نقصان کا اندیشہ کررہے ہیں ، زیر زمین پانی بھی انسانوں نے ڈول بھر بھر کر جمع نہیں کیا ہے اور ایک ایسی وسیع و عریض ٹنکی اس نے نہیں بنائی ہے جس میں پانی کی لہریں چلتی رہتی ہوں اور جو پتھروں اور مٹیوں کے درمیان رہنے کے باوجود صاف و شفاف اور غیر آلودہ طریقہ سے انسان کو دستیاب ہوتی ہو ، پانی کے ان ذخیروں کو انسان نے پیدا تو نہیں کیا ؛ لیکن اپنے عمل سے اس کو نقصان ضرور پہنچارہا ہے : ’’ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ‘‘ ۔ (الروم : ۴۱)
اللہ تعالیٰ نے اپنی ان غیر معمولی نعمتوں کو انسانوں کے کسی ایک گروہ کے لئے پیدا نہیں کیا ہے ؛ بلکہ اس میں تمام انسانوں کا حق رکھا گیا ہے ؛ اسی لئے فرمایا گیا کہ زمین میں جو کچھ ہے ، وہ ہم نے تم سبھوں کے لئے پیدا کیا ہے : ’’ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً‘‘ (البقرۃ : ۲۹) اس لئے یہ مزاج نہ ہونا چاہئے کہ اگر کسی کے پاس کنواں ہو ، بورنگ ہو ، پانی کھینچنے کا پائپ ہوتو وہ سمجھ لے کہ یہ ہماری ملکیت ہے ، اس میں اس کے پڑوسیوں کا اور محلہ کے لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے ، پانی کے یہ ذخیرے ایسے نہیں ہیں کہ اگر آج اس میں سے دو سو لیٹر کی جگہ چار سو لیٹر پانی نکال لیا جائے تو پانی نکالنے کی وجہ سے ذخیرہ ختم ہوجائے اور کل پانی نہ آئے ؛ بلکہ پانی جیسے جیسے نکالا جاتا ہے ، اسی طرح پانی آتا جاتا ہے ؛ بلکہ بعض دفعہ تو زیادہ پانی نکالنے کی وجہ سے پانی کے نئے سوتے کُھل جاتے ہیں ، مگر افسوس کہ پھر بھی انسان دوسرے انسانوں کے سلسلہ میں بخل سے کام لیتا ہے ۔
رسول اللہ ا نے پانی مہیا کرنے کو بے حد قابل اجر عمل بتایا ہے ، آپ انے فرمایا : پانی سے زیادہ اجر کا ذریعہ کوئی اور صدقہ نہیں ہے : ’’لیس صدقۃ اعظم اجر من ماء‘‘ ( بیہقی فی شعب الایمان ، حدیث نمبر : ۳۳۷۸) ایک موقع پر ارشاد ہوا کہ جو شخص کنواں کھودے تو اس میں سے جو بھی جاندار ، جنات ، انسان اور پرندہ پانی پیئے ، اللہ اس کو قیامت کے دن اجر عطا فرمائیں گے ، (صحیح ابن خزیمہ ، عن جابر بن عبد اللہ ، حدیث نمبر : ۱۲۹۲) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ انے فرمایا : ایک شخص جارہا تھا ، اسے شدت سے پیاس محسوس ہوئی ، وہ کنویں میں اُترا اور اس سے پانی پیا ، باہر آنے کے بعد دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور وہ مارے پیاس کے زمین کی تری کو کھانے کی کوشش کررہا ہے ، اس کے دل میں خیال آیا کہ جیسی پیاس مجھے لگی ہوئی تھی ، ایسی ہی پیاس اس کتے کو لگی ہوئی ہے ؛ چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں اُترا ، موزے کو پانی سے بھرا اور اسے منھ سے پکڑ کر چڑھتے ہوئے اوپر آیا اور کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اِس عمل کو قبول فرمالیا اور اس کی مغفرت کردی ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ا! کیا ہمیں جانوروں کو پانی پلانے میں بھی اجر ملے گا ؟ آپ انے ارشاد فرمایا : ہر زندہ چیز کو پانی پلانے میں اجر ہوگا : ’’ فی کل کبد رطبۃ اجر‘‘ ۔ (بخاری ، کتاب المساقات ، حدیث نمبر : ۲۲۳۴)
جہاں آپ انے پانی پلانے اور لوگوں کی پیاس بجھانے کی فضیلت بیان فرمائی ، وہیں اپنی ضرورت سے زیادہ پانی کو روک لینے اوردوسروں کو فائدہ اُٹھانے کا موقع نہ دینے کی بھی بڑی مذمت فرمائی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا : تین آدمی وہ ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف نگاہ رحمت نہیں فرمائیں گے اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کریں گے ؛ بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ، ان میں ایک وہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے راستہ چلنے والوں سے روک لے ، ( بخاری ، کتاب المساقات ، حدیث نمبر : ۲۲۳۰) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ انے فرمایا : تین افراد وہ ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ نہ مخاطب ہوں گے اور نہ ان کی طرف نگاہ رحمت ڈالیں گے ، ان میں ایک شخص وہ ہے جو اپنی ضرورت سے زیادہ پانی کو روک لے ، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ جیسے تم نے میری نعمت کو روک لیا تھا ، اسی طرح آج میں تم سے اپنی نعمتوں کو روک لوں گا ، جس کے ہونے میں تمہارے ہاتھوں کو دخل نہیں ، ( بخاری ، کتاب المساقات ، حدیث نمبر : ۲۲۴۰) — غور کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی بڑی تنبیہ ہے ، اگر اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنی نعمتوں کو روک لیں تو کیا اس کے لئے نجات کا کوئی راستہ ہوسکتا ہے ؟
آپ انے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کو روکنا نہیں چاہئے : پانی ، (خود رَو) گھاس اور آگ ، (ابن ماجہ ، عن ابی ہریرۃؓ ، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث ، حدیث نمبر : ۲۴۷۳) — پانی جیسی ضروری چیز کا انسان ضرورت کے بقدر ذخیرہ کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛ لیکن زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اسلامی اخلاق کے مغائر ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ اکے سامنے ایک مقدمہ آیا ، جس میں ایک کا دوسرے پر الزام تھا کہ اس دوسرے شخص نے اس کے کھیت کا پانی روک دیا ہے ، شکایت کرنے والے صاحب کا کھیت نشیب میں تھا اور جن کے خلاف شکایت کی گئی تھی ، ان کا کھیت اونچائی پر تھا ، آپ انے فیصلہ فرمایا کہ جس کا کھیت اونچائی پر ہے ، اس کا حق ہے کہ ٹخنے کے بقدر پانی روک لے ؛ لیکن اس کے بعد دوسروں کے لئے پانی کا چھوڑنا واجب ہے ۔ (ابن ماجہ ، عن عبادہ بن صامت ، باب الشرب من الأودیۃ ومقدار حبس الماء ، حدیث نمبر : ۲۴۸۳)
اُس زمانے میں زیر زمیں پانی نکالنے کے اس طرح کے وسائل پیدا نہیں ہوئے تھے ، جو ہمارے اِس دور میں پیدا ہوگئے ہیں ؛ تاہم اس حدیث سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں کو بورویل کی سہولت میسر ہو اور پانی کی ایسی قلت ہو کہ ہر شخص پریشان کن صورت حال سے دوچار ہو تو ایسے حالات میں ایک اسلامی اور انسانی فریضہ ہے کہ اپنی ضرورت کا بچا ہوا پانی دوسرے بھائیوں کو فراہم کیا جائے اور لوگوں کی ضرورت کا استحصال کرتے ہوئے ایک ایسی نعمت کی تجارت نہ کی جائے جس کو اللہ تعالیٰ نے سبھوں کے لئے پیدا کیا ہے ، جو کائنات کا مشترکہ اثاثہ ہے اور جو انسانی کوششوں ، محنتوں اور اخراجات کے ذریعہ وجود میں نہیں آئی ہے ۔
یہ بات بے حد افسوس ناک ہے کہ اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں قحط کی صورتِ حال ہے کہ کسان خودکشی کررہے ہیں ، بعض بڑے شہروں سے مزدور اپنے گاؤں کو واپس جارہے ہیں ، بہت سی جگہوں میں پانی کی ایسی قلت ہے کہ لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں ، مہاراشٹر اور ملک کی جنوبی ریاستیں خاص طورپر اس صورت حال سے دوچار ہیں ؛ لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بے توفیق لوگ ہیں جنھوںنے اس قدرتی مصیبت کو کمانے کا ذریعہ بنالیا ہے ، زرعی علاقوں میں کھیت کو سیراب کرنے کا پانی بیچا جارہا ہے اور من چاہی قیمتیں طلب کی جارہی ہیں ، شہروں میں عام ضروریات یہاں تک کہ پینے کا پانی فروخت کیا جارہا ہے ؛ حالاںکہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : تین چیزوں میں تمام مسلمان شریک ہیں : پانی ، خود رَو گھاس اور آگ ، اور پھر فرمایا : اس کی قیمت حرام ہے : ’’ المسلمون شرکاء فی ثلاث فی الماء والکلأ والنار ، وثمنہٗ حرام‘‘ ۔ (ابن ماجہ ، عن ابن عباسؓ ، کتاب الرہون ، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث ، حدیث نمبر : ۲۴۷۲) 
افسوس کہ آج کی دنیا میں لوگوں کی سوچ دنیا رُخی ہوگئی ہے ، یعنی انسان ہر چیز کو دنیا کے نقصان اور فائدے کی ترازو میں تولتا ہے ، نہ آخرت کی فکر ہے نہ انسانی اور اخلاقی اقدار کا لحاظ ہے ، نہ سماج کی محبت ہے اور نہ دوسروں کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنے کا جذبہ ہے ؛ حالاںکہ یہ وقت پیسے کمانے کا نہیں ، اجر و ثواب کے کمانے کا ہے ، لوگوں کی محبت کمانے اور ان کی دُعائیں حاصل کرنے کا ہے ، موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ :
(۱) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے گنجائش دی ہے ، وہ عام لوگوں کے فائدے کے لئے شہروں اور دیہاتوں میں کنویں کھدوائیں اور بور کریں اور لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کریں کہ اس سے بڑھ کر کوئی صدقہ جاریہ نہیں ۔
(۲) جن لوگوں کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ پانی مہیا ہے ، وہ اس پانی کو بیچنے کے بجائے بلا تفریق مذہب و ملت دوسرے بھائیوں کو فراہم کریں اور اس کی کوئی قیمت وصول کرنے کی کوشش نہ کریں ، انشاء اللہ یہ ان کے لئے بڑے اجر و ثواب کا باعث ہوگا ۔
(۳) جن لوگوں کو اتنی گنجائش میسر نہ ہو کہ وہ الکٹرک کے اخراجات برداشت کرسکیں ، یا گنجائش ہو ؛ لیکن حوصلہ نہ ہو ، وہ واقعی اخراجات پانی لینے والوں سے وصول کرلیں اور پانی فراہم کریں ، تو اُمید ہے کہ اس کے بارے میں وہ عند اللہ جوابدہ نہ ہوں گے ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
متعلقہ الفاظ
  • #شمع فروزاں
  • آپ بھی لکھئے

    اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

    یہاں سے ارسال کیجئے

    ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
    ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
    شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025