نصاب تعلیم میں اخلاقیات کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن اوصاف وامتیازات سے نوازا ہے، ان میں دوباتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ایک: علم، دوسرے: اخلاق، علم کا تعلق دماغ سے ہے اور اخلاق کا تعلق دل سے، علم کے معنی جاننے کے ہیں، یہ جاننا کبھی اپنے آپ ہوتا ہے، اس کے لئے نہ واسطے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ محنت کی، جیسے ایک شخص کے سر میں درد ہو، اسے اپنے آپ اس تکلیف کا ادراک ہوجاتا ہے، کبھی علم کسی واسطہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے؛ لیکن اس میں انسان کو محنت کرنی نہیں پڑتی، جیسے صبح کا سورج طلوع ہوا، سنہری دھوپ کائنات کے نشیب وفراز پر چھاگئی، اور ہر دیکھنے والے نے جان لیا کہ یہ دن کا وقت ہے، کسی جانے پہچانے شخص کو دیکھا اور فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ فلاں شخص ہے، یہ بھی علم کے حاصل ہونے ہی کی صورتیں ہیں؛ لیکن ان میں کوئی محنت ہے نہ مشقت اور نہ فکری تگ ودو کی ضرورت ہے، اس لئے یہ علم اور واقفیت تو ہے؛ لیکن اسے تعلیم نہیں کہا جاتا۔
علم کی ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کو کسی واسطہ سے بات معلوم ہو، اور اس بات تک رسائی کے لئے محنت بھی کرنی پڑے، اس کو ’’تعلیم وتعلّم‘‘کہتے ہیں، یہ صرف جاننا نہیں ہے؛ بلکہ جانکاری حاصل کرنا ہے، جو باتیں معلوم ہیں، ان کے ذریعہ نامعلوم باتوں تک اورجانی ہوئی حقیقتوں کے ذریعے انجانی حقیقتوں تک پہنچنا علم کا وہ اعلیٰ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے؛ اسی لئے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تو ان کے لئے تعلیم کا انتظام کیا گیا اور خو د حق تعالیٰ نے ان کو تعلیم دی ’’وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا‘‘ (البقرۃ: ۳۱)، تعلیم ایسی چیز ہے، جس کے ذریعہ دور رس انقلاب پیداکیا جاسکتا ہے اورانسانی تاریخ میں ہمیشہ انسان کے اندر فکری انقلاب لانے کے لئے اسی ہتھیار کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
عربی زبان میں ’’خلق‘‘ کے معنی پیدا کرنے کے ہیں، انسان جب پیدا ہوتاہے، توجہاں وہ ایک ظاہری شکل وصورت لے کر آتاہے، وہیں کچھ باطنی صفات بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہیں، ظاہری شکل وصورت بالکل واضح ہوتی ہے، اس کا رنگ وروپ، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ اور ہاتھ پاؤں، وغیرہ، جنہیں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے اور اگر ان میں کوئی کمی محسوس کی جائے تو ڈاکٹروں کے ذریعہ علاج بھی ہوتا ہے، اس کو ’’خَلق‘‘ یعنی جسمانی ہئیت وشکل کہتے ہیں، انسان کی باطنی اور اندرونی صفات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، تواضع یا کبر، غصہ یا بردباری، محبت یا نفرت، ایثار یا خود غرضی وغیرہ، ان کو ’’خُلق‘‘ یعنی اخلاق کہتے ہیں، جیسے جسم کی ظاہری بیماریوں کا علاج ہوا کرتا ہے، اسی طرح اخلاقی بیماریاں بھی لاعلاج مرض نہیں ہیں، یہ بھی قابلِ علاج ہیں، اللہ کے پیغمبروںاور رسولوں کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اخلاقی امراض اور روحانی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔
اخلاق کو سنوارنے اور قلب وروح کو بیماریوں سے شفایاب کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ’’تعلیم‘‘ بھی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تزکیہ اخلاق، آیات قرآنی کی تلاوت اور کتاب وحکمت کی تعلیم کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے ذکر فرمایا ہے يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ (آل عمران: ۱۶۴) — انسان کے اندر خیر اور شر دونوں کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، بھلائی کا جذبہ بھی اس کے اندر پنہاں ہے اوربرائی کی خواہش بھی اس کے اندر کروٹ لیتی رہتی ہے، انسان کی پوری زندگی اسی کشمکش میں گذرتی ہے اور وہ اس امتحان میں جس درجہ کامیابی حاصل کرتا ہے، یا ناکامی سے دوچار ہوتا ہے، اسی لحاظ سے وہ آخرت میں جزا یا سزا کا مستحق ہوگا۔
تعلیم انسان کو نیکی اوربدی کی اس کشمکش میں نیکی پر راغب اور بدی پر فتح یاب کرتی ہے، پھر جب انسان کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے علم کو بہتر طور پر استعمال کرتا ہے، پس علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے، اچھی تعلیم انسان کو اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے اور اخلاق کی وجہ سے انسان کا علم حقیقی معنوں میں نافع بنتا ہے، جس کی رسول اللہ ا نے دعا فرمائی ہے ’’اللھم أسئلک علما نافعا‘‘ (ابن ماجہ: کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ما یقال بعد التسلیم، حدیث نمبر: ۹۲۵) اگر علم کے ساتھ اخلاق نہ ہو تو اکثر اوقات اچھا سے اچھاعلم انسان کو فائدہ پہنچانے کے بجائے انسانیت کے لئے نقصان اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے، اس کی واضح مثال جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ وجود میں آنے والی چیزیں ہیں، انسان نے ایٹم کو دریافت کیا اور ایٹمی طاقت تک رسائی حاصل کی، اگر انسان اپنی صلاحیت کا استعمال اچھے مقاصد کے لئے کرتا تو آج پوری دنیا میں شہر سے لے کر دیہات تک کوئی گھر روشنی سے محروم نہیں ہوتا، ہر گھر میں بجلی کی وافر سہولت مہیا ہوتی؛ لیکن ہوا یہ کہ انسان نے اپنی صلاحیت کو ہلاکت خیز اور انسانیت سوز ہتھیاروں کے لئے استعمال کیا اوردنیا میں ناگاسا کی اور ہیروشیما جیسے حادثات پیش آئے کہ انسان اس پر جس قدر آنسو بہائے کم ہے، ذرائعِ ابلاغ میں غیر معمولی ترقی ہوئی، ٹی وی، انٹر نیٹ اور موبائل نے انسان کے لئے یہ ممکن بنادیا کہ وہ لمحوں میں اپنی بات ہزاروں میل دور تک پہنچا دے، وہاں کے حالات کو سر کی آنکھوں سے دیکھے، ان ذرائع کو بہترین دینی اوردنیوی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، سماج تک اخلاق ومحبت کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے، تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے، دور دراز علاقوں سے معلومات کا تبادلہ ہوسکتا ہے، تجارت اورکاروبارکو فروغ دیا جاسکتا ہے، مظلوموں تک اپنی مددپہنچائی جاسکتی ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ ان مقاصد کے لئے بھی ان وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرہ میں بے حیائی اور عریانیت کو جو فروغ حاصل ہوا ہے، جرائم کی جو کثرت ہوئی ہے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی جو کوشش ہوئی ہے، ان میں بھی ان ذرائعِ ابلاغ کا بہت بڑا رول ہے۔
ہو نا تو یہ چاہئے تھاکہ جیسے جیسے تعلیم کی روشنی پہنچتی، ویسے ویسے جرائم کم ہوتے اور برائیاں مٹتی چلی جاتیں؛ لیکن عملی صورتِ حال اس سے بالکل مختلف ہے، حقیقت یہ ہے کہ تعلیم یافتہ مجرمین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۲ ء کو دہلی میں زنا بالجبر کا جو تکلیف دہ واقعہ پیش آیا، اس میں جرم کا ارتکاب کرنے والے کالج کے طلبہ ہی تھے، اس کے بعد سے آئے دن اس طرح کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، زیادہ تر واقعات میں ان نوجوانوں کا نام آتا ہے، جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں، امریکہ دنیا کا سپر پاور ہے اور نہ صرف دفاعی قوت اور معاشی بالادستی میں پوری دنیا کے لئے نمونہ تقلید بنا ہوا ہے؛ بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد میں بھی اسی کی برتری تسلیم شدہ ہے، تعلیمی اعتبار سے بھی امریکہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے؛ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں جس نئے نظامِ تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے، اسی میں بھی امریکہ کے نقوشِ قدم کو سامنے رکھاگیا ہے۔
لیکن امریکہ میں طلبہ وطالبات کے اندر جرائم کی شرح میں جو روز افزوں اضافہ ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ نیشنل کرائم سروے ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں جنسی تشدد اور ہراسانی کے واقعات چھ لاکھ باون ہزار آٹھ سو، چوری کے واقعات تین لاکھ اکہتر ہزار تین سو، تشدد کے واقعات ایک لاکھ سینتیس ہزار تین سو ہیں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنسی تشدد اور ہراسانی کے واقعات میں دو لاکھ بہتر ہزار تین سومعاملات لڑکیوں کی طرف سے پیش آئے ہیں اور یہ اعداد وشمار ان طلبہ وطالبات کے ہیں، جو بارہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جرائم کی شرح کس رفتار سے بڑھ رہی ہے، ہندوستا ن میں غالباً اسکولوں اور یونیورسیٹیوں میں جرائم کی سروے رپورٹ موجود نہیں ہے؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جرائم کی رفتار اس سے زیادہ تیزر فتاری سے بڑھ رہی ہے، جو رفتار شرحِ تعلیم میں اضافہ کی ہے، مثلا ۱۹۵۲ میں قتل کے نوہزار آٹھ سو دو اور اغواء کے پانچ ہزار دو سو اکسٹھ واقعات پیش آئے اور ۲۰۰۶ء میں قتل کے بتیس ہزار چار سو اکیاسی اوراغواء کے تیس ہزار نوسو اکیانوے واقعات پیش آئے، کم وبیش یہی حال دوسرے جرائم کا ہے، یعنی ملک میں تعلیم کے بڑھنے کی وجہ سے جرائم کم ہونے چاہئیں؛ لیکن جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے؛ بلکہ بعض برائیاں تو ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ہی میں پائی جاتی ہیں، جیسے کرپشن، کرپشن کے نوے فیصد واقعات اعلیٰ سیاسی قائدین، اونچے درجہ کے سرکاری وپرائیویٹ عہدیداران اور صنعت کاروں میں پائے جاتے ہیں، جنہوں نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، شاید انگریز بھی اس ملک سے اتنی دولت سمیٹ کر نہیں لے گئے تھے جتنی رشوت خور سرکاری عہدیدار وں نے لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریوں اور سوئز بنکوں میں محفوظ کر رکھی ہے۔
یہ بیماری اس قدر روز افزوں ہے کہ جن شعبوں کو خدمت خلق کا شعبہ سمجھاجاتا ہے، ان میں بھی اب یہ بیماری سرایت کرچکی ہے، اساتذہ امتحان میں پیسہ لے کر نمبر دیتے ہیں، تعلیمی ماہرین رشوت لے کر اساتذہ کی تقرری کراتے ہیں، ڈاکٹر مریض سے فیس لینے کے علاوہ فارمیسی سے، پیتھالوجسٹ سے اور ہسپتالوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں، بلاوجہ ٹیسٹ لکھتے ہیں، بلا سبب دوائیں تجویز کرتے ہیں اور بلاضرورت آپریشن کا کیس بناتے ہیں، انجینئرس تعمیری میٹریل کے بارے میں غلط رپورٹ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پلوں اور اور عمارتوں کے گرنے کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں، یہ سب جاہل وناخواندہ لوگوں کی طرف سے نہیں؛ بلکہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے پیش آتا ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ کتنا بھی مفید علم ہو، اگر اخلاق سے اس کا رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ نافع کے بجائے مضر اور مفید کے بجائے نقصان دہ بن جاتا ہے۔
اسی لئے اسلام کا تصور یہ ہے کہ صرف تعلیم کا فی نہیں ہے؛ بلکہ تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے، رسول اللہ ا پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں فرمایا گیا: ’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ‘‘ (العلق: ۱)یعنی اپنے پروردگار کے نام سے پڑھئے،گویا پڑھنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ پڑھائی اللہ کے نام سے جڑی ہوئی ہو؛ کیوں کہ جب پڑھنے والا اپنی تعلیم کو اللہ کے نام سے جوڑے رکھے گا تو خشیت پیدا ہوگی اور وہ اخلاق سے آراستہ ہوگا، رسول اللہ ا نے علم کی دعاء اس طرح فرمائی ہے: 
’’اللھم أغننی بالعلم، وزینی بالحلم، وأکرمنی بالتقوی، وجملنی بالعافیۃ‘‘ (کنز العمال: ۲؍۱۸۵، حدیث نمبر: ۳۶۶۳)
اے اللہ! مجھے علم کی دولت عطا فرمایئے، حلم وبرد باری سے آراستہ فرمائیے، تقوی کے ذریعہ عزت عطا کیجئے اور عافیت کے ذریعہ میرے حالات کو بہتر رکھئے۔
اس دعا میں آپ ا نے علم کی دعاء کے ساتھ ساتھ حلم وبردباری کا ذکر فرمایا ہے، جو بہتر اخلاق کی بنیاد اور اساس ہے، آپ ا نے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بارے میں فرمایا کہ باپ اپنی بیٹی کو تعلیم دے اوربہتر تعلیم دے اور ادب واخلاق سکھائے اور بہترادب واخلاق سکھائے: ’’علّمھا فأحسن تعلیمھا وادّبھا فأحسن تأدیبھا‘‘(بخاری: کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری، حدیث نمبر:۵۰۸۳) غرض کہ رسول اللہ ا نے حصول علم کو کافی نہیں سمجھا؛ بلکہ اس کے ساتھ اخلاق کو بھی ضروری قراردیا؛ کیوں کہ جب علم کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹ جاتا ہے، تو علم جیسی قیمتی شئے کا استعمال صلاح کے بجائے فساد اور بناؤ کے بجائے بگاڑ کے لئے ہونے لگتا ہے۔
یہ بات یقیناً باعث مسرت ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے، قانونی طور پر بھی تعلیم کو ہر بچہ کا بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا ہے؛ تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہمارے ملک کے ہنرمندوں کو پوری دنیا خراجِ تحسین پیش کرتی ہے؛ لیکن یہ بات اسی قدر افسوسناک ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم اخلاقی اقدار سے خالی ہوتی جارہی ہے، اس پر حکومت کو بھی توجہ کرنے کی ضروت ہے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھی اورخاص کر مسلمانوں کے زیرِ انتظام اداروں کو؛ کہ وہ تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی طرف توجہ دیں، بقول شاعر حقیقت شناس اکبر الہ آبادی:
تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں جھولو 
ممکن ہے فضاؤں میں اڑو، عرش کو چھوؤ
بس ایک سخن بندۂ عاجز کی رہے یاد 
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو 

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024