جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی پاکستان
برصغیر-پاک وہند و بنگلہ دیش-کے مسلمانوں پر علماءحق کا بہت بڑا احسان ہے، جنہوں نے دینی مدارس اور جامعات قائم کرکے ایک طرف دینی علوم – علوم نبوت – کی ضفاظت کی تو دوسری طرف ایسے علماء حق پیداکئے جنہوں نے اس امت کی دینی، ایمانی اور اخلاقی تربیت فرمائی، اسی کی برکت ہے کہ آج شعائر اسلام زندہ ہیں، معروف اور منکر کا فرق واضح ہے اور دلوں میں ایمان کی حرارت باقی ہے۔
علماء حق کی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہمارے شیخ محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالی تھے، جنہیں اکابر امت کا تلمذ اور رفاقت نصیب ہوئی اور اپنی پوری زندگی علوم نبوت کی تعلیم و تدریس میں گزاری-فياله من سعادة –
اس طریل تجربہ سے آپ کے دل میں ایک داعیہ پیدا ہوا کہ اگر اللہ تعالی توفیق دے تو ایک ایسا علمی ادارہ قائم کروں جو منفرد خصوصیات کا کا حامل ہو اور جس سے باصلاحیت علماء ربانین پیدا ہوں جو امت کی صحیح راہنمائی کرسکیں، اس داعیہ کو حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اس مقدمے میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے، جو آپ نے "دليل الجامعة" کیلئے لکھا تھا۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ کی محنت کو اللہ تعالی نے قبولیت بخشی اور ان کی زندگی میں اس جامعہ کی حیثیت ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ہوگئی، جہاں سے پاکستان اور بیرون پاکستان کے ہزاروں تشنگان علم فیض یاب ہوکر اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں کام کرنے لگے۔
حضرت شیخ رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد ان کے جانشینوں کے دور میں اللہ تعالی نے جامعہ کو مزید ترقی عطا فرمائی اور اس کی کراچی میں بہت سی شاخیں قائم ہوگئیں، جن میں مرکز سمیت اس وقت بارہ ہزار سے زائد طلبہ اور طالبات علم حاصل کررہے ہیں۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ
میں نے اپنی پوری زندگی دینی اداروں کے زیر سایہ یاتو بحیثیت طالب علم، علم کے حصول میں گزاری یا بحیثیت مدرس اور استاذ درس وتدریس میں۔ میری جوانی علماء کرام سے استفادہ میں گزری، خواہ وہ مسجدوں میں درس کی شکل میں ہو یا علمی اور دینی مدرسوں اور اداروں کی صورت میں، نیز مختلف علمی مراحل میں تعلیم کے فرائض انجام دیتا رہا اور مختلف دینی مناصب پر بھی فائز رہا، عقل کی پختگی اور تجربے کے بعد دینی مدارس میں تدریس کے دوران ان اداروں کی تعلیمی حالت پر غور وفکر کرتے ہوئے مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ اگر مستقبل میں مجھے کوئی دینی مدرسہ یا علمی ادارہ قائم کرنے کی توفیق ملی تو میں اس میں مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کروں گا:
(۱) موجودہ رائج الوقت نصاب اور نظام تعلیم میں ایسی مناسب تبدیلیاں لانا جن سے ایسے علماء پیدا ہوں جو عصر حاضر میں اسلام کی صحیح خدمت کرسکیں۔
(۲) طلبہ کی ایسی دینی اور اخلاقی نگرانی ہو جس طرح اسباق اور نظام تعلیم میں ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔
(۳) طلبہ کے افکار کی اصلاح کی جائے اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ سند حاصل کرکے سرکاری یا غیر سرکاری منصب حاصل کرلیا جائے، خواہ وہ تدریس کی صورت میں ہو یا خطابت اور تصنیف وتالیف کی شکل میں، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ دینی علوم میں کمال اور مہارت پیدا کی جائے تاکہ دین کی صحیح خدمت ہوسکے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرسکے اور دین اورحق کی سربلندی کے لئے جان بھی قربان کردے تاکہ علوم نبوت اور میراث نبوی ا سے کچھ حصہ مل جائے، مال وجاہ، شہرت ومنصب، لوگوں کی تعریف اور ثنا مقصود نہ ہو بلکہ ان تمام مادی چیزوں سے برتر و بالا ہوتا کہ ان تمام انعامات کا مستحق بن سکے جن کا ذکر احادیث نبویہ میں وارد ہوا ہے، مثلاً: آخرت میں بلند درجات کا ملنا، اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونا، فرشتوں ، سمندر کی مچھلیوں اور ہرچیز کا اس کے لئے دعا کرنا وغیرہ۔
(۴) خدمت دین کی غرض سے طلبہ میں موجودہ دور کے مطابق لکھنے اور بولنے کی ایسی مہارت پیدا کی جائے جس سے سننے والوں کے دل میں ان کی بات کی قدر ومنزلت ہو۔
(۵) فصیح وبلیغ عربی زبان کے لکھنے اور بولنے کا ملکہ پیدا کیا جائے اس کے لئے ایسی کتابوں کا مطالعہ کرایا جائے جو اس سلسلہ میں معاون ثابت ہوں، اور بولنے اور تلفظ کی ایسی مشق کرائی جائے جس سے زبان کی کمزوریاں دور ہوں۔
(۶) طالبعلم کا تاریخ سے بھی لگاؤ ہو ،خاص کر اسلامی علمی تاریخ سے،اس کے لئے اچھی کتابوں کا مطالعہ کرایا جائے،جیسے ابن قتیبہ کی "المعارف"، ابن سید الناس کی "عیون الشمائل" اور "السیر"، ابن جوزی کی "تلقیح فہوم الأثر"، "مقدمة تاریخ ابن خلدون" اور سخاوی کی "الإعلان بالتوبیخ" اور ان جیسی دوسری کتابیں۔
(۷) نصاب تعلیم میں ہرجماعت کے لئے تاریخ کی ایک مناسب کتاب رکھی جائے چاہے اسے پڑھایاجائے یا اس کا مطالعہ کرایاجائے لیکن اس میں امتحان ضرور لیا جائے۔
(۸) منطق اور فلسفہ کے بجائے نقلی علوم کا اہتمام زیادہ ہو، جیسے علوم قرآن، علوم حدیث، اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ۔
(۹) مروّجہ نصاب کے بعد مختلف علوم میں تخصّص کے درجات کھولے جائیں، جیسے "التخصّص فی الحدیث، التخصّص فی الفقہ الاسلامی، التخصّص فی الدعوة والارشاد" وغیرہ تاکہ ہرطالب علم اپنے ذوق کے مطابق ان میں سے کسی تخصّص میں داخلہ لے سکے، اس لئے کہ ہمتیں پست اور استعداد اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ تمام علوم کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اور علوم بھی کافی پھیل چکے ہیں، اس لئے تمام علوم میں مہارت حاصل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔
(۱۰) ایسے نیک صالح علماء، اساتذہ اور مدرسین کا انتخاب کیا جائے جو اخلاص کے ساتھ تقویٰ سے بھی آراستہ ہوں اور کمال علمی کے ساتھ ان میں محنت، مشقت اور طلبہ کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ بھی پایا جاتاہو اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔
اس قسم کے عظیم علمی کاموں کووہی لوگ سرانجام دے سکتے ہیں جو خود بھی عظیم اور بلند شخصیت کے مالک ہوں، جن کے دل اخلاص اور یقین صادق سے معمور ہوں،جن کو علوم ومعارف میں مہارت کے ساتھ ساتھ اہل دل کی طویل صحبت نصیب ہوئی ہو اور ان کا رنگ ان پر چڑھ چکاہو،استقامت اور عمل پیہم ان کی فطرت بن چکاہو، تنگی، گھبراہٹ اور تھکن سے نا آشنا ہوں، حق کے لئے فنا ہوں، اپنے اوقات کی ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیارہوں اور انکا مقصد نئی نسل کی ایسی تعلیم وتربیت ہو جس سے وہ عالم ربانی بن کرپورے عالم میں منارہٴ ہدایت بن کر پھیل جائیں اور اللہ جل شانہ کی توفیق اور مدد سے ہر پیاسے کے لئے سیرابی اور ہربیمار کے لئے شفا بن جائیں، یہ وہ خصوصیات ہیں جن کا مجھ جیسا شخص کیسے اہل ہو سکتا تھا،چنانچہ برسوں اس سلسلہ میں غور وفکر کرتا رہا، اسی دوران ذو الحجہ ۱۳۶۹ھ کے اواخر میں حج سے فراغت کے بعد میری رفیقہٴ حیات نے مکہ مکرمہ میں ایک خواب دیکھا، جس کی تعبیر میں یہ سمجھا کہ عنقریب مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق نصیب ہوگی جس کا میں آرزومند تھا۔
چنانچہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے میں نے مناسب سمجھا کہ اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری کے ساتھ دعائیں اور ماثور استخارے کروں، اس مقصد کے لئے میں نے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تاکہ اس کی برکت سے مجھے توفیق نصیب ہو، الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے تمام مقامات مقدسہ اور مشاعر حج میں مجھے آہ وزاری اور دعا کی توفیق عطا فرمائی، پھر حرم نبوی میں حاضری ہوئی اور ایک ماہ سے زیادہ مدینہ منورہ میں قیام کیا، رو رو کر دعائیں کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اس کام کے لئے مطمئن کردیا، حج سے وطن واپس لوٹا، میرے سامنے کام کرنے کا راستہ نہایت مبہم اور غیر واضح تھا، مادی وسائل مفقود تھے، میں برابر سوچتا اور غور وفکر کرتا رہا، آخر کار ایک ایسے خطہٴ زمین میں کام شروع کردیا جہاں نہ کوئی مکین تھا نہ مکان کہ جس میں بارش یا دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لئے پناہ لے سکوں، نہ ضروریات پوری کرنے کی کوئی جگہ تھی ،نہ راحت وآرام کی، اس سے قبل میں نے اخبارات میں ان فضلاء کے لئے جو درس نظامی سے فارغ ہوچکے ہوں، "تکمیل" کا درجہ کھولنے کا اعلان کیا تھا جس میں قرآن کریم، سنت نبویہ، فقہ اسلامی اور عربی ادب جیسے علوم کی خصوصی تعلیم دینا مقصود تھا، میرے اس اعلان پر دس فضلاء نے لبیک کہی، چنانچہ ان دس فضلاء سے میں نے کام شروع کیا، میں اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کہ اس سلسلہ میں ہمیں کن پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہمیں صبر واستقامت کی دولت سے نوازا۔
بہرحال ہمارے اس کام کی ابتداء نہایت سادگی اور معمولی حیثیت سے ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی عرصہ میں اسے ترقی عنایت فرمائی اور سال بسال ہم تعلیمی اور تعمیری، دونوں میدانوں میں آگے بڑھتے رہے، جو محض اللہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم تھا۔
یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ علمی ادارہ اپنے خصائص کے اعتبار سے اگرچہ ایک علمی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتاہے لیکن میں نے پروپیگنڈے اور شہرت سے دور رہنے کے لئے تواضعاً ابتداء میں اس کا نام " المدرسة العربیة" رکھا، اگر بغیر نام کے کام کرنا ممکن ہوتا تو میں یہ نام بھی نہ رکھتا، بعد میں معلوم ہوا کہ کراچی میں اس نام سے ایک اور مدرسہ بھی ہے جسے کویت کی حکومت چلا رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاک وغیرہ میں خلل پڑتا تھا، اس لئے میں نے اس کے ساتھ "الاسلامیة" کا لفظ بڑھایا اور اس کا نام "المدرسة العربیة الاسلامیة" ہوگیا۔ میری خواہش یہ تھی کہ یہ نام باقی رہے، اس میں تواضع بھی ہے اور اپنی قدیم تاریخ سے تعلق بھی، کیونکہ اسلامی تاریخ مدرسہ اور مدارس کی اصطلاحات سے بھری پڑی ہے،میں نئے ناموں اور نئی اصطلاحات سے بچنا چاہتا تھا، جو زیادہ ترمغرب کی اجنبی زبانوں سے لی گئی ہیں، چنانچہ بیس سال سے زیادہ اس ادارے کا یہی نام باقی رہا،لیکن ملکی اور غیر ملکی کچھ ایسے عوامل پیش آئے جن سے مجبور ہوکر اس کا نام بدلنا پڑا اور اس کا نیا نام "جامعة العلوم الاسلامیة" رکھا گیا
محمد یوسف بنوری
نظم ونسق
مولانا مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ کی وفات (۱۴/ رجب ۱۴۱۱ھ بمطابق۲۱ جنوری ۱۹۹۱ء) کے بعد جامعہ کی مجلس شوریٰ اور اساتذہ کا اجتماع منعقد ہوا اور ارکان مجلس نے بالاتفاق مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار صاحب رحمہ اللہ کو جامعہ کا مہتمم اورمولانا سید محمد بنوری رحمہ الله کونائب مہتمم مقرر کیا ۔
اغراض و مقاصد
جامعہ کا اہم مقصد ایسے علماء وفضلاء اور اسلام کے داعی تیار کرنا ہے جو کمال علم کے ساتھ تقویٰ، للہیت اور اخلاص کے زیور سے آراستہ ہوں، جن کا مقصد ِاساسی دین اسلام کی حفاظت، اس کی نشر واشاعت اور امت مسلمہ کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی ہو۔
دوسری جامعات، مدارس اور علمی اداروں کے ساتھ روابط پیدا کرنا اور علمی، تدریسی اور تجرباتی میدان میں ان سے تعاون کرنا۔
نئی نسل کو مذہب سے قریب کرنا اور دینی اقدار اور اسلامی آداب وثقافت سے روشناس کرانا ۔
مسلمان عوام کی اصلاح وراہنمائی اور انہیں ملحدانہ افکار وباطل نظریات سے بچانے کے لیے علمی وتصنیفی کام کرنا۔
عربی کی اہم اور مفید کتابوں کا اردو اور اسی طرح اردو کی اہم اور مفید کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرکے ان کی طباعت کا انتظام کرنا۔
۲/رجب المرجب ۱۴۱۸ھ بمطابق ۲ نومبر ۱۹۹۷ء کو حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ کی مظلومانہ شہادت کا سانحہٴ فا جعہ پیش آیا تو حسب معمول جامعہ کی عمومی شوریٰ (جس میں جامعہ اور شاخہائے جامعہ کے تمام اساتذہ شامل تھے) میں اتفاق رائے سے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے رفیق سفر وحضر اور قابل فخر شاگرد حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم کو جامعہ کا مہتمم مقرر کیا گیا اور حضرت مولانا سید محمد بنوری رحمہ الله کو نائب مہتمم کے عہدہ پربدستور برقرار رکھا ،پھر ۱۴۱۹ھ بمطابق ۱۹۹۸ء کو جب مولانا سید محمد بنوری رحمہ اللہ کی وفات کا سانحہ پیش آیا تو جامعہ کی مجلس شوریٰ نے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا سید سلیمان یوسف بنوری حفظہ اللہ کو جامعہ کا نائب مہتمم مقرر کیا ۔
شعبے
ناظرہٴ قرآن کریم
جامعہ کے اس شعبہ میں آنے والے بچوں کو پہلے "قاعدہ" اور پھر ناظرہ ٴقرآن کریم اول تا آخر تجوید اور صحیح قراء ت کے ساتھ پڑھایاجاتاہے ،اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کواساتذئہ کرام اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروری احکام خصوصاً وضو، طہارت اور نماز سے متعلق مسائل سکھاتے ہیں۔ اس شعبہ میں اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کے لیے یہ سہولت بھی موجود ہے کہ ان میں سے صبح اسکول جانے والے دوپہر کو اور دوپہر میں اسکول جانے والے صبح کے اوقات میں پڑھیں۔
تحفیظ قرآن کریم
جامعہ کا ایک اہم شعبہ "تحفیظ القرآن الکریم "ہے جس میں ناظرہ کے بعد بچوں کوقرآن کریم حفظ کرایا جاتاہے ،جامعہ کے قیام کے بعد اب تک جامعہ اور اس کی شاخوں سے ہزاروں کی تعداد میں بچے اور بچیاں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور اس وقت بھی اس شعبہ میں ہزاروں طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔
تجوید
جامعہ میں" فن تجوید "پر بھی پوری توجہ دی جاتی ہے تاکہ ہرطالب علم قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ سکے، اس لئے درجات حفظ کے علاوہ "درس نظامی "کے ابتدائی اور ثانوی درجوں میں بھی تجوید لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے جسے فن تجوید کے ماہر اساتذہ پڑھاتے ہیں ۔
متوسطہ
درس نظامی
ان مراحل میں جو علوم پڑھائے جاتے ہیں وہ ترجمہ وتفسیر قرآن کریم ، اصول تفسیر، حدیث نبوی، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم میراث، علم کلام، سیرت نبوی، تاریخ اسلام اوردیگر علوم عربیہ جیسے صرف، نحو، لغت، بلاغت، ادب، عروض وقوافی، منطق، فلسفہ اورفلکیات وغیرہ پرمشتمل ہیں۔
جامعہ میں وفاق المدارس العربیہ کامجوزہ نصاب پڑھایاجاتاہے ،جامعہ کی مجلس تعلیمی نے بعض درجات میں وفاق کے نصاب کے علاوہ کئی دیگر مفید کتابیں بھی شامل کی ہیں ۔
متوسطہ (مڈل ) اور درس نظامی پڑھنے کے بعد وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے "عالمیہ " (مساوی ایم اے ) کی سند دی جاتی ہے۔
صفوف عربیہ
تخصّصات
اس وقت تک جامعہ میں تخصّص فی الفقہ الاسلامی ،تخصّص فی الحدیث اور تخصّص فی الدعوة والارشاد کے شعبوں سے کثیر تعداد میں فضلاء مستفید ہوکر پوری دنیا میں علم دین کی خدمت میں مصروف ہیں ۔
تعلیم بنات
جامعہ میں طالبات کے لیے ایک الگ مستقل عمارت قائم ہے جہاں وہ چھ گھنٹے پڑھتی ہیں اور اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی ہیں ، ان کی آمد ورفت کے لیے جامعہ کی طرف سے ایک مقررہ نظام کے تحت ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی موجود ہے ۔
تعلیم بالغان
یہاں خصوصیت کے ساتھ یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ جامعہ کے خدام ، چوکیداراور ڈرائیور وغیرہ اس میں لازمی طور پرشرکت کریں تاکہ وہ دینی ماحول میں رہنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو تجوید سے پڑھناسیکھیں اور ضروری دینی تعلیم بھی حاصل کرسکیں ،ان کا باقاعدہ امتحان ہوتا ہے اور امتیازی نمبر حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔
تعلیم وتربیت
اس کورس کا اہتمام جامعہ کے زیر نگرانی ملک وبیرون ملک متعدد مقامات پر ہر سال کیا جاتا ہے،جس سے عصری تعلیم گاہوں کے ہزاروں طلبہ وطالبات مستفید ہوتے ہیں۔
تمرین خطابت
سال کے آخر میں جامعہ وشاخہائے جامعہ میں اپنی اپنی کلاسوں کی سطح پر اساتذہٴ کرام کی نگرانی میں تقریری مقابلہ ہوتا ہے ،پھر ان مقابلوں میں ہر کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کے درمیان تقریری مقابلہ ہوتا ہے جس میں اول ، دوم ، سوم آنے والے طلباء کو جامعہ کی طرف سے خصوصی انعام دیا جاتا ہے ، جبکہ مقابلہ کے دیگر شرکاء کو بھی حوصلہ افزائی کے لیے انعام دیا جاتا ہے۔
خوشنویسی
دورئہ تدریبیہ
اس "دورہ "کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ درس نظامی سے فارغ ہونے والے فضلاء کراماہل سنت والجماعت کے مسلکِ حق کے بارے میں علی وجہ البصیرة مہارت وکمال حاصل کریں اور باطل وملحدانہ نظریات کے بطلان کے لیے مثبت انداز میں علمی استعداد پیدا کریں تاکہ بوقت ضرورت امت کی صحیح راہنمائی کرسکیں ، اس دورہ میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو تدریس و خطابت کا طریقہ اوراس کے اصول بھی سکھائے جاتے ہیں ۔
دارالافتاء
یہ جامعہ کا وہ شعبہ ہے جس پر مسلمانوں کو اپنے شرعی مسائل کے حل کے لیے مکمل اطمینان واعتماد ہے ،مفتیان کرام شرعی فتاوی صادر فرماکران کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کاجواب تحریری صورت میں دیتے ہیں ،اسی طرح یومیہ کثیر تعداد میں لوگ خود حاضر ہوکر زبانی مسائل بھی پوچھتے ہیں، اس کے علاوہ ملک وبیرون ملک سے ڈاک کے ذریعہ آنے والے سوالات کے جوابات بھی ارسال کیے جاتے ہیں،نیز مسلمان ذاتی ، خانگی اور اجتماعی معاملات میں بذریعہ فون بھی مسائل دریافت کرتے ہیں ۔
دار الافتاء سے سالانہ ہزاروں فتاویٰ جاری ہوتے ہیں اورجن کا باقاعدہ ریکارڈ رکھاجاتا ہے، اس وقت تک تقریباً تین لاکھ سے زائد فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں۔
جو غیرمسلم برضا ورغبت اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں انہیں دار الافتاء میں کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے اور"سنداسلام" بھی جاری کی جاتی ہے، اب تک تقریباً ساڑھے چھ ہزار غیر مسلم دار الافتاء آکر اسلام قبول کرچکے ہیں۔
تدوین فتاویٰ
کتب خانہ (لائبریری)
"دار التصنیف " کی مطبوعات میں سرفہرست محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ الله کی شاہکار تصنیف جامع الترمذی کی عربی شرح "معارف السنن "ہے جو ان کے علم وفن کی آئینہ دار ہے ۔
اسی طرح حضرت مولانا بنوری قدس اللہ سرہ کے مایہ ناز شاگرد ، سابق رفیق دارالتصنیف اوراستاذ جامعہ مولانا محمد امین صاحب اورکزئی دامت برکاتہم نے حضرت بنوری کے ارشاد وراہنمائی سے "شرح معانی الآثار للإمام الطحاوی "کے ایک معتد بہ حصے پر نہایت تحقیقی کام کیا ، جو تخریج احادیث طحاوی کے ساتھ امام طحاوی کی نظر کے بیان اور مشکلات کے حل سے متعلق ہے ، یہ عظیم کام بھی اسی شعبہ کے تحت شروع ہوا، الحمد للہ اب محترم موٴلف نے اس کو زیور طباعت سے آراستہ کرکے "نثر الأزھار علی شرح معانی الاٰثار" کے نام سے پیش کردیا ہے۔