دسمبر کی بے وفائی
نہیں ہے بے وفا کوئی دسمبر سا زمانے میں گھماتا ہے مجھے ہر سال یہ وعدہ نبھانے میں میں رہتا ہوں اسی کا منتظر ملنے کی چاہت میں نہیں اسکا کوئی ثانی مگر مجھ کو ستانے میں گزر جاتا ہے یہ ہر سال تڑپا کر مرے دل کو نجانے کیوں تھا شرماتا میں حال دل بتانے میں مگر اب صبر کا لبریز پیمانہ ہوا میرا نہیں خوف وخطر مجھ کو یہ افسانہ سنانے میں سنادے آج حال دل بھرا ہے آج میخانہ کہ مدت سے ہے تو گم صم فقط پینے پلانے میں یہ ممکن ہے ترا یہ درد انکو کوئی پہنچا دے تو کام آئے یہ دل میں آتش فرقت بجھانے میں وہ روٹھے ہیں تو رہنے دے یہی ہر بار سوچا تھا مگر اک لطف سا آتا ہے انکو پھر منانے میں وہ دل میں اب بھی رہتے ہیں مرے اس شان سے لوگو کہ بلبل جس طرح تنہا ہو گلشن کے بسانے میں گیا ہے پھر دسمبر مجھ کو دیکر انتظار اپنا صبر اک سال کا ہے پھر دسمبر لوٹ آنے میں