عفو ودرگزر مومن کی ایک خاص صفت
عفو و درگزر ایک ایسی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ ہر بندہ کو نہیں عطاء کیا کرتا۔یہ اہل ایمان کی وہ صفت ہے جس کا ذکر قران میں بہت سی جگہ آیا ہے، اللہ تعالیٰ بھی ہمارے گناہوں سے عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور اسی صفت کو وہ اپنے بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے، پس اگر رب کائنات لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑنے پر آتا تو زمین پر کوئی جاندار نا بچتا جو ہلاک نا ہوجاتا مگر یہ تو اس رب کا عفو و درگزر ہی ہے جس کی وجہ انسانیت کو توبہ کی مہلت ملی ہوئی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں انتقامی کاروائیوں کا رجحان ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لینا پھر سالہا سال اس بات کو دل میں رکھے اپنوں سے بیزار رہنا، اپنے دل ❤️ میں بدگمانی کا بیج بونا پھر اسے ایک تناور درخت کی شکل دیکر نفرت کی ہوائیں چلانا، چھوٹوں پر شفقت نا کرکے ان سے ادب کی امید رکھنا اور بڑوں کی بے ادبی کرکے اللہ تعالیٰ سے عزت کی امید رکھنا۔
میرے بھائیوں! درگزر کرنے کا حکم اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے دیا ہے اور عفو کا مطلب ہے کہ باوجود قدرت کے معاف کردینا اور غصہ کو نافذ کرنے کی قدرت کے باوجود غصہ نا کرنا، یہ ہے درگزر اور عفو۔ عفو کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے سے طاقتور کی غلطی درگزر کردیں بلکہ یہاں مصلحتاً خاموشی میں در اصل آپکی ہی بھلائی پوشیدہ تھی اس لئے آپ نے برداشت کیا۔
اپنے چھوٹے بھائی کی غلطی کو نظر انداز کرنا عفو ہے
بوڑھے ماں باپ کے بیجا غصے کو برداشت کرنا عفو ہے
چھوٹی بہن کی غلطی پر غصے کو پی جانا عفو ہے
حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دینا عفو ہے
امام کا مقتدی کے اعتراضات پر خوش خلقی کا دامن نا چھوڑنا عفو ہے۔
استاذ کا اپنے شاگرد کے توہین آمیز لہجہ کو برداشت کرلینا عفو ہے۔
مکتب کے بچوں کے بار بار سوال کرنے پر انکا تسلی بخش جواب دینا اور انکی معصوم خطاؤں کے باوجود مسکرا کر انہیں سمجھانا عفو ہے۔
کمپنی کے مالک کا صبر وتحمل کے ساتھ اپنے ملازمین کے مسائل کو سننا اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرنا عفو ہے۔
کسی رشتہ دار کی دل آزاری کو نظر انداز کرکے اس سے محبت سے ملتے رہنا عفو ہے۔
اپنے پڑوسیوں کی زیادتیوں کے باوجود ان سے تعلقات استوار رکھنا عفو ہے۔
کسی مریض کے جھنجھلاہٹ بھرے لہجہ کو برداشت کرتے ہوئے اسکی تیمارداری میں مصروف رہنا عفو ہے۔
اسی طرح بے شمار مواقع آتے ہیں جہاں آپ عفو و درگذر سے کام لیکر رب کے یہاں اعلیٰ مقام کے حقدار ہوسکتے ہیں۔
بے شک یہ درگزر کرنا آپ کو لاتعداد ذہنی اذیتوں سے بچا لیتا ہے، راہ میں آنے والے مصائب کو درگزر کرکے آپ اپنی منزل کی جانب سبک رفتاری سے بڑھ سکتے ہیں۔
اس صفت کے ذریعہ آپ بے شمار لوگوں کو اپنا قریبی بنا سکتے ہیں، اس اعلیٰ صفت سے متاثرہ ہوکر دشمن بھی آپکے دوستوں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔
وہ ممالک جنکی تاریخ آپسی لڑائیوں سے بھری ہوئی ہے وہ بھی ایک دوسرے کی لغزشوں کو نظر انداز کرکے آپسی مصالحت پر یقین رکھتے ہیں۔تو آخر ایک مسلمان اس صفت میں اتنا پیچھے کیسے رہ گیا؟
نہایت افسوسناک امر تو یہ ہے کہ جب بات ایک مسلمان کے ذاتی مفاد کی آتی ہے، اسکی عزت یا اسکی غیرت کو چوٹ پہنچتی ہے تو وہ اپنے حقوق کی دہائی لگاتا ہے اور سرتاپا غضبناک ہوجاتا ہے لیکن جب دنیا کی رذیل ترین مخلوق کے زریعہ محمد عربیﷺ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، آپ علیہ السلام کی دستار پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے، آپ کی مہر نبوت کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آج کا نام نہاد مسلمان درگزر سے کام لینے کو وقت کا تقاضہ سمجھتا ہے، جب اللہ کے قائم کردہ حدود کو پیروں تلے روندا جاتا ہے، حدود اللہ کا استہزاء کیا جاتا ہے تو یہ مسلمان یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دو روٹی دو بوٹی کی فکر میں مگن رہتا ہے، پس یاد رکھنا یہ وہ مقامات ہیں جہاں خاموشی اور طوطا چشمی سے کام لینا شریعت میں مذموم ہے، یہ عفو ودرگزر نہیں بلکہ روحانیت کی موت ہے، اسلامی غیرت و حمیت کا گویا جنازہ پڑھ لینا ہے اور اللہ کے دشمنوں کی آنکھیں ٹھنڈا کرنا ہے۔