زادِ سفر — حجاج کے لئے !
ترا جب سامنا ہوگا تڑپ اٹھے گا میرا دل
مری آنکھوں سے اشکِ غم مسلسل بہہ رہا ہوگا
ندامت کے پسینے میری پیشانی پہ اُبھریں گے
مرا دل اپنی عصیاں پروری پر جل اٹھا ہوگا
لپٹ کر تیرے دامن سے کہوں گا اپنی سب حالت
نہ جانے کس طرح مجھ سے بیانِ مدعا ہوگا
پروانۂ شمع نبوت مولانا احمد عروج قادری مرحوم کے یہ اشعار عازمین حرم کے جذبات و احساسات کی کیسی خوب ترجمانی ہے ! حرمِ کعبہ کیا ہے ؟ تجلیاتِ الٰہی کا مظہر جلیل ، اہل ایمان کے احترام و تقدیس کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ، امتِ مسلمہ کی وحدت و اجتماعیت کا نشانِ عالی شان ، جہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس نے بارگاہِ ربانی کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دی ہے اور اس کے گناہ گار ہاتھوں میں کعبہ کا غلاف نہیں ؛بلکہ خدائے رحیم و کریم کا دامن رحمت آگیا ہے ، جہاں عاصی و نافرمان پیشانیوں میں بھی سجدے مچلنے لگتے ہیں اور جہاں گونگ زبانیں بھی خدائے ذوالجلال سے ہم کلام ہونا چاہتی ہیں ، مکہ مکرمہ سے قریب ہی شہر جاناں ’’مدینہ منورہ ‘‘ ہے ، یہاں کعبۂ ابراہیمی تو موجود نہیں اور قبلۂ عبادت بھی یہ نہیں ہے ، لیکن یہ مسلمانوں کا کعبۂ محبت اور قبلۂ مقصو د ہے ، جس کے ذرہ ذرہ سے محبت کی بوئے شمیم اٹھتی ہے اور ہر مسلمان کے مشامِ جان کو عطربیز کردیتی ہے ، جس کا تصور بھی قلب کے لئے سامانِ سکون ہے اور جس کی گردِ راہ چشمِ محبت کا سرمہ اور مریض عشق کے لئے اکسیر ہے ، کہنے والے نے خوب کہا ہے :
تمنا ہے درختوں پہ ترے روضہ کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روحِ مقید کا
کہ اسی کی آغوش میں وہ پاک اور عظیم ہستی آسودۂ خواب ہے ، جس کی غلامی کا طوق بادشاہوں کے لئے تمغۂ افتخار اور وسیلۂ عزت و وقار ہے ، پھر اسی شہر جاناں میں شمع نبوت کے ہزاروں پروانے آرام فرما ہیں ، یہاں کی فضاؤں میں بھی جاں نثارانِ اسلام اور فداکارانِ محمدی کے لہو کی خوشبو رَچی بسی ہے :
یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے
قدم سنبھال کے رکھیو ، یہ تیرا باغ نہیں !
کتنے خوش بخت اور سعادت نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اس دیارِ مقدس میں حاضری کا اور اس کو چۂ محبت میں دیدۂ دل بچھانے کا شرف حاصل ہوا ، کہ اگر انسان یہاں سر کے بل چل کر جائے ،تب بھی شاید اس زمین کے تقدس کا حق ادا نہ ہو، جہاں امام مالکؒ پوری زندگی رہنے کے باجود ہمیشہ برہنہ پا چلا کیے اور چپل پہننا گوارہ نہیں فرمایا ، اس سعادت کا حال ان عاشقانِ نامراد سے پوچھاچاہیے جن کے سینوں میں تمنائیں کروٹ لیتی ہیں اور بعض دفعہ یہ آرزو اور اشتیاق موتی بن کر دیدۂ دل سے دیدۂ چشم تک پہنچ جاتا ہے ، لیکن ان کے خواب تشنۂ تعبیر رہ جاتے ہیں ، شاید ان کی یہ چاہت اور آرزو ہی ان کے حق میں حرمین شریفین کی حاضری کا بدل بن جائے ، کہ لذتِ ہجر کا مقام لذتِ وصال سے بھی سوا ہے ۔
لیکن جیسے زیارتِ حرمین کی سعادت ، ’ سعادتِ عظمیٰ ‘ ہے ، اِسی طرح اُسی قدر اس کی رعایت اور پاس و لحاظ بھی ضروری ہے ، جو نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے ، اس کی ناقدری اور مرتبہ ناشناسی اسی قدر نقصاندہ بھی ہوتی ہے ، اس لئے جو لوگ حج کو جائیں ، ضرور ہے کہ ان آداب کی رعایت بھی رکھیں ، جو اس سفر سعادت اور سفر شوق و محبت کے لئے مطلوب ہیں ، اور یہی ان کا اصل توشۂ سفر ہے ، ایسا نہ ہو کہ دنیا کی متاعِ حقیر اور مادّی توشۂ سفر سے تو آپ خوب آراستہ ہوں ، لیکن جو سامانِ سفر اس سے زیادہ اہم ہے اور جو قلب و روح کی غذا ہے ، اسی سے آپ محروم ہوں ، راحت و آسائش کے سامان کہیں بھی خریدے جاسکتے ہیں اور قرار و سکون کے لمحات کے لئے ساری عمرپڑی ہے ، لیکن جب آپ بے قراری کے خریدا ر ہیں اور خدا کی راہ میں تڑپنے اور بے سکون ہونے کی راہ منتخب کر رہے ہیں ، تو ضروری ہے کہ پہلے دل و روح کے لئے توشۂ سفر تیار کریں ۔
رسول اللہ ا کی خدمت میں ایک نوجوان آئے اور عرض کیا کہ میں حج کے لئے نکل رہا ہوں ، آپ ا تھوڑی دور ان کے ساتھ ساتھ چلے ، پھر سر مبارک اٹھا یا اور اس نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا :
یا غلام ! قبل اﷲ حجتک وکفر ذنبک واخلف نفقتک ۔ (مجمع الزوائد ، عن ابن عمرؓ : ۳ / ۲۱۱ )
اے لڑکے ! اللہ تمہارا حج قبول فرمائے ، تمہارے گناہ معاف کرے اور تمہارے اخراجات کا بدل عطا کرے ۔
دیکھا آپ نے ! حضور ا نے عازم حج کو جو زاد سفر عطا کیا ، وہ تقویٰ اور دعاء کا تھا ، تقویٰ گناہوں اور اللہ کو ناراض ہونے والی باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا نام ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ حج خالص اور غیر مشتبہ مال سے کیا جائے اور حرام تو کجا ؛ انسان اپنے آپ کو مشکوک سے بھی بچائے ، حضرت ابو ہریرہ ص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :
جس نے حرام کمائی سے بیت اللہ شریف کا ارادہ کیا ، تو جب وہ احرام باندھتا ہے ، اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اورسواری اسے لے کر چلتی ہے ، پھر وہ کہتا ہے : لبیک اللّٰہم لبیکتو آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا لگاتا ہے لا لبیک و لا سعدیک (تمہاری حاضری قبول نہیں ) تمہاری کمائی حرام ، تمہارا توشۂ سفر حرام اور تمہاری سواری حرام ، گناہوں کا بوجھ لے کر اور اجر و ثواب سے محروم لوٹ جاؤ اور ایسی خبر سنو جو تم کو غمگین کرے اور جب حاجی مالِ حلا ل کے ذریعہ سفر شروع کرتا ہے ، اپنا پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور سواری اسے لے کر چلتی ہے ، پھر وہ کہتا ہے : لبیک اللّٰہم لبیک ، تو منادی آسمان سے ندائے غیبی لگاتا ہے : لبیک و سعدیک (میں نے تمہارا آنا قبول کیا ) تمہاری سواری حلال ہے ، تمہارا کپڑا حلال ہے ، اور تمہارا توشۂ سفر حلال ہے ، اجر کے ساتھ گناہ کے بوجھ سے محفوظ لوٹ جاؤ اور ایسی خبر سنو جو تمہارے لئے خوش کن ہو ۔ (مجمع الزوائد : ۳ / ۲۰۹ – ۲۱۰ ، باب فی الحج و الاحرام )
سود کا پیسہ ہو ، رشوت کی رقم ہو ، ناجائز تجارت یا ملازمت کی آمدنی ہو ، زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کر کے اسے فروخت کیا گیا ہو ، شادی میں بیوی یا بہو کے والدین سے رقمیں اینٹھی گئی ہوں ، بہنوں کو میراث سے محروم کر کے جائیداد بڑھائی گئی ہو ، یا کسی اور طور پر مال حرام حاصل کیا گیا ہو ، نہ ان کو حج میں استعمال کرنا جائز ہے اور نہ یہ درست ہے کہ حاجی اپنے کاندھوں پر یہ بارِ گناہ رکھ کر ساتھ لے جائے اور اس سے تائب نہ ہو ۔
حج کے ذریعہ مؤمن کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور ایمان کی تجدید عمل میں آتی ہے ، اسی لئے اسلام کو بھی آپ ا نے پچھلے گناہوں کو ختم کرنے والا قرار دیا ہے اور حج کو بھی ، نئی زندگی کے لئے زندگی میں انقلاب اور صالح تبدیلی کا آنا ضروری ہے اور اس انقلاب کی ابتداء توبہ سے ہوتی ہے ، توبہ کیا ہے ؟ اپنے گناہوں پر شرمساری اور اس کی تلافی کی کوشش ، خاص کر جہاں لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہو ، وہاں ضروری ہے کہ حقوق کو ادا کیا جائے یا حقوق معاف کرائے جائیں ، ور نہ ایسا نہ ہو کہ آپ کہیں : خداوندا ! میں حاضر ہوں اور خدا کی طرف سے جواب آے : بندے ! تیری حاضری قبول نہیں ، یہ کیسی محرومی و نا مرادی اور کم نصیبی و بد بختی ہوگی ؟؟
حج کا مقصد روح کو غذا پہنچانا اور اس کے لئے قوت و تازگی کا سرو سامان مہیا کرنا ہے ، اگر انسان وہاں پہنچ کر بھی سامانِ دنیا کی خریدی کے لئے بے چین ہو اور لوگوں کے لئے دعاؤں اور نیک تمناؤں کی سوغات لے جانے کی بجائے کپڑے اور میووں کا تحفہ خریدتا پھرے ، تو اس سے زیادہ ناموزوں بات اور کیا ہوگی ؟ یہ متاعِ ناپائیدار تو ہر جگہ میسر ہے ، وہاں تو دین وایمان کی متاعِ گراں مایہ جمع کرنی ہے ، لیکن افسوس ! کہ ارکانِ حج پورے بھی نہیں ہوتے ہیں کہ بہت سے حجاج واپسی کا اور واپس ہوتے ہوئے اپنے قرابت داروں اور رشتہ داروں کے لئے تحائف کے خرید نے کا پروگرام بنانا شروع کردیتے ہیں ، حج کا اصل تحفہ دعا ہے اور میسر ہو تو ارضِ مبارک کے تبرکات’ زمزم ‘ ’ کھجور ‘ اور بس ۔
اللہ کا شکر ہے کہ حجاج کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ، حج کی مشقتیں بھی نسبتاً کم ہوتی جاتی ہیں ، کسی زمانہ میں حج کو بوڑھاپے کی عبادت سمجھا جاتا تھا ، لیکن آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حج کا سفر کرتی ہے ، لیکن امت کی ذلت ورسوائی اور اس کی حرماں نصیبی بھی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے ، ہماری دعائیں ، ہماری التجائیں اور آہ و زاریاں لگتا ہے کہ بارگاہِ ربانی سے واپس کردی جاتی ہیں ، آخر یہ کیوں ہے ؟ اس لئے کہ ہماری عبادتیں بے روح ہوگئی ہیں ، وہ اخلاص و اہتمام سے عاری ہیں ، اسی لئے وہ بے تاثیر سی ہوگئی ہیں ؛ کیوں کہ جو صورتیں حقیقت سے محروم ہوں ، وہ بے تاثیر ہی ہوا کرتی ہیں ۔