جدید الحاد اور اسلاموفوبیا ۔۔ ایک تقابلی جائزہ
الحادجدید اوراسلاموفوبیا کافتنہ عوام الناس میں اس کا پھیلاوٗ برق رفتارکی صورت کررتاجارہاہے اور ساتھ میں یہ موضوع اپنی بساط میں قدروسیع ہوگئےہیں کہ مختلف صورتیں اختیارکرچکےہیں اور مغربی دنیامیں لادینیت کی قبولیت اس قدرہوتی جارہی کہ ہر شخص اسلام کو عقل کےترازومیں تولتاہےاور مختلف نوعیت کےاعتراضات اورشدید قسم کی نفرت کااظہار کرتےہوئےنظرآتےہیں، تاہم اسی سلسلہ میں الحادجدید اور اسلاموفوبیاکا عملاًوعقلاًکہیں بھی اتحاد نظرآرہاہوتوایک ہی صورت میں ان دونوں کارد ہوجاناضروری ہوگا۔اب چوں کہ الحاد جدید اور اسلاموفوبیادونوں بڑی طویل بحثیں موضوع ہیں ابھی ان کااحاطہ کرنا ممکن نہیں، لہذااس صورت میں دونوں کاایک تقابلی جائزہ (جوکہ نظریات، فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق) کرایاجائےگا۔
الحاد کامعنیٰ مفہوم وارتقاء:
الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اورخدا پر عدم یقین کانام ہے۔جبکہ توحید، نبوت و رسالت اور آخرت ، ایمان کی اساس ہیں اوران عقائدکا ایک دوسرے سے اس طرح کاربط ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی کو غیرموثر کردیتا ہے، اس لیے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہوگا۔[1]
مختلف کتب تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاے کرام علیہم السلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور جس کے اثرات پوری دنیا پر آرہے ہیں ۔
مسلم معاشرہ میں الحاد کاآغاز:
پندرہویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ اپنے ممالک سے نکل کر مشرق و مغرب میں پھیلنا شروع ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر تک وہ دنیا کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی۔ اہل یورپ نے ان ممالک پر صرف اپنا سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا ،بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دیا۔ مغربی ملحدین نے عیسائیت کی طرح اسلام کی اساسات پر بھی حملہ کیا۔[2]
جدیدالحاد کا آغاز:
انیسویں صدی میں جب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو قبولِ عام حاصل ہوا توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی جس کا رہنماڈارون تھا اور اس کا نظریہ اس مذہب کا مقدمہ ہے۔پس اسی صدی میں لاکھوں لوگ جن میں اکثریت تعلیم یافتہ افراد کی تھی، مذہب سے بیگانہ ہو کر ملحد ہو گئے۔
اسلامو فوبیا
اسلاموفوبیا یعنی’’اسلام ہراسی‘‘ لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘ (یعنی ڈر جانا) کا مرکب ہے۔ غیر مسلم ’ ’اسلامی تہذیب سے ڈرنے‘‘ اور ’’نسلیت مسلم گروہ سے ڈرنے‘‘ مطلب لیتے ہیں۔ اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بڑھکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو ’’اسلاموفوبیا ‘‘کہا جاتا ہے۔[3]
جدیدالحاد کی نسبت ایک نیا لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم بے جا طرفداری، نسلی امتیاز اور لڑائی کی آگ بھڑکانا طئے کیا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس کی شناخت یہ بھی کرائی ہے کہ یہ لفظ مسلمان یا پھر ان کی شدت پسندی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال 1976 سے آغاز ہوا لیکن بیسویں صدی کی اسی اور نوے کے ابتدائی دہائیوں میں اس کا استعمال بہت ہی کم رہا۔ 11 ستمبر 2011 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملے کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔[4]
مغربی اور مسلم معاشرہ پر الحادجدیداور اسلاموفوبیا کاتقابلی جائزہ
الحادجدید اوراسلاموفوبیانے کے اس عروج نے مغربی اورمسلم معاشروں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ انھوں نے قدیم ورثے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اسلام توکیاعیسائیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ الحادجدیداور اسلاموفوبیا کے اثرات کو نظریات، فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق، ہر پہلو میں نمایاں طور پر محسوس کیاجاسکتاہےاور اسی تناظر میں ہم الحادجدید اور اسلاموفوبیا کاتقابلی جائزہ بھی کرتےجائیں گے۔
عقائد، فلسفہ اور نظریات
اولاً نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو کو لیتے ہیں۔ الحادجدیداور اسلاموفوبیا نے اسلام کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے۔ خدا کے وجود سے انکار کردیا گیا، رسولوں کے تاریخی وجود ہی کاانکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ اس ضمن میں ملحدین کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی، کیونکہ یہ تینوں عقائد مابعد الطبیعیاتی حقائق سے تعلق رکھتے ہیں جسے اس دنیا کے مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں نہ تو ثابت کیاجاسکتا ہے اور نہ رد کیا جاسکتا ہے۔
پھرجدید الحاد نےعیسائیت پر ایک زوردار حملہ کیا انھوں نے انبیاے کرام، بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود سے انکار کردیا۔ انھوں نے آسمانی صحیفوں بالخصوص بائیبل کو قصے کہانیوں کی کتاب قرار دیا۔ اس الزام کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے کچھ عیسائی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی زندگیاں وقف کرکے علمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک تاریخی شخصیت ہیں اور بائیبل محض قصے کہانیوں کی کتاب ہی نہیں ،بلکہ اس میں بیان کیے گئے واقعات تاریخی طور پر مسلم ہیں اور ان کا ثبوت آثار قدیمہ کے علم سے بھی ملتا ہے۔ یہ الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بہت بڑی فتح تھی۔
اسلام کے معاملے میں جدید ملحدین اوراسلامو فوبیا نےمل کراساسیات اسلام یعنی قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا ان کے لیے علمی طور پر ممکن نہ تھا۔ انھو ں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی۔ ان میں سے بعض کوتاہ قامت اور علمی بددیانتی کے شکار افراد نے چند من گھڑت روایات کا سہارا لے کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ،لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے، کیونکہ من گھڑت روایات کی علمی و تاریخی حیثیت کو مسلم علمانے احسن انداز میں واضح کر دیا جسے انصاف پسند ملحدین محققین نے اوراسلاموفوبیاکارونارونےوالوں نے بھی تسلیم کیا۔ ان محققین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔
سیاست:
فکری اور نظریاتی میدان میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحادجدید اور اسلاموفوبیا اسلام کے مقابلے میں ناکام رہا ،جبکہ الحادکو عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی، البتہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی میدانوں میں الحادجدید اوراسلامو فوبیا کو مغربی دنیا میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ۔ سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔جبکہ اسلاموفوبیا نےصرف اسلامی شعائرکومسلمہ طورپردیوارکےساتھ لگانےکی انتھک کوشش کرتےہیں ۔ انھوں نے مذہب اسلام کو کےمسجدکے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر بنادیناچاہتےہیں۔ اس کے بعد الحادجدید کا فروغ جمہوریت کے نظریے سے بھی ہوا۔ اگرچہ جمہوریت عملی اعتبار سے اسلام کے مخالف نہیں، کیونکہ اسلام میں بھی آزادی رائے اور شوریٰ کو بڑی اہمیت ہے، لیکن جمہوریت جن نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے، وہ خالصتاً ملحدانہ ہے۔ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت جمہور کے نظریے پر قائم ہے۔۔ اس کی واضح مثال ہمیں اہل مغرب کے ہاں ملتی ہے، جہاں اپنے دین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے فری سیکس، ہم جنس پرستی، شراب اور سود کو حلال کر لیا ہے۔ اوراسلاموفوبیا نےاسلامی سیاست کو عموماًیا خصوصاً ہرلحاظ سے دہشت گرد قرار دیتا ہے اس کی کئی امثلہ مل جاتی ہیں جیساکہ برطانوی وزیرپیٹرہاسن نےکہاکہ ’’مسلم فرقہ تخلیہ پسند ہے‘‘اوراٹلی کےوزیر اعظم نےکہاکہ ’’مغربی سیاست اسلامی سیاست سے برترہے۔‘‘اس کےعلاوہ سرکاری سطح پر اسلامی شعائرکی کھلم کھلا مذاق بنانایہ سب اسلاموفوبیا کی کارستانیاں ہیں۔ اورفلسطین، چیچنیا، میانمار اور شام پر استعماری قوتوں کا جبر، فرانس میں حجاب پر پابندی، سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی، چین میں روزہ رکھنے پر حکم امتناعی، ڈنمارک اور فرانس میں پیغمبر اسلام کے اہانت آمیز کارٹونوں کی اشاعت، امریکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات ان تمام باتوں کے پس پردہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی دل آزاری کا جذبہ کار فرما ہے۔[5] ان کےمقابل اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے مغربی تصور کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلیٰ جمہور کا حق نہیں ،بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنا شرک ہے۔ سب سے بڑا اقتدار (Sovereignty) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں دی، وہاں عوام کی اکثریتی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہیے ۔ اکثریت کی مرضی کے خلاف اس پر اقلیتی رائے کو مسلط کرنا اسلام میں درست نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر معاملہ مشورے سے طے کریں۔
معیشت:
معیشت کے باب میں الحادجدید نے دنیا کو دو نظام دیے۔ ان میں سے ایک ایڈم سمتھ کا سرمایہ دارانہ نظام یا کیپیٹل ازم اور دوسرا کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم۔ کیپیٹل ازم دراصل جاگیر دارانہ نظام (Feudalism) ہی کی ایک نئی شکل ہے جو نسبتاً جاگیر دارانہ نظام سے کچھ بہتر ہے۔ کیپیٹل ازم میں مارکیٹ کو مکمل طور پر آزاد چھوڑا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ دولت کے جتنے چاہے انبار لگا لے۔ جس شخص کو دولت کمانے کے لامحدود مواقع میسر ہوں، وہ امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا اور جسے یہ مواقع میسر نہ ہوں، وہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ جبکہ اسلاموفوبیا نے اسلام کی معاشیات کی بکلیہ نفی کی اور پھرالحادجدید کی صورت میں مختلف نظام دئیےپھراس کےبعدIMFاور دیگر انٹرنیشنل ادارے جوکہ مسلم ممالک کوکسی بھی طرح فنڈنگ کرتے ہیں یا قرض دیتےہیں توان پرشدید کی قسم کی پابندیاں عائد کرکےان کا معاشی استحصال کیاجاتاہے، اسی طرح جب کوئی مسلم ممالک سے گئےہوئے افراد بسلسلہ روزگار کہ اٹلی ،برطانیہ ، جرمنی جیسے ممالک میں جاتےہیں تووہاں کی حکومتیں ان کواپنابوجھ سمجھتی ہوئےان سے شدید قسم کی نفرت کااظہارکرتےہیں اورالزام لگایاجاتاہےکہ مسلم نوجوان شدت پسند ہوتےہیں جبکہ جرمنی میں ترک مزدوروں کےخلاف کئی بار خوں ریز فسادات بھی ہوچکےہیں۔ [6]
اخلاق اور معاشرت
الحادجدیداوراسلاموفوبیا کے اثرات سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ اخلاق انسانی اور نظام معاشرت ہے۔اب اگرالحادجدید کی کوئی بات مان لی جائے جیسا دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو پھر سوائے حکومتی قوانین یا معاشرتی دباؤ کے کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر اس کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی رہ جاتا ہے۔جبکہ اسلاموفوبیانے اسلام کےبارےمیں یہ موقف دیاکہ یہ ایک بے حس و حرکت، فرسودہ، ترقی کا دشمن، غیر منطقی اور جامد مذہب ہے۔ مسلمان عام طور پر دہشت پسند اور دقیانوس ہوتے ہیں، وہ خواتین کو پردے کی قید میں رکھتے ہیں۔ مدارس اور قرآن میں تشدد و دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔[7]
خلاصہ کلام
الحادقدیم ہویاجدید اس کااصل مقصد انسانیت کوبےراہ روی کاشکارکرناانسان کو خدا اوراس کےرسول سےدورکرنا ، بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دینا۔اورملحدین نا صرف اسلام کونقصان دیاہےبلکہ عیسائیت کی جڑوں کوبھی اکھاڑنےکی کوشش کی ہے،اورجب ملحدین کامحققین نےتعاقب کرنےکی کوشش کی تو الحاد نے نئی صورتیں اختیارکیں۔اوراسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتاہے۔ اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد اسلام کی رسوائی کرنا اورمسلمانوں کو ذلت وپستی کے کنویں میں پھینک دینا ہے۔پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں یورپ وامریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدیدسے شدیدتر ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بے جا اور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین اور اس کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے واقعات اب مغرب میں آئے دن کا معمول بنتے جارہے ہیں۔
_________
[1]۔ محمددین جوہر،الحاد ایک تعارف،ناشر،کتاب محل،۲۰۱۷ءص۲۷
[2]۔ محمددین جوہر،الحاد ایک تعارف، ص۴۱
[3]۔ Teaching the Global Dimension" David Hick, Cathie Holden (2007). P.140.
[4]۔اقلیتوں کے حقوق اورمغرب میں اسلاموفوبیا ،ص۴۲۵
Roald, Anne Sophie (2004). New Muslims in the European Context: The Experience of Scandinavian Converts. Brill. p. 53. ISBN 9004136797.
Casciani, Dominic. "Islamophobia pervades UK 150 report", BBC News, June 2, 2004.
[5]۔(اقلیتوں کے حقوق اورمغرب میں اسلاموفوبیا(مجموعہ مقالات)ایفاپبلیشرز،نئی دہلی۲۰۱۱ء، ص۵۱۹)
[6]۔ اقلیتوں کے حقوق اورمغرب میں اسلاموفوبیا ،ص۵۲۳
- Richardson, "Islamophobia: Issues, challenges and action". A report by the Commission on British Muslims and Islamophobia.
[7]۔ اقلیتوں کے حقوق اورمغرب میں اسلاموفوبیا ،ص۴۲۸
Amjad Ali, "Islamophobia or Restorative Justice" P 135.