رب ذو الجلال کے حضور!

سفرنامہ عمرہ و زیارت غار حراء

پہلا باب: سفرِ عمرہ

زبان پر تلبیہ "لبیک اللہم لبیک،  لبیک لا شریک لک لبیک،  ان الحمد والنعمۃ لک والملک،  لا شریک لک "، آنکھوں میں کعبۂ مشرفہ کی تصویر،  دل میں ایک طرف اپنے گناہوں پر ندامت،  رب ذوالجلال کی ہیبت و سطوت اور جلال کا دباؤ اور احساس، وہیں دوسری طرف حاضری کے لئے قبولیت اور بلاوا پر خوشی و مسرت کے جذبات،  اس ملی جلی کیفیت سے میں اس وقت دو چار تھا،  جب میں بارہ تیرہ نفری قافلہ کے ساتھ سوئے کعبہ رواں دواں تھا۔

3 اکتوبر 2019 ، روز جمعرات،  سہ پہر کو ہمارا بارہ تیرہ نفوس پرمشتمل قافلہ رب کریم کے بلاوا پر ینبع ( منطقہ مدینہ منورہ کا خوبصورت، صنعتی ، ساحلی اور سیاحتی شہر ہے اور جہاں میں تدریسی خدمات انجام دیتا ہوں۔)  سے عمرہ کے عزم سے نکلا اور مغرب کی اذان پر جحفہ پہنچا۔

قافلہ کے افراد

اس کارواں کے روح رواں ہمارے محترم دوست مصطفی صاحب تھے، جو سعودی عرب کی مشہور ایئرکنڈیشنر کمپنی" زامل کول کیئر" میں مدت دراز سے کام کررہے ہیں،  میرے ہی علاقے کے ہیں، محبتی، بہترین منتظم اور تعلقات کو بحسن و خوبی نباہنے کا ہنر خوب رکھتے ہیں۔  ان کے اعلی اخلاق کی وجہ سے مختلف طرح کے لوگوں سے ان کے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں۔

اس قافلہ کے اور دوسرے افراد بھی زامل کمپنی ہی کے تھے،  جن کا تعلق ہندوستان کے مختلف شہروں سے اور بعض دوسرے ملکوں سے بھی تھا۔  عرصہ سے مصطفی بھائی کا اصرار تھا کہ اس حقیر کے ساتھ پورے قافلے کو لے کر عمرے کے سفر پر جائیں،  نیز مکہ و اطراف کے مقدس  مقامات کی زیارت کریں ، اس کارواں کے ساتھ یہ سفر درحقیقت انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔

میقات سے مکہ مکرمہ تک

مغرب کی نماز جحفہ کی میقات پر ادا کی،  پھراحرام کی چادر اوڑھ کر دوگانہ نماز ادا کی، نیت کی، تلبیہ" لبیک اللہم لبیک۔۔۔۔"  پڑھا،  پھر اپنی منزل یعنی کعبۂ  مشرفہ کی طرف ہم  رواں دواں ہوگئے۔  ینبع سے مکہ مکرمہ کی مسافت تقریباً  چار سوا چار سو کلومیٹر کی ہے،  اور میقا تِ  جحفہ تقریبا ً آدھی مسافت پر واقع ہے،  گویا کہ وہاں سے مکہ مکرمہ تقریبا ًدو سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔

اس پوری مدت میں گاڑی تیز رفتاری سے منزل کی طرف رواں دواں تھی ، اور اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے "مکہ مکرمہ، حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کا وہاں قیام،  کعبہ کی تعمیر ِنو،  سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت،  بعثت،  وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکالا جانا،  عمرہ کیلئے روک دیا جانا ، فاتح بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخل ہونا اورمثالی کشادہ ظرفی کا ثبوت دینا،  حجۃ الوداع،  بعد کے ادوار میں کعبۂ مشرفہ کی تعمیرنو اور مسجد حرام کی توسیع اور تزئین،  مکہ اور حج وعمرہ کے فضائل و مسائل وغیرہ سے متعلق آیات احادیث اور واقعات"  لوح دل پر چل رہے تھے۔ گاڑی میں اپنے ساتھ موجود افراد کو عمرہ کا طریقہ بتایا،  اس کے فضائل سے آگاہ کیا۔ مکہ مکرمہ اور مسجد حرام کے فضائل و آداب سے متعلق بھی گفتگو کی۔

بار بار حج وعمرہ کرنا؟

ہمارے قافلے کے ایک فرد نے سوال کیا کہ واٹس ایپ اور دوسری سوشل ویب سائٹ کے ذریعے یہ پیغام مختلف الفاظ میں پہنچتا رہتا ہے کہ حج و عمرہ ایک بار کر لینا کافی ہے،  بار بار کرنے میں جو پیسہ خرچ ہوگا،  اسے اگر کسی غریب کے کھلانے پلانے،  تعلیم دلانے اور دوسری بنیادی ضرورتوں پر خرچ کیا جائے،  تو یہ بار بار حج و عمرہ کرنے سے بہتر ہے ۔ ٹھیک یہی بات ایک  سے زیادہ جانور کی قربانی کے سلسلے میں بھی لوگ کہتے ہیں،  اس کی کیا حقیقت ہے؟

مجھے خیال آیا کہ عیدالاضحی کے موقع پر اس جیسے پیغامات میری نگاہوں سے بھی گزرے تھے،  میں نے اس رفیق سفر سے عرض کیا کہ اس طرح کی باتیں دین کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی بنیاد پر کی جاتی ہیں،  کسی خصوصی اور ایمرجنسی صورت حال کی وجہ سے تو حج فرض اور واجب عمرہ کو بھی اگلے وقت کے لئے موخر کیا جا سکتا ہے کہ یہ استثنائی صورت حال ہوگی؛ لیکن نارمل حالات میں اسلامی تعلیمات یہ ہے کہ سہولت کے مطابق بار بار حج و عمرہ بھی کیا جائے ، کئی جانوروں کی قربانی بھی کی جائے اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کے مال میں فرض زکوۃ کے علاوہ بھی ضرورت مندوں کا حق ہے اور اس حق کی ادائیگی میں کوتاہی پر بھی بازپرس ہوگی۔  بار بار حج و عمرہ نہ کرنے اور ایک سے زیادہ جانوروں کی قربانی نہ کرنے کی دعوت دینا دین کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی غمازی کرتا ہے۔

 وہ اس لیے بھی کہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کئی بار عمرہ کرنا ثابت ہے اور متعدد جانوروں کا قربانی کرنا بھی ثابت ہے ۔ ( صحیح  مسلم،  باب بیان عدد عمر النبی صلی اللہ علیہ وسلم،  حدیث نمبر : 1253،  صحيح  بخاري ،   كتاب الحج،  حديث نمبر : 1551،  سنن ابو داود،  كتاب المناسك ،  حديث نمبر :1764) جہاں تک حج کا مسئلہ ہے،  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت کے دوسرے سال حج ادا فرمایا،  پھر اسی سال دنیا سے پردہ فرما گئے ، لیکن یہ ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں صراحت کے ساتھ بار بار حج و عمرہ کی تلقین ثابت ہے۔ (سنن نسائي ،   كتاب مناسك الحج ،   حديث نمبر :2630)

دو باتیں اور ذہن میں رکھی جائیں:  ایک تو یہ کہ اسلام کا زکوۃ  و صدقات کا ایک مکمل نظام ہے اور مذہبی خوش عقیدگی کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں؛  بلکہ حساب و کتاب کی دنیا میں تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اگر مسلمان اس نظام کو صحیح طور پر سمجھیں اور اجتماعی طور پر عمل میں لائیں،  تو فاقہ مستی اور بنیادی ضرورتوں کے احتیاج والی کیفیت امت مسلمہ میں باقی نہیں رہے گی۔  باقی دولت وثروت کا کسی کے پاس کم اور کسی کے پاس زیادہ ہونا تو نظامِ قدرت کا حصہ ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بار بار حج و عمرہ نہ کرنے اور ایک سے زیادہ قربانی نہ کرنے کی دعوت دینے والوں کی نیت پر مجھے شبہ نہیں؛  لیکن ان سے درخواست یہ ہے کہ مذکورہ احادیث اور تفصیلات کی روشنی میں زاویۂ نظر بدلیں اور سماج میں دوسرے پہلو سے بیداری لانے کی کوشش کریں کہ گھر ، گاڑی،  موبائل اور دوسری ضروریات کی چیزوں میں بے جا اسراف اور غیر ضروری چیزوں ( شادی بیاہ کی رسومات وغیرہ ) میں کئے جانے والے اخراجات کے حوالے سے امت میں بیداری پیدا کریں کہ ان امور میں مسلمان اربوں روپیے جو خرچ کرتے ہیں،  ان روپیوں کو سماج کے ضرورت مند طبقے کی تعمیر و ترقی اور ملت کی عمومی فلاح و بہبود میں خرچ کریں۔  یہ ایک بہتر مقصد کے لیے  مثبت قدم ہوگا ۔ ہمیشہ یہ ملحوظ رہے کہ اسلام میں نیت کی درستگی کے ساتھ طریقۂ کار کا صحیح خطوط پر ہونا اور صحیح لائحۂعمل کا ہونا بھی ضروری ہے۔

مکہ مکرمہ میں

کبھی ہم خیالات و تصورات میں کھو جاتے اور کبھی حج و عمرہ کے مسائل،  مکہ مکرمہ کے آداب و فضائل اور دوسرے دینی مسائل پر گفتگو ہونے لگتی۔  انہیں کیفیات اور باتوں کے بیچ مقدس شہر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا وقت آگیا،  بورڈ پر دکھائی دینے لگا کہ مکہ مکرمہ صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔  بفضل الہی اس سے پہلے بھی متعدد بار - ایک بار والدین کے ساتھ ، چار مرتبہ بیوی بچوں کے ساتھ اور مزید اس کے علاوہ -  مکہ مکرمہ کی حاضری اور حرم مکی کی عبادتیں نصیب ہو چکی ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ آگے بھی باربار مکہ مکرمہ کی حاضری،  حرم مکی کی عبادتیں نصیب ہوتی رہیں اور بار بار حج مبرور اور مقبول عمرہ  کی سعادت نصیب ہوتی رہے۔

 لیکن ہر بار مکہ مکرمہ  میں داخلہ کے وقت  ر بِ ذوالجلال کے سطوت اور اس کے جاہ و جلال کی ہیبت دل پر غالب رہتی ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پناہ اور امان کا احساس بھی ہوتا رہتا ہے کہ فقیرِ بے نوا ، معاصی میں تر بتر بندہ کو  ر بِّ  رحیم وکریم نے اپنے گھر بلایا ہے ، معاف کرنے اور رحم کرنے کے لئے اس کی رحمت نے میرے حق میں ایک اور بہانہ ڈھونڈا ہے،  ایک اور موقع دیا ہے کہ دنیا میں اللہ کے سب سے پہلے اور مقدس ترین گھر میں جاکر خطاؤں کی معافی مانگ لوں،  عبادتوں کی قبولیت کی درخواست کرلو ں، زندگی اس عطاء وبخشش والی ذات کی مرضیات کے مطابق گزارنے کی توفیق مانگ لوں،  دنیا و آخرت میں عافیت اور دونوں جہان کی سعادت کی عرضی پیش کردو ں، میری تمام تر  نالائقیوں کے باوجود میرے  رب کادینی و دنیوی ہر دو اعتبار سے مجھ پر ہمیشہ اتنا کرم رہا ہے اور  مسلسل ہے۔( اور انشاءاللہ سدا  رہے گا)،  جنہیں میں شمار تو کیا ، ان کا  تصور میں بھی مکمل طور پر احاطہ نہیں کر سکتاہوں  اور ویسے بھی اس فقیر بے نوا کا سہارا اس کی رحمتیں اور نظر کرم ہی تو ہے۔  ( اے رب!  اپنے شایا نِ  شان شکر قبول فرما لیجئے   اور ہمیشہ اپنے عفو  وکرم اور رحمتوں کے سائے میں رکھئے۔)

ان کیفیات اور دعاؤں کے بیچ ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے ، خوشی و مسرت کے آنسوؤں سے آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں،  ہمارے قافلہ کے کچھ احباب پہلے ہی پہنچ چکے تھے،  انہوں نے سبھی لوگوں کے لیے ہوٹل کی بکنگ کرالی تھی ، ہم لوگ سیدھے اپنے ہوٹل پہنچے،  سامان رکھا ، وضو وغیرہ کر کے تازہ دم ہوکر عمرہ کے مناسک ادا کرنے کے لیے سوئے کعبہ چل پڑے۔

حرم میں

پانچ سات منٹ میں ہم باب ملک عبد العزیز کے پاس تھے،  تعمیراتی کام کی وجہ سے ابھی یہ دروازہ بند ہے،  اس سے متصل دروازے سے تلبیہ پڑھتے ہوئے اور رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔  رفقاء کو بتایا تھا کہ تلبیہ اس وقت تک پڑھنا ہے جب تک کعبۂمشرفہ پر پہلی نگاہ پڑے،  اس پر نگاہ پڑنے  کے بعد تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ موقوف کر دینا ہے۔  دوسری یہ بات بھی بتائی تھی کہ پورے تقدس و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نگاہیں نیچی کر کے کعبۂمشرفہ کے سامنے پہنچنا ہے،  پھر کسی ایسی مناسب جگہ پر جا کر کھڑا ہونا ہے،  جہاں سے کعبۂ مشرفہ دکھائی دے،  پھر نگاہ اٹھا کر دیکھنا ہے اور جیسے ہی پہلی نظر پڑے ، تکبیر کہنا ہے اور جی بھر کے دعائیں مانگنی ہے،  کیوں کہ کعبۂ مشرفہ پر پہلی نگاہ پڑتے ہی مانگی جانے والی دعائیں قبول ہوتی ہیں،  چنانچہ میں نے اور تمام احباب نے ایسا ہی کیا۔

کعبہ کے سامنے

دیر تک روئے زمین پر اللہ کے سب سے پرانے گھر کو ہم تکتے رہے،  کھلی آنکھوں انواروبرکات کا مشاہدہ کرتے رہے،  رب  کریم سے مانگا اور خوب مانگا،  نعمتوں پر شکر ادا کیا،  اپنے،  والدین، بیوی  بچوں،  اساتذۂ کرام ، عزیزواقارب، احباب و رفقاء اورا مت مسلمہ کے مسائل کے تعلق سے خوب دعائیں کی، منتیں اور فریادیں کی۔

طواف

مسجد حرام کی موجودہ تعمیراتی ساخت کے اعتبار سے آپ جب ملک فہد یا ملک عبدالعزیز یا اس کے ارد گرد کے دروازوں سے مسجد حرام میں داخل ہوں گے،  تو آپ مسجد کی پہلی منزل پر ہوں گے، صحن مطاف میں جانے کے لیے جامدیا چلتی سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترنا ہوگا،  چنانچہ ہم نیچے اترے،  حجر ِاسود کے سامنے پہنچ کر ہاتھوں سے اس کی طرف اشارہ کیا، بسم اللہ،  اللہ اکبر کہہ کر ہاتھوں کو چوما اور ہم اپنے بائیں رخ پر طواف کے چکر لگانے کے لیے چل پڑے۔  مطاف میں معمول کی بھیڑ تھی،  نہ بہت زیادہ اور نہ ہی بہت کم  ، ویسے اللہ کے فضل سے" بہت کم " تو شاید کبھی ہوتی ہی نہیں ہے۔

نگاہیں اپنے سامنے رکھتے ہوئے چلنا شروع کیا اور دعائیں کرنے لگا،  رکنِ یمانی اور حجر ِاسود کے بیچ اس دعا " ربنا آتِنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قِنا  عذاب النار" کا اہتمام کرتا ہوں ، باقی میرا معمول یہ ہے کے طواف کے پہلے شوط(چکر) میں اللہ عزوجل کی حمد و ثنا بیان کرتاہوں،  شکر ادا کرتا ہوں اور اخیر میں چند بار درود شریف پڑھتا ہوں ، دوسرے شوط میں اپنے لئے دین و دنیا  کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتا ہوں،  اپنی ہر چھوٹی بڑی ضرورتوں کو اللہ سے مانگتا ہوں،  تیسرے شوط میں والدین اور اساتذہ کے لئے دعائیں کرتا ہوں،  چوتھے میں اپنی اہلیہ کے لئے، پانچویں میں اپنے بچوں کے لئے ، چھٹے میں بھائی بہن عزیزواقارب اور دوست احباب کے لئے،  ساتویں اور آخری چکر میں پوری امت مسلمہ کے لئے دعائیں کرتا ہوں۔  اس سے دو فائدہ ہوتا ہے:  ایک تو یہ کہ جن لوگوں کے حقوق میرے اوپر ہیں،  ان کے سلسلہ  میں دعائیں کرکے ان  کےحقوق کی کسی حد تک پاسداری ہوتی ہے۔  دوسرے یہ کہ طواف کے چکر کو مجھے گننا نہیں پڑتا ہے،  اس ترتیب کے مطابق خودبخود سات چکر کی گنتی بغیر کسی دشواری کے پوری ہو جاتی ہے۔

طواف کے دوران دو فرد کے علاوہ باقی تمام افرادِ قافلہ بچھڑ گئے،  عام طور سے طواف میں یہ ہوتا ہی ہے،  اسی خدشہ کے پیش نظر یہ طے  تھا کہ بچھڑنے کی صورت میں ڈھونڈنے کے بجائے ہم سب مناسکِ عمرہ پورا کریں گے اور سعی کے چکر کو پورا کرکے مروہ پہاڑ کے کھردرے حصے پر بیٹھ کر ایک دوسرے کا انتظار کریں گے۔

چنانچہ میں اور میرے ساتھ باقی بچے دو نوں فر د نے طواف مکمل کرکے مقامِ ابراہیم  کے سامنے  دوگانہ واجبُ الطواف ادا کیا،  اللہ اللہ !کیسا منظر تھا کہ اس فقیرِ بے نوا کی نگاہوں کے سامنے اللہ عزوجل کامقدس گھر" کعبۂ مشرفہ" تھا،  مکہ کے علاوہ دوسرے شہر میں رہنے کی وجہ سے کعبہ کی سمت رخ کرکے نماز ادا کرتا ہوں ، لیکن مسجد حرام میں جب عینِ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے کا موقع ملتا ہے ، تو ایک عجیب طرح کا لطف محسوس ہوتا ہے۔

زم زم

دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ہم تینوں زمزم کے نلکوں کے پاس گئے،  خوب جی بھر کر اور سیر ہوکر زمزم پیا ، سرپر زمزم ڈالا، چہرے اور سینے پرزم زم  ملا،  زم زم کے بارے میں  یہ حدیث بھی وارد ہوئی ہے کہ: ماءُ زمزم لِمَا شُرِبَ لَہٗ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، حدیث نمبر: 3062) ( ترجمہ: زمزم کا پانی اس مقصد کے لئے ہے،  جس کے لیے پیا جائے)۔  اس حدیث کے پیش نظر اس حقیر کا معمول ہے کہ جب بھی زمزم پیتا ہوں ، توکوئی ایک خاص دعا کر کے پیتا ہوں،  چنانچہ اس وقت بھی میں نے یہی کیا۔

زمزم کے حوالے سے مسجد حرام میں سب سے اچھی بات یہ لگتی ہے کہ ہر طرف چند قدموں کے فاصلے پر خالص زمزم دستیاب ہے،  پیجئے اور جی بھر کر پیجئے! مسجد نبوی شریف میں بھی زمزم ہر جگہ دستیاب ہے،  لیکن بعض معتبر لوگوں سے سنا ہے کہ وہ خالص زمزم نہیں ہوتا ہے،  بلکہ زمزم کے ساتھ عام پانی بھی اس میں مخصوص شرح سے ملا ہوتا ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

البتہ ایک بات بہت چبھتی ہے کے زم زم کے کنویں کو اس طرح ڈھانک دیا گیا ہے  اور گھیر رکھا ہے کہ عام لوگ اسے  دیکھ نہیں سکتے  ہیں، حالانکہ کم سے کم ایسا ہوتا کہ کسی ایک طرف سے شفاف لیکن مضبوط شیشے کی دیوار ہوتی تو زائرین ایک نظر اللہ کی اس خصوصی رحمت کے سرچشمہ کو دیکھ لیتے۔

زمزم کا کنواں ایک عجیب معجزہ ہے کہ مکہ مکرمہ جہاں زمین کے نیچے پانی نہ ہونے کے برابر ہے اور جہاں ٹیکنالوجی کے اس ترقی کے دور میں بھی زمین سے پانی نکالنا آسان کام نہیں ہے،  وہیں زمزم کے کنویں سے منٹوں میں ہزاروں لیٹر پانی نکالا جاتا ہے،  لیکن پانی  ختم تو کیا ، کم بھی نہیں ہوتا ہے۔

سعی

زمزم پی کر ہم سعی کرنے کے لئے صفا پہاڑی کی طرف گئے،  صفا پر پہنچ کر کعبہ کی طرف رخ کیا،  "اِنَّ الصفا و المروۃ من شعائر اللہ الخ" پڑھا،  دعائیں کی اور مروہ کی طرف چل پڑے،  صفا ومروہ کی سعی کے دوران معمول کی رفتار سے ہی دعائیں کرتے ہوئے چلنا چاہیے؛  البتہ سبز لائٹوں کے ذریعے جس  حصے کو - جو تقریبا بیس بچیس میٹر کا ہے-  نمایاں کیا گیا ہے،  اس میں تھوڑی سبک رفتاری سے ہلکے انداز میں دوڑ کر چلنا چاہیے۔

دعائیں اور ذکرو اذکار کرتے ہوئے ہم صفا سے مروہ پر پہنچے ، یہاں سے دیواروں کی وجہ سے کعبہ نہیں دکھائی دیتا ہے،  بہرحال کعبہ کی طرف رخ کر کے یہاں پر بھی دعائیں کی،  پھر صفا کی طرف چل پڑے،  اسی طرح کرتے رہے،  یہاں تک کہ ساتواں چکر مروہ پر مکمل ہوا۔

اس پوری مدت میں دعاؤں اور ذکر و اذکار  کے ساتھ ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کے حکم کی تابعداری،  حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی بے چینی بھی یاد آتی رہی اور یہ سبق بھی ملا کہ ہم میں سے جو بھی رب  کریم کے حکم کے سامنے بے چون وچرا سر جھکا لے گا،  اس کی آخرت تو سنور جائے گی ہی،  دنیا میں بھی  ر بِ کریم کی ذات اسے ضائع  نہیں کرے گی،  ہاں یہ ہوسکتا ہے کے صبر و ضبط کے کچھ امتحانات سے گزرنا پڑے۔

رفقائے سفر سے ملاقات اور بال مونڈوانا  یا  ترشوانا

سعی کے سات چکر مکمل کر کے جب ہم تینوں نے مروہ پر اپنے رفقاء کو متعینہ جگہ پر نہیں پایا ، تو کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ہم نے  انہیں کال کیا،  تو پتہ چلا کہ استنجاء وغیرہ کے شدید تقاضہ کی وجہ سے وہ لوگ باہر نکل گئے  ہیں اور ابھی حرم کے بیرونی صحن میں ہیں۔  بتائی ہوئی جگہ پر ان حضرات سے ملاقات ہوئی ، بھوک سب کو شدید لگی تھی کہ رات کا بارہ بجنے کو تھا،  دوپہر کے کھانے کے بعد سے لوگوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔

لیکن یہ طے پایا کہ پہلے بال مونڈوا یا ترشواکر احرام سے نکل جائیں اور عمرہ کی تکمیل ہو جائے،  پھر کھانا کھائیں گے،  چنانچہ مشہور ترین ہوٹل "ابراج مکہ"  سے متصل بلڈنگ میں جہاں سیلون  کی بھرمار ہے،  بال مونڈوایا اور ترشوایا،  پھر لوگوں نے ایک دوسرے کو عمرہ کے مکمل ہونے کی مبارک باد دی  اور یہ دعا بھی کیا کہ اللہ عزوجل ہم تمام کے عمرے کو قبول کرے۔

حرم مکی سے متصل سیلونوں میں بھیڑ کی وجہ سے نہایت ہی برق رفتاری سے حجام اپنا کام کرتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اکثر سیلون میں بس جیسے تیسے سر مونڈ دیا جاتا ہے اور بالوں کے ترشوانے کی صورت میں تو یہ بندگا نِ  خدا اور بھی ستم ڈھاتے ہیں،  اللہ ان سیلون والوں پر رحم کرے اور تجارت کے ساتھ ساتھ خدمت کا جذبہ بھی ان کے اندر پیدا کرے۔

خیر بال کے مونڈوانے اور ترشوانے کے  مرحلے سے فارغ ہوکر سعودی عرب میں مشہور و مقبول کھانا  "دجاج اعلی الفحم " (چکن باربی کیو) اوربخاری چاول ہم لوگوں نے کھایا،  پھر تقریباً ایک بجے رات کے آس پاس ہوٹل کے روم پر پہنچے،  یہ پروگرام طے تھا کہ صبح فجر کے بعد ہم سب غارِ حراء جائیں گے،  آپس میں اس پروگرام کی یاد دہانی کے بعد سب سو گئے۔

میں بھی  اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس نے مزید ایک عمرے کی سعادت بخشی،  بستر پر لیٹ گیا،  یہ سوچتے سوچتے کہ نیند بھی اللہ عزوجل کی کیسی عظیم نعمت ہے کہ انسان تھکن سے کتنا ہی چور کیوں نہ ہو،  ایک مکمل اور پرسکون نیند کے بعد بالکل ہی تازہ دم ہو جاتا ہے،  نہ جانے  کب نیندکی  حسین وادیوں میں کھو گیا۔

 

دوسرا  باب: غارِحراء  میں

 

پر لطف سجدہ

رب کریم ہم سے ہر پل اور ہر آن شہِ رگ سے زیادہ قریب ہے،  لیکن جب پیشانی رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی ہے،  تو نزدیکی اور اپنے رب سے قرب کا احساس اور بڑھ جاتا ہے۔

آنکھیں نم تھیں،  ہونٹ کپکپا رہے تھے ، سر سجدہ میں تھا،  دل و دماغ میں دعائیں اور فریادیں تھیں، وحی ربانی کی نورانیت کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہو رہا تھا،  سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے مشام جاں معطر تھا،  اپنی خوش نصیبی پر فخر و مسرت کا احساس دل میں موجزن تھا ،  حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت جو دلی کیفیات تھیں،  ان کے مکمل اظہار سے میرے الفاظ قاصر اور میرا قلم عاجز ہے۔

یہ خوبصورت جذبات اور یادیں اسی عمرہ کے سفر کی ہیں،  جب میں غار حراء  میں دوگانہ ادا کرتے ہوئے سجدہ ریز تھا،  اس گنہگار (لیکن ر بِ کریم کی رحمتوں کے امیدوار)  کو اپنی زندگی میں جن سجدوں میں ایک عجیب قلبی حلاوت محسوس ہوئی،  ان میں" غار حراءکا سجدہ" بھی ہے،  بہت سی دعائیں کی اور خاص طور سے امت مسلمہ میں تعلیمی بیداری کے لئے رب کی بارگاہ میں فریاد کی،  اور اپنے لئے خصوصیت سے یہ مانگا کہ اے آقا!  اے مولائے  کریم!  مجھے پوری زندگی علم نافع کی خدمت سے وابستہ رکھئے اور مختلف جہتوں سے علم نافع کی خدمت کرنے کی توفیق دیجئے،  اور پوری زندگی علم نافع کی نشرو اشاعت میں گزارنے کی سعادت بخشئے!

غار حراءء میں دوگانہ ادا کرکے اور دعائیں کرکے غار سے متصل ایک پتھر پر بیٹھ گیا،  خنک ہوائیں جسم و جاں کو تازگی بخش رہی تھیں،  نگاہ تصور ان ساری چیزوں کو دیکھ رہی تھی جن کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں آیا ہے، میرے ساتھ اس عمرہ کے سفر میں اور بھی لوگ تھے، جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے،  وہ لوگ جب دو رکعت نماز ادا کرکے اور دعائیں کرکے میرے ارد گرد جمع ہوئے،  تو مجھے خیال ہوا کہ اس مناسبت سے کچھ گفتگو اپنے رفقائے سفر سے ضرور کرنی چاہیے،  مجھے گفتگو کرتا ہوا دیکھ کر کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے ، غار حراء  کے ارد گرد بہت زیادہ کشادہ جگہ نہیں ہے،  غار کے حصے کو چھوڑ کر تقریباً دو ڈھائی فٹ چوڑی اور بارہ پندرہ فٹ لمبی جگہ ہے، جس جگہ میں دو چار ایسی چھوٹی چٹانیں بھی ہیں ، جن پر بیٹھا جا سکتا ہے،  اُن ہی میں سے ایک  پر میں بیٹھا تھا۔

غار حراء سے متعلق چند باتیں

دس پندرہ منٹ کی میری گفتگو ہوئی جس کے چند بنیادی نکات پیش خدمت ہیں:

الف:  غار حراءکی دوری کعبۂ مشرفہ سے تقریباً دو میل ہے اور غار حراءکی لمبائی چارگز اور چوڑائی پونے دو گز ہے، اس غار کا نام غار حراء ہے، لیکن اس پہاڑ کا نام جس پر یہ غار ہے ، جبل نور ہے۔

ب:  سید الاولین والآخرین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اسی غار میں نازل ہوئی تھی،  اس کا قصہ یہ ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال سے متجاوز ہوئی،  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرون بے چینی بہت زیادہ بڑھنے لگی،  بتوں کی عبادت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کی تھی،  لیکن اپنی قوم کو کرتے دیکھتے تھے،  دل میں ہوک سی اٹھتی تھی کہ کس طرح اپنی قوم کو اس غلط راستہ سے ہٹا کر سیدھے راہ پر لائیں ؛ لیکن وہ سیدھا راستہ ہے کیا ؟ یہ بات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر  اس وقت مخفی تھی۔

بے چینی جب حد سے گزر گئی تو گوشہ نشینی اختیار کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حراءمیں آکر قیام کرنے لگے،  بسا اوقات کئی کئی دن اور راتیں غار حراءہی میں گزارتے ، غوروفکر کرتے اور رب کریم جس طرح رہنمائی کرتا،  اس طرح اس پاک ذات کی عبادت کرتے،  تقریباً تین سال تک اسی کیفیت،  اسی کرب و بے چینی میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے گزارا ، درحقیقت اللہ عزوجل نبوت کی عظیم الشان ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح تیار کر رہے تھے۔

تین سال اس کیفیت میں گزارنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال کی ہو گئی،  تو ایک دن جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی غار میں تھے،  انہوں نے کہا: پڑھئے!  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:  میں پڑھ نہیں سکتا،  حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے بھینچ لیا، پھر پڑھنے کوکہا،  پھر وہی جواب ملا اور پھر انہوں نے زور سے بھینچا،  تیسری بار بھی یہی ہوا،  پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھا۔ (صحیح بخاری، باب کیف کان بدء الوحی، حدیث نمبر: 3)

ج:  سورۂ علق کی ابتدائی آیات پڑھنے اورعلم وتعلیم  سے متعلق ہیں، احادیث و سیرت کی کتابوں کے مطابق اس وقت مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد؛  بلکہ پورے جزیرۃ العرب میں قسم قسم کی بد ترین سے بدترین برائیاں عام تھیں۔   زناکاری ،قتل و غارت گری اور لوٹ مار معمول کی بات تھی،  اس تاریکی کے ماحول میں سب سے پہلی وحی کا پڑھنے لکھنے سے متعلق نازل ہونا اس بات کو صاف طور پر بتاتا ہے کہ برائیوں کی تاریکی سے نکلنے اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں سب سے پہلا قدم علم کی روشنی کو عام کرنا ہے۔

آج کی ایک نئی قسم کی جاہلیت اور اباحیت کے دور میں اگرہمیں باوقار امت کی حیثیت سے اور پوری دنیا کے لئے مشعل ہدایت بن کر رہنا ہے تو تعلیم کو فروغ دینا ہوگا ، امتِ مسلمہ کے سو فیصد افراد کو دینی و اخلاقی تعلیم (بحیثیت فرض ِعین)  اور دوسرے علوم نافع (بحیثیت فرضِ کفایہ)  دینے ہوں گے۔

جس طرح ملت کے ہر فرد کے لئے علم کا حصول فرض ہے،  اسی طرح ہر فرد پر علم کی نشرواشاعت کی کوشش بھی ضروری ہے،  جس کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہر قیمت پر ہر شخص اپنے بچے بچیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرے،  اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اور جس قدر علم کے فروغ کے لئے کوشش کر سکتا ہو کرے۔ مثلاً  اگر آپ تعلیمی ادارہ کھول سکتے اور چلا سکتے ہیں  اور آپ نے نہیں کیا، تو اللہ کے یہاں  پوچھ اور باز پرس سے شاید نہ بچ سکیں،  اگر آپ ایک دو ضرورت مند بچے بچیوں کی تعلیم کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور آپ نے ایسا نہیں کیا ، تواللہ کے یہاں جوابدہی سے شاید خلاصی نہ ہوسکے۔

سوچئے، جائزہ  لیجئے ! آپ کے ارد گرد کس طرح کی تعلیمی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ اس میں کیا حصہ ادا  کر سکتے ہیں ؟ وہ ضرور کیجئے!۔

د: حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے کہ کبھی کبھی جب کئی دنوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر نہیں لوٹتے اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ محسوس ہوتا کہ کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے والی ہوں گی،  تو پانی اورستو    وغیرہ پہنچانے کے لئے غار حراءآجاتی تھیں،  دو تین باتیں قابل غور ہیں: ایک تو حضرت خدیجہ کی جاں فشانی کہ دو میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے کئی سوفٹ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ کر غارحراءپہنچتی تھیں، آج تو محبت کرنے والوں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں،  جن کی تعداد غار تک پہنچتے پہنچتے ایک ہزار زینہ کے آس پاس ہے، ان زینو ں کے ہونے کے باوجود،  بار بار رک کر،  لیموں پانی کا شربت پی پی کر ایک گھنٹہ سے زیادہ میں ہم غار تک پہنچ سکے، سلام ہو پاکیزہ ترین خاتون ہم سب کی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر، کہ بغیر سیڑھیوں اور زینے کے محنت و مشقت اٹھا کر غار تک پہنچتی تھیں۔

اس میں یہ سبق ہے مسلم ماؤں،  بیویوں اور بیٹیوں کے لئے کہ اپنی فطری نزاکت کے باوجود اگر حوصلہ بلند رکھیں،  تو خیر کے کاموں ،نسلِ نو کی تربیت اور ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی میں بڑا رول انجام دے سکتی ہیں اور کوئی بھی معرکہ کر سکتی ہیں۔

دوسری قابل غور بات مسلمان بیویوں کے لئے  یہ ہے کہ بسا اوقات شوہر کو کچھ ایسی الجھن ہوتی ہے کہ کوئی گرہ کھلتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی،  ایسے میں بہت زیادہ سوال  وجواب کئے بغیر ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرح اپنے شوہر کے پہلو بہ پہلو کھڑا رہنا چاہیے،  یہاں تک کہ اللہ عزوجل اس مشکل سے نکلنے کی راہ پیدا کر دے۔

ہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنے قوم کے تئیں بےچینی ہونے لگی،  تو خلوت میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں غوروفکر کرنے لگے، وہیں اللہ عزوجل کی طرف متوجہ بھی ہوئے۔  اس میں ہمارے لئے یہ نصیحت ہے کہ جب بھی کسی طرح کی مشکل درپیش ہو تو ایک طرف غور و فکر اور تدبیر بھی کرنی چاہیے اور دوسری طرف اللہ عزوجل سے رجوع بھی کرنا چاہیے۔

یہ چند معروضات پیش کرکے اجتماعی دعا کی گئی،  پھر ہم جمعہ کی نماز کےلئے حرم شریف جانے کے ارادہ سے غار حراء  سے نیچے اترنے کے لئے کمربستہ ہوگئے اور تقریبا آدھا گھنٹہ میں نیچے مسجد بلال کے پاس پہنچ گئے، جہاں سے حرم کیلئے ٹیکسیاں  ملتی ہیں۔

تجربہ کی باتیں

غار حرا ء وہ جگہ ہے،  جہاں پہلی وحی کے نزول سے پہلے تقریباً تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ کر قیام کرتے رہے اور کبھی کبھی ہفتہ بلکہ اس سے زیادہ عرصہ تک مسلسل وہاں رہتے تھے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو وہاں  ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور وہی وہ جگہ ہے، جہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔

لہذا اگر آپ صحت مند اور متوسط درجہ کے طاقتور ہیں،  بیماریا بہت زیادہ کمزور و ضعیف نہیں ہیں،  تو ضرور جبلِ نور پر چڑھئے،  غارِ حراء تک جائیے،  سیرت سے متعلق اس اہم باب کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیجئے،  وحیِ ربانی کی نورانیت نگاہِ تصور سے دیکھئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم جہاں پڑے ہیں، ان خوش نصیب پتھروں کو دیکھئے، ان پتھروں پر رب کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کا لطف لیجئے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

البتہ درج ذیل چند باتوں کو ملحوظ رکھیں، توبہ آسانی غار حرا ءکی زیارت کر سکتے ہیں:

الف :مئی سےاگست بلکہ ستمبر کے پندرہ دن تک مکہ مکرمہ اور اطراف و جوانب میں شدید گرمی رہتی ہے،  لہذا ان مہینوں کے علاوہ میں غار حرا ء کی زیارت کا پلان بنائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

لیکن اگر کسی وجہ سے اِن ہی مہینوں میں پلان بن رہا ہو تو خصوصاً،  اور اگر کسی اور مہینے میں پلان بن رہا ہو تو بھی یہ ملحوظ رکھیں کہ حرم میں نمازِ فجر ادا کرکے طلوع آفتاب سے پہلے ہی غار حراء کی طرف روانہ ہوجائیں ؛ کیونکہ اگر دیر کریں گے،  تو سورج کی تپش اور تمازت آپ کو پریشان کرے گی اور جوں جوں آپ بلندی پر چڑھتے جائیں گے، چڑھنے کی تھکن اور دھوپ کی حِدَّت  دونوں مل کر آپ کے لئے زیادہ تکلیف دِہ ہو جائیں گے۔

ب:ٹیکسی والے سے یہ طے کریں کہ جبل نور کے دامن میں نہیں بلکہ اوپر مسجد بلال تک،  جہاں تک سڑک بنی ہے اور جہاں سے زینے شروع ہوتے ہیں، وہاں تک آپ کو پہنچائے، چونکہ وہاں سے غار حراء  تک پہنچنے کے لئے کم و بیش ایک ہزار زینے آپ کو چڑھنے ہوں گے،  لیکن اگر آپ نے ٹیکسی نیچے جبل نور کے دامن ہی میں چھوڑ دیا،  تو وہاں سے زینے تک تقریبا 300ً  سے 400 میٹر کے قریب ایسی کھڑی چڑھائی ہے،  جو زینو ں کے شروع ہونے سے پہلے ہی آپ کو تھکا دے گی۔

ج: زینوں پر چڑھتے ہوئے عجلت کا مظاہرہ نہ کریں کہ جلد ہی تھک جائیں گے اور رانوں میں کھنچاؤ محسوس ہونے لگے گا،  معمول کی رفتارسے چڑھیں، اور جب پچیس تیس زینوں کے بعد تھکن محسوس ہو تو منٹ دومنٹ زینو ں کی منڈیر پر بیٹھ کر آرام کرلیں،  پھر آگے بڑھیں،  اس طرح تقریباً ایک گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹے میں آپ اوپر بلندی پر ہوں گے،  جہاں پر ایک دیسی طرز کا سادہ سا چھوٹا سا ریسٹورنٹ ہے،  جہاں سے دوسری طرف بیس پچیس زینے اترنے کے بعد غار حرا ءہے۔

غار حراء  سے بالکل متصل راستہ بند سا ہے،  بائیں طرف پتھر پر تھوڑا اوپر چڑھ کر جھک کر نیچے اتر جائیں،  یادو چٹانوں کے بیچ کروٹ ہوکر پیٹ پہاڑ سے لگا کر احتیاط سے دائیں طرف کھسکیں،  پھر اسی پوزیشن میں  -اگر آپ کا جسم تھوڑا موٹا ہے تو - دائیں پاؤں کو ڈیڑھ فٹ کے آس پاس اٹھا کر گزار دیں،  پھر اسی طرح دائیں پاؤں کو۔ وہ دیکھیں آپ کے سامنے غار حرا ء " مہبط وحیِ اول" ہے۔

د:  زینوں پر ہر سو دوسو زینے کے بعد چھوٹا سا ریسٹورینٹ ملے گا ، جہاں پانی، لیموں کا شربت،  جوس اور ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں ملتی ہیں۔ جن  ریسٹورینٹ میں فطری طور پر عام دکانوں کے مقابلہ تین گنا مہنگا سامان ملتا ہے،  کیونکہ اس بلندی تک چیزوں کا پہنچانا خود ایک بڑا معرکہ ہے۔

اس لئے آپ کو دو اختیارات ہیں:  ایک یہ کہ دو تین ریال کی پانی کی بوتل، تین چار ریال کا لیموں کا شربت ان ریسٹورینٹ سے ہی خریدیں، - جو یہاں کے حساب سے کوئی خاص مہنگا بھی نہیں ہے - اور ان محنت کشوں کو فائدہ پہنچائیں۔  یا پیٹھ پر ٹانگنے والا ہلکا پھلکا کپڑے والا بیگ -جو مکہ اور مدینہ میں پانچ اور دس ریال میں آج  کل دستیاب ہے - لے لیں  اور اس میں دو تین بوتل پانی اور تین چار بوتل لیموں کا شربت رکھ لیں،  جو اس سفر میں آپ کا زادِ راہ ہو گا۔

پانی اور لیموں کا شربت وقفہ وقفہ سے ضرورپئیں، لیکن چند گھونٹ،  پیٹ بھر کر مت پی لیں، ورنہ  بلندی پر چڑھتے ہوئے معدے میں اینٹھن کا احساس ہوگا اور متلی کی کیفیت پیدا ہو گی۔

جمعہ کی نماز اور واپسی

ہم لوگوں نے زینوں کے پاس واقع مسجدبلال سے ٹیکسی لی،  حرم شریف واپس پہنچے، وہاں جمع کی نماز ادا کی، پھر کھانا کھاکر ینبع واپس روانہ ہوگئے اور چار ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت طے کرکے  ینبع  - بحمد اللہ - خیریت و عافیت سے پہنچ گئے،  اس طرح یہ مبارک سفر تقریبا تیس گھنٹوں میں تمام ہوا۔  لیکن اس کا ثواب اور برکتیں ہمیشہ کے لئے ان شاءاللہ رہ جائیں گی۔

  اور واپسی اسی دعا کے ساتھ ہوئی کی رب کریم!  پھر سے اپنے گھر کی زیارت کے لئے اور حج و عمرہ کے لیے بلائیےاور بار بار بلاتے رہیے اور وہاں کے انواروبرکات اور فیوض میں سدا اس فقیر بے نوا کا بھی حصہ رکھئے۔  آمین ! واللہ الموفِّق وہوالمعین۔

ابو دانیال محمد رضی الرحمن قاسمی

استاذ رضوی انٹرنیشنل ینبع، مدینہ منورہ
میرا نام محمد رضی الرحمن قاسمی بن حضرت مولانا صفی الرحمن قاسمی ہے ، میں بہار كے مشہور ضلع دربهنگہ كا رہنے والا ہوں، میں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربهنگہ میں حاصل کی ہے، جہاں میرے والد محترم بہ حیثیت صدر مدرس عرصہ سے خدمت انجام دے رہے ہیں، پھر میں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کیاہے، اس کے بعد المعہد العالی الاسلامی حیدرآبادسے اختصاص فی الفقہ و الافتاء کا نصاب مکمل کیاہے، معہد ہی میں مزید ایک سال "تدریب تحقیق و تصنیف" کے شعبہ میں بھی تربیت حاصل کی ہے، معہد کے اس سہ سالہ عرصہ میں مخدومی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زید مجدہ کے خصوصی علمی رفیق کے طور پر بھی خدمت کا شرف حاصل رہا ہے، عصری دانش گاہوں سے بھی کسب فیض کیا ہے، چنانچہ مدراس ییونیورسیٹی سے عربی سے ایم اے اورحیدر کی مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسیٹی سے اسلامک اسٹڈیز اور اردو میں گریجویشن بھی کر رکھا ہے۔

جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور، اڈپی، کرناٹک میں مشکوۃ شریف، ہدایہ، نیز شعبہء افتا کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دی ہے۔ پھر بعض بزرگوں اور جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور، اڈپی کے ذمہ داروں کے ایماء پر " الجامعہ الاسلامیہ کیرالا" آگیا، اس ادارہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی تدریسی زبان عربی ہے، اللہ کے فضل اور اس کے کرم سے اس حقیر نےمقبول ترین استاذ کی حیثیت سے یہاں دو سال سے زیادہ خدمت انجام دی اور محض سال بھر ہی کے عرصہ میں " فقہ اسلامی واصول فقہ کے شعبہ " کا صدر شعبہ منتخب کر لیا گیا ، پھر وہاں کے ذمہ داروں کے مشورہ سے یہ حقیر دوحہ، قطر آگیا۔

دو سال یہاں شریعہ اور عربی زبان کے استاذ کی حیثیت سے رہا، ان دنوں مدینہ منورہ سے قریب ایک شہر ینبع میں شریعہ اور عربی زبان و ادب کے استاذ کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔
اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ اس حقیر کی عربی زبان میں ایک کتاب اور اردو زبان میں تین کتابیں طبع ہو چکی ہیں، اور پانچویں کتاب جو عربی زبان میں ہے، طباعت کے لئے تقریبا تیار ہے، ان شاء اللہ وہ بھی جلد ہی طبع ہو جائے گی، چھٹی کتاب کا کام جاری ہے، دعاء کی درخواست ہے کہ اللہ اسے بھی جلد ہی بہ حسن و خوبی تکمیل تک پہونچا دے، آمین! نیز ملک اور بیرون ملک کے جرائد و مجلات میں مقالات و مضامین بھی چھپتے رہتے ہیں۔



مطبوعہ کتابوں کے نام یہ ہیں:

1 – فسخ و تفریق (اردو) (فسخ و تفریق کے موضوع پر ائمہ ار بعہ کے نقاط نظر مع دلائل ذکر کر کے ان میں ترجیح و تطبیق کی بابت مصنف نے تفصیلی گفتگو کی ہے)

2 – اولاد کی تربیت --- کوتاہیاں اور رہنما اصول (اردو)

3 – النسخ فی القرآن الکریم و دحض الشبہات المثارۃ حولہ (عربی)

4 – بین المذاہب تعلقات اور اسلام (اردو)

5 – اصول الفقہ المیسرۃ ( عربی، زیر طبع)

کل مواد : 1
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024