مسئلہ رؤیتِ ہلال اور چند غلط فہمیاں
کسی بھی فن کے ماہر اور غیر ماہر کی رائے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ماہر کی رائے ایک انتھائی گہری تحقیق، اصولوں پر مبنی ہوتی ہے اور غیر ماہر کی رائے سرسری معلومات، جذبات پر ہوتی ہے ،اسکی قریب کی مثال لے لی جائے تو رمضان اور عید کے چاند کی رؤیت کے موقع پر مختلف آراء کو دیکھاجاسکتا ہے مثلا:
*چاند دیکھنا مولویوں کا کام ہی نہیں ہے اسے سائنس کی ماہرین کے سپرد کردینا چاہئے*
*اتنی ترقی ہو گئی ہے ابھی تو ہم سائنس کی مدد سے اگلے سو سال کا چاند کا حساب نکال سکتے ہیں، ہمیں ایک کلینڈر بنوالینا چاہئے تاکہ اختلاف کی کوئی صورت ہی پیدا نہ ہو*
*ہم نے نمازوں کے اوقات دیکھنے کے لئے گھڑیاں بنالیں تو رمضان کے چاند کے لئے ہم جدید وسائل استعمال کیوں نہیں کرتے*۔
یہ تمام تبصرے ناواقفیت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اس تحریر میں کوشش کرونگا کہ اس شرعی حساس مسئلہ پر کچھ فنی روشنی ڈال سکوں جس سے شاید اصل مدعی سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔
اسلامی عبادات کے لئے اوقات اور ایام کے تعین میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے‘ مگر اس میں فرق یہ ہے کہ اوقات کا تعین سورج کی گردش کے حوالہ سے ہوتا ہے اور ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتاہے‘ مثلا: روزے کے دن کا تعین قمری ماہ کے طور پر رویت ہلال کے ذریعہ ہوتا ہے‘ مگر روزے کے روز مرہ دورانیہ کا تعین سورج کی گردش کے مطابق کیا جاتاہے۔ اسی طرح حج کے ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے ہوتاہے
سورج کے حساب سے ماہ 28,29,30,31 کا ہوتا ہے اور چاند کے حساب سے 29, 30 کا ہوتا ہےاور اسلام میں اعتبار قمری مہینوں کا ہے نہ کہ شمسی۔ یعنی اسلامی سال الگ ہے اور شمسی (عیسوی) سال الگ۔
اسی وجہ سے اسلام نے تین اقسام کی عبادات قمری مہیوں سے منسلک کی ہیں
رمضان کے روزے
عیدین
حج
زکوة
اور نماز جیسی عبادت جو ہر روز پانچ وقت ادا کرنی ہے لہذا اوقات کی وجہ سے اسے سورج سے منسلک کیا گیا ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ )سورة الاسرء آیت 78)
(اے پیغمبر) سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ (٤٣) اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔ یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے۔ (٤٤)
عن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، نحوه . فعلى هذا تكون هذه الآية دخل فيها أوقات الصلاة الخمسة فمن قوله : ( لدلوك الشمس إلى غسق الليل ) وهو : ظلامه ، وقيل : غروب الشمس ، أخذ منه الظهر والعصر والمغرب والعشاء ، وقوله [ تعالى ] : ( وقرآن الفجر ) يعني صلاة الفجر .(ابن کثیر)
لہذا یہ بات تو واضح ہوگئی کہ چاند سے منسلک عبادات سورج کی مدد سے پوری نہیں کی جاسکتیں اور سورج سے منسلک عبادات کو چاند کے حساب سے ادا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورج کا کام اوقات کا تعین ہے اور چاند کا کام ماہ کا تعین ہے جب دونوں کے کام ہی الگ ہوئے ایک دوسرے سے تو عقل بھی تقاضہ کرتی ہے کہ احکامات بھی الگ الگ ہونا چاہئیں اور ویسا ہی ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے اس سوال کا آدھا توجواب مل گیا کہ ’’ ہم نے نمازوں کے اوقات دیکھنے کے لئے گھڑیاں بنالیں تو رمضان کے چاند کے لئے ہم جدید وسائل استعمال کیوں نہیں کرتے‘‘۔ باقی آدھا جواب کچھ یوں ہے کہ سورج کے اوقات چونکہ متعین ہیں لہذا جدید سائنس کی روشنی میں ہم نے اُن اوقات کا معلوم کیا اور اسکے مطابق گھڑیاں ایجاد کرلیں اور ان کی مدد سے ہم اوقات معلوم کرکے پانچ وقتہ نمازیں ادا کرتے ہیں لیکن چاند کی رویت کے سلسلے میں جب ہم اسی فارمولا کو اپنانے کا سوچتے ہیں تو دو جوابات حاصل ہوتے ہیں
ایک تو یہ کہ قمری مہینے متعین نہیں ہوتے کبھی 29 کا چاند ہوتا ہے کبھی 30 کا
نمبر دو یہ کہ حدیث شریف میں جو حکم، رہنمائی کی گئی ہے اسکا دارومدار رؤیت ہلال یعنی چاند کےمشاہدہ، دیکھنے پر ہے چاند کے پیدا ہونے پر نہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْکُمْ فَأَکْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ
رواه البخاري (1906) ومسلم (1080)
ترجمہ:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر ابر چھا جائے تو تیس دن شمار کر کے پورے کرو۔
پہلا نقطہ:
اس حدیث پر اگر غور کیا جائے تو چاند دیکھنے کا جو طریقہ اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے اس میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے ’’ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ‘‘ چاند دیکھ کر روزے رکھو یعنی چاند کی ولادت بنیاد نہیں بلکہ شھود، دیکھنا ضروری ہے اگر چاند کی ولادت مطلوب ہوتی تو عبارت کچھ اس طرح ہوتی’’ صوموا لولادة الهلال في السماء ‘‘۔
دوسرا نقطہ:
یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرة:۱۸۹)
لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
’’ہلال‘‘ چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آسمان پر دکھائی دیتی ہے ، فلکی چاند(New Moon) جو دکھائی نہیں دیتا اس کو ہلال نہیں کہتے ہیں اور احادیث میں بھی صوم رمضان وعیدکو رویت ہلال پر موقوف کیا گیا ہے
تیسرا نقطہ:
“الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِينَ” (صحيح البخاري : 3/ 34, صحيح مسلم : 3/ 122, من حديث ابن عمر) یعنی مہینہ کبھی انتیس رات کا ہوتا ہے اس لئے جب تک چاند نہ دیکھ لو رمضان کے روزے نہ رکھو، پھر اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرو یعنی شعبان کو تیس دن کا سمجھو۔
اور ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں انسان اگر کسی بھی وجہ سے اسے دیکھ نہ پائے تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کرے یا رمضان کے تیس روزے پورے کرے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو چاند دیکھنے کے معاملے میں شریعت نے بہت زیادہ مجبور نہیں کیا بلکہ رعایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جتنا انسانی بس میں ہواس حد تک تلاش کرو اور نہ ملنے کی صورت میں غم یا نادم ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ 30 دن شمار کرتے ہوئے اگلے ماہ کا آغاز کرلو۔
اس حدیث کی ایک اور حکمت جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ شریعت کا حکم چونکہ قیامت تک اور ہر مسلمان کے لئے ہے خواہ وہ شہری ہو یا دھاتی، امریکہ میں رہتا ہو یا افریقہ کے جنگلات میں اس کے لئے رؤیت کا معیار ایسا رکھا گیا جس پر عمل کرنا جدید سائنس یا بنا سائنس ممکن ہوسکے لہذا رویت ہلال کو معیار بنادیا گیا کہ انسان جہاں تک ممکن ہو آسمان دیکھ کر رؤیت کی بنا پر فیصلہ کرسکے۔
چوتھا نقطہ
یہ سمجھ لیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی نماز کے اوقات کی نشانیاں ہوا کرتی تھیں جنہیں دیکھ کر اوقات متعین کئے جاتے تھے جیسے آج بھی دیہاتوں میں گھر کے صحن مختلف حصوں میں دھوپ کے مقام سے یا پھاڑ کے خاص حصہ سے آنے والی یا غائب ہونے والی روشنی کو دیکھ کر فجر یا مغرب کے وقت کا تعین جسکا میں خود بھی شاہد ہوں۔ لہذا دن کے اوقات کو نشانیوں سے متعین کرنا آج کے دور میں گھڑی کے ذریعہ خلاف شریعت نہیں بلکہ شرعا اسکا ثبوت موجود ہے لیکن رمضان یا عیدین یا حج کے مہینوں کا تعین اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں رویت ہلال سے منسلک ہےلہذا کلینڈر والا فارمولا یہاں چل نہیں سکتا کیونکہ چاند کی پیدائش تو شایدمتعین ہوسکتی ہے پر چاند کا شھود، رؤیت کے لئے عملا مشاہدہ کرنا پڑیگا اور چاند نظر آنے کی صورت میں نیا مہینہ شمار ہوگا اور نظر نہ آنے کی صورت میں 30 دن پورا کرنا ہونگے۔
جہاں تک چاند کا ٹھیکہ مولویوں کے ہاتھ سے لے نے کی بات ہے ٹھنڈے دل سے ذرا سمجھ لیں کہ رمضان یا عیدین وغیرہ کوئی تھوار نہیں بلکہ عبادات ہیں اور عبادات کے احکامات، مسائل ناسا (NASA)میں نہیں پڑھائے جاتے بلکہ دینی درسگاہوں میں ہی پڑھائے جاتے ہیں اور انہیں پڑھنے والے کو عالم، مفتی یا شرعی ماہر کا نام، لقب دیا جاتا ہے لہذا اسی بنا پر مخصوص مہینوں کی عبادات سے متعلق ذمہ داریاں علماء کو ہی دی جاتی ہیں اور یہ تعلیم خاص کسی قوم، قبیلہ یا طبقے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہرمسلمان اسے حاصل کرسکتا ہے لہذا اگر کسی کو پسند نہیں کہ رؤیت ہلال کمیٹی کا سربراہ کوئی عالم ہو تو وہ شوق سے دینی تعلیم حاصل کرکے اس عہدہ پر فائز ہوسکتا ہے البتہ بنا علم کے نااہل شخص اس اہم ذمہ داری کے لئے قطعا اہل نہیں۔
تکنیکی پہلو:
یاد رہے کہ جدید سائنس کی مدد لینا الگ بات ہے اور ان آلات کے نتیجہ میں حاصل نتائج نکالنا الگ بات ہے، جیسے لیباٹری کی رپورٹ بنانے والا مرض کی دوا نہیں دیتا بلکہ اسکا کام ٹیسٹ کی رپورٹ تیار کرنا ہوتا ہے اور اس رپورٹ کو پڑھ کر دوا تجویز کرنا ڈاکٹر کے ذمہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح محکمہ موسمیات جدید آلات فراہم کرتا ہے جس کے ذریعہ ایک طویل مسلمان ماہرین پر مشتمل کمیٹی ان آلات کے ذریعہ چاند کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور مشاہدہ ہونے کی صورت میں روزہ یا عید کا اعلان کرتی ہے۔
مسلمان معاشرے میں لوگوں کا گمان یہ ہوتا ہے کہ علماء کرام عام طور پر گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں لہذا ان کے احترام میں کئی معاشرتی ذمہ داریاں ہم انکے سپرد کردیتے ہیں ساتھ ساتھ چونکہ چاند سے متعلق گواہیاں بھی وصول کرنا ہوتی ہیں اور ان گواہوں کی شرائط سے علماء ہی واقف ہوتے ہیں لہذا یہ معاشرتی ذمہ داری علماء کے ہی سپرد کی جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ رؤیت ہلال کا مسئلہ جتنا سادہ اور آسان ہے اسے ویسے ہی رہنے دیا جائے اور جس حد تک شریعت نے مکلف کیا ہے انہیں حدود میں محدود رہا جائے اسی کا نام اطاعت ہے جو کہ ہر مسلمان سے شریعت کو مطلوب ہے۔
وما علينا إلا البلاغ