ایک کلمۂ خیر خواہی قادیانی حضرات کی خدمت میں !
اگرچہ اس بات پر پوری اُمت ِمسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے کہ رسول اللہ ا پر سلسلۂ نبوت تمام ہوچکا ہے ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی شخص آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی اس دعویٰ کو قبول کرتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہے ؛ اس لئے مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر سنی ، شیعہ ، دیوبندی ، بریلوی ، مقلدین ، غیر مقلدین اس بات پر متفق ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا ،وہ بالکل غلط تھا، اور جو لوگ ان کے نبی یا مصلح ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیںاور جنھیں مسلمان قادیانی کہا کرتے ہیں ، یہ مسلمان نہیں ہیں ، یہ مسلمان فرقوں اور جماعتوں میں سے ایک جماعت نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسا گروہ ہے ، جس نے محمد رسول اللہ اکی ختم نبوت کے خلاف بغاوت کی ہے اور انھیں اعداء اسلام کی طرف سے اسلام کو کمزور کرنے اور شریعت محمدی پر حملہ کرنے کے لئے اُٹھایا گیا ہے ؛ اسی لئے یہود و نصاریٰ سے لے کر ہمارے ملک کے فرقہ پرستوںتک اسلام سے بغض رکھنے والے تمام لوگ ان کی پشت پر ہیں ۔
لیکن اس حیثیت سے کہ تمام انسان حضرت آدم و حوا کی اولاد ہیں اور رسول اللہ انے فرمایا کہ اللہ کے تمام بندے بھائی بھائی ہیں : ’’العباد کلھم إخوۃ‘‘ ( ابوداؤد ، کتاب الوتر ، باب ما یقول الرجل إذاسلم ، حدیث نمبر : ۱۵۱۰) قادیانی حضرات بھی ہمارے انسانی بھائی ہیں اور اس حیثیت سے ہمدردی کے مستحق ہیں کہ ان کی بڑی تعداد ناواقفیت ، ناسمجھی اور صحیح صورت حال سے بے خبری کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوگئی ہے، اور جس شخص کو راستہ معلوم ہو، اس کا فریضہ ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھائے اور گڑھے میں گرنے سے بچائے ؛اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ قادیانیوں کی بڑی تعداد جو باپ دادا کے موروثی مذہب کے لحاظ سے اس پر قائم ہے ، یا دین سے واقف نہ ہونے اور قرآن و حدیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے دھوکہ دینے والوں کا شکار ہوگئی ہے ، ان کو صحیح راستہ پر لایا جائے ، وہ اس جہت سے یقیناََہماری ہمدردی کے مستحق ہیں ، یہ تحریر اسی نقطۂ نظر سے لکھی جارہی ہے ، یہ کلمۂ نصح و محبت اور دوستی و خیر خواہی کی سوغات ہے ، جو اُن کے ایک بہی خواہ کی طرف سے ان کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ، کاش یہ حضرات اسے خالی الذہن ہوکر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھیں ، آخرت کوسامنے رکھیں ، قیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے فکر مند ہوں اور اس درمندانہ درخواست کو ایک دوست کا تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کریں ۔
کسی شخصیت کو پرکھنے کے لئے سب سے اہم چیز اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے ، محمد رسول اللہ اجب نبی بنائے گئے تو آپ نے اپنے آپ کو قوم پر پیش کیا کہ میں نے تمہارے درمیان بچپن اور جوانی گزاری ہے اور عمر کے چالیس سال بِتائے ہیں ، تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟ اور امانت دار پایا، یا خیانت کرنے والا ؟ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ آپ سراپا صدق و امانت ہیں ،کوئی انگلی نہ تھی جو آپ کے کردار پر اُٹھ سکے اور کوئی زبان نہ تھی جو آپ کی بلند اخلاقی کے خلاف کھل سکے ، مرزا غلام احمدصاحب قادیانی کی دعوت کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کی زبان و بیان ، اخلاق و کردار ، لوگوں کے ساتھ سلوک و رویہ اور صدق و دیانت کا جائزہ لیاجائے ، کہ کیا ان کی زندگی انسانیت کے سب سے مقدس گروہ انبیاء کرام کی زندگی سے میل کھاتی ہے یا اس کے برعکس ہے ؟
۱۔ نبوت کا مقصد اور انبیاء کی تمام کوششوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑا جائے ، بندوں کے دل میں اس کے رب کی عظمت و محبت پیدا کی جائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا طریقہ سکھایا جائے ؛ اس لئے ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہیں نکل سکتی جو اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی وہ ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا عطا فرماتا ہے : ’’ إِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ‘‘ ( سورۃ الشعراء : ۸۰) غور کیجئے کہ اس فقرے میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا لحاظ ہے ، ہے تو بیماری اور شفا دونوںاللہ ہی کی طرف سے ؛ لیکن بیماری ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے اور صحت و شفا ایک مرغوب اور پسندیدہ بات ہے ؛ اس لئے شفا کی نسبت تو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہ اللہ ہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے ؛ لیکن بیمار کرنے کی نسبت صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں فرمائی اور یوں کہا کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا فرماتے ہیں ۔
رسول اللہ اکے سامنے ایک صاحب نے خطاب کرتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ا کو شامل کرتے ہوئے کہا : ’’ من عصاھما‘‘ جو ان دونوں کی نافرمانی کرے ، تو حالاںکہ معنوی اعتبار سے یہ فقرہ درست تھا ؛ لیکن چوںکہ بظاہر اس میں اللہ اور رسول کے ایک درجے میں ہونے کا شائبہ پیدا ہوتا ہے ؛اس لئے آپ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیسا بدترین خطیب ہے جس نے اللہ اور رسول کو برابر کردیا : ’’ بئس ھذا الخطیب ‘‘ ۔ ( مسلم ، عن عدی بن حاتم : ۸۷۰)
رب کے معنی پروردگار کے بھی ہے ،اسی معنی میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے مقابلہ میں ’’ عبد ‘‘ ہے ، جس کا معنی بندہ کے ہیں ؛ لیکن عربی زبان میں رب کے معنی مالک اور عبد کے معنی غلام کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے غلام اپنے آقا کو رب اور آقا اپنے غلام کو عبد کہا کرتے تھے ؛ لیکن چوںکہ اس میں خدائی اور بندگی کے معنی کی مشابہت تھی ؛اس لئے آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام اپنے مالک کو رب اور مالک اپنے غلام کو عبد کہہ کر پکارے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہؓ : ۲۵۵۲) — یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ا کو اللہ تعالیٰ کی شان اور مقام کا کتنا زیادہ لحاظ تھا ؛اسی لئے قرآن مجید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنیٰ ہیں، ان ہی سے اللہ کو پکارو ، ( اعراف : ۱۸۰) اور اسماء حسنیٰ سے وہ ذاتی وصفاتی نام مراد ہیں جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، علماء نے لکھا ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ؛ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنی دانست میں اچھی صفت اور اچھے نام کا ذکر کرے ؛ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو اور وہ غیر ارادی طورپر اس کا مرتکب ہوجائے ۔
اب دیکھئے کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی شان میں کیسی شوخیاں کرتے ہیں کہ زبان و قلم پر لانے سے بھی دل لرزتا ہے ؛ لیکن حقیقت حال سے واقفیت کے لئے نقل کیا جاتا ہے :
اللہ کی سب سے بڑی شان یہ ہے کہ اللہ معبود اور انسانی کمزوریوں سے ماوراء ہے ، وہ عبادت کرتے نہیں ہیں ؛ بلکہ عبادت کئے جانے کے لائق ہیں ؛ لیکن مرزا صاحب کے عربی الہامات کا مجموعہ جس کو ان کے مرید منظور الٰہی قادیانی نے ’’ بشریٰ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، اس میں وہ کہتے ہیں :
قال لی اﷲ إنی أصلی وأصوم وأصحوا و أنام ۔( البشریٰ : ۱۲؍۹۷)
مجھے اللہ نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں ، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔
غور کیجئے کہ اس میں ذات باری تعالیٰ کی کس درجے کی اہانت ہے کہ معبود کو عبد بنادیا گیا ،نیندایک انسانی کمزوری ہے،اللہ تعالیٰ کے لئے اس کوثابت کیاگیا، عربی الہامات کے اسی مجموعے میں مرزا صاحب کا ایک الہام اس طرح منقول ہے :
قال اﷲ : إنی مع الرسول أجیب أخطیٔ وأصیب إنی مع الرسول محیط ۔( البشریٰ : ۲؍۷۹)
خدا نے کہا کہ میں رسول کی بات قبول کرتا ہوں ، غلط کرتا ہوں اور صواب کو پہنچتا ہوں ، میں رسول کا احاطہ کئے ہوئے ہوں ۔
گویااللہ تعالیٰ بھی- نعوذباللہ- غلطی کرتے ہیں،اس طرح کے اور بھی کئی نمونے مرزا صاحب کی عربی اُردو تحریروں میں موجود ہیں ، یہاں تک کہ ان کا بیان ہے کہ خدا نے ان سے کہا : أنت من ماء نا ،’’تو ہمارے پانی سے ہے ‘‘ ۔ ( انجام آتھم : ۵۵)یعنی مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور اس نازیبا دعوے کے لئے تعبیر بھی کتنی نازیبا استعمال کی ہے کہ گویا جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے پانی سے پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح گویا ان کی پیدائش ( ہزار بار نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ سے ہوئی ہے ۔
مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسی شرمناک بات کہتے ہیں کہ اگر حق و باطل کو واضح کرنا مقصود نہ ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے اس کو نقل کرنا سرپر پہاڑ اُٹھانے سے بھی زیادہ گراں خاطر ہے ، مرزا صاحب کے ایک معتقد قاضی یار محمد قادیانی لکھتے ہیں :
حضرت مسیح موعود ( مرزاصاحب ) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اسلامی قربانی : ۳۴)
یہ تو ان کے مرید کا بیان تھا ، خود مرزا صاحب کا بیان ہے :
مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعۂ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنادیا گیا ، اس طورسے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ ( کشتی نوح : ۲۷)
لیکن مرزا صاحب کو اس پر بھی تشفی نہیں ہوئی اور انھیں اس میں بھی کوئی باک نہیں ہوا کہ اپنے آپ کو خدا قرار دیں ؛ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں :
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ، میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں ۔ ( آئینہ کمالات اسلام : ۵۶۴)
قادیانی حضرات ٹھنڈے دل سے سوچیں اور خالی الذہن ہوکر غور کریں کہ نبی تو کیا کوئی ادنیٰ گنہگار شرابی وکبابی مسلمان بھی بحالت حوش و حواس اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخیاںکرسکتا ہے ،اورجوایساکرے کیاوہ مسلمان بھی باقی رہے گا؟
۲۔ اللہ کے تمام پیغمبر ہمیشہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں ، یہودی حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت یوسف علیہم السلام جیسے انبیاء پر بت پرستی وغیرہ کا الزام لگاتے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب پر بھی حملہ کرتے تھے ، ان انبیاء کرام کی حیاتِ طیبہ پر جو غبار ڈال دیا گیا تھا،قرآن مجیداورپیغمبراسلامﷺنے اسے صاف کیا ؛اس لئے قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی بار بار یہ صفت ذکر کی گئی کہ وہ پچھلے انبیاء اور گذشتہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے : ’’ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ ۔
مرزا صاحب کو سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسی پرخاش ہے کہ ان کی شان میں نہایت ناشائستہ اور اہانت آمیز جملے لکھتے ہیں ، بہت سی تحریروں میں سے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے :
آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ، مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی ، آپ کا کنجر یوں(فاحشہ عورتوں) سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہوکہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے ؟ ( ضمیمہ انجام آتھم : ۷ ، روحانی خزائن : ۱۱؍۲۹۱ ، حاشیہ )
تمام مسلمانوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ کے واسطہ کے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،جو ایک معجزہ ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کیسے اہانت آمیز انداز پر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے :
اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیں ہوتی ؛ بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ( چشمۂ مسیحی : ۱۸، روحانی خزائن : ۲۰؍۲۵۶)
مرزا صاحب نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدم کو تو شیطان نے شکست دے دی (حاشیہ درحاشیہ مسرت خطبہ الہامیہ ملحقہ سیرت الابدال) اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ نے ان(مرزاصاحب) کے لئے اتنے معجزات ظاہر کئے کہ اگر نوح کے زمانے میں دکھائے گئے ہوتے تو ان کی قوم غرق نہ ہوتی ۔ ( تتمہ حقیقۃ الوحی : ۳۷)اسی طرح اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے ، ( براہین احمدیہ : ۵؍۷۶) یعنی حضرت یوسف علیہ السلام سے، مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے زمانے میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہوتے تو وہ بھی ان کی اتباع کرتے ۔ ( اخبار الفضل قادیانی : ۳؍۹۸ ، ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۱۶ء )
قرآن مجید میں رسول اقدس اکی فضیلت پر جو آیتیں نازل ہوئی ہیں ، مرزا صاحب نے اُن سب کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے ، آخر مرزا صاحب کو اس پر بھی قناعت نہ ہوسکی اور انھوںنے حضور اپر بھی اپنی فضیلت کا دعویٰ کردیا ؛چنانچہ اپنے ایک عربی شعر میں کہتے ہیں کہ محمدﷺ کے لئے توایک گہن ہوا : اور میرے لئے سورج اور چاند دونوں گرہن ہوئے ، اعجاز احمدی : ۷۱) اسی لئے قادیانی شعراء اور مصنفین نے کھل کر کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب رسول اللہﷺ سے بھی افضل ہیں ؛ ( نعوذ بااللہ ) چنانچہ ایک قادیانی شاعر اکمل کہتا ہے :
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
یہ اشعار نہ صرف شاعر نے کہے ہیں؛بلکہ بقول شاعر انھوںنے مرزا صاحب کے سامنے ان اشعار کو پڑھا بھی ہے، خود مرزا صاحب نے رسول اللہ اکے دور کے اسلام کو ہلال ( پہلی تاریخ کا چاند ) اور اپنی صدی کو بدر یعنی چودھویں کا چاند قرار دیا ہے ۔ ( خطبۂ الہامیہ : ۱۸۴)
رسول اللہ اکے سامنے کسی نے آپ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل قرار دیا تو آپ نے فرمایا : ایسا نہ کہو ، ( لاینبغی لعبدأن یقول اناخیرمن یونس بن متیٰ:بخاری،حدیث نمبر:۳۴۱۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپﷺ کو افضل قرار دیا تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قیامت کے دن دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور لوگ زندہ ہوں گے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے ستون کو تھامے ہوئے ہوں گے ، نہ معلوم وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے ، یا بے ہوش ہونے کے بعد سب سے پہلے ہوش میں آجائیں گے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہ : ۳۴۰۸) حالاںکہ رسول اللہ ا کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن آپ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں بعض دفعہ بے احترامی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ بے تکلف انبیاء کی توہین کرتے اور اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل ٹھہراتے ہیں— سوچئے ! کیا یہ کسی پیغمبر کا اخلاق ہوسکتا ہے ؟ اور کیا انبیاء کی شان میں کوئی عام مسلمان بھی ایسی بات کہہ سکتا ہے ؟
(۳) انسان کے اخلاق کا سب سے بڑا مظہر اس کی زبان اور اس کے بول ہوتے ہیں ، رسول اللہ اکے بارے میں صحابہ کہتے ہیں :
ماکان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاحشاً ولا متفحشا ولا صخابا فی الأسواق ۔ ( ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی خلق النبی ا: ۲۰۱۶)
رسول اللہ ا عادتاً نہ سخت گو تھے ، نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے ، نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے ۔
اور پیغمبر کی شان تو بہت بالا ہے ، کسی مؤمن کو بھی بدگو اور بد زبان نہیں ہونا چاہئے ؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا :
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی ۔ (ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی اللغۃ ، حدیث نمبر : ۱۹۷۷)
مومن نہ طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت بھیجنے والا ، نہ سخت گو ، نہ فحش کلام ۔
خود مرزا صاحب کے قلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ نکلوادے : ’’ گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے ‘‘ ۔ (ست بچن : ۲۰)
مرزا صاحب نے بد زبانی کی مذمت کرتے ہوئے اپنی کتاب (در ثمین اُردو : ۱۷) جو اشعار کہے ہیں ، وہ بھی قابل ملاحظہ ہیں :
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے
جس دل میں یہ نجاست ، بیت الخلاء یہی ہے
گو ہیں بہت درندے انساں کی پوستین میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے !
غور کریں تو مرزا صاحب کے اشعار خود ان کی بد کلامی کی بہترین مثال ہیں اور اہل ذوق کو تو خود ان الفاظ سے بدبو کا احساس ہوتا ہے ، اب خود مرزا صاحب کی خوش کلامی کی چند مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :
٭ آریوں کا پرمشیر ( پرمیشور یعنی خالق ) ناف سے دس انگلی نیچے ہے ، سمجھنے والے سمجھ لیں ۔ ( چشمہ معرفت : ۱۱۶)
٭ جو شخص ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ بہنیں ، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے ۔ ( انور السلام : ۳۰)
٭ ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے ، مگر زنا کار کنجریوں کی اولاد ۔ ( آئینہ کمالات : ۵۴۷)
٭ اے بدذات فرقۂ مولویان ! کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑوگے ۔ ( انجام آتھم حاشیہ : ۲۱)
٭ مولانا سعد اللہ لدھیانوی کا اشعار میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈھیر ساری گالیاں دی ہیں یہاں تک کہ ان کو ’’ نطفۃ السفہاء ‘‘ (احمقوں کا نطفہ) اور ’’ ابن بغا ‘‘ ( زانیہ کی اولاد ) تک کہا ہے ۔ ( انجام آتھم : ۲۸۱)
ایک موقع پر اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
٭ دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہے ۔ ( نجم الہدیٰ : ۱۵)
ایک جگہ مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں :
٭ جہاں سے نکلے تھے ، وہیں داخل ہوجاتے ۔ ( حیات احمد :۱؍ ۳ ، ص : ۲۵)
علماء و مشائخ کے بارے میں کہتے ہیں :
٭ سجادہ نشیں اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ یہ سب شیاطین الانس ہیں ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۴ تا ۲۳)
٭ ایک موقع پر علما سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اے مردار خور مولویو اور گندی روحو ! تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لئے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا ، اے اندھیرے کے کیڑو ! تم سچائی کی تیز شعاعوں کو کیوںکر چھپا سکتے ہو ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۲۱ )
اپنے زمانے کے اکابر علماء مولانا شاہ نذیر حسین محدث دہلوی ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری وغیرہ کو بھیڑیا ، کتا ، ملعون ، شیطان ، اندھا شیطان ، شقی وغیرہ کے الفاظ کہے ہیں ، ( دیکھئے : انجام آتھم : ۲۵۱-۲۵۲) مشہور صاحب نسبت بزرگ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ہجو میں ایک پوری نظم کہی ہے اور ان کو خبیث ، بچھو ، ملعون وغیرہ لکھا ہے ، ( اعجاز احمدی : ۷۵ ) مولانا ثناء اللہ امرتسری کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’ اے عورتوں کی عار ثناء اللہ ‘‘ ( اعجاز احمدی : ۹۲)عار سے مراد ہے قابل شرم جگہ۔
٭ آریوں پر رد کرتے ہوئے ایک طویل نظم کہی ہے ، اس کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے :
دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاک دامن ابھی بیچاری ہے
لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے
٭ مرزا صاحب کثرت سے اپنے مخالفین کو ’’ ذریۃ البغایا‘‘ یعنی ’ زانیہ کی اولاد ‘ سے خطاب کرتے ہیں اور ان کو لعنت کرنے کا بھی بڑا ذوق ہے ، مولانا ثناء اللہ صاحب پر لعنت کرتے ہوئے کہتے ہیں : مولوی صاحب پر لعنت لعنت دس بار لعنت ، ( اعجاز احمدی : ۴۵)اور اپنے رسالہ نور الحق میں صفحہ : ۱۱۸سے۱۲۲ تک عیسائیوں کے لئے مسلسل ایک ہزار بار لعنت لعنت لکھی ہے ۔ ( روحانی خزائن : ۸؍۱۵۸)
قادیانی حضرات خود غور کریں کہ یہ زبان نبی تو کجا کسی مسلمان ؛ بلکہ کسی اچھے انسان کی بھی ہوسکتی ہے ، کیا اس کے بعد بھی مرزا صاحب کے دعویٔ نبوت کے جھوٹے ہونے پر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ؟
نبی کے لئے جو وصف سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، وہ ہے اس کا سچا ہونا ؛ تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ واقعی اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے اور وہ اس کو بے کم و کاست اپنی اُمت تک پہنچا دیتا ہے ، عجیب بات ہے کہ مرزا صاحب کے کلام میں بہت سی ایسی خلاف واقعہ باتیں ملتی ہیں ، جن سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے ، مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے ، ( حقیقۃ الوحی : ۲۰۶) ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ( چشمۂ معرفت : ۲۲۲)
مرزا صاحب سے جو جھوٹی باتیں منقول ہیں ، ان میں بعض تو ان کے زمانے سے متعلق تھیں اور اس زمانے میں قادیانی حضرات اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ؛ لیکن بعض غلط بیانیاں وہ ہیں ، جن کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ، اس کے چند نمونے درج کئے جاتے ہیں :
٭ مرزا صاحب کہتے ہیں :
دیکھو ، خدا تعالیٰ قرآن مجید میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے ، اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا ۔ (روحانی خزائن : ۱۸؍۴۰۹)
حالاںکہ قرآن مجید میں کہیں یہ بات نہیں آئی کہ میں مفتری کو جلد پکڑلیتا ہوں اور مہلت نہیں دیتا ہوں ؛ بلکہ خود قرآن مجید میں ہے کہ دنیا میں ان کو مہلت دی جاتی ہے :
إن الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون متاع فی الدنیا ۔ ( سورۂ یونس :۶۸-۶۹)
٭ آنحضرت ا سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی ۔ ( روحانی خزائن : ۳؍۲۲۷)
مرزا صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ، حدیث میں کہیں ایسا کوئی مضمون نہیں آیا ہے ۔
٭ بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس ( مسیح موعود خلیفہ ) کے لئے آواز آئے گی : ’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘ (روحانی خزائن : ۶؍۷۳۳) حالاںکہ بخاری شریف میں کہیں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔
٭ آنحضرت انے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہوتو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ، ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے ۔ ( اشتہار اخبار الحکم : ۲۴ ؍ اگست ۷ء)
حالاںکہ کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ وباء پھوٹنے والے شہر کو نہ چھوڑنے والے اللہ سے لڑائی کرنے والے قرار پائیں گے :
احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا ۔ ( ضمیمہ نصرۃ الحق : ۱۸۸، طبع اول )
یہ بات بھی بالکل خلاف واقعہ ہے ، احادیث صحیحہ تو کیا کسی ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے ۔
یہ تو چند مثالیں ہیں ، جن میں غلط بیانی کو آج بھی پرکھا جاسکتا ہے ، ورنہ مرزا صاحب کی دروغ گوئی کی ایک لمبی فہرست ہے اور لکھنے والوں نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ، اس سلسلہ میں مولانا نور محمد ٹانڈوی کی کتاب ’’ کذبات مرزا ‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، کیا کسی نبی سے اس طرح جھوٹ بولنے کی اُمید کی جاسکتی ہے ، جو شخص اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے ، یقینا وہ جھوٹا دعویٰ بھی کرسکتا ہے ۔
(۴) فارسی زبان کا مشہور محاورہ ہے ’’ دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ یعنی جھوٹ بولنے والے کو اپنی بات یاد نہیں رہتی ؛ اسی لئے اس کی گفتگو میں تضاد ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تضاد اور ٹکراؤ ہو ، یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کے لحاظ سے رفتہ رفتہ احکام دیئے جائیں ، جیسے قرآن مجید میں پہلے کہا گیا کہ شراب کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے : ’’ إثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا‘‘ ( البقرۃ : ۲۱۹)پھر دوسرے مرحلے پر یہ بات کہی گئی کہ شراب پی کر نماز نہ پڑھی جائے : ’’ لَا تَقْرَبُوا الصَّلاَۃَ وَأنْتُمْ سُکَاریٰ‘‘ ( النساء : ۴۳)اور تیسرے مرحلے میں شراب مکمل طورپر حرام قرار دے دی گئی ، ( المائدۃ : ۹۰) لیکن اس کا تعلق عملی احکام سے ہے ، واقعات اور خبروں میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک خبر دی جائے اور پھر اس سے متضاد خبر دی جائے ، اسی طرح عقائد و ایمانیات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؛ کیوںکہ یہ باتیں بھی غیبی واقعات کی خبر ہی پر مبنی ہوتی ہیں ، اگر ایسی باتوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جائے تو یہ اس شخص کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے ، خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے بھی متعدد مواقع پر اس کی صراحت منقول ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’’ اور جھوٹے کے کلام میں تناقص ضرور ہوتا ہے ‘‘ ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۱۱۱)
ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
مگر صاف ظاہر ہے کہ سچے اور عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہر گز تناقض نہیں ہوتا ، ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طورپر ہاں میں ہاں ملادیتا ہو ، اس کا کلام متناقض ہوجاتا ہے ۔ ( ست بچن : ۳۰)
اب اس معیار پر مرزا صاحب کے دعاوی کو پرکھنا چاہئے ۔
٭ مرزا صاحب ایک طرف اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں :
یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں ۔ ( تحفہ گولڑویہ : ۱۶۶-۱۹۱)
مہدی معہود سے مراد ہے : وہ مہدی جس کا حدیث میں وعدہ کیا گیا ہے ، حدیث میں جس مہدی کا ذکر کیا گیا ہے ، اس میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ وہ حضرت فاطمہ کی نسل سے ہوں گے ، دوسری طرف مرزا صاحب کہتے ہیں :
میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمہ ومن عترتی وغیرہ ہے ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۵؍۱۸۵)
ظاہر ہے کہ یہ کھلا ہوا تضاد ہے ، ایک طرف مرزا صاحب اپنے آپ کو وہ مہدی قرار دیتے ہیں ، جس کی حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے ، دوسری طرف اس کا انکار کرتے ہیں ۔
٭ ایک طرف مرزا صاحب مسیح موعود ہونے کا انکار کرتے ہیں ، جن کا حدیث میں ’ مسیح بن مریم ‘ کے نام سے ذکر فرمایاگیا ہے ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
اس عاجز ( مرزا ) نے جو مثیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں … میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۷۷، نیز دیکھئے : تبلیغ رسالت : ۲؍۲۱ ، نشانِ آسمانی : ۳۴)
دوسری طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ میں وہی مسیح موعود ہوں ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
اب جو امر کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۱۷، نیز دیکھئے : اتمام الحجۃ : ۳)
٭ ایک طرف دعویٰ نبوت کا انکار کرتے ہیں ؛ چنانچہ کہتے ہیں :
میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر ۔ ( اشتہار مؤرخہ : ۲؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء)
دوسری طرف ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں :
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ۔ ( اخبار بدر : ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء)
٭ کبھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح جو قیامت کے قریب تشریف لائیں گے ، وہ نبی نہیں ہوں گے :
وہ ابن مریم جو آنے والا ہے ، کوئی نبی نہیں ہوگا ؛ بلکہ فقط اُمتی لوگوں میں ایک شخص ہوگا ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱۲۰، نیز دیکھئے : اتمام الحجۃ :۱۷)
کبھی کہتے ہیں :
جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے ، اس کا ان میں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا کہ وہ نبی بھی ہوگا ۔ ( حقیقۃ الوحی : ۲۹)
٭ مرزا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھالیا گیا ہے اور پھر کسی زمانے میں وہ زمین پر اُتریں گے اور لوگ ان کو آسمان سے اُترتے ہوئے دیکھیں گے ، ( توضیح المرام : ۳) یہ اقتباس چوںکہ طویل ہے اس لئے اس کو چھوڑتے ہوئے میں اس کا ایک مختصر فقرہ نقل کیا جاتا ہے ، کہتے ہیں :
حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا پر اُتریں گے ۔ ( براہین احمدیہ ، حاشیہ : ۵۰۵)
دوسری طرف مرزا صاحب کا بیان ہے :
غرض یہ بات کہ مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور اسی جسم کے ساتھ اُترے گا ، نہایت لغو اور بے اصل بات ہے ۔ ( ازالہ اوہام کلاں : ۱؍۱۲۵)
مرزا صاحب کے کلام میں تضاد اور تناقض کی کثرت ہے ، مولانا نور محمد صاحب ٹانڈوی نے ’’ تناقضات مرزا ‘‘ کے عنوان سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے اور ہر بات حوالہ کے ساتھ لکھی ہے ، اس میں سے بطور نمونہ ان پانچ تضادات کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ تمام باتیں قادیانی حضرات کے بنیادی عقائد کا حصہ ہیں — قادیانی حضرات غور کریں کہ جس شخص کی بنیادی دعوت اور اساسی افکار میں اس قدر تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ہو ، وہ نبی تو بہت آگے کی بات ہے ، کیا سچا انسان بھی کہلانے کے لائق ہے ؟
(۵) پیغمبروں کا تعلق براہ راست اس کے خالق و مالک سے ہوتا ہے ، اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے ، اور واضح طورپر منشاء ربانی کا اظہار ہوتا ہے ؛ چنانچہ بعض دفعہ منجانب اللہ اطلاع کی بنیاد پر وہ پیشین گوئی کرتا ہے ، یہ پیشین گوئی جیوتشیوں اور نجومیوں کی سی نہیں ہوتی ، جو اندازے اور تخمین پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں ؛ بلکہ انبیاء جو پیشین گوئی کرتے ہیں ، اس کا سرچشمہ خدائے علام الغیوب کی اطلاع ہوتی ہے ، اس لئے یہ بالکل یقینی اور سچی پیشین گوئی ہوتی ہیں اور دوپہر کی دھوپ کی طرح واضح طورپر انسان ان کو سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔
مرزا صاحب نے بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں ، جو عام طورپر وہ پوری نہیں ہوپائیں اور ان کے ماننے والوں نے اس کی ایسی توجیہ وتاویل کی ، جن کو ایک عام سمجھ کا آدمی بھی قبول نہیں کرسکتا ؛ لیکن اس وقت چند ایسی پیشین گوئیوں کا ذکر کیا جائے گا ، جو بالکل واضح اور متعین ہیں اور جن میں بعض کو انھوںنے اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا ہے ۔
٭ مرزا صاحب کے ایک عزیز احمد بیگ ہوشیار پوری تھے ، مرزا صاحب نے ۱۸۸۸ء میں جب ان کی عمر پچاس سال تھی ، ان کی لڑکی محمدی بیگم سے نکاح کا پیغام دیا ، مرزا احمد بیگ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے ، مرزا صاحب اس پر سخت ناراض ہوئے ، ان کا کہنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور انھوںنے اس پیشین گوئی کے ظاہر ہونے کو اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار قرار دیتے ہوئے کئی اشتہارات جاری کرائے؛ چنانچہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۸۸ء کو اپنی الہامی پیشین گوئی کے اشتہار میں انھوںنے دعویٰ کیا کہ اگر لڑکی والوں نے اس رشتہ کو منظور نہیں کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا ، دوسرے : جس شخص سے اس کی شادی کی جارہی ہے ، وہ شادی سے ڈھائی سال کے اندر مرجائے گا ، تیسرے : لڑکی کے والد کا اس کے نکاح سے تین سال میں انتقال ہوجائے گا ، یعنی باپ اپنی بیٹی کی بیوگی کو دیکھ کر دنیا سے جائے گا ، چوتھے : ہر رکاوٹ دور ہوکر وہ لڑکی ضرور ہی مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی ، اس اشتہار کے اخیر میں مرزا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے :
یہ خیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئیوں سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا ۔ (مجموعہ اشتہارات : ۱؍۱۵۷-۱۵۹)
لیکن ہوا یہ کہ مرزا احمد بیگ نے ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو اپنی صاحب زادی کا نکاح اپنے ایک اور عزیز سلطان محمد سے کردیا ، مرزا صاحب کی پیشین گوئی کے لحاظ سے ۶؍ ستمبر ۱۸۹۴ء تک سلطان محمد کا انتقال ہوجانا چاہئے تھا اور محمدی بیگم کو بیوہ ہوجانا چاہئے تھا ؛ لیکن سلطان محمد کا نہ صرف ڈھائی سال میں انتقال نہیں ہوا ؛ بلکہ وہ شادی کے بعد ۵۷ ؍ سال زندہ رہے اور ان کا انتقال ۱۹۴۹ء میں ہوا ، اگرچہ مرزا احمد بیگ کا انتقال عمر طبعی کو پہنچ کر تین سال کے اندر ہوگیا ؛ لیکن ان کو اپنی بیٹی کی بیوگی دیکھنے کی نوبت نہیں آئی ؛ بلکہ وہ اپنی بیٹی اور داماد کو خوش و خرم چھوڑ گئے ، ایسا بھی نہیں ہوا کہ محمدی بیگم کا انجام برا ہو ؛ بلکہ انھوںنے ۹۰ سال کی عمر پائی ، ۱۹۶۶ء میں ان کی وفات ہوئی اور ۵۷ سال اپنے شوہر کے ساتھ خوش گوار زندگی بسر کی ، مرزا صاحب نے صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اپنی پیشین گوئی میں یہ اضافہ کردیا کہ ’’ محمدی بیگم کنواری ہونے کی حالت میں یا بیوہ ہوکر ضرور ان کے نکاح میں آئیں گی ‘‘ مگر یہ پیشین گوئی بھی پوری نہیں ہوئی اور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو خود مرزا صاحب کا انتقال ہوگیا ، یہ نہ صرف مرزا صاحب کی پیشین گوئی تھی ؛ بلکہ انھوںنے اس کو اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا تھا ، یہاں تک کہ محمدی بیگم سے نکاح کے پہلے اشتہار (۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء ) کی پیشانی پر یہ اشعار تحریر کئے تھے :
پیشین گوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا
قدرتِ حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
سچ اور جھوٹ میں ہے فرق وہ پیدا ہوگا
کوئی پاجائے گا عزت اور کوئی رسوا ہوگا
( مجموعہ اشتہارات : ۱؍۱۵۳)
٭ ۱۸۹۳ء میں امرت سر میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم امرت سری سے — عیسائی تھا — توحید و تثلیث کے عقیدہ پر مرزا صاحب کا مناظرہ ہوا ، مرزا صاحب مناظرہ سے تو فریق مخالف کو قائل نہیں کرسکے ؛ لیکن آخری دن ۵؍ جون ۱۸۹۳ء کو پیشین گوئی کردی کہ اگر پندرہ مہینے کے اندر عبد اللہ آتھم نے تو بہ نہیں کی اور اسلام قبول نہیں کیا تو وہ ہاویہ میں گرادیا جائے گا ، یعنی مرکر واصل جہنم ہوجائے گا ، اس پیشین گوئی کو بھی مرزا صاحب نے اپنے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار قرار دیا ، یہاں تک کہ مرزا صاحب نے لکھا :
میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلے ، یعنی جو فریق خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ ۱۵؍ ماہ کے عرصے میں آ ج کی تاریخ سے بہ سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں ، مجھ کو ذلیل کیا جائے ، رو سیاہ کیا جائے ، میرے گلے میں رسا ڈال دیا جائے ، مجھ کو پھانسی دیا جاوے ، ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ، ضرور کرے گا ، ضرور کرے گا ، زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہیں ٹلیں گی ، اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو ۔ ( جنگ مقدس : ۱۸۹)
آخر آتھم نے عیسائیت سے توبہ نہیں کی ، اس لحاظ سے ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو آتھم کو مرجانا چاہئے تھا ؛ چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید ماسٹر قادر بخش قادیانی کا بیان ہے کہ ۱۵؍ ستمبر کو مرزا صاحب قادیان میں تھے اور کہتے تھے :
آج سورج غروب نہیں ہوگا کہ آتھم مرجائے گا ، مگر جب سورج غروب ہوگیا تو لوگوں کے دل ڈولنے لگے ۔ ( قادیانی مذہب : محمد الیاس برنی ، ضمیمہ : ۳ ، ص : ۵۷۲)
غرض کہ مرزا صاحب کی یہ پیشین گوئی بھی پوری نہیں ہوئی اور عیسائیوں نے اس دن آتھم کا زبردست جلوس نکالا ۔
٭ مولانا ثناء اللہ امرتسری اہل حدیث مکتب ِفکر کے بڑے علماء میں سے تھے ، انھوںنے قادیانیت کا بہت مؤثر تعاقب کیا اور اس فتنے کی سنگینی سے لوگوں کو واقف کرایا ؛ چنانچہ مرزا صاحب نے مولانا امرتسری کے خلاف ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو اشتہار چھپواکر تقسیم کرایا کہ وہ مرزا صاحب کی زندگی میں طاعون ، ہیضہ وغیرہ بیماری میں مبتلا ہوکر مرجائیں گے ، ( تبلیغ رسالت ، جلد دہم ، پہلا ایڈیشن ، مجموعہ اشتہار : ۱۲۰ ) پھر مرزا صاحب نے ’’ مولوی ثناء اللہ صاحب سے آخری فیصلہ ‘‘ کے زیر عنوان اشتہار شائع کیا اور اس میں اس طرح اللہ سے دُعاء کی :
اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں تو اے میرے پیارے مالک ! میں عاجزی سے تیری جناب میں دُعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر ۔ آمین
اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد قادیانیوں کے اخبار بدر (۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ) میں مرزا صاحب کی ڈائری شائع ہوئی جس میں لکھا گیا :
ثناء اللہ کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری ( یعنی مرزا صاحب کی ) طرف سے نہیں ؛ بلکہ خدا کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔
لیکن ہوا یہ کہ مرزا صاحب کا تو ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء میں انتقال ہوگیا ؛ لیکن مولانا ثناء اللہ صاحب اس کے بعد بھی عرصہ تک زندہ رہے اور اللہ نے ان سے دین کی بہت ساری خدمتیں لیں ۔
اس کے علاوہ بھی مرزا صاحب کی بہت ساری پیشین گوئیاں ہیں ، جو انھوںنے اپنی عمر ، اپنی اولاد ، کنواری اور بیوہ بیویوں ، اپنے متعلقین کی صحت اور اپنے مخالفین کی موت وغیرہ کے سلسلے میں کی ہیں ، جو غلط نکلیں ؛ لیکن ابھی جن پیشین گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، یہ ان پیشین گوئیوں میں سے ہے ، جن کو خود مرزا صاحب نے اپنے لئے سچے اور جھوٹے ہونے کا معیار بنایا تھا ، جو لوگ مرزا صاحب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو نبی مانتے ہیں کتنی ناانصافی کی بات ہوگی کہ وہ خود مرزا صاحب کے اس معیار پر توجہ نہ دیں اور مرزا صاحب کے سچے ہونے پر اصرار کرے !
(۶) کچھ درجات وہ ہیں جن کو کسب اور محنت کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے ، کوئی بھی مسلمان عبادت اور زہد و تقویٰ کے ذریعہ اولیاء اُمت میں شامل ہوسکتا ہے ، علمی جدوجہد کے ذریعہ مفسر و محدث اور فقیہ بن سکتا ہے ، ان میدانوں میں آہستہ آہستہ ترقی ملتی ہے ؛ لیکن نبوت ایک وہبی چیز ہے جو منجانب اللہ عطا کی جاتی ہے ، نبی کو نبی بنائے جانے تک اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی ، رسول اللہ ا پر نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا ؛ لیکن جب نبوت کا سلسلہ جاری تھا ، جب بھی ایسا نہیں تھا کہ علمی اور عملی ریاضتوں کے ذریعے آدمی نبوت کا مقام حاصل کرلے ، قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے کہ وہ ایک سرد رات میں اپنی زوجہ مطہرہ کے ساتھ سفر پر تھے اور انھیں آگ کی ضرورت پڑی ، دُور سے ایک روشنی نظر آئی تو وہ یہ سوچ کر قریب پہنچے کہ وہاں آگ بھی مل جائے گی اور شاید کوئی ہم نفس بھی مل جائے ؛ لیکن جب وہاں پہنچے تو ایک درخت میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی ، وہیں ان پر پہلی بار اللہ کا کلام اُترا اور نبوت سے سرفراز کئے گئے ، ( طٰہٰ : ۹-۱۴) انھوںنے اس سے پہلے اشارہ و کنایہ میں بھی نہ نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ کسی اور غیبی منصب کا ، پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ اکی نبوت کا واقعہ تفصیل سے حدیث میں موجود ہے ، نبی بنائے جانے سے پہلے بھی آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ، جس میں اشارہ ہو کہ آپ اس منصب پر فائز ہونے والے ہیں ، اچانک غارِ حرا میں آپ اپر پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ ا گھبرائے ہوئے گھر واپس تشریف لائے ؛ کیوںکہ نبوت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر ملا کرتی تھی ، جب تک کوئی شخص نبی نہیں بنایا جاتا تو خود اس کو بھی اس کا کوئی گمان نہیں ہوتا تھا کہ اس کو نبوت ملنے والی ہے ۔
لیکن مرزا صاحب نے آہستہ آہستہ مرحلہ وار دعوے کئے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک دعوے کے لئے زمین ہموار ہوگئی تو اس سے آگے کا دعویٰ کردیا ، ایک زمانہ وہ تھا کہ مرزا صاحب اسی عقیدے کا اظہار کرتے تھے ، جو تمام مسلمانوں کا ہے ؛ چنانچہ ۳؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو انھوںنے ایک اشتہار طبع کرایا ، جس میں صاف صاف لکھا :
میں ان تمام اُمور کا قائل ہوں ، جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیساکہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے ، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن و حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی ا ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب و کافر مانتا ہوں ، میرا یقین ہے کہ وحی ، رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفی اپر ختم ہوگئی ۔ ( مجموعہ اشتہارات ، تبلیغ رسالت :۲؍ ۲۰-۲۱ ، پہلا ایڈیشن ۱۹۱۸ء)
اس زمانے میں مرزا صاحب کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی گول مول باتیں کیا کرتے تھے ، جس سے لوگوں میں چہ مہ گوئی ہونے لگے ، کہ یہ نبوت کا دعویٰ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں ، اوپر اشتہار کا جو اقتباس نقل کیا گیا ہے ، اس کا مقصد اس سلسلہ میں اپنی صفائی پیش کرنا تھا ، آخر وہ اپنے اندرونی داعیہ کو چھپا نہیں سکے اور شعبان ۱۳۱۴ھ میں اشتہار چھپواکر تقسیم کیا کہ وہ خود مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں اور اپنے بارے میں کہا ’’ صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے ‘‘ ( تبلیغ رسالت : ۶؍۲-۳ ، ایڈیشن : ۱۹۲۲ء) حالاںکہ ولایت اور مجددیت کوئی ایسا منصب نہیں ، جس کا دعویٰ کیا جائے ، ولی اور مجدد کو خود اپنے بارے میں خبر نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کا ولی اور مجدد ہے ، اُمت میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ سے بڑا ولی اور مجدد کون ہوگا ؟ جنھوں نے ختم نبوت کے انکار کے فتنے کا مقابلہ کیا اور روم اور ایران تک اسلام کی فتح مندی کا جھنڈا لہرایا ؛ لیکن یہ قدسی صفت حضرات دعویٰ تو کیا کرتے ، ان پر خشیت کا ایسا غلبہ تھا کہ ان کو اپنے آپ پر نفاق کا ڈر ہوتا رہتا تھا ، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
اب مرزا صاحب نے ایک نیا عہدہ مُحدَّث کا پیدا کیا اور کہا کہ انھیں محدث بنایا گیا ہے ؛ چنانچہ لکھتے ہیں :
نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے ، جو خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے ، اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہو ۔ ( سلسلہ تصنیفات احمدیہ جلد سوم ، ازالہ اوہام حصہ اول ، ص : ۱۰۶۵)
اس کے بعد مرزا صاحب نے مثیل مسیح یعنی اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ قرار دینا شروع کیا :
یہ بات سچ ہے کہ اللہ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا … میں اسی الہام کی بناپر اپنے تئیں وہ مدعو مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں ۔ ( تبلیغ رسالت : ۱؍۱۶۲)
ابھی تک مرزا صاحب نہ صرف نبوت بلکہ مسیح ہونے کے دعوے سے بھی گریز کرتے رہے ؛ لیکن آخر مرزا صاحب نے کھل کر دعویٰ کردیا کہ میں مسیح موعود ہوں ، ( دیکھئے : تحفہ گولڑویہ : ۱۹۵ ، تیسرا ایڈیشن ) اور یہ بھی صاف کردیا کہ جس عیسیٰ بن مریم کی پیشین گوئی کی گئی ہے ، اس سے میں ہی مراد ہوں :
اور یہی عیسیٰ ہے جس کا انتظار تھا اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں ، میری نسبت کہا گیا ہے کہ ہم اس کو نشان بنادیں گے اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسیٰ بن مریم ہیں جو آنے والا تھا ۔ ( کشتی نوح ساتواں ایڈیشن ، ص : ۴۸ ، دسمبر ۱۹۳۳ء)
لیکن ابھی تک مرزا صاحب کو اس بات کا اقرار تھا کہ مسیح کے لئے نبی ہونے کی شرط نہیں ، ( سلسلہ تصنیفات ، جلد سوم ، حصہ توضیع المرام : ۸۶۴ ) یعنی اب تک وہ اس سے انکار کرتے تھے کہ انھوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ؛ لیکن ۱۹۰۰ء میں مرزا صاحب کی مسجد کے خطیب مولوی عبد الکریم نے ان کے لئے نبی اور رسول کا لفظ ذکر کیا ، یہ بات بعض دوسرے ساتھیوں کو ناگوار گزری ؛ چنانچہ اگلے جمعہ دوبارہ مولوی صاحب نے مرزا صاحب کے لئے یہی الفاظ استعمال کئے ، مولوی عبد الکریم نے پیچھے سے مرزا صاحب کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا : اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہے تو آپ درست فرمادیجئے ؛ لیکن مرزا صاحب نے ان کی تصویب کرتے ہوئے کہا : ’’ ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے ‘‘ (قادیانیت — تحلیل و تجربہ : ۷۶ ، بحوالہ اخبار الفضل قادیان ) چنانچہ اس کے بعد مرزا صاحب باضابطہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگے ، شروع میں تو انھوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام ا پر نبوت کے ختم ہونے سے مراد ہے کہ آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا ، پھر دعویٰ کیا کہ شریعت سے مراد امر و نہی ہے اور میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، ( اربعین : ۴؍۷) گویا اپنے آپ کو صاحب شریعت نبی قرار دیا ، اسی طرح پہلے تو کہتے رہے کہ پیغمبر اسلام کی برکت سے آپ کی اُمت میں اور بھی مسیح آسکتے ہیں ؛ لیکن بعد میں کہنے لگے :
نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ۔ ( حقیقت الوحی : ۱۹۱ ، دوسرا ایڈیشن : ۱۹۲۳ء امرتسر )
یہ گویا مرزا صاحب کی طرف سے اس بات کا اعلان ہے کہ محمد رسول اللہ ا آخری نبی نہیں ہیں ،میں آخری نبی ہوں ۔ قادیانی حضرات غور کریں کہ کیا کوئی سچا آدمی اس طرح لوگوں کے دلوں کو ٹٹول ٹٹول کر اور ماحول بنا بناکر متضاد دعوے اور دوراز کار تاویلیں کرکے نبوت جیسے منصب کے لائق ہوسکتا ہے ، ان مرحلہ وار دعووں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ماننے والوں کی آمادگی بڑھتی گئی اور میدان ہموار ہوتا گیا ، مرزا صاحب نئے نئے دعوے کرتے چلے گئے ، یہ تدریج خود اس دعوے کے جھوٹ ہونے کی علامت ہے ۔
اخیر میں قادیانی حضرات سے ایک انسانی بھائی ، ایک خیر خواہ ، ان کی نجات کے لئے فکر مند اور ان کی ہدایت کی طرف واپسی کے جذبے سے سرشار شخص کی حیثیت سے التجا کرتا ہوں کہ خدارا اپنی آنکھوں سے اس سیاہ عینک کو ہٹادیجئے ، جو آپ کو دھوکا دینے کے لئے آپ کے رہنماؤں نے پہنائی ہے ، آخرت کی فکر کیجئے ، دنیا کی متاع حقیر کو خاطر میں نہ لایئے ، سچائی تک پہنچنے کی کوشش کیجئے اور نبوت محمدی اکے شجرۂ طوبیٰ کے سایہ میں واپس آجائیے ، جس کی ٹھنڈک لازوال اور جس کی راحت لافانی ہے ، اور جو اس دنیا سے لے کر میدانِ حشر تک مؤمن کو اپنی پناہ میں لئے رہے گی ، جس کے طفیل ہر صاحب ِایمان کو جامِ کوثر سے نوازا جائے گا اور جس کی شفاعت ، آخرت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے !
اللّٰھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہٗ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہٗ ۔