عمرہ — ایک اہم عبادت!
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ارضی کے بچھانے کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوا ہے؛ اسی لئے یہ خشکی کے علاقہ کے اعتبار سے عین وسط کائنات میں واقع ہے، یہاں تک کہ بعض اہل تحقیق کا بیان ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے عین وسط میں ہونے کی وجہ سے وہاں کشش صفر ہوجاتی ہے اور قطب نما کے کانٹے میں حرکت نہیں ہوتی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انسانوں سے بسایا تو اس دنیا میں پہلا گھر جو بنایا گیا، وہ ’کعبۃ اللہ ‘ ہے، اس طرح کعبۃ اللہ پوری دنیا کے انسانوں کے لئے مرجع و ماوی کی حیثیت رکھتا ہے، اگر انسان یہاں پہنچ کر ایک قلبی سکون اور روحانی مسرت محسوس کرے تو یہ وہی فطری احساس ہوگا، جو سفر سے اپنے گھر لوٹنے والے انسان کو ہوتی ہے؛اسی لئے اسلام میں دو فرض عبادتیں ایسی ہیں جو کعبۃ اللہ سے جڑی ہوئی ہیں، مسلمان جہاں کہیں بھی نماز پڑھے، اس کا رخ کعبہ کی طرف ہوتا ہے اور حج سوائے مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات کے کہیں اور ادا کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔
حج کے علاوہ دوسری عبادت جس میں انسان کو زیارت حرم شریف کی سعادت حاصل ہوتی ہے، عمرہ ہے؛ بلکہ عمرہ کے اصل معنی ہی زیارت وملاقات کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں ’’مخصوص طریقہ پر بیت اللہ شریف کی زیارت کو کہتے ہیں‘‘ (النہایۃ: ۳؍۷) چوںکہ بیت اللہ شریف کی زیارت ایمان کو تازہ کرتی ہے؛ اس لئے عمرہ کی بڑی فضیلتیں منقول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بیت اللہ شریف کو آئے اور کوئی شہوانی کام اور گناہ نہ کرے تو وہ اس طرح لوٹتا ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا، (مسلم، باب في فضل الحج والعمرۃ ویوم العرفۃ، حدیث نمبر: ۱۳۵۰) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مضمون کی ایک اور روایت نقل کی گئی ہے، اس میں حج اور عمرہ دونوں کی صراحت موجود ہے کہ جو کسی شہوانی حرکت اور گناہ سے بچتے ہوئے حج کرے گا، وہ اپنے گھراس طرح لوٹے گا کہ گویا وہ آج ہی پیدا ہواہے، (سنن دار قطنی: ۱؍۲۴۹، حدیث نمبر: ۲۶۸۸) ایک اور روایت میں ہے کہ جو بیت اللہ شریف کو آئے اور اس کا مقصد اسی گھر کی زیارت ہو اورطواف کرے تو وہ اپنے گناہ سے اس طرح پاک ہوجائے گا، جیساکہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔(القری لقاصد أم القری، ص: ۲۹)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ایک عمرہ کے بعد جب انسان دوسرا عمرہ کرتا ہے تو یہ دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتا ہے: ’’العمرۃ إلی العمرۃ کفارۃ لما بینہما‘‘ (بخاری، باب وجوب العمرۃ وفضلہا، حدیث نمبر: ۱۷۷۳)؛ البتہ اس حدیث میں گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جن باتوں سے تم کو منع کیا گیا ہے، اگر تم ان میں سے بڑی بڑی باتوں سے بچ جاؤ تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیںگے: { اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ} (النساء: ۳۱) — حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حج وعمرہ روحانی فائدہ کا باعث ہے، اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، وہیں یہ فقرو محتاجی کو بھی دور کرتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس اورحضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج و عمرہ پے درپے کرتے رہو، یہ فقر و محتاجی کو اس طرح دور کردیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے کے میل و کچیل کو دور کردیتی ہے (مجمع الزوائد، باب المتابعۃ بین الحج والعمرۃ، حدیث نمبر: ۵۶۵۷)۔
حج و عمرہ کے روحانی اور مادی فوائد میں یکسانیت کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف سے متعلق طواف و سعی اور تلبیہ واحرام کا جو عمل حج میں ہوتا ہے، وہ عمرہ میں بھی ہوتا ہے؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کو حج اصغر قرار دیا ہے: ’’… وأن العمرۃ الحج الأصغر‘‘ (الدارقطنی، کتاب الحج، حدیث نمبر: ۲۶۹۷)۔
یہ تو عمرہ کی عمومی فضیلت ہے؛ لیکن رمضان المبارک میں چوںکہ ہر عمل کا ثواب بڑھ جاتا ہے؛ اس لئے اس ماہ مبارک میں عمرہ کرنے کا اجر بھی زیادہ ہے، مدینہ میں ایک انصاری خاتون ام سنان رضی اللہ عنہا نام کی تھیں، وہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں شریک نہیں ہوسکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سبب پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس دوہی اونٹ ہیں، ایک اونٹ میرے شوہر اور لڑکے لے کر چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی اور دوسرا اونٹ پانی لانے اور دوسرے کاموں میں استعمال ہوتا ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان آئے تو عمرہ کرلینا؛ کیوںکہ رمضان کا عمرہ بھی حج کے برابر ہے: ’’فإذا جاء رمضان فاعتمري؛ فإن عمرۃ فیہ تعدل حجۃ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۵۶، باب فضل العمرۃ في رمضان)، بعض روایتوں میں اس سے بھی بڑھ کر بشارت آئی ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے درجہ میں ہے، (دیکھئے: سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۹۹۰) — غالباً یہ بات آپ نے ان لوگوں کی تسلی کے لئے فرمائی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشریف نہ لے جاسکے، حالاںکہ وہ اس کے آرزومند تھے، یہ شریک نہ ہونا مختلف اعذار کی بناء پر ہوا ہوگا، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مدینہ بالکل خالی نہ ہوجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد رمضان المبارک میں عمرہ کا موقع نہیں ملا اور اہل مکہ سے ناخوش گوار تعلقات کی وجہ سے مدنی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء کا بار بار عمرہ کرنا ممکن نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعۂ حدیبیہ کو لے کر چار عمرے فرمائے ہیں، پہلا ۶ھ میں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تشریف لائے اور وہاں صلح طے پائی، یہ عمرہ نامکمل رہا؛ کیوںکہ مشرکین مکہ کی رکاوٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کرپائے، دوسرا عمرہ آئندہ سال اس عمرہ کی قضاء کے طور پر، اس کو’’عمرۃ القضاء‘‘کہا جاتا ہے، تیسرا عمرہ فتح مکہ کے موقع سے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع سے حج قِران کا احرام باندھا تھا، جس میں حج و عمرہ دونوں جمع ہوتا ہے اور یہ تمام ہی عمرے ماہ ذو القعدہ میں کئے گئے (بخاری، کتاب العمرۃ، باب کم اعتمر النبي؟ حدیث نمبر: ۱۷۷۸، صحیح مسلم، کتاب کتاب الحج، باب بیان عدد عمر النبي وزمانہن، حدیث نمبر: ۳۰۹۲، سنن أبي داؤد، کتاب المناسک، باب العمرۃ، حدیث نمبر: ۱۹۹۵)۔
عمرہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے بعض فقہاء نے عمرہ کو واجب قرار دیا ہے، حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک اگرچہ عمرہ سنت مؤکدہ ہے، (المغنی: ۳؍۸۹) لیکن بعض مشائخ احناف نے عمرہ کو واجب بھی قرار دیا ہے، اور مشہور حنفی فقیہ علامہ کاسانی کا رجحان بھی اسی طرف ہے (بدائع الصنائع: ۲؍۲۳۶)۔
اس لئے جو مسلمان اصحاب استطاعت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مالی گنجائش دی ہے، انہیں شادی بیاہ اور لہو و لعب میں پیسے ضائع کرنے کی بجائے عمرہ کی سعادت حاصل کرنی چاہئے، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ عمرہ کو عبادت کا سفر بنایا جائے، نہ کہ تفریح کا، آج کل عمرہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس طرح عمرہ کرتی ہے کہ گویا وہ کسی سیاحتی سفر پر جارہے ہوں، نہ عبادت کا اہتمام، نہ خشوع و خضوع، نہ زندگی میں کوئی تبدیلی، نہ اخلاق و کردار میں کوئی انقلاب، عمرہ کے باوجود نماز کی پابندی نہیں، داڑھی رکھنے کی توفیق نہیں، زمینوں پر ناجائز قبضہ سے اجتناب نہیں، لوگوں کے ساتھ بد خلقی کے رویہ میں کوئی فرق نہیں، غرض کہ عمرہ ان کے قلب و روح کے لئے کوئی انقلاب انگیز عمل نہیں ہوتا؛ بلکہ ایک تفریح ہوتی ہے، جیسے آگ کی تصویر سے حرارت حاصل نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایسے بے روح عمرہ اور بے کیف عبادت سے انسان کی زندگی میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آتی۔
شریعت کے تمام احکام حالات سے مربوط ہیں، ضرورت کے اعتبار سے عمل کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں، اگر جہاد کا موقع ہو تو روزہ رکھنے سے نہ رکھنا افضل ہے، اگر گھر میں ایک شخص مریض ہو جس کو ہر لمحہ خدمت اور تیمارداری کی ضرورت ہو تو نفل عبادتوں سے زیادہ اہم اس مریض کی دیکھ ریکھ ہے، اسی طرح اگر کسی سے رشتہ داروں کے مالی حقوق وابستہ ہوں، کسی کی یتیم بھانجی کی پیسوں کی وجہ سے شادی نہ ہوپارہی ہو، کسی کا غریب بھتیجا پیسوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو، کسی کا غریب بھائی اپنے علاج کے لئے پیسہ نہ پاتا ہو، کسی کے قرب و جوار میں مسلمانوں کی غربت وپسماندگی کی وجہ سے ارتداد کا فتنہ پھوٹ پڑا ہوتو ایسے موقع پر نفل عمرہ کرنے سے افضل ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اگر کوئی شخص مکرر عمرہ کرنے کی بجائے اس رقم کو ان کاموں میں صرف کرے گا تو وہ زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔