زرد رنگ کے استعمال کا حکم

سوال : مسلم شریف کی مندرجہ روایت کو پیش کر کے بعض لوگ زرد رنگ کا لباس کفار کا قرار دے کر اس سے منع کررہے ہیں، کیا یہ بات درست ہے : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ ابْنَ مَعْدَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، قَالَ : رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ ثَوْبَيْنِ مُعَصْفَرَيْنِ، فَقَالَ : " إِنَّ هَذِهِ مِنْ ثِيَابِ الْكُفَّارِ فَلَا تَلْبَسْهَا ".(صحيح مسلم) حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے معصفر سے رنگے ہوئے دو کپڑے پہنا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ (اس طرح رنگا ہوا کپڑا) کفار کے لباس میں سے ہے تم اسے مت پہنا کرو.

الجواب حامدا ومصليا :

جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک زرد رنگ کا لباس پہننا جائز ہے.

بعض علماء نے زرد رنگ کو ناپسند کیا ہے اور سوال میں مذکور مسلم شریف کی حدیث میں وارد نہی کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے. امام خطابی نے فرمایا کہ اس حدیث میں ممانعت سے مراد وہ کپڑا ہے جسے بُننے کے بعد زرد رنگ دیا گیا ہو، البتہ بُننے سے پہلے جسے رنگا گیا ہو وہ ممنوع نہیں. بعض علماء نے فرمایا کہ نہی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والے کے لیے ہے.

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زرد رنگ کا استعمال ثابت ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے .

مسلم شریف کی حدیث کی شرح ملاحظہ فرمائیں : قال النووي في شرحه: قوله : ( حدثنا محمد بن مثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني أبي ، عن يحيى ، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث ، أن ابن معدان أخبره ، أن جبير بن نفير أخبره ، أن عبد الله بن عمرو بن العاص أخبره ، قال : رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم علي ثوبين معصفرين ، فقال : إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها ) ‏، وفي الرواية الأخرى : " قال : رأى النبي صلى الله عليه وسلم علي ثوبين معصفرين فقال : أأمك أمرتك بهذا ؟ قلت : أغسلهما ، قال : بل أحرقهما " ، وفي رواية علي رضي الله عنه : " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس القسي والمعصفر " ، هذا الإسناد الذي ذكرناه فيه أربعة تابعيون يروي بعضهم عن بعض ، وهم يحيى بن سعيد الأنصاري ، ومحمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، وخالد بن معدان ، وجبير بن نفير ، واختلف العلماء في الثياب المعصفرة ، وهي المصبوغة بعصفر ، فأباحها جمهور العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم ، وبه قال الشافعي وأبو حنيفة ، ومالك لكنه قال : غيرها أفضل منها ، وفي رواية عنه أنه أجاز لبسها في البيوت وأفنية الدور ، وكرهه في المحافل والأسواق ونحوها ، وقال جماعة من العلماء : هو مكروه كراهة تنزيه ، وحملوا النهي على هذا ؛ لأنه ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم لبس حلة حمراء ، وفي الصحيحين عن ابن عمر رضي الله عنه قال : " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصبغ بالصفرة " ، وقال الخطابي : النهي منصرف إلى ما صبغ من الثياب بعد النسج ، فأما ما صبغ غزله ثم نسج ، فليس بداخل في النهي ، وحمل بعض العلماء النهي هنا على المحرم بالحج أو العمرة ليكون موافقا لحديث ابن عمر رضي الله عنه : " نهي المحرم أن يلبس ثوبا مسه ورس أو زعفران " ، وأما البيهقي رضي الله عنه فأتقن المسألة ، فقال في كتابه " معرفة السنن " : نهى الشافعي الرجل عن المزعفر ، وأباح المعصفر ، قال الشافعي : وإنما رخصت في المعصفر لأني لم أجد أحدا يحكي عن النبي صلى الله عليه وسلم النهي عنه ، إلا ما قال علي رضي الله عنه : " نهاني ، ولا أقول : نهاكم " ، قال البيهقي : وقد جاءت أحاديث تدل على النهي على العموم ، ثم ذكر حديث عبد الله بن عمرو بن العاص هذا الذي ذكره مسلم ، ثم أحاديث أخر ، ثم قال : ولو بلغت هذه الأحاديث الشافعي لقال بها إن شاء الله ، ثم ذكر بإسناده ما صح عن الشافعي أنه قال : إذا كان حديث النبي صلى الله عليه وسلم خلاف قولي فاعملوا بالحديث ودعوا قولي ، وفي رواية : فهو مذهبي . قال البيهقي : قال الشافعي : وأنهى الرجل الحلال بكل حال أن يتزعفر ، قال : وآمره إذا تزعفر أن يغسله . قال البيهقي : فتبع السنة في المزعفر ، فمتابعتها في المعصفر أولى . قال : وقد كره المعصفر بعض السلف ، وبه قال أبو عبد الله الحليمي من أصحابنا ، ورخص فيه جماعة ، والسنة أولى بالاتباع ، والله أعلم .

اس سے معلوم ہوا کہ زرد رنگ کا لباس پہننے میں کوئی کراہت نہیں، عصفر سے مراد زرد رنگ نہیں، بلکہ عصفر میں رنگا ہوا کپڑا ہے. چنانچہ مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عصفر اور زعفران سے رنگا ہوا کپڑا مردوں کو استعمال کرنا مکروہ تحریمی ہے، اگر کوئی رنگ بعینہ عصفر یا زعفران کے رنگ جیسا ہو، مگر خود عصفر یا زعفران کا رنگ نہ ہو تو اس کا استعمال جائز ہے"۔ [أحسن الفتاوی: 8/62] امداد الاحکام میں بھی زرد رنگ کو جائز کہا گیا ہے.

بعض اہلِ فتویٰ نے زرد رنگ کو ممنوع لکھا ہے، اور استدلال میں معصفر ومزعفر کی کراہت کی عبارات ذکر کی ہیں، لیکن راجح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو احسن الفتاوی سے نقل کی گئی، کیونکہ نفس اصفر کی کراہت پر کوئی عبارت نظر سے نہیں گزری، نیز مبسوط سرخسی میں بعض صحابہ سے معصفر پہننے کی تاویل میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ معصفر لباس نہیں تھا، بلکہ معصفر جیسا رنگ تھا: "كان ذلك مصبوغا بمدر على لون العصفر".

نوٹ: علمی نکتہ

بعض علماء نے فرمایا کہ سورہ بقرہ میں زرد رنگ کو تسر الناظرین کہہ کراس کی مدح کی گئی ھے، ایک چیز کاحسن اگر نص قطعی سےثابت ہوجائے اور خبر واحد اس کے مقابل آجائے تو خبر واحد کی تاویل کی جائےگی.

فائدہ ذیل میں بعض ان روایت کو ذکر کیا جائے گا جن میں زرد رنگ کے استعمال کا جواز وارد ہوا ہے:

سنن ابوداؤد، کتاب: لباس کا بیان باب: زرد رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے کا بیان، حدیث نمبر: 4064 میں آیا ہے :

‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ أَسْلَمَ:‏‏‏‏ أَنَّ ابْنَ عُمَرَكَانَ يَصْبُغُ لِحْيَتَهُ بِالصُّفْرَةِ حَتَّى تَمْتَلِئَ ثِيَابُهُ مِنَ الصُّفْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ لِمَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ يَصْبُغُ ثِيَابَهُ كُلَّهَا حَتَّى عِمَامَتَهُ.

ترجمہ: زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ ) اپنی داڑھی زرد (زعفرانی) رنگ سے رنگتے تھے یہاں تک کہ ان کے کپڑے زردی سے بھر جاتے تھے، ان سے پوچھا گیا : آپ زرد رنگ سے کیوں رنگتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سے رنگتے دیکھا ہے آپ کو اس سے زیادہ کوئی اور چیز پسند نہ تھی آپ اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی اسی سے رنگتے تھے۔

یہی روایت صحیح البخاری/اللباس ٣٧ (٥٨٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، سنن النسائی/الزینة ١٧ (٥٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٦) میں بھی آئی ہے.

صحیح بخاری، کتاب: لباس کا بیان باب: صاف کی ہوئی اور بغیر صاف کی ہوئی کھال کے جوتوں کا بیان حدیث نمبر: 5851 میں وارد ہوا ہے :

‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا هِيَ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُكَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْكَانِ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ وَلَمْ تُهِلَّ أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ أَمَّا الْأَرْكَانُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمَسُّ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعَرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْإِهْلَالُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ.

ترجمہ: عبید بن جریج نے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ ) سے عرض کیا کہ میں آپ کو چار ایسی چیزیں کرتے دیکھتا ہوں جو میں نے آپ کے کسی ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ ابن عمر (رض) نے کہا : ابن جریج ! وہ کیا چیزیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (خانہ کعبہ کے) کسی کونے کو طواف میں ہاتھ نہیں لگاتے صرف دو ارکان یمانی (یعنی صرف رکن یمانی اور حجر اسود) کو چھوتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صاف زین کے چمڑے کا جوتا پہنتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنا کپڑا زرد رنگ سے رنگتے ہیں یا زرد خضاب لگاتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ جب مکہ میں ہوتے ہیں تو سب لوگ تو ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں لیکن آپ احرام نہیں باندھتے بلکہ ترویہ کے دن (8 ذی الحجہ کو) کو احرام باندھتے ہیں۔ ان سے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ارکان کے متعلق جو تم نے کہا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا۔ صاف تری کے چمڑے کے جوتوں کے متعلق جو تم نے پوچھا تو میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اسی چمڑے کا جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ اس کو پہنے ہوئے وضو کرتے تھے اس لیے میں بھی پسند کرتا ہوں کہ ایسا ہی جوتا استعمال کروں۔ زرد رنگ کے متعلق تم نے جو کہا ہے تو میں نے نبی کریم ﷺ کو اس سے خضاب کرتے یا کپڑے رنگتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی اس زرد رنگ کو پسند کرتا ہوں اور رہا احرام باندھنے کا مسئلہ تو میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی وقت احرام باندھتے جب اونٹ پر سوار ہو کر جانے لگتے۔

خلاصہ : جمہور علماء کرام کے نزدیک زرد رنگ کا استعمال بلا کراہت جائز ہے.

واللہ اعلم بالصواب

أبو الخير عارف محمود دار التصنيف مدرسہ فاروقیہ گلگت 13/06/2020

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن

آپ بھی لکھئے

اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

یہاں سے ارسال کیجئے

ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024