مسند الإمام الأعظم اور المواهب اللطیفة
امام اعظم ابوحنیفہ رحمه الله (١٥٠ ھ) کی روایت سے کئی اہلِ علم نے مسانید ترتیب دی ہیں، ان میں سے ایک امام عبدالله بن محمد بن یعقوب حارثی رحمه الله (٣٤٠ ھ) کی "المسند الکبیر" ہے، جس کا اختصار بعد میں قاضی موسی بن زکریا حصکفی رحمه الله (٦٥٠ ھ) نے کیا تها، لیکن اسمائے شیوخ کی ترتیب پر ہونے کی بنا پر امام صاحب کے شیخ کا نام معلوم کیے بغیر اس مسند سے احادیث کی تلاش مشکل مرحلہ تها، اسی ضرورت کو محسوس کرکے وادئ مہران کے نامور سپوت ملا محمد عابد سندهی رحمه الله (١١٩٠ھ- ۱٢٥٧ھ) جو اپنے دور میں علمائے مدینہ کے سرخیل کہلاتے تهے، نے اس مسند کو ابوابِ فقہیہ کی ترتیب پر مرتب کیا، "مسند الإمام الأعظم" کے نام سے شہرت پا کر ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں جگہ حاصل کرنے والی کتاب دراصل ملا محمد عابد سندهی رحمه الله ہی کی ترتیب دادہ ہے، آج کل یہ کتاب درجہ سادسہ میں پڑهائی جاتی ہے، اس کتاب کے متداول نسخوں پر "تنسیق النظام" کے نام سے مولانا محمد حسن سنبهلی رحمہ اللہ (١٣٠٥ھ) کا حاشیہ ہے، مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمه الله کے بقول:" یہ حاشیہ "موطا امام محمد" پر مولانا عبدالحی لکهنوی رحمه الله (١٣٠٤ھ) کی "التعلیق الممجد" سے بدرجہا فائق ہے"، نیز ملاعلی القاری رحمه الله (١٠١٤ھ) نے بهی ایک شرح لکهی ہے، جو بیروت کے اشاعتی ادارے دارالکتب العلیمة نے روایتی انداز میں کثیر اغلاط کے ساتھ سے شائع کی ہے، شیخ محمد عابد سندهی نے خود بهی "المواهب اللطیفة في الحرم المکي علی مسند الإمام أبي حنیفة من روایة الحصکفي" کے نام سے اپنی مرتب کردہ مسند کی مفصل شرح لکهی تهی، لیکن ایک زمانے سے مخطوطات کی شکل میں مختلف کتب خانوں کی زینت بن کر رہ جانے کی بنا پر اس کتاب کی دید کو اکهیاں ترستیاں تهیں، کچھ عرصہ قبل جب اس شرح کی طباعت کی بازگشت سنائی دینے لگی تو علمی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، حضرت مولانا تقی الدین ندوی مدظلہ نے اولاً خدا بخش لائبریری پٹنہ انڈیا، مکتبہ آصفیہ حیدرآباد دکن انڈیا، مکتبہ راشدیہ پیر جهنڈو پاکستان اور مکتبہ محمودیہ مدینہ منوره کے مخطوطات کے فوٹو حاصل کیے، بعدازاں ریسرچ وتحقیق کے میدان سے وابستہ اپنے تلامذہ کی ایک ٹیم کی مدد سے اس کتاب کو تحقیق کے مختلف جان گسل مراحل سے گزار کر منظرعام پر لائے ہیں، بیماری اور بڑهاپے کے عارضوں کے باوجود مولانا موصوف نے کئی بار بنفس نفیس پوری کتاب کی مراجعت کی ہے، عمر کے اس مرحلے میں ان کی یہ علمی کاوشیں اور بے پایاں خدمات نوجوان علما وفضلا کے لیی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، بہرکیف اب یہ کتاب درمیانے سائز کی سات جلدوں میں دارالنوادر دمشق اور مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي انڈیا سے چهپ کر عالمِ طباعت سے آشنا ہوچکی ہے، امید ہے کہ علمی حلقوں میں قدر کی نگاه سے دیکهی جائے گی۔
محمد ياسر عبدالله