تصویر کشی اور ویڈیو سازی کا رجحان ماہنامہ النخیل رمضان 1440
خاص مواقع پر تصویر کھنچوا نے کا رواج عام ہے، یادگار لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا جاتا ہے لیکن برصغیر کے جمہور علماء نے کیمرے کی تصویر کشی کو ناجائز قرار دیا ہے، اس کے عدم جواز پر دلائل سے بھرپور ایک تفصیلی مضمون مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے جو ان کی کتاب ’’ عدالتی فیصلے‘‘میں شامل ہے ، ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں جواز، عدم جواز دونوں رائے ہیں لیکن اس عمل کی کثرت کے ناپسندیدہ ہونے پر سب کا اتفاق ہےکہ دیگر خرابیوں کے علاوہ یہ خود نمائی کے جذبے کو ابھارتا اور ریاکاری کو پروان چڑھاتا ہے، خاص کر عبادات کے موقع پر توجہ، انابت، تواضع اور فنائیت کے جو اوصاف مقصود ہیں ،یہ ان کے بالکل منافی ہے۔
ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے کوئی بندہ حج یا عمرے کے لیے حرم کی مقدس فضاؤں میں پہنچتا ہے، مقصد ہی کیا ہے، وہاں جانے کا ........لجانا، گرگڑانا ، اپنے عجز وکوتاہی کو سامنے لانا......آخر کیا ضرورت ہے اپنے اور اپنے رب کے درمیان بندگی کے اس منظر کی تصویریں بنائی جائیں اورآلود زدہ سکرینوں پر پھیلائی جائیں ۔
تبلیغی جماعت کا نظم ایک شاندار نظم ہے اور دعوت و تبلیغ میں سلف صالحین کے طرز کا پرتو ہے ، ٹی وی پر اشتہارات چلتے ہیں نہ اس کے لئے اخبارات چھپتے ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کا مجمع اس کے اجتماعات میں دیوانہ وار پہنچتا ہے اور ہزاروں جماعتیں نکلتی ہیں، یہ سب نظم ،مروجہ میڈیا کے سہارے کے بغیر چلتا ہے ، کوئی اس نظم کو میڈیا پر گھسیٹے گا یا اسے ویڈیو سازی کے رخ پر لائے گا، فتنے کی نذر ہوجائے گا ، خیر عام کرنے کے لئے میڈیا آرائی کا شاید کچھ جزوی فائدہ بھی ہوگا لیکن اس کی تہہ میں فتنوں کا ایک ہجوم ہے جو امنڈ آتا ہے۔
اس وقت دینی اداروں میں ویڈیو سازی کا عمل بڑھ رہا ہے، بعض معتبر اداروں نے پس منظر میں موسیقی کی ترنگ بھی شروع کردی ہے، کچھ اداروں نے ڈیجیٹل ویڈیوز کی حرمت پر سخت فتوی جاری کئے لیکن معاملہ اب سب جگہ ڈھیلا ہے جب کہ اس کی کثرت کسی کے ہاں بھی پسندیدہ نہیں، اس لئےاس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ، علماء اور اہل دعوت کے پاس ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ منبر و محراب ہیں ، اسے اسوہ نبوی اور سلف صالحین کے طریقہ پر استعمال کیا جائے تو خیر کے چشمے پھوٹیں گے ، اصلاح کی راہیں کھلیں گی اور دین کے داعی پیدا ہوں گے!