عبادتوں سے تجارتی فوائد اُٹھانا
ایک انسان کی اپنے خالق ومالک سے جو نسبت ہے،اس میں سب سے اہم نسبت عبدیت اور بندگی کی ہے، انسان عبد ہے اور اللہ تعالیٰ معبود ہیں، انسان بندہ ہے اور اللہ کی ذات بندگی کی مستحق ہے، انسان غلام ہے اور اللہ اس کے آقا ہیں، یہ غلامی کی نسبت انسان کے لئے تحقیر نہیں ہے؛بلکہ اِس میں اُس کی توقیر اور اعزاز واکرام ہے، اسی لئے واقعہ معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا ذکر اپنے بندے کے لفظ سے کیا ہے: { سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ} (بنی اسرائیل:۱)جیسے بیٹے کو اس سے زیادہ اور کوئی خطاب محبوب نہیں ہوسکتا کہ اس کا باپ اس کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرے اسی طرح کسی بندے کے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز نہیں ہوسکتا کہ خود کائنات کا خالق ومالک ’’بندہ‘‘کہہ کر اپنے آپ سے اس کی نسبت کو ظاہر کرے۔
انسان اپنی بندگی کا اپنے عمل کے ذریعہ اقرار کرے، اسی کو ’’عبادت‘‘کہتے ہیں اور اللہ نے انسان وجنات کی یہ بستی اس لئے بسائی ہے کہ یہ سب خدا کی عبادت کریں: { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ} (الذاریات: ۵۶) — ہر نبی نے اپنی تعلیمات میں انسانیت کو اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے اور اس کے طریقے بتائے ہیں، رسول اللہ ﷺکی شریعت نے عبدیت کو اس کے اوج کمال پر پہنچا دیا، عبادت کی مقدار بھی بڑھائی گئی اور عبادت کی کیفیت میں بھی اضافہ کیا گیا، نیز جس تفصیل سے عبادت کا طریقہ وسلیقہ اور اس کے آداب واحکام شریعت محمدی میں بتا ئے گئے، کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی، ہر عبادت بندگی اورنیازمندی کا مظہر، جھکاؤ اور بچھاؤ کی کیفیت سے معمور، اللہ سے مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی کوشش اور انسانی زندگی کے لئے دروسِ عبرت سے معمور!
عبادت کے اصل معنی اللہ کے سامنے اپنی ذلت اورکمتری کے اظہار کے ساتھ بے حد جھکاؤ اور آخری درجہ تواضع اختیار کرنے کے ہیں؛ اس لئے عام طور پر عربی لغت کے ماہرین نے اس کا ترجمہ خضوع اور ذلّ سے کیا ہے(مفردات القرآن: ۳۱۸، صحاح للجوہری: ۲؍۵۰۲، لسان العرب: ۳؍۲۷۰۴) ایک بڑے صاحب علم علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ عبادت ایسے افعال کا نام ہے کہ جس سے آخری درجہ معبود کے سامنے اپنی کمتری، عاجزی، جھکاؤ اور نیاز مندی کا اظہار ہو کہ اس عمل سے بڑھ کر کسی اور عمل سے اس جذبہ کا اظہار ممکن نہ ہو(التوقیف علی مہمات التعریف للمناوی:ص ۲۳۴) عبادت میں جہاں اللہ کے سامنے عجز کا اظہار ضروری ہے، وہیں اللہ سے حد درجہ محبت اور دل میں اللہ کی غیر معمولی چاہت کا احساس بھی ضروری ہے؛ اسی لئے علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ عبادت ایسے عمل کا نام ہے، جس میں آخری درجہ کی محبت بھی ہو اور آخری درجہ کا جھکاؤ بھی: ’’العبادۃ تجمع اصلین: غایۃ الحُبَّ وغایۃ الذل والخضوع‘‘ (مدارج السالکین:۸۵-۸۶)
لہٰذا وہ اعمال عبادت میں شامل ہیں جو خالصۃً اللہ کے لئے ہی کئے جاتے ہیں،جس عمل کو کسی بندے کے لئے نہیں کیا جاسکتا، جیسے: نماز، روزہ، زکاۃ، حج، قربانی، سجدہ، تلاوت، دعاء، نذروغیرہ، جو افعال اللہ کے لئے بھی کئے جاسکتے ہیں اورانسانوں کے لئے بھی، اگر ان کو بہتر نیت سے کیا جائے، اللہ کی رضا اور رسول اللہ ﷺکی اتباع مقصود ہو تو انشاء اللہ وہ بھی اجر وثواب کا باعث ہوگا؛ لیکن وہ اصل میں طاعت ہے، حقیقی معنوں میں وہ عبادت نہیں ہے، عربی زبان کے ایک ماہر علامہ ابوہلال عسکری نے لکھا ہے کہ عبادت اور طاعت کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ عبادت صرف اللہ ہی کی کی جاسکتی ہے؛ لیکن طاعت اللہ کے لئے مخصوص نہیںہے۔(الفروق فی اللغۃ:۱۸۲)
عبادت کا ایک نبیادی حکم یہ ہے کہ وہ اجر کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ اجرت کے لئے، اس کا بدلہ آخرت ہی میں دیا جاسکتا ہے، دنیا کے بدلے کے لئے اس عمل کو نہیں کیاجاسکتا، انبیاء کرام اپنی خاص حیثیت کے اعتبار سے ہر کام اللہ کے لئے کرتے تھے اور اللہ کے حکم سے ہی کرتے تھے؛ اسی لئے قرآن نے مختلف انبیاء کی زبان سے کہلایا: { اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ} (ہود: ۲۹)میرا اجر صرف اللہ ہی پر ہے، جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لئے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے، اور عبادت وتجارت کے مقاصد بالکل الگ ہیں؛ اسی لئے عبادت کے لئے مخصوص جگہ پر تجارت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کی عبادت کے لئے ہی بنائی گئی ہیں؛ چنانچہ مسجد میں خرید وفروخت اور کاروباری گفتگو سے منع کیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ آپ ﷺنے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ مسجد میں اس کا اعلان کرے، آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس طرح کا اعلان مسجد میں کرے تو کہہ دو کہ تمہاری چیز نہ ملے۔
اسی لئے فقہاء کا عمومی نقطہ نظریہ ہے کہ جو افعال مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، تلاوت قرآن، جہاد، ان پر اجرت لینا جائز نہیں؛ کیوں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مجھ سے جو آخری وعدہ لیا، وہ یہ کہ اگر میں مؤذن مقرر کیا جاؤں تو اذان پر اجرت نہیں لوں(ترمذی بہ تحقیق احمد محمد شاکر ۱؍۴۳۱۰)، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، مجھے پڑھنے والوں میں سے ایک نے ایک کمان تحفہ میں دی، میں نے سوچا کہ یہ خاص مال تو ہے نہیں، میں اسے جہاد میں استعمال کروں گا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا توآپ ﷺنے فرمایا کہ اگر تمہیں یہ بات پسند آتی ہو کہ اللہ تمہیں آگ کی کمان پہنائے تب قبول کرلو۔(ابوداؤد مع عون المعبود: ۳؍۲۷۶) صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن بشر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن مجید پڑھو، مگر اس میں غلو نہ کرو اور نہ اس کو کھانے اور دولت میں اضافے کا ذریعہ بناؤ ’’ولا تا کلوابہ ولا تستکثروابہ‘‘ (فیض القدیر: ۲؍۶۴ بہ حوالہ مسند احمد)
یہ اور بات ہے کہ عبادت سے متعلق بعض افعال ایسے ہیں، جن میں عمل کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی ضرورت ہے، جیسے نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اتفاق سے اگر کسی نے کہیں نماز کی امامت کردی اورایک جماعت نے اس کے پیچھے نماز ادا کرلی تو اس میں کچھ زیادہ وقت کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر کسی کو خاص مسجد میں امام مقرر کیا جائے تووہ اس وقت کا پابند ہوجاتا ہے؛ بلکہ بعض اوقات پانچ وقت کی امامت میں انسان کا پورا وقت گِھر جاتا ہے، اسی طرح ایک صورت تو یہ ہے کہ اتفاقاً کوئی آئے اور آپ کے پاس قرآن کی کوئی آیت پڑھ لے، یا اپنے پڑوسی کو چند آیات پڑھادیں اور قرآن کی تصحیح کردیں تو اس میں انسان کا وقت اس طرح گھِر نہیں جاتا کہ وہ کسب ِ معاش کا کوئی اور ذریعہ اختیار نہ کرسکے؛ اس لئے ایسے اعمال پر اجرت لینا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص مستقل طور پر ایک مدرس کی حیثیت سے قرآن اور اسلامی علوم کی تعلیم دے، اور مقررہ وقت اس میں لگایا کرے، جس کی پابندی اس پر لازم ہو تو پھر اس کا وقت اس عمل کی وجہ سے مشغول ہوجاتا ہے، اس لئے ایسی صورت میں علماء اہل سنت میں سے امام مالکؒ وامام شافعیؒ نے اجرت لینے کی اجازت دی ہے اور جب حکومتوں کی طرف سے ائمہ اور معلّمین کا انتظام باقی نہ رہا اور صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ہر وقت امامت کی صلاحیت کے حامل ائمہ کا ملنا دشوار ہوگیا، مسلمان بچے اور بڑے قرآن کی تعلیم سے محروم ہونے لگے تو فقہاء احناف اور حنابلہ میں سے بعد کے لوگوں نے ان کاموں پر اجرت لینے کی اجازت دے دی؛ کیوں کہ یہ کام کی اجرت نہیں ہے، وقت کی اجرت ہے، اور وقت کی اجرت لینا جائز ہے۔
اسی طرح فقہاء نے حج پر اجرت لینے یا جہاد پر اجرت لینے کو منع کیا ہے؛ کیوں کہ یہ سب عبادت ہے اور عبادت خالصۃ ً لوجہ اللہ ہونی چاہیے، رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ہجرت بھی اہم عبادت تھی اور آپ ﷺنے صاف اعلان کردیا کہ جو اللہ اور رسول کے لئے ہجرت کرے گا، اس کا یہ عمل باعث اجر بنے گا اور جو کسی اور مقصد کے لئے ترکِ وطن کرے گا، وہ ہجرت کے ثواب سے محروم رہے گا؛ کیوں کہ اس کا یہ وطن چھوڑنا اللہ اور رسول کے لئے نہیں ہے، مشہور محدث امام بخاریؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب بخاری شریف کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے، غرض کہ عبادت پر عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہیے، خود عبادت کرنے والوں کا بھی یہی رویہ ہونا چاہیے اور دوسرے مسلمانوں کا بھی۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک خاص رجحان عبادتوں سے تجارتی فوائد اٹھانے کا بنتا جارہا ہے، ایصال ثواب کا درست ہونا حدیث سے ثابت ہے اور سوائے بعض اہل علم کے علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعہ بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، مگر اس پر اجرت کا لینا جائز نہیں، مشہور حنفی عالم علامہ شامیؒ نے خوب لکھا ہے کہ اگر تلاوتِ قرآن اجرت کے عوض ہوتو اس عمل میں اخلاص باقی نہیں رہااور جو عمل اخلاص سے خالی ہو وہ کارثواب نہیں ہوسکتا، تو جب یہ عمل خود لائق ثواب نہیں رہا تو دوسروں کو اس کا ثواب پہنچایا کس طرح جاسکتا ہے؟ اس لئے ایصال ثواب کے لئے تلاوتِ قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں؛مگر صورت حال یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ میں اس کی اجرت متعین کی جاتی ہے اور کہیں کہیں تو اس کے لئے گروپ بنے ہوئے ہیں اور وہ باضابطہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، یہ واضح طور پر عبادت کو تجارت کی شکل دینا ہے۔
تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا ختم کرنا واجب نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ سنت ہے، اب بحمداللہ حفاظ کرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑی آسانی سے شہر سے گاؤں تک حفاظ میسر آجاتے ہیں، اگر تراویح پڑھانے والے کی طرف سے اجرت کا مطالبہ نہ ہو؛ بلکہ انکار ہو اوراس کی نیت ایسی خالص ہو کر اگر اس کو کوئی اجرت نہیں ملے، تب بھی وہ نماز پڑھائے گا، اس کے باوجود لوگ اپنی طرف سے ایک حافظ قرآن کی خدمت کی نیت سے ہدیہ پیش کردیں تو پیش کرنے والوں کے لے سعادت اور اس حافظ کاقبول کرنا جائز ہے؛ لیکن حافظ کی طرف سے اس کا مطالبہ کرنا اور دونوں فریقوں کا مل کر اجرتِ تراویح طے کرنا یہ یقیناً عبادت کو تجارت کے درجے میں لے آنا ہے اور قرآن مجید کے احترام کے مغائر ہے۔
رمضا ن المبارک میں عام طور پر فروٹ کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور فروٹ کے تاجروں میں بڑی تعداد مسلمانو ںکی ہے، ان کا روزہ داروں کے ہاتھ فروٹ بیچنا اور اس پرمناسب منافع لینا جائز ہے؛ لیکن عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ اس میں روزہ داروں کا استحصال کیا جاتا ہے، مثلاً ایک تربوز اگر ۲۵؍شعبان کو ۳۰؍ روپئے کا ہوتو پہلی رمضان سے اس کی قیمت ۱۰۰؍ روپئے کردی جاتی ہے اور عید ختم ہوتے ہی پچھلی قیمت بحال ہوجاتی ہے، یہی حال بقر عید کا ہے، جانوروں کے مسلمان تاجر عید الاضحی کے کچھ پہلے سے قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کردیتے ہیں، قصاب حضرات قربانی کے دنوں میں دوگنا اور تین گنا پیسہ وصول کرتے ہیں،۱۲؍ ذی الحجہ کے بعد پھر قیمت اوراجرت معمول پر آجاتی ہے، بعض حضرات نے تو اجر وثواب کے اس موسم کو تجارت اور انویسٹمنٹ کا سنہرا موقع بنا لیا ہے دوہفتہ کے لئے سرمایہ لگاتے ہیں اور کئی گنا نفع حاصل کرتے ہیں۔
حج کے معاملے میں مسلم ٹورس اور ٹراویلس کا رویہ سب سے زیادہ خراب ہے، انہیں اس نیت سے کام کرنا چاہیے تھا کہ حاجیوں کو راحت پہنچائیں اور تھوڑا بہت نفع ان کو مل جائے؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اولاً تو حاجیوں سے ایسے وعدے کئے جاتے ہیں، جو حرمین شریفین پہنچنے کے بعد دن کا خواب معلوم ہوتا ہے، جو سہولتیں نہیں پہنچا سکتے،ان کا اعلان کرتے ہیں، خود حجاج عبادت میں مشقت اٹھانے اور اللہ کا مہمان ہونے کے جذبہ کے بجائے ٹورس کے مہمان ہونے کا احساس پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ سہولت پسندی کے جذبہ کے ساتھ پہنچتے ہیں، جب وہاں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں تو لے جانے والوں کا رویہ نہایت تیز اور بہت کڑوا ہوتا ہے، یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے؛ تاکہ سبز باغ دکھا کر عازمین سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کئے جائیں۔
افسوس بالائے افسوس یہ ہے کہ اب حج میں رشوت کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ہے، سعودی حکومت حج وعمرہ کے ویزے فروخت نہیں کرتی ہے؛لیکن نہ معلوم کہاں سے اس میں کرپشن داخل ہوگیا ہے، لوگ رشوت دے کر حج کے ویزے خریدتے ہیں، جو قطعاً ناجائز ہے، اسی طرح بعض ٹورس ان ویزوں کو فروخت کرتے ہیں، جو انہیں الاٹ ہوا ہے؛ حالاں کہ یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں مال ومتاع کی حرص اور مادیت اس قدر پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ہر کام میں اور ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے عبادتوں کے انجام دینے اور اس کے وسائل فراہم کرنے میں اجر وثواب کے جذبہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا ہے اور ایسے مقدس کاموں کو بھی خالصۃً تجارتی مقصد کے تحت انجام دیتے ہیں، نیز لوگوں کے سامنے اپنی تصویر کچھ اس طرح کی پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ دین کے خدمت گذار اور اپنے مسلمان بھائیوں کے پکے بہی خواہ ہیں، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ضرورت تو یہ تھی کہ ہم اپنی تجارت کو عبادت بنا لیتے، یعنی اس میں اللہ کی رضا کا جذبہ شامل رکھتے، کم نفع لیتے، لوگوں کو سہولت بہم پہنچاتے، کچھ اجرت حاصل کرتے اور کچھ اجر کے امیدوار رہتے، نہ یہ کہ ہم عبادت کو تجارت کا رنگ دیدیں اور حصولِ اجر وثواب کے مواقع کو کسبِ معاد کے بجائے خالص کسب معاش کا ذریعہ بنالیں۔ وباللّٰہ التوفیق۔