واعظ بے عمل!

عَنْ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ‏‏‏‏‏‏.... سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ فَيَطْحَنُ فِيهَا كَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَيْ فُلَانُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتَ كُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَفْعَلُهُ.

میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کو (قیامت کے دن) لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر وہ اس میں اس طرح چکی پیسے گا جیسے گدھا پیستا ہے۔ پھر دوزخ کے لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! کیا تم نیکیوں کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکا نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا کہ میں اچھی بات کے لیے کہتا تو ضرور تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور بری بات سے روکتا بھی تھا لیکن خود کرتا تھا۔(بخاری رقم الحدیث  7098 و مسلم  برقم 2989)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ قَالَ قُلْتُ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالُوا خُطَبَاءُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا كَانُوا يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا يَعْقِلُونَ. (مسند احمدحدیث نمبر: 12211)

ترجمہ:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا شبِ معراج میں ایسے لوگوں کے پاس سے گذرا جن کے منہ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ دنیا کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے اور کتاب کی تلاوت کرتے تھے، کیا یہ سمجھتے نہ تھے۔

كيا بے عمل  آدمی وعظ کہ سکتا ہے؟

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ:

یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بےعمل یا فاسق کے لئے دوسروں کو وعظ ونصیحت کرنا جائز نہیں اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہ کرے کیونکہ کوئی اچھا عمل الگ نیکی ہے اور اس اچھے عمل کی تبلیغ دوسری مستقل نیکی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑدی جائے، جیسے ایک شخص اگر نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ لازم نہیں کہ وہ روزہ بھی ترک کردے بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو نماز پڑھنے کے لئے بھی نہ کہے اسی طرح کسی ناجائز فعل کا ارتکاب الگ گناہ ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اس ناجائز فعل سے نہ روکنا دوسرا گناہ ہے اور ایک گناہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا گناہ بھی ضرور کیا جائے۔ (روح المعانی )

چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت سعید بن جبیر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر ہر شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑدے کہ میں خود گنہگار ہوں جب گناہوں سے خود پاک ہوجاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تبلیغ کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے گا کیونکہ ایسا کون ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو؟ حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ   چھوڑ بیٹھیں (قرطبی)

بلکہ حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی تو فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تاکہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے،

خلاصہ یہ ہے کہ آیت، اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بےعمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ واعظ کو بےعمل نہیں ہونا چاہئے اور دونوں میں فرق واضح ہے مگر یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ بےعمل ہونا نہ تو واعظ کیلئے جائز ہے نہ غیر واعظ کیلئے پھر واعظ کی تخصیص کیوں؟ جواب یہ ہے کہ ناجائز تو دونوں کے لئے ہے مگر واعظ کا جرم غیر واعظ کے جرم کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور زیادہ قابل ملامت ہے کیونکہ واعظ جرم کو جرم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر کرتا ہے اس کے پاس یہ عذر نہیں ہوتا کہ مجھے اس کا جرم ہونا معلوم نہ تھا برخلاف غیر واعظ کے اور ان پڑھ جاہل کے کہ اس کو خواہ علم حاصل نہ کرنے کا الگ گناہ ہو لیکن ارتکاب گناہ میں اس کے پاس کسی درجہ میں عذر موجود ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا اس کے علاوہ عالم اور واعظ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو یہ دین کے ساتھ ایک قسم کا استہزاء ہے چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے رسول (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے جتنا ان پڑھ لوگوں کو معاف کرے گا اتنا علماء کو معاف نہیں کریگ

ا کتاب کا نام: (معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ جلد 1 صفحہ نمبر: 223)

مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ:

یہ مقصد نہیں کہ عالم بےعمل کسی کو امر بالمعرف اور نہی عن المنکر نہ کرے یا کسی کو راہ حق نہ بتلائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ خود بھی ضرور عمل کرے عالم ہو کر بےعمل نہ رہے بلکہ عالم با عمل بنے جب وہ دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے تو اس کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ سب سے پہلے میرا نفس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا محتاج ہے۔

عالم پر دو چیزیں فرض ہیں۔ ایک ترک معصیت یعنی خود معصیت نہ کرنا۔ دوم یہ کہ دوسروں کو معصیت سے منع کرنا۔ اگر دونوں فرض نہیں بجا لاسکتا تو دونوں چھوڑا بھی نہیں جاسکتا۔ مالایدرک کلہ لا یترک کلہ۔ طبیب اگر کسی مرض میں خود مبتلا ہو تو اسی مرض کے مریض کا معالجہ کرسکتا ہے لیکن خود اس کا مرض جب ہی زائل ہوگا جب وہ خود بھی دوا کا استعمال کرے دوسرے مریض کو دوا کا بتلانا بلابشہ ضروری اور مستحسن ہے اور مریض کے لیے غایب درجہ مفید ہے مگر اس بد پرہیز طبیب کو فائدہ جب ہوگا جب خود بھی دوا کا استعمال کرے محض دوسرے کو دوا بتلا دینا اس کے مرض کے ازالہ کے لیے کافی نہیں اور لم تقولون مالا تفعلون۔ میں ان کا فقط قول حق اور امر بالمعروف کی طرف راجح نہیں بلکہ تقولون کی قید یعنی لا تفعلون کی طرف راجح ہے یعنی حق کہنے کے بعد اس پر عمل کیوں نہیں کرتے بلاغت کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی شئی کسی قید کے ساتھ مقید ہو تو نفی اور انکار فقط قید کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔(معارف القرآن  کاندھلوی)

آیا نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے خود نیک ہونا ضروری ہے ؟

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے علماء نے تین شرطیں ذکر کی ہیں :

 اول مکلف ہونا ‘ ثانی ایمان ‘ ثالث عدل یعنی اس کا نیک ہونا ‘ بعض علماء نے چوتھی شرط بھی ذکر کی ہے کہ امام کی طرف سے اس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اجازت ہو ۔

 لیکن امام غزالی اور دیگر محققین نے اس شرط کو مسترد کردیا ہے ‘ باقی رہی تیسری شرط یعنی نیکی کا حکم دینے کے لیے خود نیک ہونے کی شرط تو اس کے متعلق بھی علماء نے کافی بحث کی ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

بعض علماء نے امر بالمعروف کے لیے عدالت کو شرط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فاسق کا کسی کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا جائز نہیں ہے انہوں نے قرآن مجید کی ان آیات سے استدلال کیا ہے :

”أتامرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم “۔ (البقرة : ٤٤ )

ترجمہ : کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟

” یأیھا الذین أمنوا لم تقولون مالاتفعلون۔ کبر مقتاعند اللہ أن تقولوا مالاتفعلون “۔۔ (الصف : ٣۔ ٢)

ترجمہ : اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ہو ؟۔ اللہ کو سخت ناراض کرنے والی بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے ۔

عدالت کی شرط پر ان احادیث سے بھی استدلال کیا گیا ہے :

امام احمد ‘  رحمہ اللہ  امام ابویعلی  رحمہ اللہ  امام طبرانی  رحمہ اللہ  اور ابونعیم  رحمہ اللہ  نے حضرت انس  رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول (ﷺ) نے فرمایا : معراج کی شب میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا ‘ میں نے پوچھا : تم لوگ کون ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور خود نیکی نہیں کرتے تھے اور لوگوں کو برائی سے روکتے تھے اور خود برے کام کرتے تھے ‘ اور امام ابو نعیم نے ” حلیہ “ میں مالک بن دینار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اللہ نے وحی کی : اپنے آپ کو نصیحت کرو ‘ اگر تم نے خود نصیحت پر عمل کرلیا تو پھر لوگوں کو نصیحت کرو ورنہ مجھ سے حیا کرو۔

عدالت کی شرط پر قیاس سے بھی استدلال کی گیا ہے کیونکہ غیر کا ہدایت حاصل کرنا خود ہدایت یافتہ ہونے کی فرع ہے اور غیر کو مستقیم کرنا خود مستقیم ہونے کی فرع ہے اور غیر کی اصلاح خود صالح ہونے کی فرع ہے تو جو شخص خود نیک نہ ہو دوسرے کو کب نیک کرسکتا ہے۔

مذکورہ دلائل کا جواب

یہ مذکورہ دلائل بہ اعتبار ظاہر ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ فاسق بھی امر بالمعروف کرسکتا ہے ‘ کیونکہ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیا امر بالمعروف کے لیے تمام گناہوں سے معصوم ہوناضروی ہے ؟ اگر یہ شرط لگائی جائے تو ایک تو یہ اجماع کے خلاف ہے ‘ دوسری بات یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہ بھی معصوم نہیں تھے چہ جائیکہ بعد کے لوگ ! اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیا علیہم اسلام کے علاوہ کوئی شخص تبلیغ کرسکتا ہے نہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرسکتا ہے حالانکہ قرآن مجید اور احادیث میں امت مسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مکلف کیا گیا ہے اور اگر وہ یہ کہیں کہ امر بالمعروف کے لیے کبیرہ گناہوں سے پاک ہونا ضروری ہے اور مرتکب کبیرہ کے لیے یہ جائز نہیں ہے حتی کہ جو شخص ریشم کا لباس پہنے ہوئے ہو اس کے لیے زنا اور شراب نوشی سے روکنا جائز نہیں ہے ‘ تو ہم پوچھتے ہیں کہ آیا ریشم پہننے والے کے لیے کفار کے خلاف جہاد کرنا اور ان کو کفر سے روکنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں تو یہ اجماع کے خلاف ہے ‘ کیونکہ اسلام کے ہر دور میں نیک اور بد لوگ لشکر اسلام میں شامل ہو کر کفار کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں ‘ اگر وہ کہیں کہ ہاں یہ جائز ہے تو پھر ثابت ہوگیا کہ مرتکب کبیرہ کے لیے تبلیغ اسلام کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا جائز ہے۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر مرتکب کبیرہ کے لیے تبلیغ جائز ہو تو لازم آئے گا کہ ایک شخص کسی ایسی عورت سے زنا بالجبر کر رہا ہو جس نے اپنا منہ چھپایا ہوا ہو ‘ دوران زنا وہ عورت خود اپنا منہ کھول دے اور وہ شخص اس سے کہے : تو نے غیر محرم کے سامنے چہر کیوں کھولا ؟ زنا کرانے میں تو تو مجبور تھی چہرہ دکھانے میں تو مجبور نہیں تھی ! تو یہ ایسی تبلیغ ہے جس کو ہر عقل مند براس مجھے گا اور اس سے نفرت کرے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات حق بالطبع برا لگتا ہے اور باطل بالطبع اچھا لگتا ہے اور اتباع دلیل کی ‘ کی جاتی ہے وہمی اور خیالی نفرت کی نہیں کی جاتی ‘ اس حال میں اس عورت کو منہ چھپانے کا حکم دینا کیا حرام ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ حرام نہیں ہے کیونکہ نامحرم کے سامنے منہ کھولنا معصیت ہے اور معصیت سے روکنا حق ہے ‘ باقی رہا یہ کہ طبیعت ان کاموں سے متنفر ہوتی ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص زیادہ اہم چیز (زنا سے اجتناب) کو ترک کر کے کم درجہ کی اہم چیز میں مشغول ہوگیا ‘ جیسے طبیعت ان کاموں سے منتفر ہوتی ہے کہ ایک آدمی ہمیشہ سود کھاتا ہو اور کسی غصب شدہ چیز کو کھانے سے احتراز کرے ‘ یا جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہو اور وہ غیبت سے احتراز کرے اور اس طبعی تنفر سے یہ لازم نہیں آتا کہ غصب شدہ طعام کھانا حرام نہ ہو یا غیبت کو ترک کرنا واجب نہ ہو (احیاء علوم الدین علی ہامش اتحاف السادۃ المتقین ج ٧ ص ١٧۔ ١٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مصر ١٣١١ ھ)

امام رازی اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

مکلف کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ‘ ایک معصیت کو ترک کرنا ‘ دوسرا غیر کو معصیت سے منع کرنا ‘ اور ایک حکم پر عمل نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ دوسرے حکم پر بھی عمل نہ کرے ‘ اور اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے کہ ” تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو “ اس آیت کے دو محمل ہیں ‘ ایک یہ کہ مطلقا اپنے آپ کو بھلانے یعنی خود عمل نہ کرنے سے منع کیا ہے ‘ دوسرا محمل یہ ہے کہ جس وقت وہ خود عمل نہ کر رہا ہو اس وقت دوسروں کو اس کا حکم دینے سے منع کیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس آیت کا پہلا محمل مراد ہے نہ کہ دوسرا۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٢٢٦ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیر عثمانی  میں فرماتے ہیں کہ:

مقصود یہ ہے کہ واعظ کو اپنے وعظ پر ضرور عمل کرنا چاہیے یہ غرض نہیں کہ فاسق کسی کو نصیحت نہ کرے۔(فوائد عثمانی  سورہ بقرہ آیت 44)

تفسیر   مظہری میں ہے کہ:

علامہ بغوی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں نے کچھ آدمی دیکھے کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچی سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل ( علیہ السلام) سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ آپ ﷺ کی امت کے واعظ ہیں لوگوں کو نیک کام بتاتے تھے اور اپنے آپ کو بھولے ہوئے تھے حالانکہ کتاب الٰہی پڑھتے تھے۔ اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا کہ اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا آگ میں اس کی انتڑیاں اور اوجھ سب نکل پڑے گا پھر اس کے پیچھے اس طرح گھومے گا جیسا کہ گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ اس کا یہ حال دیکھ کر دوزخ والے اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پوچھیں گے تیرا کیا حال ہے تو تو ہمیں بھلی بات بتلایا کرتا تھا لیکن خود عمل نہیں کیا کرتا تھا وہ کہے گا ہاں میں تمہیں بری بات سے روکتا تھا اور خود اسی میں مبتلا تھا۔

علامہ بیضاوی  ﷬نے کہا ہے کہ :

مقصود اس آیت سے عالم اور واعظ کو تزکیہ اور اصلاح نفس کا حکم کرنا ہے وعظ سے روکنا اور منع کرنا مراد نہیں کیونکہ وعظ اور لوگوں کو بھی بھلی بات بتانا یہ بھی اللہ کا حکم ہے اور اپنے نفس کو پاک کرنا اور معاصی سے بچنا یہ بھی ضروری ہے اور ایک حکم پر عمل نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرے حکم کو بھی چھوڑ بیٹھے۔ (اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی کہے میاں جب ہم غیبت اور حق تلخیاں کرتے ہیں تو نماز کیوں پڑھیں ظاہر ہے کہ ایسا شخص سبب کے نزدیک بیوقوف ہوگا)

میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ نے فرمایا : کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ( سخت ناپسند ہے اللہ کے نزدیک یہ بات کہ ایسی بات کہو جو خود نہ کرو) اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی خود بد عمل ہو تو دوسروں کو بھی وہ بھلی بات کرنے کا حکم نہ کرے کیونکہ یہ اللہ کے نزدیک برا ہے لیکن آیت کے یہ معنی نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ عالم کا گناہ اللہ کے نزدیک جاہل کے گناہ سے زیادہ ناپسند ہے نہ یہ کہ عالم گنہگار کا امر بالمعروف ناپسند ہے واللہ اعلم۔(تفسیر مظہری سورہ بقرہ آیت 44)

 

مفتی محمد خان عفی عنہ

فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
کل مواد : 7
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025