سلام اور سوشل میڈیا
گروپ میں سلام کرنے کا حکم
ا(As/ws) سے سلام کرنے کا حکم جیسے اہم مسائل اس تحریر میں موجود ہیں
اسلام دینِ فطرت ہے، جس کی تعلیمات مزاجِ بشری کے بالکل ہم آہنگ اور مطابق ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ فطرتِ انسانی آپسی میل جول اور باہمی تعلق اور ملاقات کی مقتضی ہے، کہ جب دو لوگ آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو جملہ اقوام کا یہ رواج ہے کہ اظہارِ تعلق کے لئے کچھ نہ کچھ جملے ضرور استعمال کرتے ہیں،جو کہ ان کی خاص علامت اور شعار ہوا کرتا ہے، لیکن اسلام نے اپنے متبعین کو سب طریقوں سے قطعِ نظر کرتے ہوئے ایک نہایت سنہرا اور منفرد طریقہ سکھایا وہ یہ کہ جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو سب سے پہلے سلام کریں، یہ سلام اصل میں اسلامی شعار اور مذہبی فریضہ ہے، سلام لغت میں نام ہے: سلامتی اور حفاظت کا.
یعنی مطلب یہ کہ سلام کرنے والا اپنے سلام کے ذریعے سامنے والے کو یہ دعا دیتا ہے کہ آپ تمام آفات سے سلامتی اور شرور سے حفاظت میں رہیں خواہ دینی ہو یا دنیاوی، جانی ہو یا مالی، نیز سلام امن و شانتی کا پیغام، حفظ و سلامتی کا ذریعہ اور اتحاد و اتفاق کی شاہِ کلید ہے ،سلام کوئی رسمی بول نہیں؛ بلکہ درحقیقت سلام ایک عالمگیر جامعیت کا نام ہے
سلام کو فروغ دینے اور عام کرنے کی اہمیت کتاب و سنت کی بے شمار نصوص سے ثابت ہے
سب سے پہلے سلام کرو
پھر لوگوں سے کلام کرو
عادت سب کی بن جائے
اتنا سلام کو عام کرو ۔
فی زماننا جب کہ سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے لوگ سوشل میڈیا پر جب آپسی بات چیت کرتے ہیں تو وہ بھی ملاقات کے درجے میں ہے اس وقت بھی ہمیں سلام کرنا چاہئے
لیکن سوشل میڈیا پر سلام کا کیا حکم ہے کیا طریقہ ہونا چاہئے کن کن الفاظ سے سلام کرنا چاہئے ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر کچھ مسائل مرتب کئے ہیں اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
مسئلہ : موبائل کے ذریعے میسج بھیجنا یہ خط بھیجنے کے حکم میں ہے، اور خط میں سلام لکھنا مسنون ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خط میں سلام لکھنا ثابت ہے لھذا موبائل میسیج میں بھی سلام لکھنا مسنون ہے
مسئلہ : فون کے ذریعہ کسی سے بات کرنا یا چیٹ کرنا ایک قسم کی ملاقات ہی ہے ،لہذا جب کسی کو فون کرنا ہو، یا چیٹ کرنا ہو تو ہیلو کرنے کے بجائے سلام کرنا چاہیے ،اسی طرح بعض لوگ سلام تو کرتے ہیں ،لیکن پہلے ہیلو کہتے ہیں اور پھر سلام کرتے ہیں،یہ بھی ٹھیک نہیں اس لئے کہ سلام کلام سے پہلے ہوتاہے اسی طرح جب بات ختم ہو،تو تب بھی ایک دو سرے کو سلام کریں
مسئلہ : سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے، اور سلام میں پہل کرنے میں زیادہ ثواب ہے، سلام ان الفاظ سے کیا جائے: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
البتہ سلام کرتے وقت بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا خیال رکھنا چاہیے:
مسئلہ : وہ مواقع جن میں سلام کرنا ممنوع ہے
نماز، تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر میں مصروف شخص، جو حدیث پڑھا رہا ہو، کوئی بھی خطبہ دے رہا ہو، مسائلِ فقہ کا تکرار و مذاکرہ، جو مقدمہ کے فیصلہ کے لئے بیٹھا ہو، اذان دے رہا ہو، اقامت کہہ رہا ہو، درس دے رہا ہو، اجنبی جوان عورت کو بھی سلام نہیں کرنا چاہیےکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، شطرنج کھیلنے والے اور اس مزاج و اخلاق کے لوگ جیسے جو لوگ جوا کھیلنے میں مشغول ہوں، جو اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلف کیفیات میں ہو، کافر اور جس کا ستر کھلا ہوا ہو، جو پیشاب پائخانہ کی حالت میں ہو، اس شخص کو جو کھانے میں مشغول ہو، ہاں اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور توقع ہو کہ سلام کی وجہ سے وہ کھانے میں شریک کر لے گا تو اس کو سلام کر سکتا ہے، گانے بجانے اور لہو و لعب وغیرہ میں مشغول شخص کو بھی سلام نہیں کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں کہ سلام کرنے سے ان کے کام میں خلل واقع ہو، یا جو لوگ فسق و فجور میں مصروف ہوں، یا جن کو سلام کرنا تقاضۂ حیا کے خلاف ہو یا جنہیں سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، ایسے لوگوں کو اور غیرمسلموں کو پہل کر کے سلام نہیں کرنا چاہیے۔
مسئلہ :جس طرح سے کسی مجلس یا گھر میں آنے والے شخص کے لیے حکمِ مسنون یہ ہے کہ وہ ’’السلام علیکم‘‘ کہے، اسی طرح رخصت ہوتے وقت بھی ’’السلام علیکم‘‘ کہنا مسنون ہے، پس جانے والے شخص کو بھی ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہنے کی عادت ڈالنی چاہیے، ’’السلام علیکم‘‘ کے الفاظ چھوڑ کر اس کے ہم معنی الفاظ یا ’’اللہ حافظ‘‘ یا ’’خدا حافظ‘‘ یا ’’فی امان اللہ‘‘ وغیرہ الفاظ کہنا اگرچہ فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس سے سنت ترک کرنا لازم آئے گا، اس لیے مسلمانوں کو ملاقات کرتے وقت اور رخصت ہونے کے وقت سلام کی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
سنن أبي داؤدمیں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: "إذا انتهى أحدُكم إلى المجلس فليُسَلِّم، فإذا أرادَ أن يقومَ فليُسَلِّم، فليست الأولى بأحقَّ مِن الآخِرَة".
مسئلہ :خط ، تحریر ، میسج کا جو حکم ہے وہی حکم فیس بک اور واٹس ایپ کا بھی ہے کہ فیس بک یا واٹس ایپ پر کسی نے سلام کیا تو اس کو پڑھ کر زبان سے جواب دینا واجب ہے۔ ہاں اگر تحریری طور پر جواب دینے کا ارادہ ہے تو زبانی نہ دے کر بعد میں تحریری بھی دے سکتا ہے۔
قال فی الرد اذا کتب الیک رجل بالسلام فی کتاب و وصل الیک وجب علیک الرد باللفظ او بالمراسلة لان الکتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر والناس عنہ غافلون (رد المحتار: ۹/۵۹۴)
مسئلہ :مرد ،اپنی محارم کو سلام کرے گا، اور غیر محرم بوڑھی عورت کو بھی سلام کرسکتا ہے، جوان کو نہیں، اگر جوان عورت سلام کرے تو اس کا جواب دل میں دے۔
اور اگرعورت بڑھاپے کی عمر میں ہے تو وہ مرد کو سلام کرسکتی ہے، اسی طرح سلام کا جواب دے سکتی ہے، اور مرد بھی اس کے سلام کا جواب دے سکتاہے۔ اگر عورت جوان ہے تو اسے غیر محرم مرد کو سلام نہیں کرنا چاہیے،اور مرد سلام کرلے تو دل میں جواب دے۔
ملحوظ رہے کہ یہ حکم زبانی سلام کا ہے، مصافحہ غیر محرم سے بہرصورت ناجائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"رد السلام واجب إلا ... شابة یخشیٰ بها افتتان".
مسئلہ :لفظ ہیلو (Hello) متوجہ کرنے کا کلمہ ہے (دیکھئے فیروزاللغات ص:۱۴۶۱) یعنی کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جس کا مفہوم ہوتا ہے ”سنو“ عرف عام میں بھی اسی مقصد (خطاب و توجہ) کے لئے مستعمل ہوتا ہے، بولنے والے کے ذہن میں جہنم اور جہنمی کا مفہوم ہرگز نہیں ہوتا، اس لئے فون وغیرہ پر لفظ ہیلو کہنا ناجائز اور حرام نہیں، البتہ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی گفتگو کا آغاز سلام سے کرے یہی سنت طریقہ ہے اور آغاز میں ہیلو کا استعمال نہ کیا جائے۔
مسئلہ :مسنون سلام ”السلام علیکم“سے ہی ادا ہوگا
آداب عرض یا اِسی قسم کے دوسرے الفاظ، شرعی اسلامی تحیہ کے قائم مقام نہیں ہوں گے، اور سنتِ سلام ادا نہ ہوگی۔
(کفایت المفتی:۹/۹۰)
مسئلہ : سلام کے جواب کا افضل اور اعلیٰ درجہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ ہے اور صرف ”وعلیکم السلام“ کہنا بھی جائز ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)
مسئلہ :کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”علیکم“ کہا تو یہ سلام کا جواب نہیں سمجھا جائے گا۔(حوالہ سابق)
مسئلہ :کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہا تو دونوں قول ہیں: جواب ہوجائے گا، دوسرا قول یہ ہے کہ کافی نہیں ہوگا۔(ایضا)
مسئلہ :سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ "السَّلَامُ عَلَیکُم و رحمة اللّٰه و بركاته"(شروع میں الف لام اور میم پر پیش) کہا جائے اور جواب ان الفاظ سے دیا جائے "وَعَلَیکُمُ السَّلَام و رحمة اللّٰه و بركاته"۔ اگر سلام میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ " یا صرف "السلام علیکم " پر اکتفا کیا جائے تب بھی درست ہے، مزید اضافہ کرنا یعنی لفظ" مغفرتہ " جیسے الفاظ نہیں بڑھانا چاہیے
جیسا کہ مشکوٰۃ ج:1، ص:398، میں ہے، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا ہے کہ سلام کی انتہا ’’وبركاته‘‘ ہے۔
مسئلہ :چند اور غلط صیغے: (۱) سَلَامْ لِیکُم (۲) سَلَامَا لِیکُم (۳) السلامٌ علیکم (۵) السام لیکم (۶) السام علیکم (۷) سام علیکم (۸) سام لیکم (۹) السلامْ عَلِیکُم (میم کا سکون اور علیکم میں لام کے زیر کے ساتھ) (۱۰) السلام ألَیکم․
یہ سب سلام کے غلط اور غیر مسنون صیغے ہیں، جو ناواقفیت کی وجہ سے لوگ بول دیتے ہیں، علامہ شامی کا فیصلہ یاد رکھیں ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین، وبدون ہذین کما یقول الجہال، لا یکون سلاماً․
لفظ سلام ہر جگہ السلامُ علیکم یا سلامٌ علیکم ہے، اِن دونوں الفاظ کے علاوہ جتنے الفاظ ہیں، وہ سب مسنون سلام نہیں ہیں۔
مسئلہ :قرآن کریم کی متعدد آیات میں سلام کے دونوں صیغے: یعنی السلام الف لام کے ساتھ اور سلامٌ بغیر الف لام کے آئے ہیں؛ اِسی طرح احادیث میں اکثر وبیشتر مواضع میں لفظ سلام معرفہ آیا ہے،نکرہ بہت کم آیاہے(سلام کے بارے میں صحیح تلفظ السلام علیکم ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی پر عمل پیرا تھے، سلامٌ علیکم کہنا درست ہے؛ البتہ یہ شیعوں کا شعار بتایاجاتا ہے؛ اس لیے سلامٌ علیکم کہنے سے احتراز کرنا چاہیے،
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۳۰۰۰۱) ،
اِسی بنا پر فقہاء نے کہا ہے کہ لفظِ سلام کی تعریف وتنکیر دونوں درست ہیں؛ لہٰذا سلامٌ علیکم اور السلام علیکم دونوں کہنا جائز ہے؛ لیکن البتہ السلام علیکم کہنا افضل اور بہتر ہے
قال ابن عابدین: ولفظ السلام فی المواضع کلہا: السلام علیکم أو سلام علیکم بالتنوین، وبدون ہذین کما یقول الجہال، لا یکون سلاما۔
مسئلہ :کوئی شخص کسی مجمع یا چند لوگوں کو سلام کرے تو ان میں سے اگر کوئی ایک بھی جواب دیدے، تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا، اور اگر کسی نے بھی جواب نہ دیا تو وہ سب ذمہ دار ہوں گے۔ البتہ سلام کرنے والے نے کسی کا نام لے کر سلام کیا ہے، تو پھر صرف اُسی کے ذمہ جواب دینا واجب ہوگا۔
چنانچہ سوشل میڈیا گروپ بھی مجمعِ عام کے حکم میں ہے اگر کوئی ایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے۔
مطلب جب کوئی شخص سوشل میڈیا گروپ میں سلام لکھے، اور وہ دوسروں کو پہنچ جائے، اور وہ لوگ پڑھ کر اس پر مطلع ہوجائیں تو ان پر صرف لفظاً (قولاً) سلام کا جواب دینا واجب ہے،
صاحبِ در مختار علامہ محمد ابن علی حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تحریری سلام کا جواب دینا ایسا ہی واجب ہے، جیسے حاضرشخص کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
(ردّ جواب الکتاب حق کردّ السلام) أي إذا کتب لک رجل بالسلام في کتاب ووصل إلیک وعلمتہ بقراءتک او بقراءۃ غیرک وجب علیک الرد باللفظ أو المراسلۃ
السلام علیکم کی جگہ (as ) لکھنے سے نہ سلام کرنے کی فضیلت حاصل ہوگی اور نہ سلام کا ثواب ملیگااور اسی طرح وعلیکم السلام کی جگہ (ws)لکھنے سے
یاد رکھنا چاہئے اگر کسی شخص نے السلام عليكم کے ذریعہ سلام کیا اور آپ نے (ws )کے ذریعے جواب دے دیا تب بھی جوابِ سلام کا وجوب سر سے نہ اترے گا
اسی طرح اگر کسی نے (as) کے ذریعہ سلام کیا تو آپ پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے
ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور - آئندہ اس انداز میں سلام و جواب دینے سے گریز کریں
علامہ شامی فرماتے ہیں
ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین، وبدون ہذین کما یقول الجہال، لا یکون سلاماً
مسئلہ :سلام مکمل ہونے کے بعد فوراً جواب دینا چاہیے، اور اگر کبھی غفلت کی وجہ سے فوراً جواب نہیں دے سکا تو یاد آنے کے بعد فوراً جواب دیدے
مسئلہ :معروف الفاظ (السلام علیکم۔۔۔) سے سلام کرنا اسلامی شعار ہے یہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے کسی غیر مسلم کو ان الفاظ کے ساتھ سلام کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اس لئے ابتداءً غیر مسلم کو سلام نہیں کرنا چاہیے، البتہ ملاقات کے وقت کہے جانے والے دیگر جائز کلمات کہے جاسکتے ہیں، اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘ کہہ دینا چاہیے، اگر کہیں غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ’’السَّلَامُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى‘‘ کے الفاظ سے سلام کیا جاسکتا ہے، اور اگر کسی مجمع میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہوں تو مسلمانوں کی نیت کرتے ہوئے پورے مجمع کو سلام کیا جاسکتاہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
"عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا: وعليكم."
واللہ اعلم بالصواب
منقول از متعدد کتب فقہیہ