رفاقت کے پانچ سال ( اہلیہ مرحومہ)

اہلیہ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات، باتیں اور یادیں

قسط/٩
                                محبت، بیوی اور محبوبہ
                              پانچ سالہ داستان رفاقت
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری

          اولاد کی کمی ہمیں اب شدت سے محسوس ہو رہی تھی، فون پر بھی گفتگو کا آغاز بہت خوش گوار ہوتا؛ مگر پھر بات وہیں پہنچتی اور ہماری حالت اس مور کی سی ہو جاتی جو خوشگوار موسم میں اپنے پروں کو کھول کر رقص میں ایسا محو ہوتا ہے  کہ لوگ اس کے نظارہ کے لئے رک جاتے ہیں، مگر جب اچانک اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی ہے تو شرم سے اپنے پروں جو سمیٹ لیتا ہے،  ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی، ہم بھی اپنی زندگی میں بہت خوش تھے؛ مگر اولاد کی خواہش میں اب دل بے چین اور  طبیعت مضمحل سی رہنے لگی تھی۔
           ایک مرتبہ کہنے لگیں چلیں ڈاکٹر سے پوچھیں کہ مجھ سے اولاد ہو سکے گی کہ نہیں، پھر خود اس کا حل بھی بتانے لگیں کہ اگر میرے اندر کمی رہے گی، تو خالہ سے کہہ کر آپ کی دوسری شادی کرا دیں گے،اور آپ کی خدمت کرتے رہیں گے میرے لئے یہی بہت ہے کہ آپ کے ساتھ رہوں آپ کے لئے جیتی رہوں آپ کے لئے دعائیں کرتی رہوں، جب شادی کے لئے کہتیں تو کبھی بہت ہنس کر کہتیں اور کبھی کہتے ہوئے نہایت ہی آرزردہ ہو جاتیں، چہرے کا رنگ مدھم ہو جاتا، میں اس درد کو سمجھتا تھا اور سمجھتا کیوں نہیں، یہ باتیں ایسے وقت ہوتیں جب سب نیند کی آغوش میں مدہوش سو رہے ہوتے، ہم سے نیند کوسوں دور رہتی، اور ہم نہایت قریب، کہتا سنئے اور ادھر دیکھئے، ہم جس کے پیدا کردہ ہیں وہ مسبب الاسباب ہے، آپ تو جانتی ہیں، اس نے پہلی عورت کو آدم کی پسلی سے پیدا فرمایا حضرت عیسی ؑ کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور سنئے حضرت زکریا ؑ کو جب اللہ نے اولاد کی خوش خبری سنائی تو کہنے لگے یہ کیسے ہوگا؟ میری عورت بانجھ ہے، میں بوڑھا ہو گیا ہوں، یہاں تک کہ اکڑ گیا ہوں، پھر اللہ نے انہیں اولاد کی خوشیوں سے نوازا، پھر  کتابوں سے پر الماری کی طرف اشارہ کرکے کہتا: وہ جو تین ضخیم کتابیں جن پر تفسیر بیان القرآن لکھا ہوا دیکھ رہی ہیں، انہوں نے کئی سو کتابیں لکھیں ہیں، معلوم نہیں کتنے لوگ تاریک اور گمراہ دل لے کر ان کے پاس حاضر ہوئے، اور گناہوں سے توبہ کئے اورمثل آفتاب روشن دل لے کر واپس ہوئے، نام جانتی ہیں؟ پھر نام بھی بتاتا، یہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ہیں، جن کی بہشتی زیور دیکھو وہیں رکھی ہے،  انہیں بتاتا ایک بڑے مولاناگزرے ہیں جن کے پاس خانہ کعبہ کی کنجی بھی تھی، کہتے ہیں کہ کعبہ پر جب پہلی نظر پڑتی ہے اس وقت جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے، معلوم نہیں انہوں نے کتنے حج اور عمرے کئے ہوں گے کیا انہوں نے اولاد کے علاوہ کوئی اور دعا مانگی ہوگی؟ یقینا نہ مانگی ہوگی؛ لیکن دنیا سے رخصت ہو گئے اللہ نے اولاد کی خوشیوں سے نہ نوازا اگر ہمارا نصیب بھی ایسا ہے تو ہمیں راضی رہنا چاہئے۔ سنیئے! اور دیکھئے! جب خدا ہمیں خوش کر نا چاہے گا تو کمی کے ساتھ ہی ہمیں خوشیوں سے نواز دے گا، اور آخری بات  یہ شادی کی بات نہ کہا کیجئے، پھر جذبات کے بادل امڈ آتے پھر وہی مجھے تسلیاں دینے لگتیں پھر خو دہی کہنے لگتیں اللہ تعالی ہمیں بھولے ہوئے ہیں ہمیں یقینا پریشان نہیں ہونا چاہئے کبھی تو یاد کریں گے، یہ بات کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایسی چمک ہوتی کہ میں خود آپ سے کہتا خالق عالم یہ تیرے اوپر ایمان لانے اور یقین رکھنے ہی  کا  تونتیجہ ہے۔
                                 یا رب تیری رحمت سے مایوس نہیں فانی 
                                  لیکن تیری رحمت کی تاخیر کو کیا کہئے
          قارئین! جن کے متعلق یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، ان کو رخصت ہوئے آج ایک سال کی مدت پوری ہو ئی، جس ہوتے ہوئے سب کچھ تھا اب سب کچھ ہوتے ہوئے گویا کچھ بھی نہیں ہے، 

                                   آج ایک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
                              جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

          وقت کے پہیہ نے تو گھوم کر سال پورا کر لیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔

                            تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے
                            آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے

           یقین ہو گیا ہے، کہ جانے والا ایسی منزل پر فروکش ہوا ہے کہ کبھی نہ لوٹے گا،لیکن محسوس ہوتا ہے وہ اب بھی ہمارے درمیاں ہیں، راستہ چلتے ہوئے آنسو ٹپک پڑتے ہیں، لوگوں کے درمیاں بیٹھے ہوئے آنکھیں چرا جاتا ہوں، ہر آن ہر لمحہ ایک یاد ہے جو آتی چلی جاتی ہے، ایک پکار ہے گونجتی اور تیز ہوتی جاتی ہے، ایک ٹیس ہے جو اٹھتی ہے بڑھتی جاتی ہے، 

                                تم تھے میری شام میں تھا صبح کا عالم
                               تم جب سے گئے شام جھلکتی ہے سحر میں

           ہر رات کی طرح آج کی رات بھی مضطرب کئے ہوئے ہے، لکھتے ہوئے دل پر عجیب رقت طاری ہے، آنکھیں اپنا ضبط باندھ بھی رہی ہے اور کھو بھی رہی ہے اور زبا ن پر انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد جاری ہے۔
          جانے والے تجھے یاد بہت کرتے ہیں خدا آپ کو بہت خوش رکھے، اور جنت میں پھر ساتھی بنائے۔ آمین

 

محمد فہیم قاسمی

درس و تدریس
محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
درس و تدریس، جا
رہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ

کل مواد : 3
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن

آپ بھی لکھئے

اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

یہاں سے ارسال کیجئے

ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025