سالِ نو کا ”نیا پن“!
نئے سال کے بارے میں فیض کی مندرجۂ ذیل نظم بہت مشہور ہے:
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ايک بات وہی
آسماں بدلا ہے افسوس، نہ بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہيں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے
جنوری، فروری اور مارچ ميں پڑے گی سردی
اور اپريل، مئی اور جون ميں ہو گی گرمی
تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا
تو نيا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی
بے سبب ديتے ہيں کيوں لوگ مبارک باديں؟
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوی ياديں
تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی
الفاظ کے در و بست کی سطح پر اگرچہ یہ نظم بظاہر “نرالے ڈھب کی” ہے، مگر فکر و خیال کے اعتبار سے اس کا پیغام مطلق ‘نرالا’ نہیں، بلکہ وہ “نراشا” (مایوسی) کی دعوت دیتا ہے، اس لئے ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔
وقت اور اس کی پیمائش کے رموز (شب و روز، ماہ و سال وغیرہ) کے بارے میں "شاعری" سے زیادہ "شعور" کی ضرورت ہے۔ انسان کا شعور اگر زندہ ہو، تو پھر محض آنے والا "نیا سال" ہی نہیں؛ بلکہ آنے والا ہر دن اس کے لئے ایک "نیا دن" ہے جو اپنے دامن میں بے شمار "نئے ممکنات" لے کر آتا ہے تاکہ باشعور افراد ان "ممکنات" کو مثبت "واقعات" میں بدلنے کی سنجیدہ تگ و دو کرکے اپنی اور اپنے گرد و پیش کی دنیا کو ہر پہلو سے "نیا اور بہتر" بنا لیں۔
"شاعر" کے بر خلاف،، "باشعور انسان " ایک ذمہ دار اور حوصلہ مند شخص ہوتا ہے اس لئے وہ "سالِ نو" سے یہ غیر ذمہ دارانہ تقاضہ یا مطالبہ نہیں کرتا کہ:
"تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی"
اس کے بجائے وہ خود اپنی یہ بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اسے ہر آنے والی صبح اور شام کو، جانے والی صبح اور شام کے مقابلے میں، اپنے فکر و کردار کی مسلسل تجدید اور تزکیہ کرتے ہوئے "نیا اور بہتر" بنانا ہے۔ جو شخص اس زندہ شعوری عمل کا خوگر ہو، وہ نہ کیلنڈر میں ہندسے بدلنے کا انتظار کرتا ہے نہ سالِ نو کے تفریحی جشن کی دھوم دھام سے اسے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنے والا ہر سال، بلکہ ہر اگلا دن اور اس کا ہر لمحہ اسی قدر "نیا اور با معنی" ہو گا جس قدر وہ اپنے فکر و عمل میں "جدت، جودت اور معنویت" پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے گا۔ اس لئے وہ آنے والے ہر ماہ و سال اور ہر صبح و شام کا استقبال ایک نئے عزم و ہمت کے ساتھ کرتا ہے؛ تاکہ وہ ان میں چھپے ہوئے انوکھے اور انمول "ممکنات" کو ایسے "با معنی تجربات اور واقعات" میں تبدیل کر سک؛ے جن سے ایک طرف اس کی اپنی شخصیت بھی مسلسل ترقی و کمال کے نئے مراحل طے کرتی رہے، اور دوسری طرف وسیع تر انسانیت کو بھی اس کا فیض ملتا رہے۔۔
جس چیز کو آنجہانی فیض صاحب نے “وقت کی کڑوی یادیں” کہہ کر نئے سال پر طنز کیا ہے؛ وہ در اصل زمانے کے سبق آموز تنبیہی اشارات (warning signals) ہیں، جو اس لئے پیش آتے ہیں کہ انسان اپنی بے مقصدیت اور غفلت کی نیند سے چونک اٹھے،اس کا انفرادی اور اجتماعی شعور بیدار ہو اور وہ ہوش مندی اور مستعدی کے ساتھ اپنی زندگی کی با مقصد تعمیرِ نو کی مہم میں سرگرمِ عمل ہو جائے اور اس طرح اپنے آئندہ مرحلۂ حیات کو گزشتہ مرحلۂ حیات سے زیادہ تابناک اور کامیاب بنا لے۔
وقت کی اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قرآن (سورہ الفرقان، آیت ۶۱) میں خدا کا ارشاد ہے کہ “اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو یکے بعد دیگرے آنے جانے والا بنایا؛ تاکہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور جو چاہے شگر گزار بنے”۔
وقت کا ہر لمحہ ایک “زندہ انسان” کے لئے ایک “نیا” لمحہ ہے جو اسے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل کی تراش خراش کر کے اسے خیر و صداقت اور حسن و کمال کے نئے نئے جلووں سے آراستہ کرے- اس لئے وہ نہ کبھی “فارغ” ہوتا ہے نہ غافل۔ اس کے بر عکس ایک “مردہ انسان” کے لئے وقت کا ہر لمحہ، خواہ وہ روشن دن کا ہو یا تاریک رات کا، بالکل یکساں ہوتا ہے، اس لئے اس کا وجود، وقت کی رفتار اور اس کے تغیر پذیر اور تغیر آفرین امکانات و اشارات سے غافل، بدستور اپنی مردہ حالت میں پڑا رہتا ہے۔
اگر آپ زندہ ہیں اور زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو آخری دم تک، ہر دم حسنِ عمل اور کسبِ کمال کی تگ و دو میں ہمہ تن مشغول رہنا پڑے گا:
اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دمِ آخر، دمے فارغ مباش