دل کے آپریشن سے بچنے کا ایک کامیاب نسخہ ماہنامہ النخیل رمضان 1440
پانچ سال پہلے کی بات ہے، میں مطب میں بیٹھا تھا۔ مریض آ جا رہے تھے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی، چونگا اٹھایا، تو دوسری طرف شریف جاوید بول رہے تھے۔ میرے بے تکلف دوست ہیں، تیس بتیس سال سے ان سے روابط ہیں، مگر اس دن ان کی آواز میں پریشانی جھلک رہی تھی۔ پوچھنے پر بتایا کہ کچھ دنوں سے طبیعت خراب ہے اور ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ’’میرے دل کے دو والو بند ہیں۔ اینجیوگرافی بھی ہوگی اور بائی پاس بھی! میں اینجیوگرافی سے تو نہیں گھبراتا، لیکن بائی پاس نہیں کروانا چاہتا۔ آپ کے پاس اس کا علاج کوئی دیسی نسخہ ہو، تو بتائیے بلکہ تیار کر دیجیے۔‘‘
میں ابھی جواب نہیں دے پایا تھا کہ مطب میں تین آدمی داخل ہوئے اور سامنے پڑی کرسیوں پر خاموشی سے بیٹھ گئے، وہ بلوچی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے، کندھوں پر اجرک اور سر پر بلوچی طرز کی ٹوپیاں تھیں۔ میں گفتگو میں مصروف رہا اور شریف جاوید صاحب کو یقین دہانی کراتا رہا کہ میرے پاس ایسا نسخہ موجود ہے، جو ان شاء اللہ آپ کے مرض کا قلع قمع کردے گا، مگر اس کی تیاری میں کچھ وقت لگے گا۔ بات ختم کر کے میں نے جونہی چونگا رکھا، ان آدمیوں میں سے ایک بولا: ’’سائیں! یہ کس کا فون تھا؟‘‘
میں نے ذرا ناگواری سے کہا کہ ایک مریض تھا، اس نے پوچھا:’’مگر سائیں وہ کہتا کیا تھا؟ کہیں اس کے دل کے والو تو بند نہیں؟‘‘
اب میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، جس نے یقیناً ہماری گفتگو سن لی تھی اور ہولے سے سر ہلایا۔
’’سائیں! برا نہ مانیں، آپ کے پاس تو اس کی دوائی موجود ہے۔ الماری سے نکالیں، مریض کو بلائیں اور اس کے حوالے کر دیں۔‘‘
اب میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور اس سے سوال کیا: ’’ آپ پہلی مرتبہ میرے پاس آئے ہیں، پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس مریض کا علاج میرے پاس موجود ہے؟‘‘
’’دیکھئے! میں اپنا تعارف کرا دوں، ہم لوگ مستونگ (بلوچستان) سے آئے ہیں۔ میں باقاعدہ طبیب نہیں، بلکہ بینک ملازم ہوں۔ آج سے پچیس سال پہلے میرے ماموں کے دو والو بند ہوگئے تھے۔ مستونگ، کوئٹہ اور کراچی علاج کروایا، مگر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس زمانے میں دل کا بائی پاس کراچی میں ہوتا تھا لیکن بہت گراں۔
پھر میں نے آپ کے والد صاحب( حکیم محمد عبداللہ، مصنف کنزالمجربات) کو جہانیاں( ملتان) خط لکھا اور ساری کیفیت بیان کی، چند دن بعد ان کا جواب آیا، لکھا تھا: ’’آپ کے ماموں کی بیماری کی تشویشناک صورتحال کا علم ہوا۔ ایک دوائی اپنے پاس سے بھیج رہا ہوں۔ دوسری بذریعہ ڈاک ارسال نہیں کی جاسکتی، تھوڑی سی زحمت کرکے خود تیار کر لیجئے۔‘‘ جو دوا انہوں نے مجھے بھیجی وہ’’ جواہر مہرہ‘‘ تھی، طب اسلامی کی مایہ ناز دوا، جو دل کے لئے ہی نہیں بے شمار امراض کے لیے شفا کا پیغام ہے، اسے بعد از نماز عصر دو چاول کے دانوں کی مقدار میں استعمال کرنا تھا۔
’’مجھے دوا کی تیاری کا کہا گیا، وہ عمدہ اور تازہ گلاب اور سونف کا عرق کشید کر کے اس کے دو آشتہ کرنا تھا۔ میں نے عرق نکالنے کے آلے (قرع انبیق....بھبکے) سے عرق کشید کیا، پھر دوبارہ بھوکا رہ یعنی جوش دیا، یوں دو آتش عرق تیار ہوگیا۔
یہ عرق صبح ناشتے کے بعد نصف پیالی مقدار میں دینا تھا۔ پھر عصر کے بعد اتنی ہی مقدار میں، لیکن دو چاول جواہرمہرہ کے ساتھ اور رات سوتے وقت چوتھائی پیالی عرق پینا تھا۔ حکیم صاحب قبلہ نے پندرہ دن کے لیے یہ نسخہ تجویز کیا تھا۔
دو ہفتے بعد طبی معائنہ کروایا تو دونوں والو کھل چکے تھے۔ تاہم احتیاطا میں نے انہیں نسخہ ایک ماہ تک استعمال کروایا۔ اللہ کے فضل و کرم سے میرے ماموں آج خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس واقعے کے بعد میرے پاس اردگرد کے علاقے سے بے شمار دل کے مریض آئے، جنہیں میں جواہرمہرہ آپ کے دواخانے سے اور عرق خود تیار کرکے دیتا رہا۔ اللہ نے بے شمار لوگوں کو اس نسخہ کے طفیل شفا دی۔ مجھے وہاں کے لوگ’’ دل کا ڈاکٹر‘‘ کہتے ہیں۔ سائیں آپ کے والد صاحب کا نسخہ تھا وہ میں نے آپ تک پہنچا دیا ،آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘
جب انہوں نے بات ختم کی، تو شریف جاوید صاحب بھی آگئے۔ میں نے انہیں یہی دوائی دی اور پندرہ دن استعمال کرنے کے لیے کہا، کہنے لگے: ’’میری انجیوگرافی میں صرف بارہ دن باقی ہیں اور آپ پندرہ دن کا علاج تجویز کر رہے ہیں۔‘‘
’’ سائیں‘‘ میرے مہمان نے کہا: ’’ آپ دوا شروع کریں ،اللہ بھلی کرے گا۔‘‘
شریف صاحب دوالے گئے اور بارہ دن بعد فون پر اطلاع دی کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہونے جارہا ہوں اور کل انجیوگرافی ہے،دعا کیجئے گا۔ دو دن بعد موبائل پر اطلاع دی ’’ ڈاکٹر میرے طبی معائنے کی رپورٹ دیکھ کر حیران رہ گئے، کیونکہ تمام والو کھلے ہوئے تھے۔ ‘‘اس کے بعد انہوں نے مزید پندرہ دن دوائی استعمال کی اور الحمدللہ بھلے چنگے ہو گئے۔
اس واقعے کے چند دن بعد ایک بزرگ میرے پاس سرائےعالمگیر سے تشریف لائے اور فرمانے لگے: ’’ میں شریف جاوید کا بڑا بھائی ہوں۔ میرے پاس اردگرد کے علاقے سے دل کے کچھ مریض آئے ہیں۔ آپ وہی دوا پانچ مریضوں کے لئے عنایت کر دیں جو شریف جاوید کو دی ہے۔‘‘چند دن بعد وہ مزید مریضوں کے لیے دوا لے گئے۔ رفتہ رفتہ اس دواکی شہرت ہوگئی، روزانہ ایک دو مریض یہ دوا لے جاتے اور اللہ کے فضل سے صحت یاب ہوجاتے۔ میں نے یہ دوا ان لوگوں کو بھی دی جن کے تین والو بند تھے۔ اللہ کے کرم سے انہیں بھی شفاءملی حتیٰ کہ ایسے مریض جن کے ساڑھے تین والوبند ہوچکے تھے ،وہ بھی شفا یاب ہوئے اور انجائناکے مریضوں نے بھی صحت پائی۔
1999ء میں مجھے خود دل کی تکلیف ہوئی اور تین والو بند ہوگئے۔ میں نے ایک ماہ یہی دوا استعمال کی ،الحمداللہ بالکل صحت یاب ہوگیا۔ عرق گلاب اور سونف اب میں دوآشتہ کے بجائےسہ آشتہ استعمال کرتا ہوں اور اسے قلبی کا نام دیا ہے۔ یوں اس کی تاثیر بڑھ گئی اور سینکڑوں مریضوں نے استفادہ کیا ہے۔ میں مستونگ کے اس سندھی نژاد کا شکرگزار ہوں، جس نے انسانیت کی فلاح کے لیے مجھے اتنے اچھے نسخے سے آگاہ کیا۔ جس سے میں بے خبر تھا ،حالانکہ وہ میرے ہی والد محترم کا تجویز کردہ تھا۔