شہدائے قندوز
قندوز میں ایک دینی مدرسے میں حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب پر امریکی اور اُن کی مزدور اَفغان فوج کے حملے میں ایک سو سے زائد افراد خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوگئے، شہید ہونے والوں میں اکثریت اُن بچوں کی تھی جن کی دستار بندی کے لیے اس عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، لیکن ان کی دستار بندی شاید اس زمین پر نہیں، جنت کے بالاخانوں میں مقدر تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
امریکی استعمار کے افغانستان میں آنے کے بعد اس کی درندگی و بربریت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے سینکڑوں واقعات افغانستان کے بہادر مسلمان اپنے سینے پر جھیل چکے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ان واقعات کی روک تھام کا کوئی سنجیدہ امکان نہیں ہے۔
یورپ بھر کے چور، اُچکے، لوفر اور ڈاکو جب امریکہ کو دریافت کرکے وہاں پہنچے تو انہوں نے اس زمین کے اصل باشندوں اور قدیمی مالکوں یعنی سرخ ہندیوں کے تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد کوقناعت پسند، اور ترقی بیزار ہونے کے جرم میں قتل کرکے ان کی سرزمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ مقامی کل آبادی کا صفایا کردیا گیا اور ترقی و خوشحالی کا پرچم پورے امریکہ پر لہرادیا گیا، وہی امریکہ جو امن اور انصاف کا ملک ہے، اسی امریکہ کے باسی ایک بار پھر ایک دور دراز کے غیر ترقی یافتہ ملک کے باشندوں کی فلاکت و بدحالی پر ترس کھاکر اسے ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کے مشن پر نکلے ہیں، وہ اپنا فرض پورا کرنا چاہتے ہیں، وہ یہاں ترقی و خوشحالی لانا چاہتے ہیں، اگر مقامی لوگ جہالت و ذہنی پسماندگی کی وجہ سے ترقی کو پسند نہ کریں تو بندوقوں، میزائلوں اور بموں کے زور سے ان کو ترقی یافتہ بنایا جائے گا اور کوئی حرج نہیں کہ اس کوشش میں ان کی پوری نسل ہی جان سے چلی جائے، آخر امریکہ میں بھی تو ایسے ہی ترقی آئی تھی۔
امریکہ ہی کیا، وہ کون سا ملک ہے جہاں یہ ترقی لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر نہ آئی ہو، آسٹریلیا کی ستر لاکھ مقامی آبادی بھی تو امریکہ کے سرخ ہندیوں کی طرح ترقی کی خاطر انگریزوں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتر گئی، تب جاکر ان کے ملک کو ترقی نصیب ہوئی ۔ اور دور کیوں جائیے، اپنے متحدہ ہندوستان میں بھی تو رحمدل انگریز ترقی کا پھریرا ہی لہراتے ہوئے آئے تھے، یہ اور بات ہے کہ یہاں کے اُس وقت کے ’’جاہل ملاؤں‘‘ نے اس ترقی میں انگریزوں کا ہاتھ بٹانے، ان کا دست و بازو بننے، اُن کی ملازمت کرنے اور اُن سے ترقی کے اُصول سیکھنے کے بجائے اُن کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اورانگریز کو یہاں ترقی کا ’’مقدس‘‘ مشن مکمل کرنے کے بجائے صرف ریل کی پٹریاں، نہریں اور اپنے جیسے ترقی پسندوں کی ایک پوری پالتو فوج بنا کر ہی بیک بینی دوگوش واپس جانا پڑا، اسی لیے آج تک ہمارا ملک پسماندہ ہے۔ خیر! زیادہ فکر کی بات نہیں، پہلے والے ’’جاہل ملا‘‘ اَب نہیں رہے، ان کی موجودہ نسل لیپ ٹاپ ہاتھوں میں پکڑے، بڑی بڑی ڈگریاں بغل میں دبائے، خوبصورت پوز میں سیلفیاں لے رہی ہے، اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہے اور پرتعیش مدرسوں سے نکلتے ہی انگریزی تعلیمی و تعمیلی اداروں کو جانے اور کوٹ پتلون ٹائی پہن کر ترقی کے میدان میں کودنے کو بالکل تیار بیٹھی ہے، اگر غیرت، حمیت اور دینی تصلب کے کچھ چراغ جل بھی رہے ہیں تو چاروں طرف سے اپنوں اور پرایوں کی زوردار پھونکوں کی زد میں ہیں۔
اس ترقی اور اس کے نظام کے نفاذ کے لئے پچھلی دو صدیوں میں کالونیل ازم کے ذریعے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے، اور اب۔۔۔۔۔جب اس کی وحشت و بربریت اس کی رنگینیوں تلے چھپ چکی۔۔۔۔اس کا نشانہ بننے والے مظلوموں کی آہیں، سسکیاں اور چیخیں اس کے ڈسکو میوزک اور اس کی تان پر اٹھنے والی ہاو ہو اور قہقہوں میں گم ہوچکیں۔۔۔۔۔ ایک دنیا اپنے اللہ اور اس کے رسول کو بھلا کر اس کی لذتوں اور عیاشیوں میں مدہوش ہوچکی۔۔۔۔۔۔ اسے زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دے چکی۔۔۔۔۔۔ اس میں آگے بڑھنے کے لیے ہر شخص اور ہر ملک سردھڑ کی بازی لگارہا۔۔۔۔۔۔ اس کے زرنگار پردے کے پیچھے چھپی آہنی سلاخوں، پابندیوں، جکڑ بندیوں، ٹیکسوں، لائیسنسوں، اجازت ناموں، ایٹم بموں، میزائلوں، ڈرونز، سیف ہاوسز پر مبنی نظام کو آزادی کا لقب عطا کرکے سینے سے لگایا جاچکا۔۔۔۔۔اس کی فحاشیوں، عریانیوں، سود خوریوں، گانے بجانے، تصویر سازیوں کو اسلامی کیا جاچکا۔۔۔۔۔ اور چند سرپھرے لوگ ابھی تک اس کو قرآن اور اسلام کے ترازو میں تولنے پر مصر ہیں۔۔۔۔۔۔ تو ترقی و خوشحالی کے عالمی ٹھیکیداروں کا غیض و غضب میں آنا اور ان سرپھروں پر وحشیانہ طریقے سے آتش و آہن کی بارش کرنا ذرا بھی اچنبھے کی بات نہیں۔
صاحب! ترقی و خوشحالی ایسے ہی آیا کرتی ہے، انسانیت کو آزادی کی لذتوں سے اسی طرح روشناس کرایا جاتا ہے، اس پر ایمان نہ لانے اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ’’مرتدین‘‘ کا اسی طرح قلع قمع کیا جاتا ہے۔
امریکہ نے اپنے غیض و غضب کا اظہار کرنے کے لیے ایک دینی مدرسے کا انتخاب کیا ہے، دینی مدرسے کی بھی حفظ قرآن کی تقریب کو نشانہ بنایا ہے، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ نہیں! مدرسہ، اس میں پڑھایا جانے والا قرآن اور پڑھانے والا ملاّ ہی تو انگریز اور اس کی لادین ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی مدرسے، مولوی اور قرآن سے لڑتے لڑتے انگریز کی صدیاں بیت گئیں، یہ قرآن ہی تو ہے جو انگریز کی مزعومہ ’’ترقی‘‘ کی راہ میں وہ روڑے اٹکاتا ہے جو کسی غامدی اور عمار کے نکالنے سے نہیں نکلتے۔۔۔ترقی ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے اور قرآن ’’ولمن خاف مقام ربہ جنتان‘‘ کی نوید سناتا ہے۔۔۔ترقی اسی دنیا کو دائمی و ابدی سمجھ کر اسے جنت بنانے کو کہتی ہے اور قرآن ’’کل من علیھا فان‘‘ کہہ کر اس کی لذتوں کو تلخ کرتا ہے۔۔۔ترقی انسان کو اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی بتاتی ہے اور قرآن ’’اللہ لا الہ الاھو الحی القیوم‘‘ کا اعلان کرکے اس کائنات کی حقیقتا سب سے عظیم الشان ہستی کا پتہ بتلاتا ہے۔۔۔ ترقی جس انسان کو ’’آزادی‘‘ کے مژدے سناتی ہے قرآن اسی انسان کو ’’یاعبادی، یاعبادی‘‘ کہہ کر پکارتا اور اسے اس کے ’’بندہ‘‘ اور ’’غلام‘‘ ہونے کی اطلاع دیتا ہے۔۔۔ ترقی انسان کو کائنات کو مسخر "کرنے" پر ابھارتی ہے اور قرآن اسے ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ کی آیت سنا کر اللہ جل شانہ کے سامنے مسخر ’’ہونے‘‘ کا حکم دیتا ہے۔۔۔ ترقی تمام انسانوں کے درمیان ’’مساوات‘‘ کا نظریہ دیتی اور مسلم و کافرکے درمیان کسی فرق سے انکار کرتی ہے اور قرآن ’’افنجعل المسلمین کالمجرمین؟ مالکم کیف تحکمون‘‘ کہہ کر اس کے باطل نظریے کو جھٹلاتا اور معاملات میں دونوں میں فرق مراتب قائم کرتا ہے۔۔۔۔ترقی سرمایہ، سرمایہ دارانہ تعلیم اور سرمایہ دارانہ نظام میں عہدہ و خدمت کی بنیاد پر انسانوں کے معاشرتی مقام اور ان کی عزت و ذلت کے فیصلے دیتی ہے جبکہ قرآن کسی کے مقام و مرتبہ کے تعین کے لئے ایمان و عمل صالح کا پیمانہ مقرر کرتا ہے۔۔۔۔ ترقی مرد و عورت کو برابر سمجھتی ہے اور قرآن ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ کے نظریے کا قائل ہے اور پردہ، وراثت، دیت، گواہی، طلاق وغیرہ کے بیسیوں معاملات میں دونوں کے درمیان فرق کرتا ہے ۔۔۔ترقی سرمایے میں اضافے کو انسان کا عظیم ترین مقصد قرار دیتی اور ہر انسان کو اس مقصد کے لیے جان لڑادینے کا کہتی ہے جبکہ قرآن صدقات، زکوۃ، حج، قربانی، جہاد، صلہ رحمی، ایثار، تعمیر مساجد وغیرہ کی مدات میں مسلمانوں کو سرمایہ ’’ضائع‘‘ کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔۔ترقی سرمایہ کمانے کے لئے اختیار کی گئی ڈیوٹی کو ہر چیز پر مقدم سمجھتی ہے جبکہ قرآن ’’ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا‘‘ کا فرمان جاری کرکے ہر مسلمان کو پانچ وقت کی نماز کا حکم دیتا ہے جس سے انسان کی نیند، اس کا آرام، اس کا وقت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ’’ڈیوٹی‘‘ متاثر ہوتی ہے۔۔۔ترقی سرمایہ کمانے کو ہر مرد و زن یعنی پوری انسانیت کے لیے فرض عین قرار دیتی ہے اور قرآن عورتوں کو’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم دے کر انسانوں کی نصف آبادی (عورتوں) کو گھر میں بٹھادیتا اور باقی نصف (مردوں) کو ان کی دیکھ بھال میں لگا کر ان کی سرمایہ کمانے کی رفتار کو بھی سست کردیتا ہے۔۔۔ترقی دنیا کے اعتبار سے ترقی یافتہ اقوام مثلا یورپ و امریکہ کو انسانیت کا آئیڈیل سمجھتی ہے اور قرآن قوم عاد، قوم ثمود، قوم فرعون اور قوم لوط جیسی ’’ترقی یافتہ‘‘اقوام کو عبرت کا نشان بنا کر پیش کرتا ہے اور اس پاک ذات کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ بناتا ہے جس نے اور جس کے پیارے صحابہ نے دنیا کے تمام سائنس دانوں سے زیادہ صاحب عقل، بلند ہمت، صاحب فہم و فراست اور انسانیت کا سب سے زیادہ ہمدرد و غم خوار ہونے کے باوجود اپنی ساری زندگی میں انسانیت کے فائدے کے لئے کوئی ایک بھی سائنسی ایجاد نہ فرمائی، کوئی گاڑی، ہوائی جہاز، کوئی عالیشان عمارت، کوئی میٹرو بس، کوئی انڈر پاس یا فلائی اوور، کوئی شاندار سڑک، کوئی شاہانہ شہر نہ بنایا۔۔۔۔۔ جس پاک ذات اور اس کے تربیت یافتہ صحابہ نے اپنے زمانے کی ترقی یافتہ اقوام یعنی روم و ایران کی پیروی کرنے یا ان کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے شمشیر بکف ہوکر ان کی ترقی کو ہی تہہ و بالا کردیا اور ان کے بنے بنائے شاندار محلات، ہوشربا سامان تعیش اور طلائی قالینوں اور برتنوں کو استعمال کرنے کے بجائے یوں "بے دردی" سے تہس نہس کیا کہ ان قوموں کے وارث آج تک اپنے آباء کی شان و شوکت کی اس پامالی پر چاک گریباں نوحہ کناں ہیں۔۔۔۔۔ جن کی زندگی میں خرچ کرنا اور لٹانا ہی لٹانا تھا، جمع کرنے کا باب ہی نہ تھا، جن کے لیے بوریے کو چوہرا کرکے بچھایا گیا تو ناراض ہوگئے کہ بوریے کی نرمی تہجد کے لیے اٹھنے میں خلل انداز ہوتی ہے، جن کے ایک صحابی نے ایک قبہ نما عمارت بنوائی تو اسی پر چہرۂ انور پر خفگی کے آثار نمودار ہوگئے کہ عمارت میں شان و شوکت کا رنگ کیوں جھلکتا ہے، جو اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ سبق دیا کرتے تھے کہ’’ ایاک والتنعم فان عباد اللہ لیسوا بالمتنعمین‘‘ یعنی ناز و نعمت سے دور رہنا !اللہ کے بندے ناز و آرام کے پیچھے نہیں لگا کرتے، جن کی پیاری اور لاڈلی بیٹی، خاتونِ جنت، سیدہ فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہا اپنے گھر کے سارے کام کاج خود کیا کرتی تھیں اور نوکر کا مطالبہ کرنے پر انہیں نوکر کے بجائے اللہ کے ذکر کا تحفہ عنایت فرمایا، صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ وسلم۔۔۔ترقی سائنس و مادہ کے عالم کو سب سے عظیم عالم سمجھتی ہے اور قرآن "ولم يرد الا الحيوة الدنيا ذالك مبلغهم من العلم" کہہ کر دنیا کو مقصود بنانے والے ہر علم اور اس کے عالم کی بے مائگی ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔۔ ترقی کے نزدیک کائنات میں غور و تدبر انسان کے عیش و عشرت اور شان و شوکت کے لیے ہے جبکہ قرآن کے نزدیک کائنات کے نظام میں غور و تدبر خالق کائنات تک پہنچنے، اسے ماننے اور اس کی عبادت کے لیے ہے۔۔۔۔۔ترقی عیش و عشرت کے لیے سرمایہ کمانے کو انسان کا اولین فریضہ بتاتی ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم "طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة" ارشاد فرما کر "ضرورت" کے لیے سرمایہ کمانے کو "حلال" سے مشروط کرتے اور اسے بھی "دوسرے درجے کا فریضہ" بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ترقی شان و شوکت کے لیے محنت و مشقت کرنے کو انسان کی ذمہ داری سمجھتی ہے اور قرآن ’’یعملون لہ مایشاء من محاریب و تماثیل‘‘ کی آیت لاکر اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ سنا کر مسلمانوں کو یہ سمجھاتا ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں دنیا میں ’’سائنسی ترقی‘‘ دینی بھی ہوئی تو اس کے لیے جنات اور فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی جائے گی، (یا تمہارے علاقوں میں مثلا پیٹرول نکال کر تمہیں ہاتھ ہلائے بغیر ترقی دے دی جائے گی) تمہیں اپنے رب کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان ذلیل و سفلہ مقاصد کی خاطر ساری ساری زندگی خوار ہونے، بوٹ چٹخانے اور غلامی کرنے کے لیے نہیں۔۔۔
اس لیے کفار سمجھتے ہیں، اور شاید درست سمجھتے ہیں کہ موجودہ انگریزی ترقی اور انگریزی لادین نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرآن ہے۔۔۔ اسی لیے مسلمانوں کا جو زمانہ، جو علاقہ، جو ملک، قرآن کے جتنا قریب، قرآن پر جتنا ایمان لانے اور عمل کرنے والا ہے، اس بے دین ترقی سے اتنا ہی دور بلکہ اس سے اتنا ہی پاک ہے۔۔۔ اور مسلمانوں کا جو زمانہ یا علاقہ اس ترقی کی دوڑ میں جتنا کامیاب ہے وہ قرآن سے اتنا ہی دور ہے اور کفر، الحاد، تشکیک، بدکاری، دنیا کی محبت، ساز باجا، شراب، بغض، حسد اور دیگر گندگیوں میں اتنا ہی زیادہ لتھڑا ہوا ہے۔ سو کفار نے اگر ملا، مدرسہ اور قرآن کو نشانہ بنایا ہے تو انہوں نے اپنے ہدف کو بالکل صحیح پہچانا ہے اور اس پر بالکل ٹھیک ٹھیک نشانہ لگایا ہے۔افسوس یا شکوہ ان کفار پر نہیں جو قرآن کو اپنا دشمن سمجھتے اور اس پر حملہ کرتے ہیں۔۔۔ افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو آج بھی اپنی اور پرائی چیز کا فرق کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔ جو آج بھی قرآن اور اس کے نظام کو چھوڑ کر انگریز کے دیئے ہوئے تعلیمی نظام کو فرض واجب کی طرح سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں اور اس کے بغیر زندگی گذارنے کا کسی طور حوصلہ نہیں رکھتے۔۔۔جن کے ہاں آج بھی اپنے بچوں کو پرائمری یا مڈل میٹرک کرانا قرآن پڑھانے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے ۔۔۔ جن کے ہاں آج بھی اللہ کا قرآن اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پڑھ کر انسان نامکمل اور بے شعور رہتا ہے جبکہ انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرکے وہ مکمل اور باشعور ہوتا ہے۔۔۔جن کے ہاں نماز دس سال بلکہ پندرہ سال کی عمر میں بھی فرض نہیں ہوتی لیکن انگریزی سیکھنا اڑھائی سال کی عمر میں فرض عین ہوجاتا ہے ۔۔۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ باطل اللہ کے قرآن کو اپنا دشمن سمجھ کر اسے مٹانے کے لیے جدوجہد کررہا ہے اور ہم ۔۔۔ ہم اللہ کی کتاب کے متبادل اس کے دئیے ہوئے نظام کو اپنی کامیابی کا واحد راستہ سمجھ کر اسے پھیلانے کی محنت میں مصروف ہیں۔ اللہ پاک ہماری حالت پر رحم فرمائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم
*۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔*