اراضی پر ناجائز قبضہ

غور کیجئے تو کائنات میں انسان کا تمام اشیاء سے بڑھ کر زمین سے تعلق ہے ، وہ خود زمین سے پیدا کیا گیا ہے ، ( الانعام : ۲) یہی زمین میں اس کے لئے بستر استراحت ہے، ’’جَعَلَ لَکُمُ الأرْضَ فِرَاشاً‘‘ ( البقرۃ : ۲۲ ) اسی زمین میں موت تک اس کا قیام ہے، ’’وَلَکُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرُّ وَّ مَتَاعٌ إِِلیٰٰ حِیْنٍ‘‘ ( البقرۃ : ۳۶ ) خدانے اس متواضع اور بچھی ہوئی زمین کو بلند و بالا اور سر پر سایہ فگن آسمان سے بھی پہلے پیدا فرمایا ہے ، (البقرۃ : ۲۹ ) قرآن مجید میں زمین کی قسم کھائی گئی ہے ( طارق : ۱۲ ) زمین کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختلف عنوان سے ۴۶۱ بار زمین کا ذکر کیا ہے ، شاید ہی مخلوقاتِ عالم میں کسی کا اس تکرار اور کثرت کے ساتھ ذکر ہو ، پھر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام ضرورتوں کو زمین ہی سے متعلق رکھا ہے ، اسی زمین سے درخت اگتے ہیں ، پودے پنپتے ہیں ، پھل پھول اور نوع بنوع غذائیں پیدا ہوتی ہیں ، دلوں کو لبھانے اور آنگھوں کو بھانے والے خوب صورت گل بوٹے اور مشام جان کو عطر بیز کرنے والے خوشبو دار بہار بردوش پھول اورپتے وجود میں آتے ہیں ۔ 
اسی زمین نے اپنے سینہ میں دودھ سے بھی زیادہ قیمتی پانی چھپا رکھا ہے ، جو ہماری تشنہ کامی کا مداوا ہے ، سونا ، چاندی ، لوہا ، تانبا ، رنگ برنگ پھتر ، بہتا ہوا پٹرول اور توانائی سے بھر پور گیس اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جس کو زمین نے نہایت صبر و ضبط کے ساتھ اپنے اندر چھپا رکھا ہے ، دولت مند ہے لیکن نشۂ دولت سے خالی ، وسیع و عریض ہے لیکن کبر و ترفع سے عاری ، ہر وقت انسان کے قدموں میں بچھی ہوئی اور ہمہ دم اس کی خدمت کے لے تیار و مستعد ، پھر آخر انسان کو واپس بھی اسی مٹی میں جانا ہے اور قیامت تک اسی کی آغوش میں وقت کاٹناہے ، پھر اسی کے آغوش سے باہر نکل کر عالم آخرت تک پہنچنا ہے ، پیدائش سے موت اور موت سے پھر دوسری زندگی تک یہی مٹی غم جاناں اور غم دوراں میں ساتھ دیتی ہے ۔
غرض زمین اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ایک شاہکار ہے ، اسی لئے زمین کی محبت اور حرص بھی انسان کے اندر نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے ، کبھی یہ محبت حب الوطنی سے بڑھ کر وطن پرستی تک جا پہنچتی ہے ، جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے بجا طور پر کہا ہے : 
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
اور اسی وطن پرستی نے عالم اسلام کو پارہ پارہ اور بے اثر کر کے رکھ دیا ہے ، کبھی سماج میں زمین کی یہ محبت حرص و ہوس کی طرف لے جاتی ہے اور زمین پر ناجائز قبضہ اور نا جائز خرید و فروخت تک منتج ہو تی ہے ، چنانچہ آج کل اخبارات میں آئے دن قتل و خون کی جو خبریں آتی ہیں ، وہ زیادہ تر زمین ہی کے مسئلہ سے جڑی ہوتی ہیں ، ہندوستان میں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تمام بڑے شہروں میں زمین کی ناجائز خرید و فروخت کا بازار گرم ہے ، بعض بھولے بھالے خریدار تو اپنی زمین کا منھ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں ، بعض لوگ زمین خرید کر پلاٹ چھوڑ دیتے ہیں اور جب سال دو سال کے بعد آتے ہیں ، تو دیکھتے ہیں کہ ان کی زمین پر مکان بنا ہوا ہے ، مگر یہ مکان کسی مخلص و ہمدرد کی طرف سے ان کے لئے ’’ تحفۂ غیر مترقبہ ‘‘ نہیں ہوتا ، بلکہ اس شخص کا مکان ہو تا ہے جس کے ہاتھوں دوبارہ زمین فروخت کی جاتی ہے ، پہلے اور دوسرے خریدار کے درمیان نزاع چھڑ جاتی ہے اور اصل فروخت کرنے ولا منظر سے غائب ہو جاتا ہے ، بعض جگہ تو تعمیر شدہ مکان پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا ہے ، زمین بھی گئی ، پیسے بھی اور محنت بھی ۔
یہ صورتِ حال ہر شریف انسان کے لئے تکلیف دہ ہے اور یہ رجحان بغیر محنت کے بیٹھ کر کھانے اور کم سے کم وقت زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش سے پیدا ہو تا ہے ، آخر یہ سینہ زوری کبھی قتل و قتال کاباعث بن جاتی ہے اور بجائے اس کے کہ زمین پر قبضہ ہو ، زمین خود اس کو اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے ، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کے اس کاروبار میں مذہب و ملت اور عقیدہ و مسلک کا بھی کوئی فرق نہیں ہے ، اور یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ غنڈوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، وہ اس پیشہ میں گھسے ہوئے خدا ناترس افراد پر پوری طرح صاق آتی ہے ۔ 
غصب اور ظلما کسی کی چیز پر قبضہ کر لینے کی قرآن و حدیث میں جو مذمت آئی ہے ، وہ محتاج اظہار نہیں ، جو شخص حرام کھاتا ہے ، بارگاہِ ربانی میں اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی ، نہ اس کی دعاء مقبول ہوتی ہے ، لیکن زمین کے غصب کر نے کی آپ ا نے خاص طور پر مذمت فرمائی ہے ، حضرت سعید بن زید ص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : 
من ظلم من الأرض شیئا طوّقہ من سبع أرضین ۔( بخاری ، حدیث نمبر : ۲۴۵۲ )
جس نے زمین کا کوئی حصہ ظلماً لے لیا ، ساتوں زمینیں اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالی جائیں گے ۔ 
حضرت ابو سلمہ ص کی روایت میں ہے کہ اگر ایک بالشت زمین بھی ظلماً حاصل کی تو زمین کی سات تہیں اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی ، (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۶۱۲ ) اس مضمون کی روایت حدیث کی متعدد کتابوں میں منقول ہے ۔ ( دیکھئے : ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۴۱۸ ، دارمی، حدیث نمبر : ۲۶۰۹ )
ایک روایت میں آپ ا کا ارشاد منقول ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ کرلی اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مکلف کریں گے کہ وہ اس زمین کو حاضر کرے ، یہاں تک کہ اس کی سات تہیں قیامت کے دن اس کے گلے کا طوق بنادی جائیں گی ، تاآں کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے ۔ ( مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۷۵۳۹ )
حضرت عبد اللہ بن عمر ص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : 
من أخذ من الأرض شیئا بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۲۴۵۴ )
جس نے کچھ بھی زمین نا حق لے لی ، وہ قیامت کے دن سات تہوں تک اس میں دھنسایا جائے گا ۔ 
ان احادیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ کتنا شدید گناہ ہے اور کسی بھی طرح ایک مسلمان بلکہ شریف انسان کے شایانِ شان نہیں ، یہ رویہ نہ مسلمانوں کے ساتھ درست ہے اور نہ غیر مسلموں کے ساتھ ، افسوس اس بات پر ہو تا ہے کہ بہت سے لوگ ظاہری دین داری کے ساتھ اس طرح کا تکلیف دہ رویہ اختیار کرتے ہیں ، شکل و صورت ، وضع قطع اور بات چیت سے پکے دیندار ہو نے کا خیال پیدا ہو تا ہے اور لوگ اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ، چاہے وہ لوگوں کو دھوکہ دے دیں ، لیکن یقینا خدا کو اور اپنے ضمیر کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔
ہندوستان میں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے ، زمینیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں ، زیورِ تعلیم سے وہ خالی و عاری ہیں ، تجارت کے لئے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہے ، اس فاقہ مستی کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست عناصر کا پھیلایا ہوا زہر اب معصوم دیہاتیوں کے ذہن کو بھی متاثر کر رہا ہے اور کوئی حساس موقع ہو تو جان اور عزت و آبرو کو بھی خطرہ دامن گیر ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ بعض دیہاتوں میں ایسا بھی ہوا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم عبادت گاہوں میں جانے اور پوجا کرنے پر مجبور کیا گیا ، ان دشواریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے دیہات کے غریب ، افسردہ حال مسلمان اس بات پر مجبور ہیں کہ شہر کا رخ کریں اور شہر کے مضافات میں فروکش ہوں ۔
عام طور پر یہ شہر کے کنارے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جو بلدی سہولتوں سے محرم ہوتے ہیں ، تنگ اور کچے راستے ، نہ برقی نہ ڈرنیج اورکہیں کہیں پانی بھی نہیں ، گاڑہا پسینہ بہاکر اور تھوڑے تھوڑے کر کے کتنی قسطوں میں قیمت ادا ہو پاتی ہے ، لیکن افسوس کہ بہت سے خدا ناترس لوگ ایسے غریب بھائیوں کی بھی جاں بخشنے کو تیار نہیں ہو تے اور چاہتے ہیں کہ آخری قطرۂ خون بھی ان سے نچوڑ لیں ، گویا انھوں نے زمین کے ساتھ ساتھ اپنا ضمیر بھی فروخت کردیا ہو ، کاش! ہمارے یہ بھائی انصارِ مدینہ کے اسوہ کو سامنے رکھتے ، جنھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے خود اپنی زمین کے دو حصے کر دیئے تھے ، آدھا خود رکھا تھا اور آدھا مہاجر بھائی کو دے دیا تھا ، اگر ہم ایسی قربانی پیش نہیں کر سکتے تو کم سے کم ان کے ساتھ ظلم و زیادتی اور لوٹ و غارت گری کا رویہ تو اختیار نہیں کریں ۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس تجارت میں سارے لوگ ایسے نہیں ہیں اور ایماندار اور دیانت دار لوگوں سے یہ پیشہ خالی نہیں ہوا ہے ، اگر ایمانداری اور دیانت کے ساتھ غریبوں کو راحت پہنچانے اور بے گھروں کو سر چھپانے کی جگہ مہیا کر نے کی نیت سے پلاٹنگ کی جائے اور مناسب قیمت پر دیانت داری کے ساتھ فروخت کیا جائے ، تو ان شاء اللہ یہی تجارت آخرت کے لئے بھی نفع خیز تجارت ہو جائے گی اور اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بسانے اور مفلوک الحال انسانوں کے کام آنے کا اجر بھی ان کے حصہ میں آئے گا ۔
کسی سماج میں برائی کو اس وقت تک روکا نہیں جا سکتا جب تک برائی پر ٹوکنے والی زبانیں ، اس کو روکنے والے ہاتھ اور اس کو برا سمجھنے واے دل موجود نہ ہوں ، جیسے ایک چور (جس کی چوری کا راز کھل گیا ہو ) شرمندگی کا احساس کرتا ہے اور سماج کے دامن کو اپنے لئے تنگ محسوس کرنے لگتا ہے ، اسی طرح زمین کے ناجائز قابضین کو روکنے والے ہاتھ ہوں ، انھیں ٹوکنے والی زبان ہو ، انھیں لوگ برا سمجھتے ہوں ، اور وہ محسوس کرتا ہو کہ اس حرکت سے میں سماج کی تحقیر و ناپسندیدگی کا خریدار بن جاؤں گا ، تو یہ خوف اسے گناہ سے باز رکھ سکتا ہے ، ورنہ اس کے جرم میں بالواسطہ پورا سماج شریک ہے ، ضرورت ہے کہ مسجد کے منبروں سے ، جلسوں کے شہ نشینوں سے ، جماعتوں اور تحریکوں کے اجتماعات سے اور اخبارات و جرائد کے صفحات سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے اور اس تجارت کو صحیح طریقہ پر اور جائز حدود میں کر نے کی ترغیب دی جائے ، تو یقینا یہ قوم کی ایک اہم خدمت ہو گی ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
متعلقہ الفاظ
  • #شمع فروزاں
  • آپ بھی لکھئے

    اپنی مفید ومثبت تحریریں ہمیں ارسال کیجئے

    یہاں سے ارسال کیجئے

    ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
    ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
    شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025