ٹوپی اور تلوار
آج راقم الحروف آپ کو اپنی زندگی کے یاد گار واقعات میں سے ایک واقعہ سناتا ہے- ماضی قریب میں ہمارے ہاں کمیونزم کی فکری وعسکری یلغار رہی، جبکہ ترکی میں سیکولرازم کی- ہم لوگوں نے کمیونزم کے فکری وحربی حملوں کا ڈٹ کر سامنا کیا اور سرخ ریچھ کو واپس اس کے برفستان میں پہنچا کر چھوڑا- البتہ سیکولرازم کے طریق کار اور حربوں سے ہمیں اتنی واقفیت نہیں، جتنی ہمارے ترک بھائیوں کو رہی ہے- ہم نے اپنے معاشرے کو اس باطل نظام کی گرفت میں آنے سے بچانا ہے تو آپ کو ترکی میں اسلام کی بازیافت کے لیے ہونے والی جدوجہد کا مطالعہ کرنا ہوگا- راقم الحروف ایک سے زائد مرتبہ ترکی جاچکا ہے، لیکن اب تک آیا صوفیہ دیکھنے بھی نہیں گیا، جبکہ وہ ہم سے کچھ بھی دور نہ تھا- میرا نظریہ یہ تھا کہ اسے تو سلطان محمد فاتح نے فتح کر لیا تھا، اب جبکہ اس کے شہر کو عجائب گھر یا منظرگاہ بنا دیا گیا ہے تو دوبارہ مسجد بنانے کی جدوجہد کرنے والوں کے طریق کار کا مطالعہ کرنا چاہیے- سیر سپاٹے سے کیا حاصل ہونا ہے؟
ایک دن ہم استنبول کے ،،حی الصالحین،، یعنی اسماعیل آغا نامی محلے میں سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام حضرت اسماعیل آغا آفندی کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ کر نکلے تو سامنے واقع ٹوپیوں، پگڑیوں اور جبوں کی دوکان میں جاوارد ہوئے- حسب توفیق وحسب منشا خریداری سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ بارش نے آلیا- ہم دوکان سے نکل کر اس کے بیرونی سائبان تلے کھڑے ہوگئے- اب کیفیت یہ تھی کہ ہماری پشت پر دوکان تھی اور سامنے مسجد کا دروازہ، اور ہم کھڑے بارش رکنے کا انتظار کر رہے تھے- سامنے مسجد کے دروازے پر ایک شخص کھڑا غبارے بیچ رہا تھا- یہ عام غبارے نہ تھے- صورت حال یہ تھی کہ اس نے ایک بڑے سے بورے میں لمبے لمبے ڈنڈے نما غبارے بھر کر بائیں بازو سے لٹکائے ہوئے تھے- یہ لمبے لمبے غبارے وہ گھر سے تیار کرکے لایا تھا- وہ ایک ایک کرکے ان کو بورے سے نکالتا، اور ہاتھوں ہاتھ، فٹافٹ، تیزی اور مہارت سے ان کو مختلف شکلوں میں ڈھال کر بچوں کو دیتا- احقر نے غور کیا تو وہ دو ہی چیزیں بنا رہا تھا- تاج نما ٹوپی اور دستے والی تلوار- لمبے سے غبارے کو وہ چابکدستی سے لپیٹ لپوٹ کر لمحوں میں وہ طغرے والی ٹوپی یا دستہ والی تلوار میں تبدیل کر دیتا تھا- یہ تماشہ ابھی جاری تھا کہ ایک اور چیز کا احساس ہوا- یہ شخص یہ غبارے بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی دے رہا تھا اور مفت بغیر کسی قیمت کے گویا بانٹ رہا تھا- راقم نے اپنے ایک ساتھی کو کہا،،آپ قریب جاکر دیکھیں کیا ماجرا ہے،،؟ غبارے والے کا ایک غبارہ پھٹ جائے یا ضایع ہو جائے تو اس کا صدمہ کم نہیں ہوتا، یہ کیسا سخی بادشاہ قسم کا غبارہ فروش ہے کہ ہر آنے جانے والے کو مفت بانٹے جارہا ہے- ساتھی قریب گئے تو اس اللہ کے بندے نے ان میں سے ایک کو تلوار اور دوسرے کو ٹوپی تھمادی- انہوں نے پیسے دینے چاہے تو وہ انہیں مسکراہٹوں سے نواز کر دوسرے بچوں کی طرف متوجہ ہوگیا- ان حضرات نے واپس آکر تصدیق کی کہ اس کے غبارے صرف ٹوپی اور تلوار کی شکل میں ہیں اور یہ کسی سے پیسے نہیں لے رہا- بلا معاوضہ پکڑائے جارہا ہے- ایک عجیب بات یہ بتائی کہ جب ہم نے اس سے پوچھا آپ پیسے کیوں نہیں لے رہے؟ تو اس وقت اس سے ایک راہ گیر بچہ غبارہ لےرہا تھا- اس نے بچے کے رخصت ہونے تک کوئی جواب نہ دیا اور جب وہ دور چلا گیا تو بتایا کہ شاید کوئی یتیم بچہ بھی ان میں ہو اور وہ خوش ہوکر مجھے دعا دے دے، اس لیے مفت تقسیم کرتا ہوں اور بچے کے سامنے جواب اس لیے نہیں دیا کہ کہیں وہ یتیم ہوتو اس کی دل شکنی یا بے توقیری نہ ہوجائے-
صورت حال تجسس کو بڑھانے والی تھی- کئی قرائن صاف بتاتے تھے کہ یہ محض اس نے ہمیں مطمئن کرنے کے لیے ایک ضمنی وجہ گھڑی ہے- وہ تو بڑوں کو بھی بلاروک ٹوک غباروں سے نواز رہا تھا- پھر یتیموں کو ہی دینا تھا تو یہ تو پوش علاقہ ہے یہاں اتنی اکثریت سے یتیم کہاں؟ نیز ٹوپی اور تلوار دو ہی چیزوں پر اکتفا واصرار کیوں؟ راقم نے اس کے بورہ نما،،دستی گودام،، خالی ہونے کا انتظار کیا اور پھر ساتھیوں کو دوبارہ اس کے پاس بھیجا- انہوں نے جاکر کہا ہمارے ساتھ ایک پاکستانی شیخ ہے- وہ تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے- اس نے تب تک خالی بورا لپیٹ کر جیب میں اڑس لیا تھا- مسکراتا ہوا سائبان کے نیچے آگیا- احقر نے چھوٹتے ہی ترجمان سے کہا: اس سے کہیں :اب سچ سچ بتائے ماجرا کیا ہے؟ ترک پاکستانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور خوش مزاج بھی ہوتے ہیں- اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا میں نے بھی سڑک کے دوسری طرف سے تاڑ لیا تھا یہ شیخ بارش رکنے سے زیادہ میرے فارغ ہونے کے انتظار مین ہے- میں نے پچھلے سوال پر گراہ لگائی آپ نے غریب بچوں کی دعائیں لینی ہیں تو صرف ٹوپی اور تلوار ہی کیوں بناتے ہیں؟ بچے تو دوسری چیزوں سے زیادہ بہلتے ہیں- اس نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے کہا،،خلافت عثمانیہ کا سایہ سر سے ہٹنے اور سیکولر نظام کے مسلط ہونے کے بعد ہمارے سر سے عزت کی ٹوپی اتر گئی ہے اور ہمارے ہاتھ سے بہادری اور انصاف کی تلوار چھن گئی ہے- میں اس امید پر انہیں یہ کھلونے تھماتا ہوں کہ شاید ان بچوں میں سے کوئی عزت کی یہ علامت اور اس کے حصول کا ذریعہ ہمیں واپس لوٹا دے،،-
اس کا ایمان افروز جملہ سن کر ہم سب تھوڑی دیر کے لیے سکتے کی سی کیفیت میں اسے دیکھتے رہ گئے- وہ ظاہری اعتبار سے معروف معنوں میں متشرع نہ تھا- ڈاڑھی منڈھی ہوئی، پتلون پہنی ہوئی اور عام وضع قطع میں تھا- معلوم ہوا استنبول کی بلدیہ میں اچھے خاصے عہدے پر ملازم ہے- جیب سے کارڈ نکال کر دکھایا جس پر بلدیہ کا مخصوص نشان تھا جس میں مینار اور گنبد بنے ہوتے ہیں- کہنے لگا،، جب ٹوپی سر پر اور تلوار ہاتھ میں آجاتی ہے تو گنبد مسجدوں پر سج جاتے ہیں اور مینار افق سے بلند ہو جاتے ہیں،،- ہمیں حیرت پر حیرت کا جھٹکا لگ رہا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ یہاں کے اسلام پسند کس حکمت عملی اور تدبر سے عوام کی نفسیات اور سوچ کے انداز کے مطابق عجیب عجیب شکلوں سے کام کر رہے ہیں- ہم نے اس سے کہا آپ روز ایسا کرتے ہیں؟ اس نے کہا ہفتہ میں دو تین جگہیں بدل بدل کر یہی کام کرتا ہوں- میں نے بڑی محنت سے ان چیزوں کے بنانے میں مہارت حاصل کی ہے- جہاں تک خرچ کی بات ہے تو اللہ کا کرم ہے- طیب اردگان کی حکومت میں سرکاری افسران کو بدعنوانی سے روکنے کے لیے بہت کچھ مراعات وسہولیات دی جاتی ہیں- میں تو استنبول کی بلدیہ میں اچھے خاصے منصب پر تعینات ہوں جہاں کا ناظم ایک زمانے میں خود رجب طیب اردگان رہ چکا ہے جو اپنے نام کی طرح طیب ہے اور ہم اس کے نام کو گدلانا نہیں چاہتے- آپ صبح میرے دفتر آئیں بیٹھ کر چائے پییں گے-
ہم اس کے دفتر تو نہ جاسکے، البتہ اس کی باتیں اور اس دن کا واقعہ بلاشبہ ایک یادگار تجربہ تھا جو ہمیں اس دن دیکھنے کو ملا اور دعوت میں حکمت اور فکر میں خلوص کے نقش کو دل پر ثبت کر گیا- سبحان اللہ! جب ایمان دلوں میں اتر جائے تو بظاہر کتنی ہی پابندیاں لگالی جائیں، یہ اپنا راستہ خود نکال لیتا ہے-