ناقدین مدارس کے نام

جس کو کوئی موضوع نہ ملے وہ پرانے اور فرسودہ اعتراضات کے گولے اٹھائے اپنی توپوں کا رُخ دینی مدارس اور علماء کی طرف کردیتا ہے۔ ناقدینِ مدارس کے بودے سوال کے جواب سے پہلے یہ جانیں کہ پاکستان میں 30 میڈیکل کالج، 23 مردانہ کالج ، 15 خواتین کے کالج، 6 کیڈٹ کالج، 4 ملٹری کالج اور 9 دیگر کالج شامل ہیں۔ پاکستان میں 116 سرکاری، جبکہ 86 پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں سے اسلام آباد میں 15 سرکاری اور 11 پرائیویٹ، بلوچستان میں 4 سرکاری اور 2 پرائیویٹ، خیبرپختونخوا میں 32 سرکاری اور 22 پرائیویٹ ، پنجاب میں 34سرکاری اور 27 پرائیویٹ، سندھ میں 24سرکاری اور 23 پرائیویٹ ، آزاد کشمیر میں 5 سرکاری اور 1 پرائیویٹ اور گلگت بلتستان میں 2 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ اور گلی محلوں میں تعلیم کے نام پر فیس بٹورتے ہوئے ہزاروں اسکولز ایسے ہیں جو رجسٹر بھی نہیں ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس کا بھی نوٹس لے۔

مجھے چند باتیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے منتظمین اور ان کے ’’ترجمانوں‘‘ سے خیرخواہی کی نیت سے کرنی ہیں جنہوں نے اپنے ’’اجتہاد‘‘ کا رُخ دینی مدارس اور علماء کی طرف کیا ہوا ہے کہ وہ ایک نظر یونیورسٹیوں پر بھی ڈالیں جو قومی خزانے سے 105 بلین ڈالر وصول کرنے کے بعد بھی کسی ایک یونیورسٹی کا معیار دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں کے برابر نہیں لاسکے ہیں۔

اربابِ مدارس کو تنقید و الزام کے نام پر جو ’’خیرخواہانہ مشورے‘‘ دئیے گئے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جو حالات سے ناواقفیت کی بنیاد پر مبنی ہیں۔ ان کے تسلی بخش جوابات ہماری کتاب ’’دینی مدارس، خیر کے مراکز یا دہشت گردی کے اڈے‘‘ میں تفصیلات کے ساتھ موجود ہیں۔ البتہ چند باتوں کا جواب پیشِ خدمت ہے۔

اعتراض میں کہا گیا ہے کہ ’’مدارس میں مقدمہ ابنِ خلدون کیوں نہیں پڑھایا جاتا ہے؟‘‘ میرے ناداں دوست! مقدمہ ابنِ خلدون مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے مطالعے میں بھی رہتا ہے اور کتب خانوں میں بھی موجود ہے۔ جامعۃ الرشید کراچی، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون اور دیگر کئی بڑے مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کالجز میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے کیا اُس میں ان موضوعات پر لکھی جانے والی تمام چھوٹی بڑی کتابیں شاملِ نصاب ہوتی ہیں؟ یہ سوال کہ ’’مدارس میں 8 سال پڑھنے والوں کو عربی نہیں آتی۔‘‘ آپ یہ بتائیں کہ کیا اسکول کالج اور یونیورسٹی میں 16 سال تک پڑھنے والوں کو انگلش آتی ہے؟ ۔

مدارس میں اصلاحات کی ضرورت نہیں، بلکہ یونیورسٹیوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ 70 سال میں صرف پاکستان کی یونیورسٹیوں، سرکاری و غیرسرکاری علمی تحقیقی اداروں نے ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 بلین ڈالر سے زیادہ پیسہ وصول کیا ہے، اتنے بلین ڈالر لینے والےان اداروں نے کون سی ایسی تحقیق پیش کی ہے جسے عالمی پذیرائی ملی ہو یا جس سے پاکستان کی معاشی خوشحالی، عالمی عزت افزائی اور مادّی ترقی میں کوئی اضافہ یا تبدیلی آئی ہو؟

لہٰذا پاکستان کے مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی بجائے یونیورسٹیوں کے نصاب پر غور کیا جائے کہ یہاں سے کوئی ’’آئن اسٹائن‘‘ کیوں نہیں پیدا ہورہا؟ اور PHD کرنے والے کلرک اور چپراسی کی نوکری کیوں کررہے ہیں؟ یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ طلبہ ہوٹلوں میں ونڈو بوائے کے طور پر کیوں کام کررہے ہیں؟ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ 70 سالوں میں دینی تعلیم کی کار کردگی کیسی رہی؟ اور عصری تعلیم نے کیا اور کیسے نتائج حاصل کیے؟

آپ دنیاکے کسی خطے میں چلے جائیں پاکستانی دینی اداروں کے فاضل علماء ہر جگہ نمایاں نظر آئیں گے۔ دنیا بھر کے مفتیان کرام کی عالمی تنظیم ’’مجمع الفقہ الاسلامی‘‘ کو دیکھیں، اس کے نائب صدر مفتی محمد تقی عثمانی ہیں۔ دنیا بھر میں اسلامی مالیاتی اداروں کے شرعی معیارات بنانے والے ادارے ’’AAOIF‘‘ کو دیکھیں علماء ہی اس کے سربراہ ہیں۔ شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاتا ہے تو مولانا بوالحسن علی ندوی کو ،اسلامی ترقیاتی بینک اعزاز سے نوازتا ہے تو مدرسے کے فاضل کانام آتا ہے۔ اس کے بالمقابل عصری تعلیمی اداروںکا حال سب کے سامنے ہے۔

جہاں تک دینی مدارس میں عصری علوم پڑھانے کی بات ہے تو عرض ہے مدارس کے نصاب میں بقدر ضرورت عصری تعلیم تو ہمیشہ سے رہی۔ عصرِ حاضر میں علمی وتحقیقی کاموں میں انٹرنیٹ کی اہمیت، ابلاغی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے انگریزی وعربی زبانوں پر عبور اور صحافتی مہارتوں کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے مدارس نے انگریزی وعربی بحیثیت زبان، کمپیوٹر، صحافت، دعوت وارشاد اور جدید ابلاغی وتدریسی صلاحیتوں پر مشتمل کورسز جاری کررکھے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عصری تعلیمی اداروں نے کتنے علماء،مفتی اور فقیہ پیدا کیے ہیں؟ کالج یونیورسٹیوں کے کون سے فضلاکی کھیپ ہے جو عالمی سطح پر خدماتِ جلیلہ سر انجام دے رہی ہے؟ اور یہ اعتراض کہ ’’مدارس کے دارالافتائوں میں سخت گیر اور حالات نابلد مفتی بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ انتہائی سنگین الزام اور حالات سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے۔

تمام بڑے مدارس کے دارالافتائوں کے مفتیان کرام انتہائی پڑھے لکھے، باخبر، رحم دل اور ذہین ہیں۔ روکھی سوکھی کھاکر بھی انتہائی دیانتدارانہ طریقے سے ملک و قوم کی صحیح رہنمائی کررہے ہیں، جبکہ یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کروانے والے ڈاکٹروں اور پروفیسروں کا اپنے طلبہ اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

جو لوگ دینی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں بڑھانے کا مشورہ دے رہے ہیں، کیا انہوں نے کبھی اس سوال پر غور کیا کہ پاکستان میں علماء کے معاوضے، مشاہرے، تنخواہیں سب سے کم کیوں ہیں؟ ایک بڑے مدرسے کے شیخ الحدیث کی تنخواہ صرف 15 ہزار روپے ہے، مگر یہی شیخ الحدیث اسی علم کے ساتھ کسی یونیورسٹی کی ملازمت قبول کرلیں تو تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہوجاتی ہے، آخر کیوں؟ سرکاری اداروں کے چپراسی کی تنخواہ اور مراعات شیخ الحدیث سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ چپراسی اور شیخ الحدیث کی تنخواہوں میں اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین کو جدید ریاست علم ہی نہیں سمجھتی۔ جدید ریاست صرف علوم عقلیہ کے عالم کی سرپرستی کرتی ہے جو روشن خیال ہے، کیونکہ کانٹ کے بعد علم وہ ہے جو عقلیت اور تجربیت کے پیمانوں پر پورا اترسکے، لہٰذا اصل العلوم اور العلم صرف سائنس ہے۔ کانٹ کے بعد دنیا کے ہر علم کو صرف سائنس کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے، حالانکہ تمام روایتی تہذیبوں میں علم دین، مابعد الطبعیات کے فاضل اور فلسفی کو عالم سمجھا جاتا تھا۔ اب انسان اور علم وہی ہے جو جدیدیت کی طے شدہ تعریف پر پورا اترتا ہو۔ عہد حاضر میں اگر کوئی علم سائنس سے کمتر ہے تب بھی وہ اپنے ساتھ سائنس کا سابقہ لاحقہ لگاکر ہی عزت حاصل کرسکتا ہے۔

خلافتِ عثمانیہ تک دین کی سرپرستی خلافت کرتی تھی، لہٰذا علماء خوشحال تھے۔ اب سائنس کی سرپرستی ریاست کرتی ہے، لہٰذا سائنس و سوشل سائنس کے تمام لوگ خوش حال ہیں۔ دینی علوم کے علماء کا مرتبہ گرادیا گیا ہے۔ جدید ریاست سائنس کی سرپرستی ختم کردے تو سائنس کا غبارہ ایک دن میں پھٹ جائے۔ جدید علم وہ ہے جو فروخت ہوسکتا ہو جس کی شرح مبادلہ ہو جو خریدا اور بیچا جاسکے، جو درآمد اور برآمد ہوسکے۔ علمِ دین کی کوئی شرح تبادلہ نہیں، اس سے سرمایہ پیدا نہیں ہوتا، یہ بیچا اور خریدا نہیں جاسکتا، لہٰذا یہ علم نہیں۔ جو شے علم نہیں اس کے حامل کو جدید ریاست اسی کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ وہ جس طرح بھی زندگی بسر کرے، یہ جدید ریاست کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔

پاکستانی ریاست مدارس، مساجد اور علماء سے کس قدر لاتعلق ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں، مگر یہ علماء پھر بھی اس ریاست کی ہر مشکل وقت میں مدد کرتے رہتے ہیں۔ قوم کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

روزنامہ جنگ، 06 جنوری ، 2018

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024