علماء کی دانشمندی کا امتحان

اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والی طاقتیںشروع سے اس بات کے لیے کوشاں رہی ہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کیا جائے؛ تاکہ ان کی طاقت بکھر جائے ، افسوس کہ خود مسلمانوں میں کچھ ایسے افراد ان کے آلۂ کار بن جاتے ہیں،جو کچھ متاع حقیر کے بدلے اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو بعض کاموں کو نیک کام سمجھ کر بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ انجام دیتے ہیں؛ حالانکہ یہ ملت کے لیے نقصان کا سودا ہوتا ہے اور اس سے بالواسطہ طور پر اعداء اسلام کو تقویت پہونچتی ہے۔
اس طرح کی سازشوں کا شکار زیادہ تر مذہبی لوگ ہوتے ہیں ،ان کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، پھر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اہم یا کم اہم باتوں کے سلسلہ میں ان کو باور کرایا جاتا ہے کہ اِس وقت کا سب سے اہم کام یہی ہے، اور یہ مسائل عموماً ایسے ہوتے ہیں، جن میں امت کے درمیان اختلاف رائے رہا ہے، اِن مسائل میں کچھ اس طرح اکسایا جاتا ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے لگتے ہیں، جذباتی مضامین لکھتے ہیں، مباحثے و مناظرے کرتے ہیں، فریق مخالف پر تیز و تند تبصرے کرتے ہیں اور ان کا استہزاء کرکے اپنے نفس کی تسکین کرتے ہیں، اس سے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے، دوسرے امت میں اختلاف بڑھتا ہے اور بعض اوقات زبان و قلم کی جنگ سے بڑھ کر نوبت مار پیٹ اور قتل و قتال تک آ جاتی ہے، اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں خود اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جو واقعات پیش آ رہے ہیں ، ان کا پس منظر یہی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ایسی تحریکوں کی قیادت ہے، وہ تو دانستہ طور پر یہود و نصاریٰ کے آلۂ کار ہیں؛ لیکن جو لوگ ان کے تحت کام کر رہے ہیں، وہ اسی طرح کی اکساہٹ کا شکار ہیں اوراپنی غیر اسلامی حرکتوں کو اسلام کی بیش قیمت خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسی طرح کی صورت حال پیدا کی جائے اور مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو ابھارا جائے ،ان حالات میں بریلوی مکتب ِ فکر کے نمائندہ حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب کا دیوبند تشریف لے جانا ایک غیر معمولی اور خوش آئند واقعہ ہے ، اور یہ یقیناان کی دانشمندی اور زمانہ آگہی کا ثبوت ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہتر اجر عطا فرمائے،تاہم ایسی پہل کو سبو تاج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور شاید اس کو شش میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے ؛ تاکہ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو نمایاں کیا جائے، اس کی ایک مثال اس وقت تین طلاقوں کا مسئلہ ہے، ہمارے ملک کی بر سر اقتدار فرقہ پرست پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ مسلم پرسنل لا کو ختم کر دیا جائے اور ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے’’کامن سول کوڈ‘‘ بنایا جائے، اس لیے تعدد ازواج اور طلاق وغیرہ کے مسئلہ پر پہلے سے اعتراض ہوتا رہا ہے، لیکن اس بار میڈیا نے خاص طور پر تین طلاقوں کے مسئلہ کو اپنا موضوع بنایا ہے، اس کو عورتوں سے ہمدردی کا تقاضہ قرار دیتے ہوئے بعض نام نہاد آوارہ خیال مسلم خواتین کو مسلم پرسنل لا کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے، گویا مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے،بیف کی تہمت لگا کر بر سر عام ایک مسلمان کو قتل کر دیا گیا ، مسلمان نوجوانوں کو گائے کا گوبر کھانے اور پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا اور سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کے کارکنوں نے بر سر عام ان حرکتوں کو جائز ٹھہرایا ، فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،نہ جانے کتنے بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیامگر ایسے مواقع پر میڈیا میں سرسری طور پر ان کا ذکر ہوتا ہے اورجلد ہی اس کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے، لیکن تین طلاقوں کا مسئلہ جو کہیں اکا دکا پیش آتا ہے ،اُس پر اِس طرح آہ و واویلا کی جا رہی ہے گویا یہی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، یہ کھلی ہوئی زیادتی، اسلام کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش اور منظم سازش ہے، اور تین طلاقوں کے مسئلہ کو خاص طور پر اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے، علماء کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ایسے مسائل میں ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ اول تو ہم اعراض اور پہلو تہی کا راستہ اختیار کریں کہ اگر کوئی اختلافی سوال اٹھایا جائے تو اس کا جواب دینے سے گریز کیا جائے اور سوال کا رخ بدل دیا جائے، مثلاً اگر میڈیا میں یہ دریافت کیا جائے کہ تین طلاق مسلم خواتین کے لیے ایک بہت گمبھیر مسئلہ ہے، اس سے عورتیں بے سہارا ہو جاتی ہیں تو جواب دیا جائے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں سینکڑوں مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کی گئی ، صرف گجرات کے فسادات میں دو ہزار مسلمان شہید کیے گئے، ان کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے اور وہ آج تک بے سہارگی کی زندگی گزار رہے ہیں، آسام میں کتنے سارے مسلمان شہید کیے گئے اور ان کے گھر اجاڑ دیے گئے، مسلمانوں کا اور مسلم خواتین کا اصل مسئلہ یہ ہے، ایسے واقعات کے سد باب کے سلسلہ میں قانون سازی ہونی چاہیے ، اسی طرح ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جیل کی کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا ہے، دس دس سال گزرگئے اور کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی،ان کی بیویاں نیم بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں ، ان کے بچوں کا حال ایسے یتیموں کا سا ہے جو باپ کی شفقت سے بھی محروم ہیں اور انہیں یتیم بھی نہیں سمجھا جاتا ، مسلم معاشرہ کے اصل مسائل یہ ہیں، حکومت اور عدلیہ کو اس جانب توجہ دینی چاہیے، اور جو لوگ مسلم خواتین کی ہمدردی کا نعرہ لگا رہے ہیں، اُن کو اِن بیچارہ و بے کس خواتین کے مسائل حل کرنے چاہییں،اعراض کے اس اسلوب سے مسلم خواتین کے اصل مسائل لوگوں کے سامنے آئیں گے اور مصنوعی طور پر جس بات کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے، اس کی طرف سے لوگوں کے توجہ ہٹے گی، اگر آدمی ہر سوال کا جواب دینے لگے تو وہ مخالفین کی سازش کا شکار ہو جاتا ہے، قرآن مجید میں اس کی بڑی خوب مثال ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو فرعون تو مسلمان نہیں ہوا ؛ البتہ جن جادوگروں کو اس نے بلایا تھا، ان پر سچائی ظاہر ہو گئی اور وہ ایمان لے آئے تو آخری حربہ کے طور پر فرعون نے کہا کہ تمہارے بقول ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا اور یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے ؛ لیکن ان کے آباء و اجداد کا کیا ہوگا؟ وہ تو ایمان لائے نہیں، تمہارے بقول کفر کی حالت میں دنیا سے چلے گئے، اس کا سیدھا سادہ جواب یہ تھا کہ ان کا بھی وہی حال ہوگا،جو دوسرے ایمان سے محروم لوگو ں کا ہوگا، لیکن حضرت موسیٰ نے اعراض کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا:’’علمہا عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیٰ‘‘ (طٰہٰ:۵۲) ’’میرے پروردگار کو اس کا علم ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، میرے پروردگار نہ غلطی کرتے ہیں اور نہ بھولتے ہیں‘‘۔
غور فرمائیے کہ حضرت موسیٰ نے کس خوبصورتی کے ساتھ اس کی سازش کو ناکام کر دیا اور ایسا جواب دیا جو غلط بھی نہیں تھا ، اور فرعون جو چاہتا تھا کہ جادوگروں کو حضرت موسیٰ سے دور کر دے، اس میں کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسے کسی اختلافی مسائل میں اظہار رائے کی نوبت آ ہی جائے تو مخالف نقطۂ نظر کے حامی لوگوں کے احترام کو باقی رکھتے ہوئے اور ان کے نقطۂ نظر کے درست ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بات پیش کی جائے، اس سے اختلاف بڑھتا نہیں ہے، بحث کا دروازہ نہیں کھلتا اور ایک دوسرے کے خلاف تیز وتند ریمارک کرنے کے نوبت نہیں آتی ؛حالانکہ مخالفین کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی زبان سے ایسی باتیں کہلائیں جو باہمی اختلافات کو بڑھانے کا باعث بنیں،قرآن مجید نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ سے مکالمہ کا اسلوب بتایا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیلیں پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ یوں کہیے:’’وانا او ایاکم لعلیٰ ہدی او فی ضلٰل مبین‘‘(سبا:۲۴) ’’ہم یا تم یا تو یقینا ہدایت پر ہیں یا کھلی ہوئی گمراہی میں‘‘۔
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق و ہدایت پر ہونا بالکل واضح تھا ، دوپہر کی دھوپ سے بھی زیادہ واضح، اور مشرکین کا غلطی پر ہونا بھی اسی درجہ واضح تھا، تو بظاہر جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہم واضح ہدایت پر ہیں اور تم کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو، لیکن قرآن نے ایک ایسا جواب دینا سکھایا ، جس میں ایک درجہ میں فریق مخالف کی رعایت ہے، اور جس جواب سے توقع کی جا سکتی ہے کہ باہمی گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہے گا اور گفتگو کا دروازہ بند نہیں ہوگا؛ کیونکہ دعوت دین کے لیے یہ بات ضروری ہے ، تو جب کھلے ہوئے گمراہوں کو یہ بات کہی جا سکتی ہے تو کیا ایسے اختلافی مسائل میں جن میں دونوں فریق کے پاس قرآن و حدیث کی دلیلیں اور صحابہ و سلف صالحین کے فتاویٰ موجود ہیں، کیا اس طرح جواب نہیں دیا جاسکتا کہ اگر چہ اس مسئلہ میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے ؛ لیکن دوسرے حضرات جو رائے رکھتے ہیں ،وہ بھی بے بنیاد نہیں ہے، ان کے پاس بھی دلیلیں ہیں، اور اس مسئلہ کو ہمارے یہاں کوئی بڑی اہمیت حاصل نہیں ہے، یہ کہہ کر ہم اختلاف کی شدت کو کم کر سکتے ہیں اور اپنے مخالفین کی سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔
ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم احتیاط، دوسرے فریق کے احترام اور ان کے نقطۂ نظر کے پیچھے دلائل کا اعتراف کرتے ہوئے متفق علیہ نقطہ کو پیش کریں، اور لوگوں سے کہیں کہ اصل قابل توجہ مسئلہ یہ ہے ، جس پر سبھوں کا اتفاق ہے، مثلاً تین طلاق کے مسئلہ پر ہماری گفتگو کا اسلوب یہ ہو کہ اس مسئلہ میں دو رائیں پائی جاتی ہیں، جمہور کی رائے یہ ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں، یہی نقطۂ نظر امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد، امام بخاری اور بیشتر محدثین و فقہاء کا ہے ،دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں، یہ رائے امت کے بعض بڑے جلیل القدر علماء علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کی ہے، اور دونوں کے پاس اپنے نقطۂ نظر کے دلائل موجود ہیں، لیکن اصل قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ بلا وجہ تین طلاقوں کا دینا ہی غلط ہے، خواہ ایک ساتھ دی جائے یا الگ الگ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا معاملہ آیا ، جنہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا انہیں اللہ کا خوف نہیں؟پھر آپ نے طلاق دینے کے اس انداز کو ظلم و عدوان قرار دیا ،(مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،حدیث:۱۱۳۳۹)ایک اور واقعہ کا ذکر آیا ہے کہ آپ کو اطلاع دی گئی کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہے تو آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے:’’کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ؛حالانکہ ابھی میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں‘‘،آپ کا غصہ اس قدر بڑھا ہوا اور خلاف معمول تھا کہ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور آپ سے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل ہی نہ کر دوں؟(سنن نسائی، کتاب الطلاق،حدیث:۳۴۰۱)حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا،حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ تو میں نے ایک طلاق دی تھی، اگر میں نے تین طلاق دی ہوتی تو کیا ہوتا؟ آپ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں تم اپنے رب کی نا فرمانی کرنے والے ہوتے اور تمہاری بیوی تم سے علیٰحدہ ہو جاتی ،(سنن دارقطنی، کتاب الطلاق والخلع و الایلاء:۴؍۳۲) حضرت عمر ؓ کی خدمت میں اگر ایسا کوئی شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہو تو سر پر کوڑے لگواتے اور خوب پٹائی کرتے،(مصنف عبد الرزاق، باب المطلِّق ثلاثاً،حدیث:۱۱۳۴۵)حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہے، تو فرمایا کہ تین طلاق سے تمہاری بیوی بائنہ ہو گئی اور یہ تمام ہی طلاقیں اللہ کی نافرمانی ہیں:’’وسائرھن معصیۃ‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، حدیث:۱۷۸۰۰)حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے ایک صاحب نے دریافت کیا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے، تو فرمایا کہ تمہارے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، حدیث:۱۸۰۸۸)
اسی لیے فقہاء بھی اس بات پر قریب قریب متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا نا پسندیدہ طریقہ ہے، امام کرخی سے منقول ہے کہ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مکروہ ہے،(المبسوط،کتاب الطلاق:۶؍۶)مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جو حرام کے قریب ہوتا ہے، امام مالک کے شاگرد عبد الرحمٰن بن قاسم سے پوچھا گیا کہ کیا امام مالک اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے؟ عبد الرحمٰن نے جواب دیا کہ امام مالک اس سے شدید کراہت کرتے تھے:’’کان یکرہہ اشد الکراہیۃ‘‘(المدونہ، کتاب طلاق السنۃ:۲؍۳)اور فقہاء مالکیہ کی اصطلاح میں امام مالک جب کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں تو مکروہ سے ناجائز ہونا مراد ہوتا ہے، علامہ ابن تیمیہ کا بیان ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا اکثر صحابہ ، تابعین اور بعد کے فقہاء امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرام ہے، اور ایک قول امام احمد کا بھی یہی ہے جس کو ان کے اکثر متبعین نے اختیار کیا ہے۔(مجموع الفتاویٰ، ہل یقع طلاق البدعۃ ام لا:۳۳؍۷۶)
غرض کہ اگرچہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین یا ایک ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ؛ لیکن اس طریقے کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے ہماری کوششوں کا محور یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے کہ بلا ضرورت طلاق نہ دی جائے، اور اگر طلاق دینے کی نوبت آ ہی جائے تو ایک طلاق پر اکتفاء کیا جائے، ہمیں اِس کی مہم چلانی چاہیے؛کیونکہ اگر تین طلاق کی شناعت اور برائی لوگوں کے سامنے نہیں رکھی گئی اور مزاج نہیں بدلا گیا تو ایک دفعہ طلاق دینے کے بجائے لوگ تین الگ الگ مجلسوں میں طلاق دیں گے، گھوم پھر کر تین بار طلاق کے الفاظ کہیں گے، اس لیے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ بلا ضرورت طلاق دینا گناہ ہے اور تین طلاق دینا گناہ بالائے گناہ ہے، چاہے ایک ساتھ دی جائے یا الگ الگ۔
غرض کہ اس طرح کے اختلافی مسائل اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کے اختلاف کو بڑھانے کے لیے، مسلکی اختلاف کو ہوا دینے اور مسلم سماج کو رسوا کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ہمیںان کی نیت کو سمجھنا چاہیے اور ایسی دانشمندی کے ساتھ ایسے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے کہ مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں، درحقیقت یہ علماء کی فراست ایمانی، معاملہ فہمی اور دانشمندی کا امتحان ہے، کاش،مذہبی قائدین اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں!

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024