معالج — مقام اور ذمہ داریاں

کسی بھی سماج میں ڈاکٹر اور معالج کی خاص اہمیت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں ایسا وجود عطا کیا ہے جس میں خوبیوں اورصلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خامیوں اور مجبوریوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے ، انسان کی طاقت و قوت کا حال یہ ہے کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور طاقتور سے طاقتور ترین مخلوق بھی انسان کی قوتِ تسخیر کی اسیر ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور ناطاقتی کا حال یہ ہے کہ معمولی کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان پہنچاسکتے ہیں ، ایک بالشت کا سانپ بھی اس کی جان لے سکتا ہے اور بیماریاں اسے آسانی سے بچھاڑ سکتی ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کا تریاق بھی پیدا فرمایا ہے اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا ہربیماری کی دوا پیدا کی ہے : ’’ تداووا فإن اﷲ عزوجل لم یضع دائً إلا وضع لہ دوائً غیر دائٍ واحد الھرم‘‘( سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۳۸۵۷ ، نیز دیکھئے : سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۴۳۶) اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور تجربہ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے دواؤں کو دریافت کرے ، اس کام کو میڈیکل سائنٹسٹ اور ڈاکٹرس انجام دیتے ہیں ، اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں ، بھوکے کو کھانا کھلانا ، محتاج کو کپڑے پہنانا ، معذور کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خدمت ہے ، لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو ، بیماری انسان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ، لیکن وہ ایک قدم چل نہیں سکتا اور تیماداری اور مددگاروں کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے ، اسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت اور تیمار داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے ، آپ انے فرمایا : جب تک ایک شخص مریض کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے ( مسلم : ۶۵۵۱ ) ، اس طرح ڈاکٹر گویا اپنی ڈیوٹی کے پورے وقت اس حدیث کا مصداق ہوتا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے اور کون ہے جو انسانوںکے لئے ڈاکٹر اور معالج سے بڑھ کر نافع ہو ؟ اس طرح گویا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ڈاکٹر کو ’’ خیر الناس ‘‘ ( بہترین انسان ) کا ایوارڈ ملا ہے ، ان سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے ، فن طب کی اسی اہمیت کی وجہ سے سیدنا حضرت علی صسے مروی ہے کہ اصل علم دو ہی ہیں : فقہ ، کہ زندگی گذارنے کا طریقہ معلوم ہو اور طب تاکہ جسم انسانی کی اصلاح پر قدرت ہوسکے ، ’’ العلم علمان : الفقہ للادیان وعلم الطب للابدان ‘‘۔ ( مفتاح السعادۃ : ۱؍۲۶۷)
واقعہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم سماج کا فریضہ ہے ، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علاج سے جلدی فائدہ نہیںہوا ، یا مریض کی موت واقع ہوئی تو لوگ ڈاکٹر سے اُلجھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس کی جان کے بھی لالے پڑجاتے ہیں ، یہ غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے ، اس لئے کہ علاج تو انسان کے اختیار میں ہے ، لیکن صحت و شفا خدا کی مشیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ، ’’ وإذا مرضت وہو یشفین‘‘ ( شعراء : ۸۰) ، زندگی کو بچانے کا مکلف قرار دینا اس پر اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ، اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ، ڈاکٹر کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اس پیشہ میں خدمت کے پہلو کو مقدم رکھے ، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کریں اور اپنے گھر سے دوائیں لاکر کھلادیں ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس پیشہ کو محض تجارت اور بزنس نہ بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے ، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم اور علاج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ، ہاسپٹل میں تبدیل ہوگئے ہیں ، ڈاکٹروں کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے ، پھر فیس کے سلسلے میں بھی ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ہر بار فیس ادا کرے ، اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ، پھر آمدنی کے بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گئے ہیں ، دوائیں لکھی جاتی ہیں اور مخصوص و متعین دوکانوں سے دوا خرید کرنے کو کہا جاتا ہے ، تاکہ ان سے کمیشن مل سکے ، مریض پر بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی تھیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولہ کی دوسری دوا ، جس کا نام کمپنی بدل جانے کی وجہ سے بدلا ہوا ہوتا ہے ، لکھ دی جاتی ہے ، بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خبر بھی نہیں ہوتی ، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا گیا اور زائد دوائیں بیکار ہوگئیں ، یہ بھی ہوتا ہے کہ نقلی دوائیں یا ایسی دوائیں جن کی مدت ختم ہوچکی ہے ، دی جاتی ہیں اور معیاری دواؤں کی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔
امراض کے ٹسٹ کا معاملہ تو سب سے سوا ہے ، بے مقصد ٹسٹ کرائے جاتے ہیں ، مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹسٹ کرایا ہو تو چاہے وہ رپورٹ دن ، دو دن پہلے ہی کی کیوں نہ ہو ، لیکن نیا ڈاکٹر پھر سے پورے ٹسٹ کراتا ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دیا ہے اسی کے یہاں ٹسٹ کرایا جائے ، ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق کا جذبہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ، اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوتا ہے ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص ہاسپٹل کو مریض ریفر (Refer) کرتا ہے ، یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھلائی کے جذبہ سے ہوں تب تو ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن افسوس کہ ان سب کا مقصد کمیشن کھانا ہوتاہے ، دواؤں پر کمیشن ، ٹسٹ پر کمیشن ، مریض کے بھیجنے پر کمیشن اور جہاں جہاں ممکن ہو وہاں سے کمیشن کاحصول ، ان کمیشنوں اوران کی بڑھتی ہوئی شرحوں نے مریض کی کمر توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے ہاسپٹل جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا ہے ، یہ کمیشن فقہی اعتبار سے رشوت ہے ، اس کا لینا حرام ہے اور اس میں واسطہ بننا بھی حرام ہے ۔
حکومت کی طرف سے اس بات پر پابندی ہے کہ سرکاری ہاسپٹلوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر الگ سے اپنے نرسنگ ہوم چلائیں ، لیکن جسے خدا کا خوف نہ ہو اس کے قدم کون تھام سکتا ہے ؟ چنانچہ عام طورپر سرکاری ڈاکٹرز بھی فرضی ناموں سے نرسنگ ہوم چلاتے ہیں ، جو مریض سرکاری ہاسپٹل میں آتا ہے ، اسے بے توجہی سے دیکھتے ہیں اور صراحتاً یا اشارتاً انھیںنرسنگ ہوم میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے ، یا عملی طورپر انھیں اس پر مجبور کردیا جاتاہے ؛ تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے اینٹھے جاسکیں ، اس عمل میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکہ بھی اور بعض دفعہ پریکٹس نہ کرنے کا الاونس بھی دیا جاتا ہے ، لہٰذا اب اس کے باوجود پیسے لے کر پرائیوٹ پریکٹس حرام طریقہ پر مال حاصل کرنے کی مجرمانہ کوشش بھی ہے اور یہ قرآن کے اس ارشاد کہ ، باطل طریقے پر مال نہ کھاؤ ، کے قطعاً مغایر ہے ،’’ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ‘‘ ۔ ( بقرہ : ۱۸۸)
اسی طرح ایک نئی صورتِ حال یہ ہے کہ جن امراض کا علاج دواؤں کے ذریعہ ممکن ہے ، ان میں بھی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے ، تاکہ علاج گراںبار ہو اور مریض کی یہ گرانی معالج کے لئے ارزانی کا باعث ہے ، خاص کر ولادت کے کیس میں کثرت سے اس طرح کی بات پیش آتی ہے اور آپریشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ زچگی کرائی جاتی ہے اور حکومت بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، کیوںکہ یہ بالواسطہ فیملی پلاننگ کو بروئے کار لانا ہے ، اسی طرح مریض کی موت کے باوجود اسے مصنوعی آلۂ تنفس پر رکھا جاتا ہے ، تاکہ بل بڑھتا رہے ، یہ کس درجہ ناشائستہ طریقہ ہے ۔
ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ آپریشن کی میز پر پیٹ چیرنے کے بعد ڈاکٹر کی طرف سے نیا مطالبہ سامنے آتا ہے اور مریض اوراس کے متعلقین اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں ، یہ تمام صورتیں شرعاً ناجائز اور گناہ ہیں ، اور اکثر صورتوں میں آمدنی بھی حرام ہے ، افسوس کہ بہت سے دیندار لوگ بھی اپنی لا علمی کی وجہ سے ان گناہوں میں مبتلا ہیں ، ڈاکٹر کے لئے صرف اس کی تنخواہ اور پرائیوٹ علاج کی صورت میں اس کی فیس ، نیز مریض کو اس نے جو دوائیں دی ہیں ، ان کی معروف اور مروجہ قیمت ہی جائز ہے ۔
معالج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنے فن کو باضابطہ طورپر پڑھا ہو ، محض چند سنی سنائی باتو ں پر علاج شروع کردینا درست نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے طب کا علم حاصل نہ کیا ہو ، وہ علاج کرے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ، من تطب ولم یعلم منہ قبل ذلک الطب فہو ضامن ( ابوداؤد : ۲؍ ۶۳۰) ، اسی لئے فقہاء نے ایسے طبیبوں پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے ( بدائع الصنائع : ۷؍۱۶۹) ، ناواقف طبیب سے مراد وہ شخص ہے جس میں بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو ، دواؤں کے اثرات سے واقف نہ ہو ، نیز دوائیں دے دیتا ہواور اس کے ری ایکشن کو روکنے والی دواؤں کا علم نہ رکھتا ہو ، یسقی الناس دواء مہلکا ولایقدر علی ازالۃ ضرر دواء اشتد تاثیرہ علی المرضی ، ( الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۵؍۴۴۹) ، لہٰذا ایسے ناواقف اور کوتاہ علم طبیب کی کوتاہیاں قابل ضمان ہوںگی اور ان کو سزا دی جائے گی ، یہ سزا جسمانی سرزنش بھی ہوسکتی ہے ، قید بھی اور خوں بہا بھی ۔ ( بدایۃ المجتہد : ۲؍۲۳۳)
جو معالج تعلیم یافتہ ہو ، لیکن اس نے علاج میں کوتاہی سے کام لیا ہو ، مناسب تحقیق نہیں کی ہو اور اس کی اس کوتاہی کی بناپر مریض کو نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ ذمہ دار ہوگا اور اس سے ہر جانہ وصول کیا جائے گا ، ہاں اگر اس نے فن طب کو پڑھا بھی ہو اور اُصول کے مطابق علاج بھی کیا ہو ؛ لیکن اس کے باوجود مریض کو صحت نہیں ہوسکی یا اس کا مرض اور بگڑ گیا ، تو اب وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا ، چنانچہ مشہور فقیہ علامہ دردیر فرماتے ہیں : إذا عالج طبیب عارف ومات المریض عن علاجہ المطلوب فلا شیٔ علیہ( سیر صغیر : ۴؍۲۲۰ ) ، افسوس کہ آج کل علاج کی ایسی سنگین کوتاہیاں سامنے آتی ہیں کہ بعض دفعہ تو سرجن قینچی اور چھری بھی مریض کے جسم میں بھول جاتا ہے ، ایسے غفلت شعار ڈاکٹر انسانیت کے خادم نہیں ہادم ہیں اور وہ سماج کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہیں ، غرض کہ طب و علاج کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور معالج انسانی خدمت کے اعتبار سے سب سے اہم ذمہ داری انجام دیتا ہے ، وہ اپنے پیشے میں اُجرت کے ساتھ ساتھ اجر اوردنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ آخرت کے نفع کو بھی پاسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو محض تجارت کے طورپر اختیار نہ کرے ، بلکہ اس میں خدمت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھے اور جھوٹ ، دھوکہ اور حرام طریقہ پر کسب ِمعاش سے اپنے دامن کو بچائے ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024